پاک بھارت کشیدگی اور امریکہ۔اے پی ایس


پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں بھارتی ہٹ دھرمی پر مایوسی اور افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں عالمی برادر ی کو چاہیے کہ وہ بھارت کو تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بامعنی بات چیت پر امادہ کرے تاکہ خطہ میں پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کی کو ناکامی دراصل یہ مذاکرات نہیں بھارت کا طلب کردہ اجلاس تھا جس مین بھارت نے پاکستان کو چارج شیٹ پیش کی۔ بھارت مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ مذاکرات کو پاکستان پر دباو بڑھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ،پاکستان کو اس صورتحال پر مذاکرات اور کشمیر پالیسی کا پھر سے جائزہ لینا ہوگا ۔پاکستان بھارت کے جھانسے میں نہ آئے بلکہ جارحانہ انداز میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے اقدامات کرے ۔ حالیہ پاک بھارت مذاکرات کو فریب اور دھوکہ بازی ہی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی نیت شروع دن سے ہی خلوص پر مبنی رہی ہے تاہم بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کی فضول مشق کا سہارا لیتے ہوئے بین الاقوامی رائے عامہ گمراہ کر نے کی کوشش کی ہے اور آج بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے ۔ ان مذاکرات میں اہل کشمیر کے لئے خیر کی کوئی خبر بر آمد ہو نے والی نہیں تھی ۔ امریکہ بھارت کا اتحادی ہے اور وہ بھارتی مفادات کا بڑھ چڑھ کر حفاظت کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان اور بھارت کو ایک بار پھر وقت کے زیاں کے لئے میز پر بٹھایا ۔ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سے ملاقات کا تب تک کوئی فائدہ نہیں جب تک حکومت پاکستان یہ اعلان نہ کر ے کہ وہ بھارت کے ساتھ صرف کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کر رہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں پر یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ بھارت جس فریب کا ری کا سہارا لے رہا ہے اس کا مقصد کشمیر کو سرد خانہ کی نذر کر نا ہے۔ اس خطے کا سب بڑا مسئلہ کشمیر کا تنازعہ ہے یہ حل ہوجائے تو تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ بلوچستان کا مسئلہ کشمیر کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ بھارت چاہتا ہے کہ ٹیبل پر جب بیٹھا جائے تو بیک وقت کشمیر اور بلوچستان پر بارگینگ کی جا سکے۔ کشمیر میں جاری خوف وہراس ،ماردھاڑ اور پکڑ دھکڑ کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اگر چہ کشمیر ی عوام کو ان مذاکرات میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی تھی کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر رونما ہو نے والے سیاسی واقعات کے نتیجہ میں بھارت پر پا کستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر نے کیلئے دبا وبڑ ھ رہا ہے ۔ حالیہ پاک بھارت مذاکرات اس عالمی دبا وکو کم کر نے کیلئے ایک رسمی کاروائی تھی تا ہم ان مذاکرات کی کا میابی کا دارومدار بھارت کے رویے پر منحصر تھا ۔کشمیر ی عوام بھارتی حکمرانوں سے ا س وعدے کا نباہ چا ہتے ہیں جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جو اہر لال نہرو نے 1947ءمیں تقسیم ہند کے وقت کشمیری قوم سے کیا تھا کہ مناسب وقت آ نے پر کشمیر ی قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر نے کا موقعہ دیا جا ئیگا۔ بھارت اور پا کستان کے درمیان جتنے بھی حل طلب مسائل ہیں اگر ان سب پر بات چیت نہیں ہو تی ہے تو کشمیری عوام کو بہت مایوسی ہوگی اسلئے کہ مسئلہ کشمیر پر بات نہ ہونے کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پا ما لیاں جاری رہیں گی۔بھارت کا دو روزہ دورہ مکمل کرکے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کی سربراہی میں پاکستانی وفد جب واہگہ بارڈر کے راستے وطن واپس پہنچا ۔اس موقع پر سیکرٹری جارجہ نے کہا کہ بھارت سے کہا ہے کہ مذاکرات برائے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں،جبکہ بھارت چھوٹے معاملات پر بات چیت اور پاکستان جامع مذاکرات چاہتا ہے۔ واہگہ بارڈر پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سے تفصیلی ملاقات ہوئی، بھارتی قومی سلامتی کے سکیورٹی مشیر شیو شنکر منین اور بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا سے بھی ملاقات ہوئی۔ مذاکرات کا مقصد یہ جاننا تھا کہ بھارتی رویے میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے مذاکرات میں کشمیر پانی اور دیگر مسائل پر فوکس کیا جبکہ بھارت کے پاس دہشت گردی کے علاوہ کوئی ایشو نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ صرف مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہیں، جس کیلئے ہائی لیول مذاکرات کی تجویز بھی دی ہے۔ جامع مذاکرات کی بحالی اعتماد کی فضا قائم کرنے کا بڑا ذریعہ ہونگے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں پاکستان کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا ہے۔بھارت میں عوامی رائے ہموار کرنے کیلئے رہنما موجودہ ماحول تبدیل کریں۔سلمان بشیر کا کہناتھا کہ دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور بھارت کو صاف صاف کہہ دیا ہے اس کی ذمہ داری پاکستان پر نہ تھونپی جائے اور جامع مذاکرات کو دہشت گردی کے ہاتھوں یرغمال نہ بننے دیں۔ پاکستانی لیڈر شپ اور عوام بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ گیند اب بھارت کے کورٹ میں ہے، انہیں کہا ہے کہ وہ کھلے دماغ کے ساتھ معاملات کا جائزہ لیں۔ دونوں ملکوں کا میڈیا تعلقات کی فضا بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جامع مذاکرات کیلئے روڈ میپ بھارتی وزیرخارجہ کے حوالے کیا ہے ، انہوں نے نہ اسے قبول کیا ہے اور نہ ہی رد۔ پاک بھارت مذاکرات میں امریکی کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔ گذشتہ سترہ فروری کوامریکی سینیٹر جان کیری نے کہا تھا کہ پا کستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا عمل امریکہ کے لیے بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔جان کیری امریکی سینیٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’نہ صرف ہندوستان کے لیے بلکہ ہم سب کے لیے شدت پسندوں سے لاحق خطرات ختم کرنے میں پاکستان کا اہم کردار ہے لہذا یہ بات چیت امریکہ کہ لیے بھی بہت اہم ہے۔’ہم نے (پاکستان کی خفیہ ایجنسی) آئی ایس آئی کے ساتھ کام کیا اور آئی ایس آئی نے طالبان کے ساتھ۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس علاقے سے امریکہ کی توجہ ہٹ گئی اور یہ مسئلہ اپنی جگہ قائم رہا۔ لہذا ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے میں( پاکستان کی) مدد کرنی ہے۔جان کیری نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر جارج بش کے خلاف صدارتی انتخاب بھی لڑا تھا اور وہ کیری لوگر بل کے بانی بھی ہیں جس کے تحت امریکی کانگریس نے پاکستان کے لیے ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد منظور کی تھی۔ہند پاک تعلقات کے تناظر میں جان کیری نے کہا کہ باہمی بات چیت انتہائی ضروری ہے۔ ’میرے خیال میں اس سوچ سے بچنا چاہیے کہ ایک ملک (دہشت گردی کے خلاف) اتنی کارروائی نہیں کررہا جتنی اسے کرنی چاہیے۔ اس بارے میں بیٹھ کر بات کرنا انتہائی ضروری ہے کہ کیا کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ بات نہیں کرتے تو حالات مزید بگڑتے ہیں۔ کیا پاکستان مزید کچھ کر سکتا ہے؟ بالکل! اور ہم نے اس بارے میں پاکستان سے بات کی ہے اور کرتے رہیں گے۔‘طالبان بہت طرح کے ہیں، وہ ہیں جو افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آئے ہیں، وہ نوجوان بھی ہیں جو بے روزگاری کی وجہ سے ان سے جڑ گئے ہیں اور پھر جرائم پیشہ لوگ بھی ہیں جو طالبان کی طاقت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔۔۔ لہذا ان میں فرق ہے اور ان کی محرکات میں بھی۔ میرے خیال میں وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی تو حالات میں بہت سدھار آئے گا۔۔۔اور پھر میرے خیال میں طالبان کو بہت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیکرٹری سطح کے مذاکرات پچیس فروری کو ہوئے ہیں اور دلی میں ایک تاثر یہ ہے کہ حکومت نے پاکستان سے اس وقت تک بات نہ کرنے کا موقف کہ جب تک وہ شدت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کرتا، امریکہ کے دباومیں تبدیل کیا ہے۔جان کیری نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کے ساتھ کسی ممکنہ سویلین جوہری معاہدے کا انحصار دوسرے عوامل کے علاوہ ہندوستان سے اس کے تعلقات کی نوعیت پر بھی ہوگا۔’ اگر ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں گراں قدر تبدیلی آجائے، اگر دونوں ملکوں میں مصالحت ہو جائے، اور پاکستان لشکر اور دوسرے شدت پسند گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے، تو پھر آپ دوسرے امکانات کے بارے میں بھی بات کرسکتے ہیں۔۔۔لیکن ہندوستان کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے جوہری ٹیکنالوجی کا پر امن مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور کسی اور کو یہ ٹیکنالوجی فراہم نہیں کی ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان کا ریکارڈ یہ رہا ہے کہ اس نے جوہری ٹیکنالوجی دوسروں تک پہنچائی ہے۔۔۔لہذا بہت سی چیزیں ٹھوس انداز میں بدلنی ہوں گی اور حالات سازگار ہوں تو ہم اس بارے میں بھی بات کرسکتے ہیں‘۔میرے خیال میں اس سوچ سے بچنا چاہیے کہ ایک ملک (دہشت گردی کے خلاف) اتنی کارروائی نہیں کررہا جتنی اسے کرنی چاہیے۔ اس بارے میں بیٹھ کر بات کرنا انتہائی ضروری ہے کہ کیا کیا جانا چاہیے۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ طالبان کو بنانے میں امریکہ نے بھی مدد کی تھی لہذا موجودہ صورتحال کے لیے جزوی ذمہ داری امریکہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ ہم سب کو معلوم ہے کہ طالبان کیسے وجود میں آئے تھے۔ ہماری بھی جزوی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم نے بھی افغانستان میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے طالبان کو کھڑا کرنے میں پاکستان کی مدد کی تھی‘۔’ہم نے (پاکستان کی خفیہ ایجنسی) آئی ایس آئی کے ساتھ کام کیا اور آئی ایس آئی نے طالبان کے ساتھ۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس علاقے سے امریکہ کی توجہ ہٹ گئی اور یہ مسئلہ اپنی جگہ قائم رہا۔ لہذا ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے میں( پاکستان کی) مدد کرنی ہے۔اے پی ایس