لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔چودھری احسن پر یمی


گزشتہ ہفتہ کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو برداشت کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان کو 1973ءکا آئین دیا اور ہم نے آئین کے تحت اداروں کا تحفظ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اظہار رائے کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ فاٹا سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ فاٹا میں فوجی آپریشنز کے بعد بہت جلد جمہوری عمل کا آغاز کریں گے اور اس سلسلے میں حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا ہے اس سلسلے میں غربت کی شرح جانچنے کیلئے ایک سروے جاری ہے، جس کے بعد غریبوں کو گھر بیٹھے امداد فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہت جلد آئینی ترمیم لا رہے ہیں، جس کے تحت 1973ءکے آئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کریں گے۔ ہماری حکومت اپنی مدت پوری کریگی اور کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہم پارٹی کو پھر سے منظم کریں گے۔ پارٹی کی دیکھ بھال کرنا پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کی ذمہ داری ہے جبکہ حکومت چلانا میری ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے پنجاب میں 3 اور 5 مرلہ سکیم شروع کرنے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب سے تبادلہ خیال کیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ اگر صوبے میں سرکاری اراضی دستیاب نہیں ہے تو وہ کسی بھی جگہ ان سوسائٹیز کیلئے دو ایکڑ اراضی حاصل کریں جس کیلئے فنڈ فیڈرل حکومت فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا صوبائی وزراءکو بیرون ملک دوروں میں شامل کرنے کیلئے بھی نمائندگی دی جائے گی اور انہیں اسلحہ لائسنس کا بھی کوٹہ فراہم کیا جائے گا۔ جناب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے گذارش ہے کہ جیسا آپ نے کہا ہے کہ حکومت چلانا آپ کا کام ہے تو اس ضمن میں کیا آپ کو معلوم ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اضافے سے عوام مضطرب ہیں اور اگر صورت حال کے تدارک کے لئے اقدامات نہ کیے گئے تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اصلاح احوال کی ضرورت ہے مہنگائی ہی سے متعلقہ ایک دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ جمہوری نظام کے دو سالوں میں مہنگائی تین سو فیصد تک بڑھی۔ ان دو سالوں میں کئی عدالتی و سیاسی بحران آئے اور حکومتی پسپائیوں کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ حکومت نے تمام عرصہ بحران پیدا کرنے اور پھر اس کے خاتمے کی مشق جاری رکھی اور عوام کے مسائل کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا جس کی وجہ سے اب معیشت ایک ایسے مقام پر جاکھڑی ہوئی ہے کہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ وزیراعظم سے حال ہی میں سوال کیا گیا کہ ملک کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا لا اینڈ آرڈر ' دہشت گردی اور لاقانونیت ختم ہو جائے گی تو مہنگائی بھی کم ہو جائے گی۔ عجیب بات ہے حکومت نے جن جیالوں کو نوکریوںپر بحال کیا اور انہیں کئی سالوں کے واجبات بھی ادا کئے ان سے تو یہ نہیں کہا گیا کہ دہشت گردی ختم ہوگی تو پھر انہیںنوکریوں پر بحال کیا جائے گا۔ وزیروں کو بڑی گاڑیاں چھوڑ کر چھوٹی گاڑیوں پر منتقل ہونے کے لئے تو نہیں کہا گیا۔ وزیروں ' مشیروں کی تعداد تو نہیں گھٹائی گئی۔ حکمرانوں نے انپے بیرونی دورے تو کم نہیں کیے۔ ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا 'سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا اس وقت یہ عذر کیوں نہ پیش کیا گیا کہ دہشت گردی ختم ہوگی تو اس وقت تنخواہیں بڑھائی جائیں گی۔ صدر ' وزیر اعظم ' وزیروں ' مشیروں اور بیورو کریٹوں کے تو وہی ٹھاٹ باٹ ہیں۔ پرتعیش ظہرانے ' عصرانے اور عشائیے اسی طرح چل رہے ہیں۔ پوری قوم کو گندا پانی پلاکر خود منرل واٹر پئے جارہے ہیں۔ غریب آدمی بیمار ہو جائے تو اس کے لئے سرکاری ہسپتال سے معمولی درجے کے دوا بھی حاصل کرنا مشکل جبکہ کوئی ایم این اے ' سینیٹر 'وزیر یا مشیر بیمار ہو جائے تو اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال میں وی وی آئی پی وارڈ کا عملہ پہلے سے اس کا منتظر ہوتا ہے۔ کوئی یہاں علاج نہ کرانا چاہے تو بیرون ملک سے بھی علاج کراسکتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق صرف پا رلیمنٹرین کی مفت ادویات کے حصول کیلئے چھپن کروڑ کا بجٹ ہے۔وزیر اعظم کے بقول دہشت گردی کی وجہ سے جو مہنگائی بڑھی طبقہ اشرافیہ کے کتنے لوگ اس کی زد میں آئے۔ ایلیٹ کلاس کے طرز زندگی میں کس قدر فرق پڑا؟ کتنے لوگوں نے اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں سے ہٹا کر سستے سکولوں میںداخل کرایا۔ کتنے لوگوں نے گاڑیوں کا استعمال چھوڑ کر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر شروع کر دیا۔ کتنے لوگوں نے انواع و اقسام کے کھانے چھوڑ کر ون ڈش پر گزارہ شروع کر دیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس طبقے کی زندگی اور لائف سٹائل پر ایک دھیلے کا بھی اثر نہیں پڑا۔ اسی لئے یہ طبقہ آخری طالبان کے زندہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کی بات کرتا رہا۔ پاکستان کے عام آدمی کا تو یہ ایشو ہی نہیں ہے۔ اس کو کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہے' افغانستان میں کون برسر اقتدار ہے۔ کون کس کے اقتدار سے خائف ہے۔ کون کس کے بارے میں کیا تحفظات رکھتا ہے۔ عام آدمی کو عزت کی روٹی چاہیے۔ بیماری کی صورت میں دوا دارو چاہیے اور اتنی آمدنی چاہیے جس سے وہ آبرومندانہ طریقے سے گزر بسر کرسکے۔ کیا تماشہ ہے کہ محنت کش کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہونی چاہیے۔ لیکن فی تولہ سونا36 ہزار روپے ہے جبکہ مزدور کی تنخواہ چھ ہزار روپے ہے۔ اس پر بھی یہ ستم کہ بعض نجی ادارے اس قیامت خیز مہنگائی میں بھی نچلے درجے کے ملازمین کو چار پانچ ہزار روپے تنخواہ دے رہے اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دوسری جانب ٹرانسپورٹ کرایوں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی ملازم راولپنڈی صدر سے روزانہ اسلام آباد آئے اور شام کو واپس پنڈی جائے اور اپنی جیب سے دن کا کھانا بھی کھائے تو اس کی چار پانچ ہزار روپے تنخواہ اسی میں پوری ہو جائے۔ اگر ہم 6 افراد پر مشتمل ایک سفیدپوش متوسط فیملی کا بجٹ بنائیں تو وہ کچھ اس طرح سے بنے گا۔ مکان کا کرایہ 10 ہزار روپے ' یوٹیلٹی بلز 6 ہزار روپے ' بچوں کے سکول کے اخراجات 8 ہزار روپے' کچن کا خرچ20 ہزار روپے ' ٹرانسپورٹ اخراجات 5 ہزار روپے ' بیماری کی صورت میں اوسط اخراجات دو ہزار روپے ' متفرق5 ہزار روپے۔ یہ کل ملا کے ہوئے 56 ہزار روپے جبکہ اوسط درجے کی فیملی کے سربراہ کی زیادہ سے زیادہ آمدنی20 سے 30 ہزار روپے ہے۔ اب اتنے بڑے تفاوت کے ساتھ غریب تو غریب ایک مڈل کلاس آدمی بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وزیراعظم مہنگائی کے خاتمے کو دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر رہے ہیں۔ گویا اگر دہشت گردی مزید کچھ سال چلتی رہی تو مہنگائی بھی بڑھتی رہے گی اور اگلے دو سالوں میں مزید دو سو فیصد تک بڑھ جائے گی تو اس کے بعد کیا ہوگا۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مریں گے یا ایسا خونی انقلاب آجائے گا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ وزیر اعظم ہوں یا صدر انہیں اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ چیف جسٹس سے بات ہوئی اور بحران ٹل گیا۔ جو بحران آنے والا ہے ' عدالتی بحران تو اس کے سامنے کچھ بھی نہ تھا۔ یہ سترہ کروڑ عوام کی زندگی موت کا مسئلہ ہے جو اس وقت زندوں میں شمار ہوتے ہیں نہ مردوں میں۔ انہیںزندہ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت تمام کام چھوڑ کر صرف مہنگائی کو پکڑلے اور اسے کم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کازور لگا دے۔ اگر موجودہ حکومت ایسا نہیں کرے گی تو اسے پاکستانی تاریخ کے پہلے غیر منظم عوامی انقلاب سے واسطہ پڑسکتا ہے اور خام انقلاب بہت ہی خطرناک ہوا کرتا ہے۔اے پی ایس