عدلیہ اور انتظا میہ کے درمیان ڈیڑھ منٹ کا فاصلہ۔چودھری احسن پر یمی


حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے مشورے سے ججوں کی تعیناتی عوام اور میڈیاکی فتح ہے۔حکمرانوں کو اس واقع سے سبق سیکھنا چاہئیے۔آئے روز بحران پیدا کرنے سے عوام کے اصل مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی۔وزیراعظم واقعی مخلص ہیں تو NROبارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوراً عمل درآمدکروائیں۔ عدلیہ بحالی تحریک میں آزاد عدلیہ کے لئے جو بنیاد فراہم کردی گئی ہے اس سے کوئی بھی روگردانی نہیں کرسکتا۔عدلیہ کی بحالی سے لے کر آج دن تک کے حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کیونکہ یہ تحریک عدلیہ کی صرف بحالی تک محدود نہیں تھی۔تحریک چلانے والے عدلیہ کے وقار کے بھی پاسبان ہیںاور وہ ہر موقع پرانتہائی بردباری کے ساتھ اس کا دفاع بھی کررہے ہیں۔حکمرانوں کے غیرذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے آئے دن ملک میں نت نئے بحران پیدا کئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کے اصل مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ حکومت آئندہ احتیاط سے کام لے اور عدلیہ کے علاوہ دیگر شعبوں کے معاملات سے بھی آمرانہ سوچ کا خاتمہ کرے ۔بدترین طرزحکمرانی کے خلاف اور قانون کی حکمرانی کے نفاذ اور آمرانہ رویوں کے خلاف عوام اور میڈیا اپنی جدوجہد جاری رکھیں ۔ حکومت نے ججز کی تقرری بارے متنازعہ نوٹیفکیشن واپس لیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کو سپریم کورٹ کا اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو ایک سال کے لئے ایڈہاک جج مقرر کر نے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ جسٹس خواجہ محمد شریف بدستور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے ۔ وزیر اعظم کے اعلان کے بعد حکومت اور عدلیہ کے بعد پایا جانے والا ڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے۔حکومت نے ججوں کی خالی آسامیوں کو پر کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ اعلان سید یوسف رضا گیلانی نے گذشتہ بدھ کو چیف جسٹس ،جسٹس افتخار محمد چوہدری سے طویل ملاقات اور مشاورت کے بعد وزیر اعظم ہاوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے بارے چیف جسٹس آف پاکستان سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے اور اس ملاقات کے بعد حکومت نے ججوں کی تقرری بارے جاری متنازعہ نوٹیفکیشن کو واپس لینے اور نیا نوٹیفکیشن جاری کر نے کا فیصلہ کیا ہے جس میں جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا جائے گا جبکہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو ایک سال کے لئے ایڈہاک جج کے طور پر تعینات کیا جائے گا اور جسٹس خواجہ محمد شریف بدستور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے۔جبکہ دیگر ججوں کی تقرری کے لئے چاروں صوبوں کے گورنرز اور وزراءاعلیٰ کے درمیان مشاورت ہو چکی ہے اور اب چیف جسٹس آف پاکستان سمری صدر کو بھیجیں گے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے ججوں کی خالی تمام آسامیوں کو پر کر نے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے بعد حکومت اور عدلیہ کے درمیان چند روز سے پایا جانے والا ڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ وزیر اعظم اور صدر کے درمیان مکمل طور پر ہم آہنگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کر نا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے ۔ملک میں عدلیہ اور میڈیا ارتقاءکے عمل سے گزر رہے ہیں اس لئے جوڈیشل ایکٹیوازم اور میڈیا ایکٹیوازم دونوں موجود ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم جمہوری طور پر منتخب ہو کر آئے ہیں اس لئے مشاورت سے تمام فیصلے کرتے ہیں اس کو نظریہ ضرورت نہ کہا جائے ۔ آئندہ میڈیا سے بھی مشاورت کی جائے گی ۔ ہمیں نظریہ ضرورت کی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب میں نے سپریم کورٹ کے ججوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بحال کیا تھا تو مجھے ایڈوائس کی گئی تھی کہ اس آرڈر کی منظوری پارلیمنٹ سے لینا ضروری ہو گی۔ہم نے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔جبکہ انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ وہ ملک میں عدلیہ کی آمریت آتے دیکھ رہی ہیں جسے کے بعد لوگ سیاسی آمریت بھی بھول جائیں گے۔انہوں نے اعلان کیا ہے کہ انسانی حقوق کا کمیشن آئین میں اصلاحات کے لیے ایک چارٹر تیار کر رہا ہے جس میں یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ اعلیٰ عدالتوں میں جج بننے والوں کے بارے میں عوام کو ان کی پروفیشنل زندگی کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیئے اور اس چارٹر پر وہ عوام کی رائے لینے کے لیے مہم چلائیں گے۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا ’میں نے عدالتی آمریت دیکھی ہے ہم اس طرف جا رہے ہیں وہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ عوام سیاسی آمریت کو بھول جائیں گے یہ رویہ رکھنا کہ ہمارے منہ سے جو بھی لفظ نکلے اور اسے فوری پورا کیا جائے ورنہ کالے کوٹ والے آپ کو ٹھیک کردیں گے یہ ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کو زیب نہیں دیتا‘۔کراچی پریس کلب میں گذشتہ بدھ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے عدلیہ اور حکومت میں جاری کشیدگی کے بارے میں عاصمہ جہانگیر نے سخت موقف کا اظہار کیا۔ جس وقت وہ میڈیا سے مخاطب تھیں اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ملاقات جاری تھی۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ لوگ سپریم ہیں، پارلمنٹ اور عدلیہ لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں، انہوں نے کہا کہ خود عدلیہ کی پالیسی میں بھی یہ ہی لکھا ہے کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے فاصلہ رکھنا چاہیئے ۔وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاقات بھی دیکھیں گے ان کی حرکات و سکنات بھی دیکھیں گے،اس سے پہلے ملاقاتیں تو نواز شریف اور آصف علی زرداری کی بھی بہت ہوئیں تھیں۔ججوں کی معزولی کے وقت سرگرم اور بحالی کے بعد ان ہی ججوں سے مایوس عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ معاملہ حل ہو بھی گیا تو یہ مستقل حل نہیں ۔انھوں نے کہا’ ہم آئینی اصلاحات کے حق میں ہیں اگر سرکار اور چیف جسٹس کا آج مک مکا ( فریقوں کے درمیان سودے بازی) ہوگیا تو یہ عوام کا مک مکا نہیں ہے، عوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ آئینی اصلاحات ہوں وہ یہ دیکھیں کہ اعلیٰ عدالت کے ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے‘ ۔عاصمہ نے کہا یہ کہا جاتا ہے کہ اے کو نہیں بی کو جج لگایا جائے مگر یہ اختیار تو عوام کو ہونا چاہیئے جو انصاف کے لیے پریشان ہیں۔ ان کے مطابق انسانی حقوق کمیشن ایک چارٹر بنا رہا ہے جس پر لوگوں کے دستخط لیے جائیں گے اور ان کی رائے کو شامل کیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم یا ہائی کورٹ میں کسی بھی جج کی جب تقرری ہو تو ایک شہری کو یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ اس نے کتنے اور کس نوعیت کے مقدمات کی پیروی کی اور کتنا ٹیکس ادا کیا ۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آئندہ جج بننے والوں کے ماضی سے بھی عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیئے۔ اگر سارے جج وہ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کا ذہن رکھتے ہیں یا سارے جج پراسیکیوٹر برانچ سے آئے ہیں یا بڑی بڑی صنعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو یہ ایک ایلیٹ عدلیہ ہوگی۔ ان کے مطابق یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آنے والے جج نے لیبر یونین کے کتنے مقدمات کی پیروی کی، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے مقدمات کی کبھی پیروی کی ہے یا نہیں کیونکہ جب کوئی جج بنتا ہے تو اس کے لیے سب برابر ہوتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اختیارات کی منتقلی ہوگئی ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے، ان کے مطابق فوجی آمریت اب کھلے عام سامنے نہیں آئیگی کیونکہ اس نے لوگوں کا غصہ دیکھ لیا ہے۔اے پی ایس