مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پر تشویش۔چودھری احسن پریمی


جب تک بدعنوان عناصر کا محاسبہ نہیں ہوگا اس وقت تک ملک و قوم کی ترقی و استحکام نا ممکن دکھا ئی دیتا ہے کرپشن اوربے عملی کی سیاست نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔اس ضمن میں حکومت عوام کا اعتمادکھوچکی ہے۔حکومتی پالیسیوں اور عوام کے مسائل سے لاتعلقی کے باعث جمہوریت کا مستقبل نہ صرف خطرے میں پڑ چکاہے بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عنقریب عوام آوازلگانے والے ہیں کہ گرتی دیوراوں کو ایک دھکا اور دو ۔ سیاست دانوں کے علاوہ بیورو کریسی میں بھی کرپٹ عناصر کا احتساب اور آئین توڑنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی بنیادی ترجیحات میں ہونا چاہیے ۔ حکومت کی دوسالہ کارکردگی کے حوالے سے حکومت داخلی، خارجی اورمعاشی محاذوں پر ناکام ہوگئی ہے،حکمراں جماعت اوراس کے اتحادیوں نے عوام پرعرصہ حیات تنگ کردیاہے ‘حکومت نے کرپشن کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں،مہنگائی ‘بیروزگاری ‘ فحاشی وعریانی‘ کرپشن ‘عدلیہ کے فیصلوں پرعملدرآمد میں مسلسل تاخیری حربے عدم تحفظ اور قومی سلامتی سے متعلق امور میں ناکامی موجودہ حکومت کے ان چند کارناموں میں سے ہیں جواس نے روٹی ‘کپڑا اورمکان کے نام پر ووٹ دینے والے عوام کی خاطر سرانجام دیئے ہیں ۔ موجودہ حکومت کو داخلی وخارجی‘ سماجی ،معاشی ‘دفاع و پیداوار سمیت تمام محاذوں پر ناکامی کاسامنا کرناپڑا ہے ‘ملکی سا لمیت کی بجائے ذاتی مفادات کوترجیح دی گئی ہے۔ دوسال میں اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیاگیا جبکہ اشیاءکی قلت عوام کامقدر رہی ۔ملک میں بدترین مہنگائی کی ایک وجہ کابینہ سمیت وزراءاورمشیروں کی عیاشیوں پرمبنی بیرونی دورے غیر ترقیاتی اخراجات میں ریکارڈ اضافہ ہے۔ مو جودہ منتخب حکومت نے عو ام کی بہبود باالخصوص غریب خواتین کی امداد کیلئے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی پالیسیوں ا ور پارٹی منشور کی روشنی میں مختلف پروگرام شروع کئے لیکن غربت کے خاتمے کیلئے کوئی ایسا اقدام و کوششیں نہیں کی گئی ۔شہید بینظیر بھٹو وومین سپورٹ پروگرام سے براہ راست مستفید نہ ہونے اور اس کے فارم کے حصول تک ناممکن رسائی نے ملک بھر کے عوام میں کئی تحفظات بلکہ کئی ایک خدشات کو جنم دیا ہے کہ حکومت نے غریبوں کے نام پر لوٹ مار کا ایک ایسا منصوبہ ترکیب دیا ہے جس میں کو ئی بھی ارا لیکن پارلیمنٹ اس پروگرام کے خالی فارم اپنے ہی نوکروں اور مزارعوں کے نام سے پر کے قومی خزانے پر ڈا کہ ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ یہ پروگرام صدر آصف علی زرداری کی ہد ایات کے پیش نظر شروع کیا گیا تھا جس کے تحت غریب ترین خوا تین کی امداد کیلئے حکمت عملی وضع کرکے عملدرآمد شروع کیا جانا تھا لیکن اس پروگرام سے بھی حکومت کے ہاتھ بدنامی کے سوا کچھ نہیں آیااور اس پروگرام کی کامیابی کیلئے اسمبلی کے اراکین پر یہ ذمہ داری رکھی گئی تھی کہ وہ پروگرام کے فارم اپنے اپنے حلقوں میں مستحق اور غریب ضرورت مند خواتین میں تقسیم کریں۔ لیکن انھوں نے دیانتی داری سے ایسا نہیں کیا۔ جبکہ حکومت نے غیر متوقع ترقیاتی اخراجات کے باعث ترقیاتی بجٹ میں معتدبہ کمی کا عندیہ دیا ہے ، وزیر خزانہ برائے مملکت حناربانی کھر نے گزشتہ جمعہ کوقومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ جون میں بجلی مزید مہنگی کر دی جائے گی ، ۔ گذشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی میں توجہ دلاو ¿ نوٹس کے جواب میں انہوں نے ایوان کو تفصیلات بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ رواں مالی سال میں مالاکنڈ اور وزیرستان میں جاری فوجی آپریشنز پر 200 ارب روپے اوربجلی پر سبسڈی کی مد میں 60 ارب روپے کے غیر متوقع اضافی اخراجات کے باعث وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 421 ارب روپے سے کم کرکے 275 ارب روپے کیا جاسکتا ہے ، جون میں بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے گا ، رواں مالی سال میں 1318 ارب روپے کا محصولات کا ہدف حاصل نہیں ہوسکتا ہے بجٹ 2009-10ءمیں 421ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ منظور کیا گیا تھا جن میں سے دسمبر تک 100ارب روپے جاری کئے گئے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی وجہ چند غیر متوقع اخراجات ہیں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 110 ارب روپے اور بجلی پر سبسڈی کی مد میں اضافی اخراجات کئے گئے ہیں بجلی پر 12ارب روپے کی سبسڈی اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 90ارب روپے کے اضافی اخراجات سمیت رواں مالی سال 260ارب روپے تک غیر متوقع اخراجات ہونگے جو بجٹ میں شامل نہیں ہیں۔ جبکہ سینیٹ میں مہنگائی پر بحث کے دوران وزراءکی غیرحاضری پر اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا ہے،ارکان نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ غریب آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں، سینیٹر عبدالخالق پیرزادہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیاکہ اگر غریب آدمی کو بھوک سے مارنے کی کوشش کی گئی تو وہ پارلیمنٹ اور حکمرانوں کے محلات پر حملہ آور ہوجائیں گے،پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومت سعودی عرب سے حاصل ہونے والا سستا تیل بھی عالمی مارکیٹ کے حساب سے عوام کو فروخت کرکے اربوں روپے کمارہی ہے، سیاسی مفاہمت کے نام پر قومی خزانے سے اربوں روپے اڑائے جارہے ہیں،مسلم لیگ ہم خیال کے سینیٹر ہارون اختر نے مہنگائی پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور اقتصادی بحران کے اثرات پاکستان پر بھی آئے لیکن موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت پر الزام تراشی کرکے ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں افراط زر کی بے قابو صورت حال پر کنٹرول حاصل نہ ہوسکا۔ پٹرولیم اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ روپے کی قدر میں کمی سے یہ بحران مزید شدید ہوگیا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا جس کے بعد ملک کا نظام آئی ایم ایف کے کنٹرول میں چلا گیا جس کے بعد بجلی‘ گیس اور پٹرولیم نرخوں میں اضافہ ہوگیا۔ برآمدات میں منفی چھ فیصد کمی آئی۔ بھارت، چین اور سری لنکا پر نظر ڈالیں کہ انہوں نے کس طرح مسائل حل کئے۔ روپے کی قدر میں 40فیصد کمی ہوئی، پٹرولیم کی مصنوعات میں سبسڈی ختم کرنے کے بعد مزید ٹیکس لگا دئیے۔ عبدالرحیم مندوخیل نے ملکی معیشت، مہنگائی پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے پوری معشیت متاثر ہوئی ہے۔ ایم کیوایم کے عبدالخالق پیرزادہ نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمات کو اپنائے۔ پرویز مشرف کو گالیاں دے کر زبان خشک ہوگئی ہے لیکن اس وقت ڈالر 60 روپے کا تھا، بھارت میں جو گولی تین روپے کی ہے وہ پاکستان میں 17روپے کی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر نکل گئی ہیں۔ بجلی‘ گیس‘ ہوا ‘ پانی سب کچھ مہنگا ہے لوگ بھوکے مریں گے تو وہ حکمرانوں کے دروازے توڑ دیں گے نہ آپ بچیں گے اور نہ ہم بچ پائیں گے۔ اگر 500 چھوٹے ڈیم بنا دئیے جائیں تو پانی کی کمی ختم ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ہاتھ سے فیصلہ کرنے کی طاقت نکل چکی ہے، ہم ایوان میں تقریر کرتے ہیں اور یہاں بھینس بھی موجود نہیں جس کے سامنے بین بجائی جائے۔وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ صرف ریونیو ڈویڑن کی کرپشن روک لیں تو قرضے لینے کی ضرورت نہ رہے اگر کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہے تو اسے نیچے سے اوپر تک رشوت دینا ہوتی ہے۔ پورے خطے میں بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔ معاشرتی انصاف کے فقدان نے پاکستان کو ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے کہ عوامی ردعمل میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اس ضمن میںملک کے نام نہاد سیاسی لیڈروں کو چاہیے کہ وہ اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے سماجی انصاف سے محروم افراد کیلئے آواز اٹھائیں اور انہیں انصاف دلانے کیلئے خاطر خواہ اقدام کی حوصلہ افزائی کریں۔پاکستانی معاشرہ نہ صرف عوام کو انصاف فراہم کرنے سے قاصرہے بلکہ اس معاشرہ کو بیرونی معاشی و پالیسی اداروں کی مداخلت نے شہریوں کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ ملکی سطح پر معاشرتی انصاف سے محروم پچاس فیصد پاکستانی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک بھر کے عوام کو ا پنے روزگارکے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ جس سے نہ صرف ان افرا د کے معا شی حالات متاثر ہورہے ہیں بلکہ یہ معاشرتی عدل و انصاف کے باعث احساس محرومی کا بھی شکار ہیں۔ اے پی ایس