ملکی عدم استحکام کیلئے انتشار ،افراتفری اور محاذ آرائی کا سلسلہ


پاکستان میں جب بھی ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی کسی نہ کسی محاذ پر سیاسی انتشار ،افراتفری اور محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور حالات ایسا رخ اختیار کرلیتے ہیں کہ جمہوریت کے استحکام کی بجائے اس کی بساط لپیٹنے والے سامنے آجاتے ہیں۔ اس حوالے سے آج پوری قوم دست بہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نظریاتی ریاست کو استحکام بخشے یہاں جمہوریت مستحکم ہو ملک آگے بڑھے ،تعمیر و ترقی اور خوشحالی کو فروغ ملے اور اس ملک کے کروڑوں افراد جو زندگی کی بنیادی سہولتوں، مراعات اور آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے محروم چلے آرہے ہیں ان کی محرومیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ پاکستان کے عوام جب اپنے بعض ہمسایہ ملکوں میں جمہوریت کے استحکام اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں وطن عزیز کی صورتحال کے حوالے سے بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس پس منظر میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ان کے قائدین کے لئے وسیع تر قومی و ملکی مفادات کی بنیاد پر محاذ آرائی اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے حالات و واقعات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری محاذ آرائی سے ملک و قوم اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کے نفاذ کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر برق رفتار اقدام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ محاذ آرائی کی فضا کو بڑھا کر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل سے زیادہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے اقدام پر توجہ دیں۔یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہر کو ئی قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرے۔
جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے پارلیمان کی آئینی کمیٹی ججوں کی بحالی سے متعلق جو بھی فیصلہ کرے گی اس کا اطلاق موجودہ عدلیہ پر نہیں ہوگا۔ گذشتہ منگل کے روز قومی اسمبلی میں وضاحتی تقریر کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے بارے میں ان کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کی پارلیمان سے توثیق کی بات ’میں نے اس وقت ملنے والے مشوروں کے تناظر میں کی تھی‘۔میثاق جمہوریت میں یہ طے پایا تھا کہ کسی بھی آمر کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت حلف لینے والے جج کو بھرتی نہیں کیا جائے گا۔ جس پر پہلے پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ اس کا اطلاق موجودہ عدلیہ سے ہونا چاہیے جبکہ مسلم لیگ (ن) کا موقف تھا کہ اس کا اطلاق موجودہ عدلیہ پر نہیں ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے گذشتہ منگل کو میاں رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے جو وضاحت کی اس کے بعد صورتحال کافی واضح ہوگئی ہے اور اس دونوں جماعتوں میں جہاں اختلاف رائے ختم ہوگا وہاں اعتماد کے فقدان کی خلیج بھی کم ہوگی۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ جب عدلیہ نے ججوں کی بحالی کے حکم کو قانونی حیثیت دے دی تو حکومت نے اس پر کوئی عتراض نہیں کیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ججوں کی بحالی کے بارے میں ان کے جاری کردہ حکم کی پارلیمان سے توثیق کی ضرورت ہے۔ جس پر ملک بھر میں بحث شروع ہوگئی کہ حکومت نے عدلیہ کو دھمکی دی ہے۔پارلیمان کی آئینی کمیٹی نے ججوں کی بھرتی کے معاملے پر تنازع پیدا ہونے کے بعد اپنی کارروائی ایک ہفتے تک ملتوی کردی تھی اور کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا تھا کہ انہوں نے تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے ہیں اور اب پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی جب کم ہوگی تو وہ پھر اجلاس بلائیں گے۔آئینی کمیٹی میں ججوں کی بھرتی سے متعلق میثاق جمہوریت کے مطابق شق شامل کرنے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیاں اختلاف رائے تھا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ججوں کی بھرتی کا اختیار صدر کے پاس ہے اور صدارتی حکم کو عدلیہ نے معطل کیا ہے اور عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ حکومت کو قبول ہوگا۔ ’حکومت ماضی میں بھی کہہ چکی ہے اور میں ایک مرتبہ پھر دہرانا چاہوں گا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی، ہم پارلیمنٹ والے اس پر سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔
مبصرین کے مطابق گذشتہ سوموار کو وزیراعظم نے واضح طور تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ عدلیہ بحالی کے ایگزیکٹیوآرڈر پر پارلیمان سے توثیق کی ضرورت ہے ،جس کا مطلب 18 تاریخ کو ہونے والے فیصلے پر ایک تلوار لٹکادی گئی اور بین السطور یہ پیغام دیا گیا کہ ہم معاملے کو اِس حد تک بھی لے جاسکتے ہیں ۔ ایک صاحب جو صدرزرداری کے مشیر بنے ہوئے ہیں ا ±ن پر حارث اسٹیل والوں سے ساڑھے 3 کروڑ روپے لینے اور 65کروڑ کی شاپنگ کرنے کا الزام ہے، دوسرے صاحب جن پر 3 ملین کا کیس چل رہا ہے اور وہ اٹارنی جنرل سے فائر کئے ہوئے ہیں اِسی حکمرانوں نے ا ±نہیں فائر کیا ہے اس کے بعد ا ±نہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مشیر بنا دیا گیاجن لوگوں کی ساکھ پر پہلے ہی سوالیہ نشان ہو اور حکومت ا ±ن ہی سے مشورے لے رہی ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ کیا ہوگا۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم کی یہ بات سن کر د ±کھ ہوا کہ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ہم ججز کو واپس لے آئے ہیں اور واپس بھی لے جاسکتے ہیں یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ ججز کبھی معزول ہی نہیں ہوئے تھے۔
جبکہ تجزیہ کاروں و مایرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے عدلیہ سے کھلی جنگ شروع کردی ہے، وزیر اعظم کا بیان ججوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ آئین اور قانون میں کہیں یہ درج نہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر کی توثیق ضروری ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہئے تھی لیکن سیاستدان اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے۔ حکومت عدلیہ کو جان بوجھ کر تصادم کی طرف لے جارہی ہے، وزیراعظم کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملک بھر کے سیاسی رہنماو ¿ں اور قانونی ماہرین نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے پارلیمنٹ میں بیان کے رد عمل میں سامنے آیا ہے ۔
حکومت عدلیہ کو جان بوجھ کر تصادم کی طرف لے جارہی ہے، وزیراعظم کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے چونکہ 31/ جولائی 2009ءکے فیصلے کی ر وشنی میں ایگزیکٹو آرڈر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اس کو پارلیمنٹ سے کسی قسم کی توثیق کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا تو آج حکومت مشکلات سے دوچارنہ ہوتی۔ اس وقت حکومت ، عدلیہ سے کھلی جنگ شروع کرچکی ہے ملک بھر کے عوام سمجھتے تھے کہ وزیر اعظم معتدل مزاج شخص ہیں وہ پارٹی اور زرداری دونوں کو سنبھال لیں گے لیکن ان کے رویے اور خطاب سے لگتا ہے کہ وہ خود اپنے پاو ¿ں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، پی پی پی عدلیہ اور اداروں سے ٹکراو ¿ کے سبب تین بار حکومتیں گنوا چکی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی پی نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ پی پی پی اس نظام کو خود سمیٹنا چاہتی ہے عوام یہ بھی سمجھتے تھے کہ نواز شریف کے خطاب کے بعد پی پی پی اور وزیرا عظم یہ سمجھ جائیں گے کہ عوام اور سیاسی جماعتیں کیا سوچ رہی ہیں تاہم ان کے خطاب کے بعد یہ بات سامنے آچکی ہے کہ عوام اور پی پی پی کی حکومت کی سوچ میں و اضح فرق ہے اس و قت پوری قوم کی طاقت عدلیہ کے ساتھ ہے۔ جنہوں نے 2007ءمیں مشرف کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا وہ جج برقرار رہے اور وہ کبھی اپنے عہدے سے فارغ نہیں ہوئے کیونکہ ججوں کو صرف آئین کی آرٹیکل 209کے تحت ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم آئین کے مطابق چلیں تو کبھی کوئی تصادم نہیں ہوگا۔ کھلی دھمکی ہے۔ وزیراعظم کے بیان کے گھناو ¿نے نتائج برآمد ہوں گے جس کی ذمہ دار موجودہ حکومت، صدر زرداری اور خود وزیراعظم ہوں گے۔ وزیراعظم کے خطاب کو ماہرین نے عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے ایک انتباہ قرار دیا ہے کیونکہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ عدلیہ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کیا گیا ہے اور پارلیمنٹ سے اس کی توثیق نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم کا یہ چونکا دینے والا بیان قومی اسمبلی میں سامنے آیا تاہم وزیراعظم کے اس استدلال کو پاکستان کے تمام چوٹی کے قانونی ماہرین نے مسترد کردیا ہے
آئینی مشینری ناکام ہونے پر سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل58(2)B کا استعمال کرسکتی ہے، حکومت نے نہ صرف توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت ، وزیراعظم اور صدر کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے۔ ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے انہیں ججوں کے تقرر کے مسئلہ پر بالادستی حاصل ہے۔ اس میں سینئر یا ریٹائرڈ جج مسئلہ نہیں بلکہ چیف جسٹس کا اطمینان ضروری ہے۔
جبکہ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوگئے، وہ اپنی غیر جانبدار حیثیت کھو چکے ہیں،ان کی حکومت ختم بھی ہو سکتی ہے، تصادم سے اداروں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا بھی نقصان ہوگا، جمہوری طاقتوں کی حیثیت کمزور ہوگی، عدلیہ کا وقار اور اس کی غیر جانبدار حیثیت مجروح ہوگی۔ وزیراعظم میں ملک کو بحران سے بچانے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت مفلوج نظر آتی ہے چونکہ ان کی اپنی کوئی جماعت نہیں اس لیے ان کا انحصار صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی پر ہے۔ وزیراعظم اداروں میں تصادم کو بچانے کے لیے درمیان میں آسکتے تھے مگر وہ یہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں عدلیہ کی بحالی سے متعلق بیان کسی دھمکی سے کم نہیں ہے لگتا ہے کہ وزیراعظم تصادم کی جانب جانا چاہتے ہیں۔
ملک کے اہم سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے صدرزرداری کے راستے پرچل کرعدلیہ سمیت قومی اداروں کے ساتھ کھلے عام محاذآرائی کرکے اپنی ساکھ اورمعتبریت کھودی ہے اورثابت کردیا ہے کہ وہ آصف زرداری کے آدمی ہیں ۔ ملک میں جاری بحران فوری طورپر ختم ہوسکتا ہے اگرعدالتیں صرف اتناکہہ دیں کہ سوئٹزرلینڈاوردیگریورپی ممالک کے بینکوں میں موجود زرداری کا پیسہ پاکستان نہ لایاجائے۔تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگراس سلسلے میں کوئی حکم جاری ہواتوگیلانی دوبارہ اعلان کریں گے کہ انہیں عدلیہ سے کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔
وفاقی حکومت نے گذشتہ ہفتہ 13 فروری کو شام چھ بجے کے قریب 2 نوٹیفیکیشن جاری کر کے قوم کو حیران کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ میں بھیج دیا ہے جبکہ ان کی جگہ مسٹر جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس تعینات کر دیا ہے۔ اس اچانک اعلان نے سیاسی جماعتوں، قانونی حلقوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے تنقید اور احتجاج کو دعوت دی۔ یہ دو نوٹیفیکیشن اس قدر قابل افسوس اور ناقابل یقین تھے کہ ایوان صدر کے ترجمان بھی ان کی تصدیق کرنے پر راضی نہیں تھے۔ توقع کے عین مطابق دونوں معزز جج صاحبان نے بجا طور پر نوٹیفیکیشن کے مطابق اپنی تقرریاں قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد معطل کرتے ہوئے حکم امتناعی جاری کر دیا۔ اگر سپریم کورٹ بروقت یہ اقدام نہ اٹھاتی تو دونوں متعلقہ جج صاحبان اپنے عہدوں سے ریٹائر ہو چکے ہوتے۔غالباً ایوان صدر کے قانونی مشاہیر کو سپریم کورٹ کی جانب سے اس قدر فوری مداخلت کا اندازہ نہیں تھا اور یہ صورتحال ان کی حکمت عملی میں شامل نہیں تھی۔ سپریم کورٹ پر غیر منصفانہ اور قابل اعتراض جلد بازی میں کارروائی کرنے کا الزام لغو اور بے بنیاد ہے۔ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے اوقات کار مخصوص نہیں ہیں۔ انصاف اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کسی بھی وقت کیسوں کی سماعت کرنے اور احکامات جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ماضی میں بھی معزز عدالت رات گئے مقدمات کی سماعت اور احکامات جاری کر چکی ہے۔ تعطیلات کے دوران کام کرنے کی روایت بھی موجود ہے اور اس میں کوئی چیز غلط نہیں۔ درحقیقت اگر سپریم کورٹ فوری کارروائی کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن معطل نہ کرتی تو پھر صدر کے غیر آئینی اور غیر قانونی عزائم جمہوری اداروں اور ریاست کے مفادات پر حاوی ہو جاتے۔ انتظامیہ اور عدالت کے درمیان موجودہ تناو ¿ آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے تاہم اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے۔ حکومت کو نوٹیفیکیشن واپس لے کر ججز کی تعیناتی کے بارے عدلیہ کی سفارشات کو قبول کرنا چاہئے اور عدلیہ کو پوری تعداد کے ساتھ کام کرنے دینا چاہئے تاکہ پاکستان کے عوام بروقت اور فوری انصاف سے مستفید ہو سکیں اور ریاستی ادارے ہم آہنگی کی فضا میں کام کر سکیں۔ صدر اور وزیراعظم کو اپنے وعدے پورے کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں
لیکن افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ ایسا دکھائی دے رہا ہے جیسے صدر، وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی صوبائی شاخوں نے تصادم کی پالیسی اپنا لی ہے اور اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر نکل کر عدلیہ اور عدلیہ کی حمایت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کیخلاف نعرے بازی اور تحریک چلانے کی شہہ دے کر وہ جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو تصادم کی اس پالیسی کو رول بیک کر لینا چاہئے کیونکہ مذکورہ حکمت عملی نہ صرف ملک، ریاستی اداروں اور جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ موجودہ حکومتوں کو بھی اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔
جبکہ ان تحفظات و خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حکمراں تاریخ سے سبق نہیں لیتے یہ اب بھی سازشیں کریں گے۔ عدلیہ سے تنازع کے مرکزی کردار صدر زرداری ہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے معاون کاکردار ادا کیا۔ حکمران ملک کی قسمت ل ±وٹ کر لے جائیں گے، نگہبانوں کو چاہئے کہ اپنا کردار ادا کریں اس سے پہلے کہ حکمران سب کچھ لوٹ کر لے جائیں، ان کے ہاتھ پکڑ لیں ۔ زرداری سمیت ان کے تمام مشیر بھی اتنے ہی مجرم ہیں جنہوں نے پوری قوم کو مسلسل 5 گھنٹے تک ہیجانی کیفیت میں رکھا۔ کون اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے گا۔ اس ڈرامے کے پس پردہ کون تھا، صدر استعفیٰ دے گا، وزیراعظم مستعفی ہوگا یا ان کے مشیر استعفیٰ دیں گے۔ سمری تو وزیراعظم نے دی ہے جنہوں نے اگلے روز بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ ہم سے کبھی کبھار غلطی بھی ہوجاتی ہے۔ یہ معمولی غلطی نہیں تھی۔ یہ بڑا سانحہ تھا اور اس ملک کے دستور اور آئین کے خلاف سازش تھا عدلیہ کے خلاف سازش تھا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار مکمل ہڑتال ہوئی ہے جب سپریم کورٹ کا چیف جسٹس معتوب تھا، اس وقت بھی ایسی ہڑتال نہیں ہوئی تھی۔ اے پی ایس