ملک کے ستر فیصد عوام دو وقت کی روٹی کھانے سے محروم۔اے پی ایس


جنوبی ایشیا کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا بائیس فیصد ہے لیکن یہاں پر دنیا کے چالیس فیصد غریب بستے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی کی شرح مسلسل بڑھتی رہی ہے لیکن اس کا غربت کی کمی پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑا۔ غربت محض آمدنی کی کمی ہی نہیں بلکہ حقیقت میں زندگی کی ترقی کے مواقع میسر نہ ہونا ہے۔ پاکستان حکومت کی جانب سے غربت میں قابل ذکر حد تک کمی لانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت نے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ پاکستان میں جو غربت کی صورتحال ایک دہائی پہلے تھی آج بھی اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ تخفیفِ غربت کے جتنے بھی پروگرام حکومتی انتظام کے تحت چل رہے ہیں وہ غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ حکومتی پروگرامز کی ناکامی کی اہم وجوہات کمزور انتظامی صلاحیت، بدعنوانی، نگرانی کا مناسب انتظام نہ ہونا، غیر ضروری اور پیچیدہ طریقہ کار سامنے آئی ہیں۔پاکستان کی آبادی کی اکثریت ایک ڈالر یومیہ آمدن سے بھی کم پر زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ ستر فیصد لوگ صفائی اور کھانے جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ پاکستان کی بالغ آبادی کی اکثریت پڑھنے لکھنے سے بھی قاصر ہے اور اتنی بڑی تعداد میں ناخواندہ افراد پاکستان کو ایک بڑا ان پڑھ ملک شمار کرتے ہیں۔ آج ملک کے دوتہائی لوگوں کا بنیادی مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے جبکہ 30 فیصد لوگ دہشت گردی اور بدامنی کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں تاہم بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اور ملک کے 70فیصد عوام حکومتی کارکردگی کو ناقص اور ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ مہنگائی ، بیروزگاری ، دہشت گردی اور بدامنی کے بعد دیگر مسائل کو صرف 5 فیصد لوگ بنیادی مسئلہ گردانتے ہیں ۔ اگر حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عوام پر اپنا اعتماد بحال کرے اور مسائل کے حل کی فہرست میں مہنگائی ، بیروزگاری کے خاتمے کو ترجیحات میں اولین جگہ دے اور گڈ گورننس پیدا کرے۔ آج صرف 31 فیصد لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی قابل قبول ہے جبکہ اکثریت یعنی 70 فیصد عوام حکومت کی کارکردگی کو ناقابل قبول اور ناقص قرار دیتی ہے۔ اتنے بڑے ملک میں جہاں وسائل کی کمی نہیں ہے اس سے بہتر قیادت ہونی چاہیے ۔ ملک میں ہوشربا مہنگائی اور تباہ کن بیروزگاری کے حوالے سے پاکستان میں کسی چیز میں ترقی نہیں ہو رہی ہے اور اگر ترقی ہو رہی ہے تو مہنگائی میں جس کی طرف حکومتی اعداد و شمار خود اشارہ کر رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے اس حوالے جو رپورٹ سامنے آئی ہے وہ چونکا دینے والی ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے پاکستان میں مہنگائی کی شرح 10 دسمبر 2009ءمیں 10 فیصد تھی جو 11 فروری 2010ءکو 18 فیصد کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ صرف ایک ہفتہ میں 23 بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنی لگی ہیں۔ حکومت اس صورتحال سے عوام کو نجات دلانے کیلئے کیا کر رہی ہے عوام کو درپیش اس سنگین مسئلہ پرحکومت کے پاس کیا لا ئحہ عمل ہے اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسی واضح کرے۔ کیونکہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ سے عوام مضطرب ہیں صورتحال کے تدارک کیلئے فوری اقدام نہ کیے گئے تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اور عوام کا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا، غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے غربت اور بے روز گاری ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ صدر اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر یومیہ سات لاکھ روپے کے اخراجات ہوتے ہیں، ملک میں ایک لاوہ پک رہا ہے،بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، غیر ملکی قرضوں کا حجم34ارب ڈالر سے 50ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ دو سال کے دوران پاکستان میں قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔20کلو آٹے کا تھیلا 265 سے 600روپیہ، چینی 24روپیہ کلو سے 70روپیہ کلو، چاول 40 روپیہ سے 80روپیہ،گھی70روپیہ سے 145،چائے 65روپیہ سے 170روپیہ ہوگئی ہے،ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں انسان کا زندہ رہنا مشکل ہوچکا ہے۔ اگرچہ مہنگائی موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی ہے مگر بار بار ہمیں پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا ہے۔بحران شاید پاکستان کی قسمت میں لکھے ہیں۔ سیاسی و قانونی بحرانوں کے بعد اب ایک مرتبہ پھر یہ ملک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف سے پاکستان کا نہ تو یہ پہلا اور نہ ہی شاید آخری رابطہ ہے۔ اسی لیے شاید عوامی سطح پر کوئی اتنا زیادہ شور نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری اگر موجودہ حکمرانوں پر ڈالیں تو وہ اسے سابق حکومت کی کارستانی قرار دیتے ہیں اور اگر سابق حکمرانوں کو مجرم قرار دیں تو کسے پکڑیں۔افراط زر نے ’ڈبل ڈیجٹ‘ کی حد کو توڑا اور ایسا توڑا کہ ایک سال بعد پچیس فیصد پر بھی اسے روکنا مشکل ہو رہا ہے۔ درآمدات برآمدات سے دوگنی ہونے لگیں۔ گندم میں خودکفیل اور اضافی گندم کو برآمد کرنے والے ملک کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے درآمد کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اٹھنے والے اخراجات بھی بجٹ پر بوجھ ثابت ہوئے۔ امریکہ سے کبھی واجبات ملے تو کبھی التوا کا شکار رہے۔ مالی سال دو ہزار سات آٹھ میں اس جنگ کی ملک کو چھ اعشاریہ دو ارب ڈالر قیمت ادا کرنی پڑی جوسال دوہزار نو میں بڑھ کر سات اعشاریہ تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ صدر مشرف کے انتخاب، ہنگامی حالت کے نفاذ، بےنظیر بھٹو کے قتل اور عام انتخابات کی آمد نے غیریقینی حالات کو تسلسل دیا۔ رہی سہی کسر عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پوری کر دی۔ ایک سو چالیس ڈالر فی بیرل تک جانے والی قیمت کی وجہ سے مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ اب تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی اپنی جگہ بدستور قائم ہے۔ اس کا اثر ختم نہیں ہوا۔ سکیورٹی اور معیشت کی خراب صورتحال کی وجہ سے سرمایہ بھی بڑی تیزی سے واپس لوٹنے لگا۔ سٹاک ایکسچینج کے کریش نے بھی سرمایہ کاروں کو رقم نکالنے پر مجبور کیا۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ دنیا کے گلوبل گاو ¿ں بننے کی وجہ سے اب ایک ملک سے دوسرے ملک رقم باضابطہ بینکنگ چینلز سے منتقل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایسے کرنے والے کو بعض صورتوں میں محض سٹیٹ بینک کو صرف مطلع کرنا ہوتا ہے۔ لہذا حکومت صرف منہ دیکھتے رہ گئی۔ معاشی ماہرین کے مطابق کمزور مالیاتی ادارے، ٹیکس سے ملنے والی رقوم میں مناسب اضافہ نہ ہونے اور بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات بھی معیشت کی زبوں حالی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت کا حال اس بکری جیسا تھا جو درخت کے پتے کھانے میں اتنی مگن تھی کہ ٹہنی کے خطرناک آخری حصے تک پہنچ گئی۔ اب نہ وہ آگے اور نہ ہی پیچھے جاسکتی ہے۔ کالیا اور خانانی پر غیر قانونی طور پر لاکھوں ڈالر بیرون ملک منتقل کرنے کا مقدمہ ہے اندرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ بھی اس دوران بڑھا۔ ٹیکس جمع کرنے کے تناسب میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن جی ڈی پی میں اس کا حصہ تقریباً دس فیصد کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ اس بحرانی کیفیت میں حکومت کو دس سالہ بانڈز پر سود کی ادائیگی کرنی پڑی جبکہ ڈالر بانڈز کا پہلے سے طے شدہ اجراءبھی نہیں ہوسکا۔ بین القوامی مالیاتی بحران معیشت کے لیے آخری دھچکہ ثابت ہوا۔ اس وجہ سے عالمی اداروں کی امداد اور نجکاری بھی روکی گئی۔ پاکستان نے معیشت سنبھالنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کیا تو ایسا غلط قدم بھی نہیں اٹھایا تھا۔لیکن اصل خطرہ حاصل کیے گئے قرضے کا غلط خرچ ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے قرضہ دینے سے حکومت امید کر رہی تھی کہ پاکستان کی اقتصادی ساکھ بحال ہوگی اور دیگر ذرائع سے روکی ہوئی امداد ملک آنا شروع ہو جائے گی۔ یہ بحران دیگر بحرانوں کی طرح اس حکومت اور اس میں شامل سیاستدانوں کا امتحان ہے۔ اے پی ایس