سوئس مقدمات بارے احکامات کی تردید۔اے پی ایس


پاکستان کے اٹارنی جنرل اور صدارتی ترجمان نے مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کی تردید کر دی ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے وزارتِ قانون کی ہدایت دی ہے کہ وہ سوئس عدالتوں میں دائر کیے گئے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے کارروائی کریں۔واضح رہے کہ ہفتہ کے روز ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ گذشتہ جمعہ کی شب ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں صدرِ پاکستان نے اٹارنی جنرل انور منصور خان اور وزارت قانون کو احکامات دیے ہیں کہ ان کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے کا عمل شروع کر دیں۔ گذشتہ جمعہ کی شب ججوں کی تقرری پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنازع کے حوالے سے ایوانِ صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق صدرِ پاکستان نے اس اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ سوموار کے روز وزارتِ داخلہ کو احکامات دے دیے جائیں جس کے تحت وہ سوئس حکومت سے مقدمات دوبارہ کھولنے کی درخواست کرے گی۔تاہم اٹارنی جنرل منصور احمد خان نے کہا کہ نہ تو وہ اس اجلاس میں شامل تھے اور نہ ہی ان کو ایسی کوئی ہدایت ملی ہے۔ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بھی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صدرِ پاکستان اور اٹارنی جنرل کے درمیان ایسی ملاقات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی ایسے احکامات جاری ہوئے ہیں۔ ایک قومی انگریزی کے مطابق جمعہ کی شب اجلاس میں صدرِ پاکستان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے ساتھ تصادم میں حالات مزید خراب ہوں گے اور عوام بھی اس تصادم کو نہیں سراہیں گے۔ انہوں نے اس اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ سوئس مقدمات کا سامنا کریں گے اور متعلقہ افراد کو ہدایات جاری کیں کہ سوئس مقدمات کھولنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔اخبار کے مطابق اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات کے حوالے سے بتایا جائے گا کہ صدر کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔گذشتہ سال سولہ دسمبر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صدارت میں سپریم کورٹ کی فل بینچ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او کے بارے میں دائر درخواستوں کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا اور این آر او کے تحت ختم کیے گئے تمام مقدمات پہلی پوزیشن پر بحال کر دیے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ این آر او کے تحت جن فیصلوں کے تحت مقدمات ختم کر دیے گئے تھے وہ تمام فیصلے اب کالعدم ہو گئے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این آر او قومی مفاد کے خلاف ہے اور یہ آرڈیننس آئین کی متعدد شقوں سے متصادم ہے۔ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بیرون ممالک جن افراد کے خلاف مقدمات درج ہیں اور وہ مقدمات این آر او کے تحت ختم کیے گئے تھے حکومت ا ±ن مقدمات کی بحالی کے لیے متعلقہ ملکوں کی عدالتوں میں درخواستیں دیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ سوئس مقدمات ختم کرنے کے لیے خط لکھتے۔ ایوان صدر میںگذشتہ جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں کئی رہنماو ¿ں نے ججز سے متعلق صدر کو دی گئی ایڈوائس کو غلط قرار دیتے ہوئیے کہا کہ ایسے مشوروں سے حکومت کی پوزیشن کمزور ہو ئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ تمام اہم فیصلے کور کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کیے جائیں گے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر کوئی جج عوام کو انصاف فراہم نہ کر سکے تو اسے گھر چلے جانا چاہیے ۔جج کی کرسی پر بیٹھنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے عدلیہ اپنا بھی احتساب کرے لاہور جوڈیشل اکیڈمی میں ججوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی میں اس بات کا تعین کر دیا گیا ہے کہ تمام مقدمات جلد از جلد نمٹائے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اپنا بھی احتساب کرے کہ آیا وہ لوگوں کو انصاف مہیا کر رہی ہے اگر محنت اور ایمانداری سے فرائض سر انجام نہ دئیے گئے تو عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا لوگوں کے مسائل کی نشاندہی کر کے اچھے کام کر رہا ہے ۔ اگر جج انصاف فراہم نہیں کر سکتا تو اسے کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے جج مظلوموں پر افسر نہیں ان کا کام انصاف فراہم کر نا ہے ۔ اگر عوام کوجلد انصاف نہیں ملے گا تو ان میں بددلی اور مایوسی پھیلے گی ججز محنت کریں یہ ان کے امتحان کا وقت ہے عدلیہ کو جو عزت آج ملی ہے اگر کاکردگی بہتر نہ ہوئی تو آئندہ یہ مقام کبھی نہیں ملے گا ۔انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتیں عدلیہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔98 فیصد لوگوں کی داد رسی کی ذمہ داری ضلعی عدالتوں پر ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ فوری انصاف کی فراہمی ججوں کی سوچ ہو نی چاہیے ۔روزانہ تاریخیں ملنے سے لوگوں میں مایوسی پھیلے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب ججوں کی تنخواہیں اچھی ہیں اور وہ اپنی کاکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں ورنہ یہ مقام انہیں کبھی نہیں ملے گا نئی جوڈیشل پالیسی پر عملدر آمد کے لئے خصوصی توجہ دینا ہو گی عوام کی عدلیہ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں ہمیں ان کی توقعات پر پورا اترنا ہو گا ۔ہم زیادہ محنت اور جلد انصاف کی فراہمی سے ہی ان کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے تمام مقدمات کے جلد فیصلے کا تہہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کی نشاندہی کر نے پر میڈیا کا کردار قابل تعریف ہے تاہم اگر میڈیا سب اچھا کہے تو مجھے تسلی نہیں ہو گی کمزوریوں کی نشاندہی تک کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں ضلعی اور سول عدالتوں کا اہم کر دار ہے وہ اپنا کر دار بھرپور طریقے سے ادا کریں ۔ہمیشہ اچھا کہہ کر چلے جانا اچھا نہیں ججز اچھا کام کر کے مثال قائم کر یں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی میں مقدمات کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر ابھی تک پرانے مقدمات کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ ہمیں اپنا احتساب خود کر نا چاہیے کہ کیا مسائل کو انصاف مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کو کرپشن کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے پنجاب میں ججز کی بہتر سہولیات میسر ہیں وہ اپنے ما تحت عملے کی کرپشن کے خاتمے پر بھی توجہ دیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے نیچے کیا ہو رہا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب عدلیہ بالکل آزاد ہے ججز پر کوئی دباو ¿ نہیں ہے ۔ وہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں سرعت سے کام کریں اور زیادہ محنت اور لگن کو اپنا شعارر بنائیں تا کہ عوام کا ان پر اعتماد بڑھے ۔ایسا نہیں ہو نا چاہیے کہ تاریخیں دے کر لوگوں کو مایوس کر دیا جائے ورنہ ججوں کا جو آج مقام اور عزت ہے وہ آئندہ کبھی نہیں ملے گی۔ ملک کے عوام، میڈیا اور وکلاءثابت قدم رہیں اور جج بھی اس وقت تک ڈٹے رہیں جب تک ملک میں آزاد عدلیہ اور آئین کی بالادستی قائم نہیں ہوجاتی۔ بارہ مئی اور نو اپریل کو جس طرح وکلاءنے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا انہیں کبھی بھلایا نہیں جایا سکتا۔ چیف جسٹس عدلیہ کی آزادی کےلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں یادگار تعمیر کروائیں تاکہ لوگ انہیں یاد رکھ سکیں۔ ووٹر لسٹوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کے حوالے سے اگر اس وقت آزاد عدلیہ نہ ہوتی توموجودہ پارلمینٹ آج کام نہ کر رہی ہوتی۔ آزاد عدلیہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری رک جاتی ہے کیونکہ لوگوں کا آزاد عدلیہ پر اعتبار ہوتا ہے۔ جب تک ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ نہیں ہوگی ملک صحیح معنی میں ترقی نہیں کرسکے گا۔ اس وقت تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو نا چاہیے جب تک اس ملک میں آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی ۔ ملک کے عوام اور میڈیا، پارلیمنٹ کی مضبوطی کے قائل ہیں مگر پارلیمنٹ اس وقت تک مضبوط نہیں ہوگی جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوگی۔اے پی ایس