آزاد عدلیہ کے سامنے ذاتی خواہشات کی موت۔چودھری احسن پر یمی


سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونیوالے جج صاحبان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب سپریم کورٹ میں منعقد ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ سے عدالت عظمیٰ کے مستقل جج کی حیثیت سے حلف لیا، جبکہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ایڈ ہاک جج سپریم کورٹ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔حلف برداری کی تقریب میں جج صاحبان اور سینئر وکلاءنے شرکت کی۔ عدالتی بحران ٹلنے کے بعدتجز یہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ حکومت نوٹیفکیشن واپس لینے کایوٹرن نہ لیتی تو آئین کی خلاف ورزی پر صدر زرداری کی اہلیت چیلنج کی جاسکتی تھی۔ ذی اثر عدلیہ سے کشیدہ تعلقات نے مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کو مزید کمزور کردیا ہے جبکہ اس وقت امریکا کا القاعدہ اور شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا دباو ¿ بھی بڑھ رہا ہے۔ حکومت نے ججوں کی تقرری چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کر کے غلطی کی، جس کو درست کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اورعدلیہ کے مابین کشیدہ تعلقات وزیراعظم گیلانی کی چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد ختم ہو جائیں گے؟ اگرچہ وزیراعظم کا یہ اقدام دانشمندانہ تھا کیونکہ عدلیہ اور حکومت میں براہ راست تصادم سے نہ صرف حکومت بلکہ پورے جمہوری نظام کو خطرہ تھا۔ حکومت نے نوٹیفکیشن واپس لے کر عدلیہ سے براہ راست تصادم سے اپنا بچاو ¿ کیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں متعدد بار عدلیہ اور حکومت کا ٹکراو ¿ ہو چکا ہے۔ جبکہ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ این آر او کے تاریخی فیصلے کے چند انتہائی اہم نکات پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا اور حکومت کے پاس دراصل ان پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو اب سب سے بڑے امتحان کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اب اسے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے بڑا محتاط ہونا پڑے گا۔ اگر اس عملدرآمد کے حوالے سے معمولی سی بھی نرمی دکھائی گئی تو اس خدشے کا اظہار کیا جائے گا کہ اعلیٰ عدلیہ نے شاید کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میڈیا اور وکلاءکو خصوصاً اور عوام کو عموماً زیادہ چوکنا ہونا پڑے گا اور اعلیٰ عدلیہ پر نظر رکھنا ہو گی کہ کیا وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے سختی سے نظر رکھے ہوئے ہے یا نہیں۔ ججوں کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری بحران کے خاتمہ کو خوش آئند بھی قرار دیا گیاہے۔اس وقت ملک جو کمزور سیاسی قیادت کی وجہ سے بیک وقت کئی ایک بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے ۔ایسے وقت میںمصالحت و مفاہمت کا راستہ ہی جمہوریت کے بہترین مفاد میں ہے۔ لیکن مصالحت و مفاہمت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایسے کام بھی ساتھ ساتھ کرتے جائیں جو قانون کی حکمرانی و ملکی مفاد کے منافی ہوں اور جب آپ کو کو ئی پو چھے تو آپ اس کا گلہ دبانے کی کوشش کریں اور جو بچ نکلے آپ اس کے پائوں پکڑنے شروع کردیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار چوہدری کے درمیان ہونے والی ملاقات اور اس کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ججوں کی تقرری کے بارے میں جو اعلان کیا وہ انتہائی خوش آئند ہے اور چند روز سے جاری اس بحران کا خاتمہ ملک و قوم، حکومت اور جمہوری نظام کے وسیع تر مفاد میں ہے جس سے یقیناً تمام جمہوریت پسند عوام نے بھی سکون کا سانس لیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی ملک کے عوام کو یہی توقع بلکہ یقین ہے کہ وہ ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ پاکستان میں جمہوریت ایسے ہی ہے جس طرح ایک بچہ جو کھڑا بھی نہیں ہوسکتا اور اور چلنے کی بچائے اپنے ہاتھ پائوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو منہ کے بل گر جاتا ہے اس کے متبادل بچے کیلئے واکر کا انتظام کیا جاتا ہے تا کہ بچہ گرنے سے بچ جائے۔اس تناظر میں جمہوریت کا مستقبل اب بھی خطرے میں ہے، حکومت کی موجودہ طرز حکمرانی سے مایوسی دن بدن بڑھ رہی ہے، دو سال سے میثاق جمہوریت پر عمل اور 17 ویں ترمیم کے خاتمے کا انتظار،آزاد عدلیہ کو ماتحت بنانے کے اقدامات وغیرہ سب کے سامنے ہیں۔جمہوریت کے استحکام اور عوام کی خدمت کیلئے ذات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا۔ عوام ملک میں بہتر طرز حکمرانی چاہتے ہیں تاکہ عوام کے مسائل حل ہوں۔ حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارشات کو تسلیم کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے اور سپریم کورٹ میں دو مستقل اور ایک ایڈہاک جج تعینات کر دیئے ہیں۔ ہائیکورٹس کے ججوں کی تقرری کے نوٹیفیکشن کے مطابق جسٹس خواجہ شریف لاہور ہائیکورٹ کے بدستور چیف جسٹس رہیں گے جبکہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ سپریم کورٹ کے مستقل جج تعینات اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے ایک سال کیلئے سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تعینات کردیئے گئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے رات گئے ججز کی تقرری کی نئی سمری پر دستخط کردیے تھے۔ جسٹس افتخارمحمد چوہدری اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے درمیان ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں ججزکی تعیناتی پرمشاورت کی گئی۔ ون ٹوون ملاقات کے بعد سیکرٹری قانون عاقل مرزا اور رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیر کھوکر بھی شریک ہوگئے۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم گیلانی نے چیف جسٹس کو میڈیا کے سامنے رخصت کیا تو صحافیوں نے چیف جسٹس سے سوال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے،جواب دیئے بغیررخصت ہوگئے۔ وزیر اعظم کا کہناتھاکہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان تناو ختم ہوگیا، چیف جسٹس سے ملاقات کا مقصد ججز کی تقرری کیلئے مشاورت تھا، پہلے نوٹیفیکیشن کو ختم کر کے نیا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے۔یادرہے کہ یہ نوٹیفکیشن 13 فروری کوجاری کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کاکہناتھاکہ اجلاس میں لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی آسامیاں پرکرنے کیلئے ناموں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔این آر او کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کیاجائیگا۔ انہوں نے کہاکہ ان کے صدرزرداری سے مکمل تعاون اوراعتمادکارشتہ ہے۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ ججز کی بحالی کی قومی اسمبلی سے توثیق کی ضرورت نہیں، عدلیہ کو مزید مضبوط بنایا جائے گااوراعلٰی عدلیہ کے تمام فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہاکہ جسٹس خواجہ شریف لاہور ہائی کورٹ کے بدستور چیف جسٹس رہیں گے، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ سپریم کورٹ کے مستقل جج تعینات اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تعینات کردئے گئے ہیں۔ مزید براں مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج بنانے اور مسٹر جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم تصور کیا جائیگا۔ ملاقات میں سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی تقرری کے عمل کو حتمی شکل دی گئی ہے جس کا نوٹیفکیشن ضروری تقاضے پورے کرنے کے بعد جاری کر دیا جائے گا۔ ملاقات میں آئین میں دیئے گئے ادارہ جاتی فریم ورک پر تفصیل سے غور کیا گیا اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لئے ریاست کے تمام اداروں کے کام کرنے کے طریقہ کار کی بنیاد قانون کی بالادستی فراہم کرتی ہے۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ اس مقصد کے حصول کیلئے ریاست کے تمام ستونوں کے درمیان مشاورت کے عمل کو تعمیری اور بامعنی ہونا چاہئے۔ یہ محسوس کیا گیا کہ عوام کو ان کی دہلیز پر سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے عدلیہ کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ ملاقات میں آئینی فریم ورک کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ قانون کی حکمرانی ہر حال میں یقینی ہونی چاہئے تاکہ ریاست کے تمام ادارے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے رہیں۔ ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مشاورتی عمل ریاست کے تمام اداروں کے درمیان جاری رہنا چاہئے۔ اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ عدلیہ کو مزید مستحکم کیا جائے گا تاکہ وہ عوام کو فوری اور سستا انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کر سکے۔ حکومت کا اپنی غلطی تسلیم کرنا اچھا اقدام ہے، اس سے بحران ختم ہو گا جبکہ بعض نے اس ملاقات کو عدالت کے وقار کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چیف جسٹس کو ملاقات کیلئے نہیں جانا چاہیے تھا۔ملک کے مختلف قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ حکومت نے عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے بارے میں اپنی غلطی تسلیم کر کے ججوں کی تقرری کے لیے جو قدم ا ±ٹھایا ہے وہ خوش آئند ہے، عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی ہوئی ہے۔ قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے، ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ مسائل کھڑے کیے جائیں، مہنگائی نے انتہا کر دی ہے ،حکومت کو اب مہنگائی دور کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت 70/ فی صد عوام دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ساتھ اصل مسائل سیشن اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی سطح پر ہیں جہاں ججز کی واضح کمی ہے، عدالتوں کے دفاتر مرغی خانے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مہنگائی نے انتہا کر دی ہے اس میں فوری کمی کی جائے، لاقانونیت کا خاتمہ کیا جائے، عوام کو عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں ،یہ پوری کی جائیں، غریب عوام کو میرٹ پر ملازمتیں فراہم کی جائیں۔ جبکہ وکلاءرہنماو ¿ں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ بحران ٹل گیااور وکلاءنے ہڑتال منسوح نہیں کردی۔ پارلیمنٹ سے توثیق کی بات غلط غلط نکلی ہے اور یہ بات وزیراعظم کے مشیروں کے غلط مشورے کے باعث باہر آئی تھی ۔قوم آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے۔ عدلیہ آزاد ہے اور اس کے فیصلوں کے سامنے ذاتی خواہشات برقرارنہیں رکھی جا سکتیں۔اسلام آباد کے ممتاز ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے موجودہ بحرانی کیفت کے حوالے سے ایسوسی ایٹڈ پریس سروس اے پی ایس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے درمیان تین گھنٹے سے زیادہ طویل ملاقات کے نتائج ملک کے مفاد میں بہت حوصلہ افزا رہے ہیں۔ چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ملاقات کے بعد وزیراعظم نے جو اعلان کیا اس کے مطابق 13/فروری کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کی جگہ نئے نوٹیفکیشن نے لی ہے جس کے تحت جسٹس ثاقب نثار کو سپریم کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو عدالت عظمیٰ میں ایڈہاک جج مقرر کیا گیا ہے اور جسٹس خواجہ شریف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے۔ اعلیٰ عدالیہ میں ججوں کی خالی اسامیاں فوری طور پر پوری کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔اسلام آباد کے ممتاز ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ توقع کی جانی چاہئے کہ مذکورہ ملاقات کے نتیجے میں آگے چل کر اہم مقدمات میں آنے والی ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنا آسان ہوگا اور آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ ملک بھر میں اس کا خیرمقدم کیا جائے گا کہ سیاسی قیادت نے تدبر کا مظاہرہ کیا۔ اپنے موقف کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اسی طرح جناب چیف جسٹس کی طرف سے بھی ملک کے عین مفاد میں ایسی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جسے بعض حلقوں نے ناپسندیدہ قرار دیا لیکن ملک کی اکثریت نے اس کو دلی طور پر سراہاہے۔ ممتاز ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ پچھلے کئی روز کے واقعات اور قانونی نکات پر نئی بحث چھڑنے کے بعد بلاشبہ ملک میں کشیدگی کی ایک ایسی کیفیت کا تاثر ملتا رہا ہے جس کے باعث کئی حلقے موجودہ نظام اور جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں اندیشے محسوس کررہے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث و تکرار اور ہنگامے کی فضا، سڑکوں پر وکلا کے گروپوں کا آمنے سامنے نظر آنا، حکمراں پیپلزپارٹی اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی ریلیاں اور رہنماوں کے پتلے جلانے کے واقعات سے عام لوگوں کی معمول کی زندگی بری طرح متاثر ہورہی تھی۔ممتاز ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ اس منظرنامے میں جب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بدھ کی رات بغیر اطلاع کے چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے ریٹائرڈ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیے میں پہنچے تو اس سے سب ہی کو ایک خوشگوار کیفیت کا احساس ہوا۔ممتاز ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے عشائیے میں جاکر اور عزت مآب چیف جسٹس نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کرکے اچھی مثال قائم کی ہے اور صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ قومی و بین الاقوامی حالات، خطے کی صورتحال، اندرون ملک بعض حصوں میں جنگ جیسی کیفیت اور دہشت گردی کی وارداتیں پوری قوم سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ زیادہ بالغ نظری کا مظاہرہ کرے۔ عوام جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں، ان کا پوری طرح احساس و ادراک نہ صرف سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے بلکہ تمام صاحبان فکر کو اپنے اپنے دائروں میں ان پر سنجیدگی سے غور و خوض کرکے ۔تجاویز پیش کرنی چاہئیں۔ معیشت کی کمزوری، بجلی کے فقدان، مہنگائی کے سیلاب اور بیروزگاری سے نیم جان غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات بڑھتے بڑھتے ناقابل برداشت حدوں تک پہنچنے لگی ہیں۔ ماہر قانون چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ پانی کا مسئلہ بھی اب سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ بھارت نے چناب اور جہلم دریاو ¿ں پر 70سے زائد ڈیم بناکر اور دریائے سندھ کا پانی سرنگ کے ذریعے چوری کرکے لاکھوں ایکڑ اراضی کو زرعی پیداوار سے محروم کردیا ہے۔ وطن عزیز کے لہلہاتے کھیتوں کو صحرا میں تبدیل کرنے کا یہ منصوبہ 18کروڑ پاکستانیوں کی شہ رگ پر خنجررکھنے کے مترادف ہے۔چودھری عبد الخالق تھند ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے زیاہ اتحاد، زیادہ یک جہتی اور زیادہ ہم آہنگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اے پی ایس