صدر کے قانونی مشیروں کو فارغ کر کے سزا دینے کا مطالبہ۔چودھری احسن پر یمی


سینٹ کے ایک ترجمان نے گذشتہ کچھ اخبارات میں چودہ اور سولہ فروری کو چھپنے والی اس مبینہ خبر کی سختی سے تر دید کی ہے جس میں الزام لگا یا تھا کہ چیئر مین سینٹ ان قانو نی ماہرین میں شامل تھے۔جنہوں نے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں صدر کو مشاورت فراہم کی تھی۔ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے ترجمان نے انہیں مکمل طور پر بے بنیاد اور تخیل پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چئیر مین سینٹ تیرہ فروری دوہزار دس کو کراچی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس و ٹیکنا لوجی کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے اور کئی دن بعد تک کراچی میں مقیم رہے۔"یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص بیک وقت کراچی اور اسلام آباد میں موجود ہو" یہ حقیقت اس بات کو مکمل طور پر واضح کردیتی ہے کہ اس خبر میں کہاں تک صداقت ہے؟"لندن میں مقیم ممتاز صحافی اور عالمی اخبار ڈاٹ کام کے مدیر اعلی صفدر ہمدانی صدر زرداری کے مشیروں کے حوالے سے اپنے کالم بعنوان صدر کے قانونی مشیروں کو فارغ کر کے سزا دی جائے گی؟"میں لکھتے ہیں کہ"گزشتہ ہفتے بھر سے پورا پاکستان اور پاکستان سے باہر مقیم پاکستانی ایک ہیجان،مصیبت اور زہنی عذاب میں مبتلا تھے کہ ایک بار پھر کیا جیسی کیسی لولی لنگڑی جمہوریت ہے اسکی بساط لپیٹ دی جائے گی؟ لیکن شکر ہے پروردگار کا کہ ایک بار پھر ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے عقل سے عاری نام نہاد مشیروں کی وجہ سے پیدا شدہ بحران حل ہو گیا ہے اور اب دیکھنا ہے کہ صدر زرداری اور انکے نام نہاد مشیر کون سا ایک نیا بحران کب کھڑا کرتے ہیں کہ حکومت کو پھر ہزیمت اٹھانی پڑے۔کبھی کبھی تو اپنے صحافی بھائی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر بہت ترس آتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ سید بارشاہ کو مشورہ دیا جائے کہ شاہ جی چھوڑیں اس کار سرکار کو اور سکون سے واپس جا کر ملتان میں اپنے بزرگوں کی سجادہ نشینی سنبھالیں اور پھر دیکھیں کیسے کیسے وزیراعظم آپ ہی کے پاس دعا کروانے اور پشت پر ڈنڈے کھانے آتے ہیں۔کیوں اس سیاسی عاشقی میں عزت سادات لٹوا رہے ہیں۔ لیکن شاید وزیرا عظم اسوقت اس مشورے کو خاطر میں نہ لائیں کہ فرعون سے یہاں تک اقتدار کا مسلہ ہی یہی ہے کہ اس اقتدار کے ملتے ہی آنکھوں کی حیا اور بینائی کسی گٹر میں جیسے بہہ جاتی ہے،عقل پر قفل ابجد لگ جاتا ہے اور آپ کی ساری سیادت اور تدبر آپکے ان مشیروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے جنہیں نہ تو مشیر کے ہجے آتے ہیں اور نہ ہی مشاورت کا مطلب۔باقی مشیروں کے بارے میں تو کسی وقت ایک مکمل کالم لکھوں گا لیکن اسوقت صرف ایک ایسے مشیر کا بہت سرسری سا تعارف کروا دوں کہ جو ججوں کی تعیناتی کا یہ بحران پیدا کروانے والے“تھری سٹوجز یعنی تین مسخروں“ میں سے ایک ہیں۔ ذرا دیکھیں تو کہ اپنے ہاں مشیر کیسے بنایا جاتا ہے اور اسکی اہلیت اور صلاحیت کیا ہوتی ہے۔مکرمی سردار لطیف کھوسہ اسوقت قابل رحم وزیر اعظم گیلانی کے قانونی مشیر ہیں۔ اتنا بتا دوں کہ یہ سرحد پار والے “سردار“ نہیں ہیں لیکن بہت کوشش کر کے خود کو اپنے اعمال کے ساتھ سردار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ملک قیوم اٹارنی جنرل کی کرسی چھوڑ چکے تو ان کے بعد آنے والے سردار لطیف کھوسہ، ہیں تو یہ پیشہ ور وکیل لیکن شاید وکالت ان سے بچی ہوئی ہے۔ انکو وکالت کی وجہ سے نہیں بلکہ آمر مطلق جنرل مشرف کے دور میں سر پر ڈنڈا کھا کر نکلتے ہوئے خون کو ٹی وی سکرینوں پر دکھائے جانے کے صلے میں اور شاہ سے ضرورت سے زیادہ وفاداری دکھانے کے صلے میں حکومت نے انہیں سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل مقرر کر دیا تھا۔لیکن انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک کیس کے دوران حکومت کو ہی جب “پھانسی“ لگوانے کا انتظام کر لیا اور ان پر کرپشن کے الزامات لگے تو حکومت نے انہیں اٹارنی جنرل کے عہدے سے الگ کیا اور پھر وزیر اعظم کا قانونی مشیر مقرر کر دیا گیا۔سپریم کورٹ میں ابھی بھی ان کھوسہ صاحب کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے۔یہ صرف ایک مشیر کی جھلک تھی اب اگر وقت ملا تو باقی مشیروں کی اصلیت لکھ کر بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہوں گا۔یہ اور ایسے مزید دو صدر کے قریبی ترین ساتھی تھے جنہوں نے معصوم صدر کو نہایت غلط مشورہ دیا اور نہایت تلخ جملہ کہوں کہ صدر،وزیر اعظم،وزرات قانون اور حکومت کو تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے ہی وزیراعظم کو اسمبلی میں پہلے ججوں کی بحالی کی توثیق کی “تڑی“ لگانے کا مشورہ دیا، پھر اگلے روز انہیں اپنے ہی بیان کی تشریح کرنی پڑی اور دراصل اپنے تقریری بیان سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اب چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد مکمل کلین بولڈ ہو کر وہی سب کچھ کرنا پڑا جو اگر پہلے کر لیا جاتا تو صدر سمیت وزیر اعظم کی ساری حکومت کو یہ شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔اس ملک میں پہلی بار شاید حقیقی عدلیہ عوامی تحریک کے بعد سپریم کورٹ میں بیٹھی ہوئی ہے جس کے سارے جج بیک زبان فیصلہ کرتے ہیں اور صدر زرداری کے ساتھ انکے مشیروں کو اس عدلیہ کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا اور انہوں نے جمہوری آمر کی طرح عدالت کو زیر نگیں کرنے کی کوشش کی لیکن چیف سمیت ساری عدلیہ نے اتحاد کا مظاہرہ کیا جس کے بعد وزیراعظم اور صدر کو “ہر دکھ کی دوا“ اعتزاز احسن کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جنہوں نے اپنے وکالتی داو ¿ پیچ استعمال کیئے اور وزیراعظم کو ایس ایم ایس کر کے چیف جسٹس کے عشایئے میں بن بلائے آنے کا ڈرامہ رچانے کا درس دیاوزیر اعظم جسٹس رمدے کے الوداعی عشایئے میں گئے، چیف اور اعتزاز سے گلے ملے، کھانا کھایا، چیف کو اگلے دن ایوان وزیر اعظم مدعو کیا اور پھر ڈھائی گھنٹے کی ملاقات کے بعد سب کچھ وہی ہوا جو عدالت کا موقف تھا۔ حکومت نے پہلے والا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، خواجہ شریف لاہور ہائی کورٹ میں بدستور چیف جسٹس رہیں گے ۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ سپریم کورٹ کے جج مقرر، خیلیل رمدے ایڈیاک جج ہوں گے۔اسکے ساتھ ساتھ ہائی کورٹس میں ججوں کی تعیناتی کا اعلان بھی ہو گیا۔اس سارے شاخسانے میں ہوا کیا؟ حکومت کو اپنے ہر موقف میں پیچھے ہٹنا پڑا اور عدالت کا موقف درست تسلیم کرنا پڑا۔میں کھلے دل و دماغ سے سمجھتا ہوں یہ کسی کی ہار جیت نہیں ہے۔ ملک ایک اور قانونی اور آئینی بحران کے ہاتھوں نقصان اٹھانے سے بچ گیا۔لیکن اس کے ساتھ صدر سمیت سرکار چلانے والی ساری مشینری کی اوقات بھی پتہ چل گئی اور فکری حیثیت کا بھی اندازہ ہو گیا۔یہ دھیان میں رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ صدر نے اپنی اور اپنے ناعاقبت اندیش مشیروں کی وجہ سے بحران پیدا کیا اور پھر پسپائی اختیار کر لی بلکہ اس سے قبل پنجاب میں گورنر راج لگانے کی کوشش اور ممبئی حملوں کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کو بھارت بھیجنے اور این آر او کو اسمبلی میں پیش نہ کرنےکے فیصلے سمیت کم ازکم پانچ بار ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔اب قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا چیف جسٹس کو وزیر اعظم ہاو ¿س جانا چاہیئے تھا کہ نہیں ؟ کچھ حلقوں نے زیر لب یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ شاید بین السطور اعتزاز احسن نے ایک اور احسن قدم اٹھا کر صدر زرداری کے مقدمات دوبارہ کھلوانے کے زمرے میں کچھ لو کچھ دو کا انتظام بھی کروایا ہے۔ ہم اس سلسلے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن صدیوں پرانی کہاوتیں ہیں کہ جہاں آگ لگتی ہے وہاں سے دھواں بھی اٹھتا ہے،یا پھر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔جاتے جاتے یہ بھی سن لیجئے کہ یہ سارا بحران صدر زرداری کے ہاتھوں جن تین مشیروں نے پیدا کروایا وہ تینوں غیر منتخب افراد ہیں۔ ایک کا ذکر تو میں نے شروع میں کر دیا تھا سردار لطیف کھوسہ۔ دوسرے غیر منتخب ہیں وفاقی وزیر بابر اعوان اور تیسرے غیر منتخب ہیں فارق نائیک کو سینٹ کے چیئرمین ہیں۔اب پیپلز پارٹی میں منتخب اراکین کی ایک بڑی تعداد یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ایسے غیر منتخب منظور نظر افراد مسلسل حکومت کے لیئے مسائل پیدا کرتے رہیں گے؟ اور ایسے ابن الوقت افراد کی موجودگی میں عوام کے ووٹ لیکر آنے والوں کی حیثیت کیا ہے؟یہ بات تو پیپلز پارٹی اور اسکی قیادت کی سوچنے کی ہے لیکن مجھ جیسے قلم کاروں کو صرف اور صرف یہ پوچھنا ہے کہ ایسے مشورے دیکر حکومت اور صدر کو ہزیمت سے دوچار کرنے والے مشیروں کے خلاف کوئی کاروائی ہو گی؟ اور کیا ایسے افراد کو انکے عہدوں سے فارغ کر دیا جائے گا؟"اے پی ایس