صحا فیوں کو کچلنے کی وحشیا نہ کاروائیاں۔چودھری احسن پر یمی


کمیٹی برائے تحفظ صحافیاں(سی پی جے) نے کہا ہے کہ 1992ءکے بعد جب سے اس نے صحافیوں کی ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا ہے، پچھلے سال دنیا میں ذرائع ابلاغ کے سب سے زیادہ کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔سی پی جے نے اخباری کارکنوں پر حملوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2009ءکے دوران دنیا بھر میں 71 صحافی ہلاک ہوئے ۔ جبکہ 2008 میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد 41 تھی۔صحافیوں کے حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ پچھلے سال ہلاکتوں کی تعداد کے ریکارڈ کی حد تک بڑھ جانے کی وجہ فلی پینز میں انتخابات سے متعلق ایک قتلِ عام میں 31 صحافیوں کی ہلاکت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ قتلِ عام پریس کے لیے ایک ایسا واحد سب سے خوں ریز واقعہ تھا ، جسے سی پی جے نے آج تک ریکارڈ کیا ہے۔سی پی جے نے فلی پینز کے بعد 2009 کے دوران صومالیہ، عراق اور پاکستان کو صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا ہے۔ صومالیہ میں پچھلے سال نو صحافی ہلاک ہوئے تھے جبکہ عراق اور پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ چار چار کارکن ہلاک ہوئے۔سی پی جے کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پچھلے سال پریس کی آزادی کی حمایت میں حوصلہ افزا بیانات دیے ہیں۔لیکن تنظیم نے صحافیوں کو حراست میں لینے پر امریکی حکام پر نکتہ چینی بھی کی ہے ۔ گرفتار ہونے والوں میں وائس آف امریکہ کے ڈیوا ریڈیو کا ایک پاکستانی نامہ نگار بھی شامل ہے، جسے 10 روز تک واشنگٹن میں ایک جیل میں رہنا پڑا تھا۔طالبان جنگجووں نے جب رحمان بنیری کے خاندانی گھر کو بم سے اڑا کر تباہ کردیا تھا تو وائس آف امریکہ نے اس کے لیے امریکہ میں رہنے اورکام کرنے کا بندوبست کردیا تھا۔لیکن ویزا کے ایک تنازعے پر امریکہ کے اِمّیگریشن کے حکام نے اسے واشنگٹن کے علاقے کے ایک ائر پورٹ پر حراست میں لے لیا تھا۔سی پی جے نے کہا ہے کہ جب اس نے اور وائس آف امریکہ نے اس واقعے کی تشہیر کی تو رحمان بنیری کو رہا کردیا گیا۔رپورٹ میں ایران میں صدارتی انتخاب کے بعد کے ان واقعات کو بھی نمایاں جگہ دی گئی ہے ، جن میں صحافیوں کو ہدف بنایا جارہا تھا۔رپورٹ میں ایران کے اقدامات کو ”حالیہ تاریخ میں پریس کو کچلنے کی سب سے زیادہ وحشیانہ اور وسیع کارروائیاں“ کہا گیا ہے۔سی پی جے نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 136 صحافی بدستور جیلوں میں بند ہیں۔ لیکن تنظیم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی دباوکے نتیجے میں برما اور گامبیا سمیت، کئی ملکوں میں صحافیوں کو جیلوں سے رہا کرانے میں مدد ملی ہے۔سی پی جے نے کہا ہے کہ خود اس کی اپنی کوششوں کے باعث پچھلے سال 45 صحافیوں کو رہائی ملی تھی۔سی پی جے نے کہا ہے کہ ایران نے گذشتہ جون میں صدارتی انتخاب کے بعد اختلافِ رائے کو کچلنے کے لیے 90 صحافیوں کو گرفتار کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے دسمبر تک ایران کے قیدخانوں میں 23 ادیب اور صحافی بند تھے۔اِس طرح ایران، بقدر ایک چین سے پیچھے ہے، جہاں 24 صحافی قید ہیں اور ایک قیدی کے فرق سے کیوبا سے آگے ہے ، جہاں 22 صحافی جیلوں میں پڑے ہیں۔برّاعظم افریقہ کے بارے میں سی پی جے نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں برّاعظم کے کئی ملکوں میں صحافیوں پر حملوں ، انہیں ڈرانے دھمکانے یاانہیں جیل میں ڈال دینے کے واقعات کے بعد بہت سے مقامی صحافیوں کو مجبوراً اپنے وطن کو چھوڑنا پڑا ہے۔ سی پی جے کے مطابق صحافیوں کے لیے مشکلات کی نمایاں مثالیں صومالیہ، ایتھیوپیا اور ارِٹریا میں ملتی ہیں اور اسی قسم کے مسائل زمبابوے، روانڈا اور گامبیا میں بھی موجود ہیں۔رپورٹ میں لاطینی امریکہ میں کولمبیا ، ارجنٹینااور وینی زیولا جیسے ملکوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اِن ملکوں پر صحافیوں کے خلاف غیر قانونی طور پر جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے بارے میں سی پی جے کا کہنا ہے کہ یہ وہ ملک ہیں جہاں جنگ کی خبر رسانی پر مامور نامہ نگاروں کو طالبان اور دوسرے جنگجووں کی دھمکیوں، حکومت اور فوجی ذرائع کے دباواور ہراساں کرنے کی کارروائیوں، ناکافی سکیورٹی اور ذاتی حفاظت کی تربیت کے فقدان سمیت، بہت زبردست چیلنج در پیش ہیں۔ رپورٹ میں روس کے گڑ بڑ والے علاقے چچنیا میں انسانی حقوق کی کارکن نتالیا ایستیمیروا کے قتل کو مناسب چھان بین کرنے اور صحافی کے قتل کے ذمّے دار لوگوں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے میں روس کی ناکامی کی ایک مثال کہا گیا ہے۔ سی پی جے نے کہا ہے کہ فلی پینز ، میکسکو اور پاکستان میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، جہاں مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔سی پی جے نے مشرقِ وسطیٰ میں مصر ، مراکش اور بحرین جیسے ملکوں کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ملکوں میں انٹر نیٹ کی بدولت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات میں اچانک اضافہ ہوجانے کے بعد ، حکومتوں نے غیر جانبدار نامہ نگاروں اور بلاگروں کو سزائیں دی ہیں۔ لیکن صحافیوں کا کہنا ہے کہ پکڑ دھکڑ کی اِن کاروائیوں سے اطلاعات رسانی اور اطلاعات کے تبادلے ختم نہیں ہوں گے۔دنیا بھر میں صحافتی آزادی کے لیے سرگرم صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآو ¿ٹ بارڈرز یا’سرحدوں سے ماورا صحافی‘ کی سال 2006 کے لیے جاری کی گئی رپورٹ میں کی جانے والی ترتیب یا رینکنگ کے مطابق فریڈم آف پریس یا صحافت کی آزادی کے اعتبار سے پاکستان کا نمبر ایک سو ارسٹھ ملکوں میں سے ایک سوستاونواں تھا۔رپورٹرز ودآوٹ بارڈز آزادی صحافت کے حوالے سے ملکوں کی سالانہ درجہ بندی سال دوہزار دو سے کر رہی ہے۔دوہزار دو میں پاکستان کا نمبر ایک سو انیس، دوہزار تین میں گر کر ایک سو انتیس، سال دو ہزار چار میں مزید کم ہو کر ایک سو پچاس اور دو ہزار پانچ میں بھی ایک سو پچاس رہا۔ تاہم دو ہزار چھ میں مسلسل نمبر گرنے کی وجہ سے پاکستان نے آر ایس ایف کی رینکنگ میں ایک سو ستاونویں پوزیشن حاصل کی۔جبکہ بھارت، جو سال دو ہزار پانچ میں ایک سو نویں نمبر پر تھا، دوہزار چھ کو آزادی صحافت کے حوالے سے اپنا ریکارڈ بہتر کر کے ایک سو پانچ نمبر پر آ گیا تھا۔ آزادی صحافت کے حوالے سے آر ایس ایف کی رینکنگ کے مطابق جنگوں اور اندرونی ریشہ دوانیوں سے تباہ حال افغانستان بھی پاکستان سے نسبتاً بہتر ریکارڈ کا حامل ہونے کے سبب ایک سو تیسویں نمبر پر تھا۔ دوہزار دو میں پاکستان کا نمبر ایک سو انیس، دوہزار تین میں گر کر ایک سو انتیس، سال دو ہزار چار میں مزید کم ہو کر ایک سو پچاس اور دو ہزار پانچ میں بھی ایک سو پچاس رہا۔ تاہم دوہزارچھ کو مسلسل نمبر گرنے کی وجہ سے پاکستان نے آر ایس ایف کی رینکنگ میں ایک سو ستاونویں پوزیشن حاصل کی۔ جبکہ بھارت جو سال دو ہزار پانچ میں ایک سو نویں نمبر پر تھا۔ سال دوہزارچھ کی رپورٹ میں شمالی کوریا کا ریکارڈ آزادءصحافت کے حوالے سے سب سے برا بتایا گیا تھا اور اسی لیے یہ فہرست میں سب سے نیچے یعنی ایک سو ارسٹھ نمبر پر رہی۔پاکستان آزادی صحافت کے حوالے سے شمالی کوریا کے علاوہ جن ملکوں سے بہر حال بہتر ریکارڈ رکھتا ہے ان میں ایران، ترکمانستان، چین، ایریٹریا، برما، سعودی عرب، نیپال، ایتھوپیا، کیوبا اور ازبکستان جیسے ممالک آتے ہیں جہاں صحافت مجموعی طور پر سرکاری کنٹرول میں ہے۔دوہزارچھ برس کی رینکنگ میں عراق کا نمبر ایک سوچون تھا۔لبنان میں جنگ کے بعد یہ ملک چھپن نمبر سے ایک سو سات نمبر پر آگیا تھا۔ صحافتی آزادی کے حوالے سے بہتر ریکارڈ کے حامل دس سر فہرست ممالک میں فن لینڈ، آئس لینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ، سلواک ریپبلک، ایستونیہ، ہنگری اور چیک ریپبلک شامل ہیں۔برطانیہ ستائیسویں جبکہ امریکہ 53 ویں نمبر پر رہے۔دوہزارپانچ کو برطانیہ چوبیسویں جبکہ امریکہ چوالیسویں نمبر پر تھے۔ آر ایس ایف کے مطابق آزادءصحافت حوالے سے فرانس، امریکہ اور جاپان کا ریکارڈدوہزارچھ کو اخبارات کے دفاتر پر چھاپوں، صحافیوں سے تفتیش اور نئے پریس قوانین کے باعث خراب ہوا جس کی وجہ سے فرانس جو پچھلے سال تیسویں نمبر تھا وہ پینتیسویں نمبر پر رہا۔ امریکہ دوہزار پانچ کی نسبت دوہزارچھ کو نو نمبر نیچے چلاگیا تھا۔ اس کی وجہ صدر بش کی انتظامیہ اور میڈیا میں تعلقات میں اچانک آنے والی تبدیلی تھی۔ جاپان میں صحافیوں پر حملوں اور اخبار نیہون کیزائی کے دفتر پر مظاہرین کے آتش گیر حملے کی وجہ سے اس کا نمبردوہزار چھ میں اکاون تھا۔ آزادی صحافت کی یہ درجہ بندی صحافیوں اور نیوز میڈیا آرگنائزیشنز کو درپیش مسائل کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ان مسائل میں پرتشدد کارروائیاں، قید و بند اور آزادی اظہار پر پابندیاں وغیرہ شامل ہیں۔مزید برآں پریس کو خاموش کرانے کے لیے قانون سازی، ریاستی اجارہ داری اور میڈیا ریگولیٹری باڈیز کا قیام وغیرہ کو بھی کسی ملک میں آزادی صحافت کی صورتحال کا تعین کرنے کے حوالے سے خاص طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس حوالے سے حکام کا ریاستی سرپرستی میں چلنے والے میڈیا اور غیرملکی پریس کے ساتھ رویے کا بھی موازنہ کیا جاتا ہے۔تاہم آزادی صحافت کی رینکنگ کا متعلقہ ممالک میں صحافت کے میعار سے کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ دوہزار سات کوآزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم ’پی ایف یو جے‘ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار چھ کے دوران ملک میں ایک ایڈیٹر سمیت چھ صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ پچاس سے زائد صحافیوں کو خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز نے اغواءکر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ دوہزار سات میںپاکستان میں آزادی صحافت کا دن ایسے وقت منایاگیا جب صحافیوں کے تحفظ کی ایک عالمی تنظیم ’سی پی جے، نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا جو آزادی صحافت پر پابندیوں میں سرفہرست تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے نئے رجحانات سامنے آئے اور صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں سکیورٹی ایجنسیوں اور پریشرگروپوں کی دھمکیوں اور تشدد کی وجہ سے بیشتر صحافیوں نے اپنا پیشہ ترک کر دیا ہے۔ ’پی ایف یو جے، کے مطابق دوہزار چھ کو وزیرستان کے صحافی حیات اللہ خان کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا جبکہ وزیرستان میں ہی بی بی سی کے نامہ نگار دلاور خان وزیر کو اغوا کیا گیا اور ان دونوں صحافیوں کے چھوٹے بھائیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ فوٹو جرنلسٹ شعیب خان ایک خود کش حملہ میں جہاں اپنی دائیں آنکھ اور قوت گویائی سے محروم ہوگئے وہیں اب وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہں۔صحافیوں کی تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ دوہزار سات میں کہا کہ برقی میڈیا کے بیشتر چینلز پر حکومتی دباو ¿ بڑھایا گیا اور انہیں ’پریس ایڈوائس، جاری کی گئی۔ ’پی ایف یو جے، نے دوہزار سات میں میڈیا مالکان سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کی مناسب تربیت کا انتظام کریں اور انہیں انشورنس اور طبی سہولیات فراہم کریں۔ دوہزار سات میںآّزادی صحافت کے عالمی دن پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے صحافیوں کی تنظیم ’آر آئی یو جے‘ کے زیرانتظام بلیو ایریا سے پارلیمان تک جلوس نکالا گیا۔جلوس کے شرکاء’صحافیوں کا قتلِ عام بند کرو اور میڈیا پر پابندیاں نامنظور‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔وزیرستان کے صحافی حیات اللہ خان کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔جلوس کے شرکاءنے فلسطین کے شہر غزہ سے اغوا ہونے والے بی بی سی کے صحافی ایلن جونسٹن اور الجزیرہ کے گوانتانامو بے میں قید صحافی کی بھی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔اے پی ایس