مضبوط جمہوریت کیلئے آزاد عدلیہ۔آزاد عدلیہ کیلئے مضبوط پارلیمنٹ لورائے چودھری احسن پر یمی




حکومت اور عدلیہ کے درمیان حالیہ کشیدگی ختم ہونے کے بعد صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے لاہور ہائی کورٹ میں جن بائیس نئے ایڈیشنل ججوں کا تقرر کیا ہے ان میں وکیل رہنماوں کے ساتھی یا جونیر اور ججوں کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری سے ملاقات کے بعد وزارت قانون نے لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے نئے ججوں کا تقرر کیا ہے جو کل انیس فروری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔لاہور ہائی کورٹ کے نئے ججوں میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری شوکت عمر پیرزادہ اور پنجاب بارکونسل کے سابق چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا بھی شامل ہیں۔ شوکت عمر پیرزادہ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کے ساتھ بار کے سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔پنجاب بارکونسل کے جن ارکان کو لاہور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا ہے ان میں چکوال سے حسن رضا پاشا، بہاولپور سے اعجاز احمد، جہلم سے انوارالحق اور راولپنڈی سے چودھری محمد طارق شامل ہیں۔نئے ججوں میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی اہلیہ کے بھائی یاور علی خان بھی شامل ہیں جو سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس یعقوب علی خان کے بیٹے ہیں۔نئے ججوں میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے برادرِ نسبتی یاور علی خان بھی شامل ہیں جو سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس یعقوب علی خان کے بیٹے ہیں جبکہ چودھری شاہد سعید، جسٹس خلیل رمدے کے بھائی اور سابق اٹارنی جنرل پاکستان چودھری محمد فاروق کے جونیئر ہیں۔نئے ججوں میں شاہد حمید ڈار، چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف کے عزیز ہیں۔نئے ججوں میں وقار حسن میر جسٹس خواجہ محمد شریف کے جونیئر ہیں جبکہ میاں شاہد اقبال کی بھی وابستگی جسٹس خواجہ شریف سے ہے۔مامون رشید شیخ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اے آر شیخ کے بیٹے اور جانے مانے قانون دان اے کے ڈوگر کے داماد ہیں۔انور بوہر سابق ڈسٹرکٹ و سیشن جج کاظم بوہر کے بیٹے ہیں۔ مظہر اقبال سندھو پیپلز پارٹی کے رہنما اور پراسیکیواٹر جنرل پنجاب سید زاہد حسین بخاری کے جونیئر رہے ہیں ۔ فرخ عرفان خان کمپنی قوانین کے ماہر جانے جاتے ہیں اور ان کی وابستگی وکیل رہنما حامد خان گروپ سے ہے۔نئے ججوں میں چار جوڈیشل افسروں کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا ہے ان میں رو ¿ف احمد شیخ، شیخ احمد فاروق، نسیم اختر اور سید اخلاق احمد شامل ہیں۔ان جوڈیشل افسروں میں شیخ احمد فاروق اور نسیم اختر ریٹائر ہوچکے ہیں اور پہلی مرتبہ ریٹائرد جوڈیشل افسروں کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا ہے۔دیگر ججوں میں خالد محمود ،سید مظہر علی اکبر نقوی، سردار شمیم خان اور قاسم خان شامل ہیں۔گزشتہ روز وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس کے ملاقات اور رات گئے جاری ہونے والے نئے نوٹیفکیشن کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے جج ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے گذشتہ جمعرات کو سپریم کورٹ کے مستقل جج اور جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے ایڈہاک جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ان جج صاحبان کی سپریم کورٹ میں تقرری کا نوٹیفکیشن وزارتِ قانون اور انصاف نے گذشتہ بدھ کو رات گئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سفارشات کے مطابق جاری کیا تھا۔جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں مستقل ججوں کی تعداد سترہ ہو گئی ہے جبکہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی کے بعد عدالت عظمیٰ میں ایڈہاک ججوں کی تعداد دو ہوگئی ہے۔ جسٹس غلام ربانی بھی سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج کے طور پر کام کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ وزارت انصاف اور قانون کی طرف سے یہ نوٹیفکیشن وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے درمیان وزیر اعظم ہاو ¿س میں بدھ کی شام کو ایک ملاقات کے بعد جاری کیے گئے تھے۔سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جج ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کو سپریم کورٹ میں مستقل جج تعینات کیا گیا ہے جبکہ جسٹس خلیل الرحمان رمدے کو ایڈہاک جج مقرر کیا ہے۔جسٹس خلیل الرحمان رمدے حال ہی میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ان کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں ستر کے قریب خالی آسامیوں پر اکتیس ججوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بائیس اور نو ججوں کو سندھ ہائی کورٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔اس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے بعد وکلاءتنظیموں نے اپنا احتجاج بھی ختم کردیا اور عدالتوں کے بائیکاٹ کی اپیل واپس لے لی۔ سندھ ہائی کورٹ کے نو نئے ججز جمعرات کے روز حلف اٹھایا جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد ستائیس ہو گئی ہے۔صدر آصف علی زرداری کی منظوری کے بعد وزرت قانون و انصاف نے نو نئے ججز کی تعیناتی کی نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ جس کے بعد نثار محمد شیخ، سید ذاکر حسین، سید حسن اطہر، سلمان حامد، زاہد حامد، محمد تسنیم، محمد علی مظفر، امام بخش بلوچ اور عبدالھادی کھوسہ نے حلف اٹھایا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ان سے حلف لیا۔یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی گنجائش چالیس ہے۔چیف جسٹس افتخار چوہدری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کے بعد حکومت نے چیف جسٹس کی سفارشات تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں دو مستقل اور ایک ایڈہاک جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں نو اور پنجاب ہائی کورٹ میں بائیس جج تعینات کر دیے ہیں۔پاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کی تعیناتی کے بعد عدالتِ عظمٰی میں مستقل ججوں کی تعداد سترہ ہو گئی ہے جبکہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کو سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعینات کر دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے ان جج صاحبان اور سندھ ہائی کورٹ میں تعینات کیے جانے والے جج صاحبان نے جمعرات کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے جج جمعہ کو اپنے عہدوں کا حلف لیں گے۔تیرہ فروری سے سترہ فروی تک عدلیہ اور حکومت کے درمیان کھنچاوکی سی جو کیفیت نظر آرہی تھی بظاہر وہ چیف جسٹس کی سفارشات تسلیم کیے جانے کے بعد ختم ہوگئی ہے۔آپ یہ سب کچھ کیسے دیکھ رہے ہیں۔ کیا ان فیصلوں سے عدلیہ اور مقننہ کے درمیان تنازعہ ختم ہوگیا ہے۔ کیا یہ دونوں بڑے ریاستی ستون مستقبل میں آزادانہ طور اپنی ذمے داریاں نبھا سکیں گے۔ عدلیہ کو پابند رکھ کر جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی اور ایک آزاد اور خودمختار عدلیہ ہی ملک کے اندر کسی بھی غیر آئینی تبدیلی کے خلاف فصیل کا کام دیتی ہے۔ آزاد منشا جج ہی مقنقہ اور انتظامیہ کے لیے تقویت کا باعث ہوتے ہیں۔ وکلا تحریک کے بعد حکمران اب خواہ چاہے وردی پوش ہو یا وردی کے بغیر اب اسے یہ جرات نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے علاوہ کوئی بات کر سکے۔ اس بات پر افسوس ہے کہ ملک کی عدلیہ گزشتہ دہائیوں میں وہ کردار ادا نہیں کرسکی کیا جو اسے ادا کرنا چاہیئے اور پاکستان میں عدلیہ ہمیشہ کمزور رہی ہے۔جو لانگ مارچ کیا گیا اس سے عوام میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے جو زندہ انقلاب کی نوید اور پاکستان کے لیے ایک نئے منشور کا اعلان تھا کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالادستی اور آزاد عدلیہ ہوگی۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آئین کے کچھ اصول پر عمل درآمد کیا جائے اور دیگر کو نظر انداز کردیا جائے ۔ ایسا کرنا ملکی بقا اور ترقی کے لیے اچھے نہیں ہے ۔ ملک کے پاس آئین تو ہے لیکن اس آئین کو کبھی تو منسوخ کردیا جاتا ہے اور کبھی معطل۔ ملک آج گوناں گو مشکلات سے دوچار ہے اور پاکستان طوفانوں کی زد میں دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کے دشمن ملک کو اس کے اسٹریٹجک اثاثوں محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام اور میڈیا پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ پارلیمنٹ خود مضبوط بننے کے لیے تیار ہو۔ آزاد عدلیہ کے بغیر جمہوریت بچ نہیں سکتی اور بوٹوں کی آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ آزاد عدلیہ اور مضبوط پارلیمان کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اور آزاد عدلیہ کے لیے مضبوط پارلیمنٹ کا ہونا ضروری ہے۔ اے پی ایس