یو این او ،مغربی ممالک کی سیاسی خواہشات کے زیر اثر۔اے پی ایس


ایران کے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی نے اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کی اس حالیہ رپورٹ پر کڑی تنقید کی ہے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایران میزائل پر نصب کیے جانے والے جوہر ی ہتھیار تیار کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔سرکاری نیوزایجنسی اِرنا کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں سابق ایرانی صدر نے کہا کہ عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ بیرونی دباوکے تحت مرتب کی ہے ۔ انھوں نے بھی اپنے ملک کے دیگر رہنماوں کے اس الزام کو دہرایا کہ مغربی طاقتیں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے پر اثر انداز ہو کر ایران کے پر امن جوہری پروگرام کی ہیئت بدلنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست نے بھی ہفتہ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ بعض ممالک کی سیاسی خواہشات کے ا ثرمیں ہے۔ بظاہر اسرائیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایرانی ترجمان نے ایسے ممالک پر بھی تنقید کی جنھوں نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاوکے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط بھی نہیں کیے ہیں لیکن پھر بھی وہ جوہری ہتھیار بنا چکے ہیں۔امریکہ، فرانس اور جرمنی سمیت مغربی طاقتوں کا ماننا ہے کہ ایران کے ہاں یورینیم کی افزودگی کا مقصد جوہر ی ہتھیار بنانا ہے۔ لیکن ایرانی حکام ان خدشات کو بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو ایک بیان میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامینی نے ایک بار پھر کہا کہ ان کا ملک جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں نہیں کررہا کیونکہ ایران ایٹمی ہتھیاروں پر یقین نہیں رکھتا۔جبکہ ایران نے اپنے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کو وہ خبریں نشر کرنے والے بین الاقوامی ادارے بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کریں کیونکہ ان دونوں اداروں کا تعلق مبینہ طور پر برطانیہ اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ہے۔ایرانی پولیس کے سربراہ جنرل اسماعیل احمدی مغادم نے گذشتہ ہفتے کو مقامی میڈیا کو بتایا کہ بی بی سی برطانوی خفیہ ادارے MI6 اور وی او اے CIA کے لیے کام کرتا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ جو ایرانی ان نشریاتی اداروں کے لیے خبریں، رپورٹیں اور تصاویر بھیجتے ہیں انھیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جار ہی ہے۔خیال رہے کہ برطانیہ اور امریکی حکومتوں کی مالی امداد سے چلنے والے یہ دونوں نشریاتی ادارے فارسی زبان میں بھی خبریں نشر کرتے ہیں۔ ایران میں سیٹلائٹ ٹی وی پرپابندی اور نشریات کو منجمد کرنے کی سرکاری کوششوں کے باوجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد بی بی سی اور وی او اے کی نشریات باقائدگی سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ایرانی حکومت کا الزام ہے کہ پچھلے سال جون میں ہونے والے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد ایران میں حزب مخالف کے احتجاجی مظاہروں پر ا ±کسانے میں مغرب کا ہاتھ ہے۔ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خا منہ ای نے بھی نگراں جوہری ادارے آئی اے ای اے کی اس نئی رپورٹ کی واضح طور پر تردید کی تھی کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ادارے کے نئے سربراہ یوکی یاامانو کی قیادت میں تیار کی جانے والی یہ رپورٹ اب بحث کے لیے مارچ کے پہلے ہفتے میں ادارے کے پینتیس رکنی بورڈ میں پیش کی جائیگی۔جوہری ادارے کا کہنا ہے کہ ایران نے ادارے سے تعاون کرنا کم کردیا ہے اور رپورٹ میں پیش کیے گئے ت تکنیکی شواہد بہت قابل اعتبار ہیں کیونکہ ایسے ہی ثبوت تواترسے ملتے رہے ہیں۔ایران میں تیار شدہ بحری جہاز شکن اور زمین سے فضا تک مار کرنے والہ جدید ترین میزائیل اور تارپیڈو کی فوج کو فراہمی شروع ہوگئی اطلاعات کے مطابق جمران نامی پندرہ سو ٹن وزنی تباہ کن گائیڈڈ میزائیل خلیج میں نصب کیا جائینگے۔واضح رہے کہ یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے۔ جب ایران میں تیار شدہ بحری جہاز شکن، زمین سے فضا تک مار کرنے والے جدید ترین میزائیل ، تارپیڈو اور بحری توپوں کی فراہمی افواج کے لیے شروع ہوگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جمران نامی پندرہ سو ٹن تباہ کن گائیڈڈ میزائیل خلیج میں نصب کیا جائینگے۔اس سلسلے میں ہونے والی تقریب میں شریک ایرانی رہنما آیت اللہ خامنائی نے اپنے ماہرین کی تعریف کی مگر اس موقع پر انھوں نے جوہری ادارے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ ایران کے خلاف جوہری ہتھیار بنانے جیسے الزامات با لکل بے بنیاد ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے ہتھیار استعمال کرنا اہل ایران کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا۔واشنگٹن کے سینئیر حکام نے ایران کے رویہ کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ جرمنی کا کہنا تھا کہ رپورٹ سے یورپی ملکوں میں ایران کے عزائم کے بارے میں پائے جانے خدشات کی تصدیق ہوگئی ہے۔جوہری ادارے کی رپورٹ میں ایران کے خلاف جوہری ہتھیار بنانے جیسے الزامات باکل بے بنیاد ہیں۔ اس قسم کے ہتھیار استعمال کرنا اہل ایران کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا۔رپورٹ پر ماسکو کا ردعمل قدرے دھیما تھا اس کا کہنا تھا ایران کو جوہری ادارے کے ساتھ پورا تعاون کرکے اسے باور کرانا چاہیے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے۔امریکی حکام کہا کہنا ہے کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنے خفیہ ادارے کی نئی رپورٹ کا انتظار کر رہا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ اور کئی مغربی ملک سلامتی کونسل کے توسط سے ایران کے خلاف پہلے سے عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کروانا چاہتے ہیں۔ایران کے خلاف پہلے بھی تین مرتبہ اقتصادی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ایران کے سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک کی جانب سے دباو ¿ کے باوجود جوہری ایندھن کو بیس فیصد کی سطح تک افزودہ کرنے کا کام شروع کردیاگیا ہے۔اس عمل کا آغاز عالمی جوہری ادارے ’آئی اے ای اے‘ کے معائنے کاروں کے سامنے ’نتانز‘ کی تنصیبات میں شروع ہوا۔ایران کے ایک خبر رساں ادارے نے جوہری امور کے اعلیٰ اہلکار علی اکبر صلاحی کا یہ بیان شائع کیا ہے کہ نتانز میں افزودہ کیا جانے یورینیم تہران کے تحقیقی ریکٹر میں طبی تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے گا۔واضح رہے کہ ایران کا ہمشیہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرم سول مقاصد کے لیے ہے۔اہلکار نے مزید کہا کہ نتانز کی جوہری تنصیبات میں ایک سو چونسٹھ سینٹری فیوجز میں ہر ماہ تین سے پانچ کلو تک یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم تہران کے تحقیقی ریکٹر میں محض ڈیڑھ کلوگرام یورینیم ماہانہ کی ضرورت ہے۔اگر تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو یورینیم کی بیس فیصد تک افزودگی عالمی جوہری ادارے کے طے شدہ قانون کے مطابق ہے۔جوہری بم بنانے کے لیے یورانیم کی سطح بیس سے نوے فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بیس فیصد یورانیم بنانے کے لیے ’نتانز’ کے زیر زمین نتصیابات میں دو ہزار سینٹریفیوجز اور ایک برس کی مدت درکار ہے۔ بیس سے نوے فیصد کی سطح پر جانے کے لیے ایک ہزار تک سینٹریفیوجز اور صرف چھ ماہ درکار ہونگے۔ بیس فیصد افزودہ شدہ یورانیم حاصل کرنے کے بعد ایران جوہری ہتھیار بنانے کے ہدف سے چند قدم دور رہ جائیگا۔تاہم مغربی ملکوں میں پائے جانے والے خدشات کے مطابق اس سطح کا یورینیم حاصل کرنے کے بعد ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحت سے چند قدم کے فاصلے پر رہ جائے گا اور اس مواد سے صرف چھ ماہ کے اندار ہتھیاروں کے لیے مطلوبہ جوہری ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ایران نے جوہری ایندھن کی استعداد بڑ ھانے کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا ہے جب امریکہ دوسرے مغربی ملکوں کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں ایران پر پہلے سے عائد پابندیوں کو مزید سخت کروانا چاہتا ہے۔مغربی میڈیا کے مطابق ایران کی جانب سے افزودگی شروع کرنے کا مقصد اپنے دیرینہ موقف پر زور دینا ہے کہ اس حد تک یورینیم رکھنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ اس کا حق ہے۔ایران فی الوقت تین اعشارہ پانچ کی طاقت کا یورینیم بنا رہا ہے جب کہ تہران کے تحقیقی مرکز کو طبی مقاصد کے لیے بیس فیصد تک افزودہ یورینیم کی ضروت ہے۔جوہری بم بنانے کے لیے یورینیم کی سطح بیس سے نوے فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔جوہری ماہرین کے مطابق بیس فیصد یورینیم بنانے کے لیے ’نتانز‘ کی زیر زمین نتصیبات میں دو ہزار سینٹری فیوجز اور ایک برس کی مدت درکار ہے۔لیکن بیس سے نوے فیصد کی سطح پر جانے کے لیے ایک ہزار تک سینٹری فیوجز اور صرف چھ ماہ درکار ہونگے۔برطانیہ نے اس پیش رفت پر سخت تشویش کےاظہار تک اکتفا کیا۔ تاہم امریکہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف تادیبی پابندیاں سخت کروانے کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔اس معاملے پر مزید غور فکر کی ضرورت ہے۔ متعلقہ ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے اس تنازعے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ پابندیاں مہینوں میں نہیں چند ہفتوں کے اندر اندر لگنی چاہیں ۔اس صورتحال کے بارے میں چین کا موقف ان ملکوں سے مختلف ہے اس کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ایران سے مزید گفت و شنید کی جانی چاہیے۔چین کے وزیرِ خارجہ نے ایک پریس کانفرنس میں پابندیوں کی تجویز پر فوری طور پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ البتہ انہوں نے امید ظاہر کی کہ متعلقہ ملک مذاکرات کے ذریعے اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف نئی معاشی پابندیوں کی ممکنہ قرارداد چین کی حمایت کے بغیر منظور نہیں کی جاسکتی۔اقوام متحدہ ایران کے خلاف تین مرتبہ معاشی پابندیاں عائد کر چکی ہے جن کا مقصد وہ سرگرمیاں ترک کروانا تھا جن کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار پلوٹونیم تیار کیا جاسکتا ہو۔یاد رہے کہ اکتوبر میں آئی اے ای اے کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ایران افزدوگی کے لیے یورینیم روس اور فرانس بھیجنے پر آمادہ ہوگیا تھا۔ مگر گزشتہ ماہ ایرانی اہلکاروں نے بتایا کہ اسے ان ملکوں کی شرائط منظور نہیں تھیں۔مگر فی الحال صورتحال پوری طرح واضح نہیں ہے کیونکہ جوہری امور کے اعلیٰ اہلکار علی اکبر صلاحی نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ اگر ایران کو بیس فیصد تک افزودہ شدہ ایندھن بیرون ملک سے مل جائے تو ایران ملک کے اندر یہ عمل روک دے گا۔اے پی ایس