عدلیہ کی آزادی اور حقیقی جمہوریت کی بحالی۔اے پی ایس


گذشتہ منگل کی شام وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ملاقات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام اگلے روز بدھ کو خوشخبری سنیں گے۔ قارئین مذکورہ سطور پڑھنے تک وزیر اعظم کی خوشبری سن چکے ہونگے ۔وزیر اعظم گیلانی نے یہ بات منگل کی شب سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کے اعزاز میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے دیے گیے عشائیے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ ملک سب کا ہے اور تمام اداروں کو مل کر ملک کے استحکام کے لیے کام کرنا ہوگا۔ حکومت اداروں میں تصادم نہیں چاہتی اور جو لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کے دو ستونوں عدلیہ اور مقننہ تصادم کی طرف جا رہے ہیں وہ میری (وزیر اعظم) کی سپریم کورٹ میں موجودگی سے اندازہ لگالیں کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے جب صحافیوں نے یہ پوچھا کہ ا ±ن کی ملاقات کب اور کہاں ہو رہی ہے تو وہ م ±سکرا دیے اور کہا کہ پہلے کسی سوال کا جواب دیا ہے۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ میرا گھر ہے اور میں خود چیف جسٹس سے ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا وہ یہاں پر سیاست کرنے کے لیے نہیں بلکہ چیف جسٹس کو کھانے کی دعوت دینے کے لیے آئے ہیں۔جب وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کی سپریم کورٹ اور جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس بنانے کا نوٹیفکیشن واپس لے گی تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم ا ±ن کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔صحافیوں نے پوچھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات سے ضابط اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی جس پر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کھانے پینے سے ضابط اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔وزیر اعظم شیڈول کے بغیر سپریم کورٹ میں ہونے والی اس تقریب میں پہنچے تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے علاوہ تقریب میں موجود وکلاءسے بھی ہاتھ ملایا۔وزیر اعظم کی چیف جسٹس کی جانب سے ریٹائر ہونے والے جج خلیل الرحمن رمدے کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائئے میں شرکت سے عدلیہ اور مقننہ کے درمیان اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر پیدا ہونے والے تناو ¿ میں کمی واقع ہوگی۔تقریب میں موجود وکیل رہنما اعتزاز احسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا عشایے میں شرکت خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان بظاہر ہونے والے اختلافات کی وجہ سے پوری قوم کھچاو ¿ کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی عشایے میں شرکت کسی کی جیت اور کسی کی ہار نہیں ہے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عشایے کے دوران وزیر اعظم چیف جسٹس کو عدلیہ کے احترام سے متعلق اپنے قصے س ±ناتے رہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی چیف جسٹس کی جانب سے ریٹائر ہونے والے جج خلیل الرحمن رمدے کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائئے میں شرکت سے عدلیہ اور مقننہ کے درمیان اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر پیدا ہونے والے تناومیں کمی واقع ہوگی۔ جبکہ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو چیف جسٹس اور دوسرے ججز کی بحالی کے لئے ایگزیکٹو آرڈر کو پارلیمنٹ سے توثیق کے معاملے میں غلط مشاورت دی گئی ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لئے حتمی فیصلہ چیف جسٹس کا ہو گا آزاد عدلیہ ملک میں اب ایک حقیقت ہے اور اسے کوئی قبول نہیں بھی کرتا تو اس کو قبول کرنا پڑے گا بار ایسوسی ایشنوں کا موقف ججوں کی تعیناتی پر درست ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم نے نوٹیفکیشن جاری کر نے کے بعد ان سے فون پر بات کی تھی لیکن اس وقت تک سپریم کورٹ فیصلہ بھی دے چکی تھی ججوں کی تقرری ایک تسلسل ہوتا ہے اور 17 ویں ترمیم میں آرٹیکل 260 کی تشریح کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کلیدی کر دار ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر حکومت نے انہیں کیس لڑنے کے لئے کہا تو وہ دیکھیں گے اس مسئلے پر کون سی ہدایات اس مسئلے پر موجود ہیں اور اگر انہوں نے کیس لڑا تو وہ جو بھی کریں گے وہ آئینی بہتری کے لئے ہی کریں گے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ عدلیہ جو اس موضوع پر فیصلہ کر ے گی اس پر عمل ہو گا تو اس بات پر یقین کر لینا چاہیے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ججز تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ چار فیصلے دے چکی ہے ۔سپریم کورٹ 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ تین نومبر کا اقدام غیر قانونی تھا تو جج بحال ہوئے دوبارہ تعینات نہیں ہوئے اس لئے پارلیمنٹ کی توثیق کی اس آرڈر کی ضرورت نہیں وزیر اعظم نے ججوں کی تقرری کا فیصلہ کر کے ان سے مشاورت کی اور میں ایماندارانہ مشورہ دیا اور جب وزیر اعظم نے مجھے فون کیا تو اس وقت سپریم کورٹ فیصلہ بھی دے چکی تھی جج رات کو اس لئے بیٹھے کے گورنر پنجاب نے جسٹس ثاقب نثار کو ساڑھے دس بجے بلا لیا اس لئے عدلیہ کو جلدی میں فیصلہ دینا پڑا کیوں کہ جسٹس ثاقب نثار سمجھتے تھے کہ چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے اس لئے انہوں نے حلف لینے سے انکار کیا اعتزاز احسن نے کہا کہ جن مظاہروں میں پارٹیوں کے جھنڈے جل رہے ہوں ان میں نہیں جا سکتا۔ ججز تقرری پر صدر کو غلط مشورہ دیا گیا میں نے اپنے ضمیر کے مطابق وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا الجہاد ٹرسٹ کیس میں چیف جسٹس کی تقرری کے لئے سنیارٹی کو لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ ججوں کی تقرری کے لئے سنیارٹی مسئلہ نہیں انہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی میں مشورہ دینے والوں میں خواجہ آصف کے رشتہ دار بھی شامل ہیں صدر اور وزیر اعظم چار اور پانچ سو کے صفحات پر مشتمل فیصلے نہیں پڑھ سکتے انہیں جو مشاورت دی جاتی ہے اس پر ہی صدر اور وزیر عمل کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی ترجمان احسن اقبال نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے پتلے جلانے کی سیاست مکمل بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے اور نفرت کی سیاست کوہوا دی جا رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف نے مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر اور تحمل کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور نہایت بردباری کا مظاہرہ کریں۔چونکہ ہماری سیاست پتلے جلانے کی سیاست نہیں بلکہ اصولوں اور نظریات کی سیاست ہے۔مسلم لیگ(ن)12اکتوبر99ئ سے لے کر آج تک پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی ،عدلیہ کی آزادی اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہدکررہی ہے اور وہ اپنی منزل پانے تک اِس جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوسکتی۔ہماری جدوجہد اعلیٰ مقاصد کی جدوجہد ہے اسے نفرتوںکی سیاست کی نظر نہیں کیاجاسکتا۔ا نہوںنے کہا کہ حکومت نے موجودہ بحران اور متنازعہ بیانات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دئیے ہیں تاکہ وہ این آر او کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد رکوا سکے اور عدلیہ سے محاذ آرائی پیدا کرکے اس کے کردار کو متنازع بنا دے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے عوام نہایت باشعور ہے اور وہ ایسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔حکومت کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ ججوں کی تقرری کا غیر آئینی نوٹیفکیشن واپس لے، ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرریوں میں رکاوٹ نہ ڈالے ،این آر او پرسپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے اور آئینی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کو جلد از جلدمنظور کروانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ سترہویں ترمیم کے خاتمے سے ملک میں موجود آئینی اور جمہوری بحران کو ختم کیاجاسکے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کے حالیہ اقدامات نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ حکومت خود ہی اپنی سب سے بڑی دشمن ہے اور اس کے خلاف کوئی سازش نہیں کررہا۔اے پی ایس