گیلانی،نواز ناشتے پر ملاقات۔چودھری احسن پر یمی


ملکی استحکام کیلئے حکمرانوں کو پالیسیاں تبدیل کرنا ہو نگی، عوام اداروں کے درمیان تصادم کی صورتحال سے نجات چاہتے ہیں صرف دو سال میں حکمرانوں نے تصادم اور محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کئے رکھا ملک کے حالات شدید خراب ہیںعوام کی خواہش ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ بند ہو مگر درحقیقت گزشتہ دو سال کے دوران حکمرانوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا جب تک ملکی پالیسیاں تبدیل نہیں ہونگی ملک کمزور ہوتا رہے گا ،حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بھی ملک اور قوم کا کچھ خیال نہیں ہے۔ جمہوریت کی بحالی کیلئے غریب عوم کا لہو بھی شامل ہے۔ ان کی جذبہ حب الوطنی اور قربانیوں کو مشعل راہ بناکر ملک میں آئین، قانون، انصاف اور عوامی حقوق کیلئے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ عوام کو جمہوریت سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن وہ توقعات دم توڑتی جارہی ہیں، اگر حکمرانوں نے عوامی مسائل پر توجہ نہ دی تو جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔سپریم کورٹ،میڈیا،وکلاءاور سول سوسائٹی جذبہ حب الوطنی اور جمہوریت کی خاطر جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اترنے دینے کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن افسوس کہ آج عوام مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، کرپشن ایسے خطرات ہیں جو ملکی سالمیت کیلئے چیلنج ہیں جن سے نبرد آزما ہونا حکمرانوں کے بس کی بات نہیں، عوام جان چکے ہیں کہ مفاد پرست حکمران ملک و قوم کو ان مسائل سے نجات نہیں دلاسکتے ۔ گذشتہ سوموار کی صبح جب وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ ناشتے پر ملاقات کیلئے رائے ونڈ پہنچے تو رائے ونڈ آمد پر انکا استقبال میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے کیا۔ وزیراعظم کی تقریباًگیارہ ماہ بعدرائے ونڈ میں شریف برادران سے یہ ملاقات تھی۔ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کی مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف کے ساتھ یہ ملاقات نو بج کر بیس منٹ پر شروع ہوئی اور دس بجکر پانچ منٹ پر ختم ہوگئی۔ملاقات میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت میں طے کردہ احتسابی نظام پر پیش رفت،عوامی مسائل کے حل اور آئین توڑنے والوں کے خلاف ابھی تک کو ئی اقدامات نہیں کئے گئے اس موقع پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دونوں جماعتوں کو مل کر جمہوری استحکام کیلئے کام کرنا ہے عوام کو اٹھارویں ترمیم کی جلد خوشبری سنا دی جائے گی جبکہ سترویں تر میم پر بھی مکمل اخلاص کا خاتمہ کریں گے۔دونوں رہنماو ¿ں کے درمیان ملک میں جاری سیاسی صورتحال، میثاق جمہوریت ،سترہویں ترمیم کے خاتمے اوراحتساب بل ، گڈ گورننس ،عوامی مسائل،خارجہ پالیسی ،امریکا اورنیٹوسے روابط اورپاک بھارت تعلقات بحالی سمیت دیگرمعاملات پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ وہ آئندہ بھی مفاہمت کی فضا برقرار رکھنا چاہتے ہیں،اورعوام کو جلد 17ویں ترمیم پر خوش خبری دینگے۔ وزیراعظم نے کہاکہ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کیلئے مل کر چلنا چاہتے ہیں۔میاں نوازشریف نے کہاکہ حکومت عوامی مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔میثاق جمہوریت میں طے کردہ آزاد احتساب نظام کی طرف جلد پیش رفت کی جائے، نواز شریف نے وزیراعظم پر زور دیا کہ آئین توڑنے والوں، بدعنوان عناصر کا محاسبہ کیا جائے۔جبکہ وزیر اعظم نے پریس کانفرنس میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکا پنجاب پر ڈرون حملے نہیں کرے گا، سوئس بینک اور دیگر معاملات پر آئین کے مطابق کام کرینگے، جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں ان پر بات کی جائے گی۔ ان کی جماعت میثاق جمہوریت کو بنیاد بنا کر آگے چلنا چاہتی ہے،نواز شریف کو بتا دیا کہ میثاق جمہوریت پر عمل کیلئے تیار ہیں ،23مارچ سے پہلے میثاق جمہوریت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں ، ان کا کہناتھا کہ وہ کمیٹی سے کہیں گے کہ اس پر 23مارچ سے پہلے عمل کریں اس سے لوگوں کو خوشی ہوگی۔ میثاق جمہوریت پر عمل درآمد سے طاقت کا توازن بہتر ہوجائے گا ۔عام آدمی کو فوری ریلیف دینا چاہتے ہیں ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تھنک ٹینک عام آدمی کوریلیف دینے کیلئے حکمت عملی بنائیں گی اور اس حوالے سے اپنے منشور پر عمل کریں گی۔ وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ کا تحفظ کرتے ہوئے اداروں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں ۔عدالت کے ہر فیصلے پر عمل درآمد کریں گے ، عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ،عوام کی توقعات پوری کریں گے ، پانی کے مسئلے کو سیاسی نہ بنایا جائے یہ مسئلہ جلد حل کرلیا جائے گا،سوئس بینک اور دیگر معاملات پر آئین کے مطابق کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کی قیمت پاکستانی قوم ادا کررہی ہے ، حکومت نے شدت پسندوں کو قبائل سے الگ کرکے دکھایا ہے ، لیکن ڈرون حملے پاکستان میں شدت پسندوں اور عوام کو اکٹھا کردیتے ہیں، امریکانے کوئٹہ پر ڈرون حملوں کی بات کی تھی،جسے مستردکردیا گیا، امریکا پنجاب پر ڈرون حملے نہیں کرے گا۔ایک دوسرے کے پتلے جلانا غیر سیاسی ارکان کا کام ہے، صدر مملکت اور میاں نوازشریف نے اس فعل پر ناگواری کا اظہار کیا ہے،وزیر اعظم گیلانی نے مزید کہا کہ سیاست میں دروازے بند نہیں کیے جاتے بلکہ راستے کھولے جاتے ہیں،صوبہ سرحد کے نام کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے گا، احتساب بل تمام جماعتوں کی مشاورت سے لائیں گے۔ اس موقع پر بات کرتے ہوئے مسلم ن کے قائد نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں الیکشن کے بعد عوام کی امیدیں پوری ہونی چاہیں ،آئی ایم ایف سے شرائط نرم کرنے پر بات ہونی چاہیے ، دو برس میں کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوسکے۔مری اعلامئے پر اب تک عمل نہیں کیا گیا،اب مذاکرات کے بعد ہونے والے فیصلوں پر عمل ہونا چاہئے ۔میثاق جمہوریت پر عمل اور سترہویں ترمیم کا خاتمہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرٹ اور انصاف پر حکومت کو پورا اترنا چاہیے۔ حکومت کو کرپشن سے پاک ہونا چاہیے اورملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم کی جانی چاہیے۔ نواز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف سے شرائط نرم کرنے پر بات ہونی چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام مہنگائی کا یہ بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کے مجبور کرنے پر کابینہ میں شامل ہوئے تھے ، اور مجبوری میں ہی کابینہ سے نکلے بھی تھے۔ نواز شریف کہا کہ مشرف کی باقیات کو پروان چڑھتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے ۔ نواز شریف نے کہا کہ لوڈشیڈنگ سابق حکمرانوں کا تحفہ ہے،حکومت نے اس کے ذمہ دار پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا حالانکہ اس کا احتساب ہونا چاہتے تھا۔ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پروزیراعظم نے کہا کہ عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے بات کررہے ہیں،انہیں پنجاب سے گرفتار نہیں کیا گیا، نواز شریف نے کہا کہ امریکی حکام نے یقین دلایا ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں ہورہی ہیں۔میاں شہباز شریف نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرف دور میں ہمارے خاندان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا حکومتی معاملا ت سے کوئی تعلق نہیں ،حکومت بڑے شوق سے ہمارے خلاف کیسز عدالت میں لے کر آئیں ،اپنے خلاف کیسز کے دوران عدالت وہ خود پیش ہوں گے۔اس موقع پر نوازشریف نے کہا کہ مشرف کے مطابق ہم نے اپنے کاروبار میں خود کرپشن کی ۔ایک سوال پر کہ صدر زرداری اب بھی جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں یا نہیں ، نوازشریف نے انگریزی کا مقولہ Action speaks louder than words،دہراتے ہوئے کہا کہ اب آگے کے اقدامات دیکھ کر اس حوالے کچھ کہا جاسکے گا۔دونوں رہنائوں کی اسی طرح کئی ایک ملاقاتیں ہوچکی ہیں جبکہ میثا ق جمہوریت کے حوالے سے بقول وزیر اعظم گیلانی دونوں فریقوں میں پچاس ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔حالیہ ملاقات میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک نئی سوچ سامنے آئی ہے کہ عدالتوں سے مفاہمت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد پی ایل ن سے تعلقات بہتر بنا ئیں جائیں۔وزیر اعظم گیلانی کا حالیہ دورہ دونوں پارٹیوں کے درمیان جو تعلقات کشیدہ ہوئے تھے ان کو استوار کرنا بھی شامل تھا۔دونوں رہنمائوں کی پریس کانفرس کے موقع پروزیر اعظم کی باڈی لینگوئج سے لگ رہا تھا کہ وہ مفاہمت چاہتے ہیں لیکن انہیں یقین نہیں کہ ان کی باتوں پر عمل درآمد ہو۔گیلانی،نواز حالیہ ملاقات میں وہی باتیں دہرائی گئیں ہیں۔عوامی مسائل پر کو ئی خاطر خواہ یقین دہانی نہیں کروائی گئی۔دونوں رہنمائوں سے ملاقات سے پہلے کافی حدت تھی۔ دونوں جماعتیں جو اتحادی بھی ہیں ملاقات سے قبل اپنی راہیں جدا کرنے پر لگی ہوئی تھیں۔ملک جس صورتحال سے گزر رہا ہے اس میں سب سے بڑا ایشو عوامی مسائل کا ہے جو معاشی استحکام سے جڑا ہے اور معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے وزیر اعظم گیلانی چیف جسٹس کی بحالی کے بعد 22مارچ2009کو رائے ونڈگئے تھے۔سوات آپریشن سے پہلے سیاسی جماعتوں کواعتمادمیں لینے کے حوالے سے اجلاس میں دونوں رہ نماملاقات کرچکے ہیں۔12نومبر2009کوبھی دونوں رہ نماو ¿ں کی بلوچستان پیکج کے اعلان کے موقع پر اسلام آبادمیں ملاقات ہوئی تھی،جبکہ اس کے بعد25نومبرکونواب شاہ ایئر پورٹ پر بھی نوازشریف وزیراعظم سے غیررسمی ملاقات کرچکے ہیں۔چند روزپہلے بھی نواز شریف کی اسلام آباد میں فلسطینی صدرمحمودعباس کے اعزازمیں دیئے گئے عشایئے میں وزیر اعظم سے علیحدگی میں ملاقات ہوئی تھی۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف بھی وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں،ان ملاقاتوں میں جمہوری نظام کے استحکام کے لئے مل کرچلنے پراتفاق کیاگیا،ایک ماہ پہلے ہونے والی ملاقات میں دونوں رہ نماوں نے مڈ ٹرم انتخابات کوخارج از امکان قرار دیا۔سیاسی حلقوں کاکہناہے کہ شریف برادران تین ماہ سے صدر آصف زرداری سے تو براہ راست ملاقات سے گریزاں نظرآ رہے ہیں،تاہم وہ وزیر اعظم پراعتمادکااظہارکرتے ہیں۔اے پی ایس