ہمارا طبقات میں تقسیم معاشرہ...فاطمہ بھٹو


12سالہ کمسن ملازمہ جو ایک بااثر شخص کے گھر میں کام کرتی تھی قتل کردی گئی۔ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تاہم فاطمہ بھٹو کہتی ہیں کہ ”کرپٹ حکومت سے لے کر، غیرت کے نام پر، کسی دولت مند خاتون کے قتل کو ہمیشہ دولت ہی کے پردے سے ڈھانپا گیا ہے۔ “بارہ برس کی چھوٹی سی لڑکی جو اپنی عمر سے کہیں چھوٹی دکھائی دیتی تھی، گزشتہ ہفتے سپرد خاک کر دیا گیا لاہور کے ایک کیتھڈرل چرچ میں اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں… وہ ایک گھر میں ملازمہ کی حیثیت سے کام کر رہی تھی اور فقط سات سو روپے ماہانہ کے عوض وہ پورے گھر کے ٹائلٹس ، گاڑیاں اور گندگی وغیرہ صاف کرنے کا کام کیا کرتی تھی۔ جس کے گھر کام کرتی تھی اس کا کہنا ہے کہ اسے جلد کی بیماری تھی جس نے بالآخر اس کی جان لے لی… اس کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ اس کے خون میں زہر شامل تھا… ابتدائی طبی رپورٹوں میں موت کا کوئی سبب بیان نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے، اس میں سترہ کے قریب گہرے زخموں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں اس کی پیشانی پر چوٹ کے نشان اور چہرے پر سوجن کا ذکر کیا گیا ہے۔مزید تفصیلات ابھی آنا باقی ہیں لیکن ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس کی موت طبعی طریقے سے نہیں ہوئی۔ مقامی اخبارات اس کی لہولہان تصاویر سے بھرے پڑے ہیں۔ اخبارات میں کہیں سے بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ کسی قسم کی جلدی بیماری میں مبتلا رہی ہو گی ۔ ہمارا معاشرہ دو واضح اور نمایاں طبقات میں تقسیم ہے۔ ان طبقات کے مابین ایک واضح لکیر موجود ہے جو بتاتی ہے کہ ایک طبقہ ایسا ہے، جوقتل کرنے کے بعد بھی قانون اور عدالتوں کو جواب دہ نہیں ہوتا جب کہ دوسرا طبقہ ایسا بھی ہے جسے قانون اور انصاف تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہے۔بلاشبہ اس لڑکی کا قتل روح فرسا اور المناک ہے تاہم یہ جان کر کسی کو بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے قاتلوں کو کبھی سزا نہیں ملے گی ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیدار جن میں صدر مملکت سے لیکر وزیر اعظم تک شامل ہیں انہیں کرپشن ،قتل، منشیات کی اسمگلنگ ،اغوا برائے تاوان اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے مکمل طور پر استثنیٰ حاصل ہے تاکہ وہ پاکستان کی قیادت کرتے ہوئے امریکیوں کے لئے راستہ ہموار کرتے رہیں اور یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا کی بھرپور حمایت اور تائید کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔ لوگ وی آئی پی کلچر سے آخر خوف زدہ کیوں ہیں؟؟؟ اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ وی آئی پی کلچر نے ملک کے عوام کی اکثریت کو انصاف کی فراہمی سے محروم کر رکھا ہے جس کی بدولت بااثر طبقات انصاف سے محروم رہ جانے والوں پر ہنستے ہیں۔ہم اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ ایک ایسی لڑکی جس کی عمر ابھی اسکول جانے کی تھی اسے بحالت مجبوری اس ملازمت کو کرنا پڑا اور انتہائی کم پیسوں پر ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قتل کے مجرم کو بہرحال سزا ملنی ہی چاہئے لیکن جب کوئی قانون اور انصاف سے بالاتر ہو تو ایسی باتوں کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہے۔یہ1999ء کی بات ہے جب29سالہ سمیعہ سرور لاہور میں اپنے وکیل کے دفتر میں بیٹھی تھی اس کی شادی اس کے ایک کزن سے کر دی گئی تھی جو ایک تشدد پسند شخص تھا ۔ اب وہ اس شخص سے طلاق حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس کے دو بچے بھی تھے بہرکیف بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے کسی دوسرے آدمی سے محبت ہوگئی تھی جو آرمی کا ایک ہینڈسم کیپٹن تھا اور وہ اب اس سے شادی کی خواہشمند تھی ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے ظالم شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی۔ سمیعہ کا باپ ایک امیر اور کامیاب تاجر تھا ۔ اس کی ماں ڈاکٹر تھی۔ چنانچہ سمیعہ کا تعلق پاکستان کے متمول طبقے سے تھا۔ بہرحال اب وہ اپنے شوہر کے گھر سے بھاگ کر ایک عورت کے ہاں مقیم تھی تاکہ اپنے شوہر سے طلاق حاصل کر سکے ، ایک دن اس کی ماں نے کہا کہ وہ وکیل کے دفتر میں اس سے ملاقات کرنا چاہتی ہے لہٰذا سمیعہ اپنی ماں کا انتظار کرنے لگی جو اس کے وکیل کی بلڈنگ میں ایک نوجوان کے ہمراہ داخل ہو رہی تھی جسے سمیعہ بالکل بھی نہیں پہچانتی تھی۔ اس کی ماں کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ عمر رسیدہ ہے اور چل نہیں سکتی، اس لئے یہ نوجوان اسے یہاں لے کر آیا ہے۔ جونہی سمیعہ کی ماں ،وکیل کے دفتر میں داخل ہوئی اس نوجوان نے پستول نکالا اور سمیعہ کے سر میں گولی داغ دی ۔ اس نے سمیعہ کے وکیل کو بھی مارنے کی کوشش کی لیکن اس کا نشانہ چوک گیا۔میں نے سمیعہ کی خون میں نہائی ہوئی لاش کی تصاویر دیکھی تھیں۔ اس کے وکیل کا تعلق بھی وکلاءبرادری کے معزز طبقے سے تھا۔ اس قتل کا عینی شاہد اور گواہ تھا جو غیرت کے نام پر کیا گیا تھا ۔ اس کا باوجود سمیعہ کا قاتل آج تک گرفتار نہیں ہو سکا۔ سمیعہ کے والدین بھی بدستور آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ برادری کے معزز اراکین میں ان کا شمار ہو تا ہے۔ ہمارا معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔ جہاں امیر انصاف اور قانون سے بالاتر ہیں جب کہ غریب کو قانون تک۔ انصاف کے حصول تک۔ کوئی رسائی حاصل نہیں ہے۔