سیاسی مداخلت سے عاجز شوکت ترین کا استعفٰی۔چودھری احسن پر یمی


وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی مستعفی ہونے کی وجہ کی خبریں،تجزیے اور قیاس آرائیاں یہی ملی ہیں کہ ملک میں بدعنوانی سے حاصل کردہ رقم بڑے بڑے لوگوں کی جیب میں جا رہی تھی اور مفاد رکھنے والی ان قوتوں کی ’دم پر پاوں‘ رکھنے میں سیاسی جرات درکار تھی۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں بدعنوان اداروں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل بھی دیا گیا تھا لیکن وہ بھی بے نتیجہ رہا۔ موجودہ حکومت کے دور میں جن اداروں میں اربوں کروڑوں کی بدعنوانی کی گئی ہے ان میں قومی ایئر لائن پی آئی ای، رینٹل پاور پلانٹس، سٹیل ملز، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، او جی ڈی سی، ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹیز، نیشنل بینک اور دیگر ادارے شامل ہیں۔جبکہ اسی طرح کی کئی ایک وجوہات تھیں جن کے پیش نظر وزیرِ خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا ہے۔ شوکت ترین نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کردیا ہے۔انہوں نے استعفے کی وجہ اگرچہ بظاہر ذاتی مصروفیات بیان کی ہیں لیکن بعض مبصرین کا کہناہے کہ اصل حقائق کچھ اور ہیں؟ جبکہ شوکت ترین نے حکومت سے اختلافات کی تردید کی اور کہا کہ ان کے اس فیصلے سے صدر زرداری اور وزیراعظم ان سے خوش نہیں ہیں۔ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ وزرات کی وجہ سے ان کے بینکاری کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ سلک بینک میں شوکت ترین کے چھیاسی فیصد حصص ہیں اور نئے سرمایہ کاروں کا یہ مطالبہ تھا کہ وہ بینک کے کاروبارکو مکمل وقت دیں۔شوکت ترین کے استعفے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں کئی روز سے گردش کر رہی تھیں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم نے گذشتہ پیر کو میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران اس بات کا اشارہ بھی دیا تھا۔ وزیر اعظم نے دورانِ ملاقات سابق وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کو بتایا تھا کہ ’ہمارے وزیر خزانہ بھی جا رہے ہیں‘۔ مائیک آن ہونے کی وجہ سے یہ بات میڈیا تک پہنچ گئی تھی اور اگلے روز سے یہ اطلاعات چلنے لگی تھیں کہ شوکت ترین مستعفی ہوگئے ہیں۔ شوکت ترین جولائی سنہ دو ہزار نو میں سندھ سے علماءاور ٹیکنوکریٹس کے لیے مخصوص سینیٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے جس کے بعد انہیں باقاعدہ طور پر پاکستان کا وزیرِ خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ وزیراعظم کے مشیرِ خزانہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول اور قومی مالیاتی ایوارڈ میں ان کا کردار اہم رہا ہے۔گذشتہ پیر کو الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹرز کے اثاثوں کی جو فہرست مرتب کی گئی اس کے مطابق شوکت ترین پاکستان کے امیر ترین سینیٹر ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت اربوں روپے ہے۔شوکت ترین کے پاس چوّن کروڑ پچپن لاکھ کی جائیداد، دو کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں اور مختلف مالیاتی اداروں اور بینکوں میں تین ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی ہے۔وزیر اعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین نے سندھ سے خالی ہونے والی سینٹ کی نشست کے لیے کراچی میں کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے علاوہ پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ اور فنکشنل مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی بھی ان کے ہمراہ تھے۔سینٹ کی یہ نشست پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر جاوید لغاری کی جانب سے پارٹی قیادت کی ہدایت کے تحت استعفے دئے جانے کے بعد خالی ہوئی تھی تاکہ شوکت ترین کو منتخب کرا کے وزیر خزانہ کا قلمدان سونپا جا سکے جو وزیر اعظم کے مشیر خزانہ کے طور پر کام کر رہے تھے۔شوکت ترین کی جانب سے تین کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جن میں ان کے تجویز کنندگان اور تائید کنندگان میں پیپلز پارٹی کے صوبائی وزراء ایاز سومرو، آغا سراج درانی، ذوالفقار مرزا اور میر نادر مگسی کے علاوہ پیر پگارا کی فنکشنل مسلم لیگ کے جام مدد علی اور رانا عبدالستار بھی شامل تھے۔کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے دوران صورتحال اس وقت دلچسپ ہوگئی تھی جب وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ صحافیوں سے بات چیت کے دوران شوکت ترین کو دو بار شوکت عزیز کہہ بیٹھے اور باتوں کے دوران وہ سہواً یہ بھی کہہ گئے کہ شوکت ترین کا تعلق سرائیکی صوبے سے ہے۔ ہر بار اپنی غلطی کی انہوں نے فوری تصحیح کی۔ اس موقع پر شوکت ترین کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ان کی کوشش ہوگی کہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کے معاملے میں چھوٹے صوبوں کی شکایات کو دور کریں اور ہر صوبے کو اسکا حق ملے۔’وزیر خزانہ کو این ایف سی کے سربراہ کے طور پر غیرجانبدار ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوا اور ایک صوبے کا حق دوسرے کو دیا گیا جس کی وجہ سے مسئلے پیدا ہوئے۔‘ایک سوال پر انہوں نے واضح کیا تھاکہ وہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے مختلف ہیں۔ ’میں ترین ہوں۔ وہ عزیز تھے۔ وہ شاید وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتے تھے مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں۔‘وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ شوکت ترین کی نامزدگی کسی فرد واحد کا نہیں پارٹی کا فیصلہ تھا جس کی تمام اتحادی جماعتوں نے بھی حمایت کی ہے اور ان کے بقول یہ فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا ۔اگرچہ شوکت ترین کو وزیر اعظم کے مشیر خزانہ کی حیثیت سے وفاقی وزیر کے اختیارات حاصل تھے لیکن وزیر خزانہ کا عہدہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پاس تھا۔وزیر خزانہ مقرر ہونے کے بعد شوکت ترین صوبوں میں مالی وسائل کی تقسیم کے لیے قائم نیشنل فنانس کمیشن کی سربراہی بھی کی پاکستان میں مرکز کے ہاتھوں چاروں صوبوں میں مالی وسائل کی تقسیم کا معاملہ اہم ترین وفاقی مسئلہ بنا رہا ۔ صوبہ پنجاب کے سوا دوسرے تینوں صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کے فارمولے پر اعتراض تھا جس کے تحت آبادی کی بنیاد پر مالی وسائل تقسیم کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم میں چھوٹے صوبوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں انھوں نے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔جبکہ دیگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر سیاسی وزیرخزانہ شوکت ترین کے استعفے کی ذاتی وسیاسی سمیت متعدد وجوہات ہیں لیکن حکومت سے ان کی علیحدگی سے جو ایک نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ملکی معاشی پالیسیاں ابھی تک سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد نہیں ہو سکیں۔معاشی پالیسیوں میں سیاسی مداخلت سے عاجز شوکت ترین اسی وقت فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ جلد از جلد کاروبار حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے ۔ملکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے سیاسی حکومت نے شوکت ترین کے اصرار پر کچھ کڑوے گھونٹ بھرے وہیں متعدد اہم معاملات پر شوکت ترین کے فیصلوں کو سیاسی مصلحتوں کا شکار بھی بنایا گیا۔۔ڈیڑھ برس قبل جب شوکت ترین نے حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کو معاشی نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا اسی وقت معاشی و سیاسی امور پر نظر رکھنے والے سمجھ گئے تھے کہ پاکستان کو مالیاتی دیوالیہ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف جو شرائط منوائے گا ان پر عمل کرنا سیاسی حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔سیاست اور معیشت کے درمیان یہی تضادات آگے چل کر ’ٹیکنو کریٹ‘ وزیرخزانہ کے معاشی وژن اور حکومت کے سیاسی عزائم کے درمیان تضادات کا باعث بنے۔گو کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے، بعض ذرائع کے مطابق، مختلف مواقع پر اپنی کابینہ اور پارٹی اراکین پر شوکت ترین کی رائے کو فوقیت دی جس کی ایک مثال بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ٹیکس اصلاحات کا منصوبہ جب بحث کے لیے حکومتی زعما کے سامنے پیش کیا گیا تو حکومت کے ایوانوں میں جیسے کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ شوکت ترین زرعی ٹیکس کے نفاذ سمیت بعض ایسی تجاویز پیش کرنے کی گستاخی کر بیٹھے جس نے انہیں حکومتی اشرافیہ کے لیے ناقابل برداشت بنا دیا۔یہ شوکت ترین ہی کے اعتراضات تھے جن کی بنیاد پر وزیراعظم نے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے تجویز کردہ کرائے کے بعض بجلی گھروں کے منصوبے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان منصوبوں کے خاتمے سے پرویز اشرف کا گزشتہ برس بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ان ’مہنگے‘ بجلی گھروں کے نہ آنے سے قومی خزانہ غیر ضروری مالی بوجھ سے محفوظ رہا۔ شوکت ترین کو یہ بھی یقین تھا کہ ٹیکس وصولی کی شرح کو بہتر بنائے بغیر ملکی معیشت کو ایک مسلسل خسارے سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ فرق صرف یہ تھا کہ شوکت ترین اس پر شدت سے ساتھ عمل کرنے کے خواہاں تھے۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ٹیکس کے جال کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک جامع منصوبے کے ذریعے ان بڑے بڑے کاروباروں اور افراد کو پکڑنے کا پروگرام بنایا جو اربوں روپے کماتے اور ہزاروں میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔شوکت ترین نے حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات پر ہمیشہ مخالفت کی۔ حکومت نے تیس جون دوہزار نوکو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ میں مختص کردہ رقوم سے تقریباً پونے دو کھرب روپے اضافی اخراجات کیے تھے۔اضافی اخراجات میں سب سے زیادہ رقم بیرونی اور اندرونی قرضہ جات اور ان پر سود کی ادائیگی کے مد میں صرف ہوئی جب کہ دوسرے نمبر پر دفاع، دفاعی پیداوار اور دفاعی ڈویزن کی ’اہم دفاعی ضروریات‘ کی مد تھی جس کے لیے تقریباً پونے اٹھارہ ارب روپے استعمال کیے گئے۔دفتر خارجہ نے مختص کردہ بجٹ سے ایک ارب اٹھاون کروڑ روپے زیادہ خرچ کیے۔ جس میں صدر کے بیرونی دوروں کے مد میں سات کروڑ، بینظیر بھٹو کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن پر تقریباً چار کروڑ روپے، افغان جرگہ منعقد کرنے پر ایک کروڑ روپے اور ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے شامل تھے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دفتری امور پر سترہ کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کیے گئے، جس میں لاہور اور ملتان میں کیمپ آفس کے اخراجات بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نے بچت مہم شروع کی تھی اور اخراجات میں کمی کا اعلان کیا تھا۔وزیراعظم نے قومی احتساب بیورو کو پہلے ختم کرنے اور بعد میں وزارت قانون کے ماتحت کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن احتساب بیورو نے بھی مختص کردہ بجٹ سے تقریباً اکیس کروڑ روپے اضافی خرچ کیے۔ جبکہ اٹامک انرجی کمیشن نے انیس کروڑ روپے اضافی اخراجات کیے ۔ سپریم کورٹ نے اٹھارہ کروڑ انسٹھ لاکھ روپے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے تقریباً دو کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کیے۔معاشی ترقی کے لحاظ سے مالی سال (جولائی 2008 تا جون 2009 ) پاکستان کی تاریخ کے بدترین سالوں میں سے ایک تھا کیونکہ اس سال معاشی ترقی کی شرح گزشتہ اڑتیس برس کی کم ترین سطح پر رہی تھی۔ اس سال افراط زر کی مجموعی شرح بائیس فیصد سے زائد رہی جبکہ زراعت کے علاوہ معیشت کا کوئی بھی شعبہ طے شدہ ہدف کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ اس وقت خزانے کے لیے وزیراعظم کے مشیر شوکت ترین نے ملکی معیشت میں ترقی کی شرح دو اعشاریہ دو فیصد رہ جانے کی وجوہات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ملکی معیشت کو ہونے والے نقصانات کو سرفہرست قرار دیا۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث ملک میں سرمایہ کاری توقع کے مطابق نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے نہ صرف نجکاری کا پروگرام متاثر ہوا بلکہ صنعت، خدمات اور دیگر کوئی بھی شعبہ ہدف کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ چار برس تک مستحکم سطح پر رہنے والی پاکستانی کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں اکیس فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوئی۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت میں اس کمی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں پایا جانے والا معاشی بحران تھا جس کی وجہ سے دنیا کی تقریباً تمام معیشتوں نے ہی توقع کے مطابق کارکاردگی نہیں دکھائی تھی۔ غربت سے متعلق اعداد و شمار شامل نہیں کیے گئے تھے۔ سابق حکومت نے غربت کے بارے میں جو اعداد دیے وہ درست نہیں تھے ۔تاہم انہوں نے اندازہ ظاہر کیا کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی شرح تیس فیصد سے زائد ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’اعداد و شمار بھی آ جائیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک میں لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ گلی محلوں میں جائیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ مہنگائی میں لوگ کس طرح پس رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے اسی لئے حکومت کی توجہ غربت ختم کرنے کے پروگرام کی جانب زیادہ ہے ۔بجلی، تیل اور توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتوں میں اضافے اور کسی حد تک ان کی عدم دستیابی کے باعث صنعتوں کی کارکردگی منفی رہی۔ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی شرح نمو منفی تین فیصد جبکہ بڑی صنعتوں میں منفی سات فیصد سے بھی زیادہ رہی۔ خدمات کے شعبے نے ساڑھے تین فیصد کی شرح سے ترقی کی جبکہ اس کے لیے چھ فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس شعبے نے ساڑھے چھ فیصد کے تناسب سے ترقی کی تھی۔ فی کس آمدنی کی شرح میں ہونے والا اضافہ بھی بہت معمولی ہے۔ گزشتہ برس فی کس آمدنی ایک ہزار بیالیس ڈالر تھی جبکہ اس سے اگلے سال اس میں صرف چار ڈالر کا اضافہ ہوا ۔ ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری بھی کم رہی۔ملکی مجموعی معیشت کے حساب سے سرمایہ کاری کا تناسب بائیس سے کم ہو کر ساڑھے انیس فیصد ہو گیا۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث ملک میں سرمایہ کاری توقع کے مطابق نہیں ہوئی جس کی وجہ سے نہ صرف نجکاری کا پروگرام متاثر ہوا بلکہ صنعت، خدمات اور دیگر کوئی بھی شعبہ ہدف کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکا۔گزشتہ برسوں کے دوران ملک پر قرضے کے بوجھ میں کمی ریکارڈ کی جارہی تھی لیکن اس سال یہ صورتحال بھی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں ملکی معیشت کی مقدار کے تناسب سے دو فیصد اضافہ ہوا۔ مجموعی قرضوں کی مقدار ملکی معیشت کا ساڑھے پچپن فیصد بنتے تھے جواگلے سال بڑھ کر ساڑھے ستاون فیصد ہو گئے۔ ملکی برآمدات اور درآمدات میں بھی کمی ہوئی۔ درآمدات میں کمی کی بڑی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی تھی۔ انیس ارب کا برآمدی ہدف پورا نہیں ہوا اس کے باوجود عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی کے باعث تجارتی خسارے میں معمولی بہتری دیکھی گئی۔بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان میں بھیجی گئی رقوم میں بیس فیصد کے قریب اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ مستحکم سطح پر رہنے والی پاکستانی کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کا شکار ہوئی۔شوکت ترین کا شمارموجودہ حکومت میں ایک دیانتدار وزیر میں ہوتا تھا۔جسے اللہ تعالی نے جتنا نوازا ہواتھا اس پر شکر بجالانے والوں میں تھے ان کی آنکھوں میں بھو ک نہیں تھی شوکت ترین اس ملک کی ترقی و استحکام کیلئے اپنی خدمت پیش کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے اس نیک مشن کے سامنے حکومت میں شامل کرپٹ مافیا آئے روز سپیڈ بریکر بناتا گیا۔کیو نکہ حکومت میں شامل کرپٹ مافیا چاہتا تھا کہ غیر ملکی حاصل کئے گئے قرضے غیر ترقیاتی کاموں عیاشیوں اور ذاتی جیبوں میں ڈالیں جائیں۔جبکہ شوکت ترین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ قرضے لینا بری بات نہیں لیکن ان قرضوں کا غلط استعمال ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہے۔جبکہ شوکت ترین سے قلمدان چھیننے کی دوسری ایک وجہ شوکت ترین کی یہ بھی تجویز تھی کہ ملک پر قابض اور پارلیمنٹ پر براجمان جاگیرداروں پر بھی زرعی ٹیکس لگا یا جائے لیکن انھوں نے زرعی ٹیکس دینے کی بجائے شوکت ترین کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔جو کہ پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے جن کے جسم سے خون نچوڑ کر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ شوکت ترین جیسے دیانت داروں پر پاکستان کے عوام کو فخر ہے ۔شوکت ترین پاکستان کے عوام کے دلوں میں رہتے ہیں۔اے پی ایس