عوام روٹی اور سائے کو ترس رہے ہیں۔اے پی ایس


وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اور جوڈیشری سمیت تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ ملکی سالمیت ، استحکام اور مفاد پر کوئی کمپرومائز کیا ہے اور نہ ہی کریں گے۔ ملکی بہتری کیلئے تمام سیاسی فورسز کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اسی میں سب کی بھلائی ہے اور تمام فورسز کے ساتھ چلنے سے ہی ملک کو مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے۔ ملک مڈٹرم انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ قوم نے ہر ڈکٹیٹر کو سات یا نو سال برداشت کیا ہے تو ضروری ہے کہ جمہوری عمل کو بھی پنپنے کا موقع دیا جائے کیونکہ جمہوریت ایک اثاثہ ہے یہ جتنی بھی خراب کیوں نہ ہوجائے ڈکٹیٹر شپ سے ہر حال میں بہتر ہوتی ہے۔ 73ءکے آئین میں ترامیم کیلئے میثاق جمہوریت کو ترجیح دی جائے گی ۔ میثاق جمہوریت کے تحت مفاہمت کی سیاست پر عمل پیرا ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے علاوہ رہنے کی بھی عادت ڈالیں تاکہ ملک وقوم کو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ اتوار کو ایوان اقبال میں معروف صحافی حمید نظامی مرحوم کی یاد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حمید نظامی کا کردار بطور تحریک پاکستان کے کارکن اور صحافی کے شاندار رہا ہے ۔ تحریک پاکستان میں میرے والد بھی شامل تھے ۔ 1940ءکی قرارداد میں میرے والد کے بھی دستخط موجود ہیں۔ قلم کے ذریعے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہی صحافت ہے اور حمید نظامی نے بطور صحافی اور سیاسی کارکن اپنا کردار خوب نبھایا۔ انہوں نے کہا کہ 2008ءکے انتخابات میں عوامی شعور سامنے آیا اور عوام نے ملک میں تبدیلی اور جمہوریت کی خاطر ووٹ دیا۔ عوام کی وجہ سے جمہوری فورسز کو کامیابی ملی جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی ذہنی پختگی کا ثبوت دیا۔ اختلاف رائے جمہوریت کی روح ہے مگر اختلاف اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔ ملک بھر کی سیاسی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں اپنا رول بخوبی ادا کررہی ہیں جس کی اہم وجہ ملک میں میڈیا کا ذمہ دارانہ رویہ ہے تاہم اس رویہ میں مزید بہتری اور پختگی کی ضرورت ہے کیونکہ جمہوریت ایک اثاثہ ہے یہ اثاثہ جتنا مرضی خراب ہوجائے ڈکٹیٹرشپ سے بہتر ہے۔ ملک میں دیگر ادارے تو مضبوط ہیں مگر بدقسمتی سے جمہوریت کا ادارہ کمزور ہے۔ جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ نے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ ایک آمر نے جمہوریت کا پودا لگانے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر نکال کر دیکھنے اور اس کے مضبوط نہ ہونے کی بات کی جس سے واضح ہوتا ہے کہ ڈکٹیٹر کو جمہوریت کا علم ہی نہیں ہوتا۔ ملک کو درپیش مسائل کا حل جمہوریت ہی میں مضمر ہے۔ ہمیں جمہوریت کسی نے پلیٹ میں رکھ کر تحفہ میں نہیں دی ہم نے یہ بڑی جدوجہد سے حاصل کی ہے اس کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے شہادت قبول کی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ایمرجنسی کو تسلیم نہیں کیا ، عدلیہ کی اسیری پر سر خم نہیں کیا جبکہ نوازشریف نے بھی جلاوطنی کاٹی ۔ اب کسی معذرت میں جمہوریت کو نہیں جانے دینا چاہئے۔ ملک میں اگر مسائل موجود ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہوری سسٹم کو پیک اپ کردیا جائے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب جمہوری حکومت بنتی ہے تو مفکر اس کے چلنے کے بارے میں تین چھ یا سات ماہ کا وقت دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ ڈکٹیٹر کا دور بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا اس وقت ملک مڈٹرم انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کون سی ایسی پارٹی ہے جو بڑے پیمانے پر جیت جائے ۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ ہی جیتیں گے یہی پارٹیاں سامنے آئیں گی اور یہی اتحاد بنیں گے۔ ایک آمر کا موازنہ سیاسی لیڈر شپ سے کرنا غلط ہے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو یہ ناانصافی ہوگی کیونکہ ڈکٹیٹر نے تو بیک وقت چار ہیڈ پہن رکھے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ صدر کا حلقہ انتخاب پارلیمنٹ ہے اور آئین کے تحت صدر کو ہر سال اپنے حلقہ انتخاب سے خطاب کرنا ہوتا ہے۔ مشرف نے اپنے دور میں کتنی مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کیا جبکہ اس کے مقابلے میں ایک سال کے اندر صدر آصف علی زرداری نے دو بار پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور وہ مارچ میں پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں۔ صدرکا خطاب آئینی تقاضا ہے۔ غیر منتخب صدر کا منتخب صدر سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست محترمہ بے نظیر بھٹو کا ویژن تھا۔ انہوں نے ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ہدایت کی۔ اگر ہم نے چار سال تک مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا تو آئندہ بھی بھارت کی طرح پاکستان میں اتحادی جماعتیں ہوں گی۔ اتحاد بنتے رہیں گے ہمیں ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے اور ساتھ رہنے کی عادت ڈالنا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام نے ہمیں خاصا برداشت کرلیا۔ عوام نے ماضی میں سیاسی جماعتوں کی لڑائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ ہم مختلف جماعتیں ضرور ہیں مگر پارلیمنٹ میں اتحادی ہیں۔ جے یو آئی، ایم کیو ایم ، اے این پی اور فاٹا کے لوگوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کا اپنا ویژن ہے۔ ہمارے اختلاف رائے کو مثبت لینا چاہئے کیونکہ یہ اختلاف عوامی مفاد میں ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی دیکھ لیں وہاں پر آنے والے تمام بل، قراردادیں اور بجٹ بھی متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ یہ میرے اکیلے کی نہیں سب کی کاوشیں ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے دہشت گردی سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ فوج کے جوان شہادتیں دے رہے ہیں وہ اپنا آج قربان کرکے میرا آپ کا سب کا مستقبل محفوظ بنارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے قبل کون تھا جو کسی مجمع میں کھڑے ہوکر کہہ سکتا کہ میں دہشت گردی کے خلاف ہوں مگر ہم نے اس معاملے پر اختلاف رائے ختم کیا ۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آج سبھی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی ہی ہمارا اصل ٹارگٹ ہے۔ موجود حکومت نے عوام کے ذہنوں کو پختگی دی ہے کیونکہ ملک میں دہشت گردی ہوگی تو امن وامان قائم نہیں ہوگا۔ اور اگر لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوئی تو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کون آئے گا۔ ہمارا اصل کام امن وامان کو کنٹرول کرنا ہے۔ گڈ گورننس کا مطلب یہ نہیں کہ پرائم منسٹر کارکردگی دکھائے۔ گڈ گورننس یہ ہے کہ عدلیہ انصاف فراہم کرے، وفاقی حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنائے، وفاق کی پالیسی پر صوبے اور صوبوں کی پالیسی پر ضلعی حکومتیں عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ مہنگائی اور رشوت کو کنٹرول کرنا ہے جبکہ احتساب کے حوالے سے بھی میاں نوازشریف کی جانب سے ڈرافت بھجوایا گیا ہے جو تاحال میری نظر سے نہیں گزرا ۔ تاہم میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ احتساب اور انتقام میں معمولی فرق ہوتا ہے یہ ممکن نہیں جو احتساب بل میں بناو ¿ں اسے کل آنے والے بھی مان لیں۔ تاہم آج کوئی صحافی یا سیاس قیدی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج جو بل بنائیں گے اسے آنے والے قبول کرلیں۔ ہم مسلم لیگ (ن) کی مشاورت سے احتساب بل بنائیں گے۔ ہم ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں کیونکہ یہ مینڈیٹ انہیں عوام نے دیا ہے۔ میں نے چاروں صوبوں کے وزراءاعلی سے کہا ہے کہ مل کر مسائل حل کریں گے اس کیلئے ضروری ہے کہ ہماری سوچ اجتماعی ہو اور عوامی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔ ایسا ہوا تو ہمیں کامیابی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 1958ئ میں جب حمید نظامی حیات تھے تو اس وقت قائداعظم کے ساتھ کام کرنے والے صف اول کے سیاستدان بھی موجود تھے مگر بدقسمتی سے ہم نے قائداعظم کے مشرقی ومغربی پاکستان کے ان ساتھیوں کو ایک قلم کے ذریعے نااہل کردیا جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کی لیڈر شپ موجود رہی جو آج بھی موجود ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا سہروردی، ناظم الدین، دولتانہ اور ان کے دیگر ساتھی بھی کرپٹ تھے۔ ان پر کرپشن کا الزام لگا کر ہم نے انہیں ختم کردیا تو ملک سے سیاسی لیڈر شپ کی نرسری بھی ختم ہوگئی اور ہم نے الزامات کی بناءپر ملک بنانے والی لیڈر شپ کو گنوادیا پھر انڈر 19ٹیم نے ملک چلایا۔ قائداعظم کے شریک سفر نہ رہنے کا ہمیں نقصان پہنچا۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں سیاسی چہرے فلمی چہرے نہیں ہوتے کہ انہیں بیک وقت تبدیل کردیا جائے۔ سیاسی پختگی آنے میں وقت لگتا ہے۔ میری اپیل ہے خدارا اپنی کلاس سے سامنے آنے والے لوگوں کو کرپٹ کہہ کر انہیں ختم کرنے کی روش چھوڑ دیں اور سیاسی نرسری کو پھلنے پھولنے دیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے دستخطوں کا حامل میثاق جمہوریت قبول ہے اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین میں ترامیم کریں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا۔ صدر کے اختیارات لے کر وزیراعظم کو دینا کوئی تبدیلی نہیں نہ ہی یہ ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔ قوم 73ء کے آئین پر متفق تھی اور ہے ہمارا فرض ہے کہ اسے اصل شکل میں لائیں جس کیلئے صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن کو قائم رکھا جائے گاا۔ اس حوالے سے صدر آصف علی زرداری بھی کمٹڈ ہیں۔ 73ءکے آئین کو اصل شکل میں لانے سے ہی عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اختیارات بھی موجود ہوں گے اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے۔ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کریں گے۔ موجودہ حکومت ملک میں آئین اور قانون کی پاسداری پر عمل پیرا ہے اور رہے گی یہی ہم سب کے مفاد میں ہے۔ جبکہ پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے موجودہ معاشی و سیاسی پالیسیوں سے روپے کی قدر میں کمی جبکہ مہنگائی، قرضوں،غربت اور بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ملکی نظام سے عوام کا اعتماداٹھتا جا رہا ہے۔ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال ہمارے اندرونی معاملات میںامریکہ کاعمل دخل خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اہم فیصلوں میں ملکی مفاد پیشِ نظر نہیں رکھا جارہا اور بعض اعلیٰ حکومتی عہدیدار پوری تندہی سے امریکی مفادات کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی معاشی اصلاحات ملک میں غربت اور لاقانونیت میں اضافہ اور ملک پر مغرب کا کنٹرول بڑھانے کا سبب ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی اکثریت منافع خور ہے جو جونک کی طرح عوام کا خون پی رپے ہیںاور حکومت و معیشت کے ڈھانچے کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ نجکاری کے نام پر عوام سے کاروکاری ہو رہی ہے اور استعماری قوتوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے قانون سازی کی جا رہی ہے۔سروس سیکٹر اور سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے جبکہ صنعت کو شرح سود میں اضافہ سمیت متعدد اقدامات کے زریعے تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ ملک غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بن جائے۔ عوام روٹی اور سائے کو ترس رہے ہیںجبکہ بیوروکریسی کا کاروبار چمک رہا ہے۔اکنامک منیجروں کی لیاقت، سیاستدانوں کے سطحی مفادات اور کاروباری مافیائوں کے راج کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق اور بے چینی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔آئی ایم ایف کے نسخوں اور حکومت کے بناوٹی اقدامات کی وجہ ہے ہر شخص بے یقینی کا شکار ہے۔غیر ملکی ایجنسیاں اورکثیر الاقومی ادارے خصوصاًآئل اینڈ گیس کمپنیاں ملک بھر میں سیاسی بے چینی کو ہوا دے رہی ہیںجبکہ بلوچستان میں بھارت اور برطانیہ خوفناک کھیل میں مصروف ہیں۔1943میں ساری دنیا کو امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے بنانے کی سازش تیار کی گئی تھی اور ان دونوں اداروں نے ابھی تک ستر سے زیادہ ممالک کی معیشت کو تباہ کر کے امریکہ غلامی پر آمادہ کیا ہے۔اب پاکستان میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی مدد سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اے پی ایس