پاک بھارت مذاکرات ایک بار پھرناکام ۔اے پی ایس


سولہ ماہ کے تعطل کے بعد پاکستان اوربھارت کے مذاکرات ہو ئے تھے جو ایک خوش آئند اقدام تھا تریسٹھ سال گزر جانے کے باوجود پاک بھارت کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے ۔ اور اس کے حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے ۔ توقع تھی کہ آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان اور بھارت کشمیریوں کو ساتھ لے کر ا س مسئلے کو حل کریں گے جبکہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارتی آبی جارحیت نے بھی پاکستان کی سرزمین کو پیاسا کردیا ہے اور ہندو بنیا کی خواہش ہے کہ پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کردیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کی بظاہر داخلی فضا مکدر تھی کہ پاکستان اور بھارت تمام متنازعہ مسائل کے حل کی کوششیں کامیاب ہوجائیں گی ۔ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے کیونکہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے تریسٹھ سالوں سے کشمیری بھی ابتلا میں ہیں۔جبکہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرف سے آبی جارحیت سے پیدا ہونے والا پانی بحران پر تحفظات تھے۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ بھارت پاکستان کے تمام مطالبات پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہا۔ بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کے ثبوت بے بنیاد قرار دے دئیے۔ پاکستان سے جماع? الدعوة سمیت دیگر تنظیموں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کر تے ہوئے ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستانی اقدامات کو ناکافی قرار دے دیا۔ پانی کا مسئلہ سندھ طاس معاہدے کے تحت حل کیا جائے گا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپماراو ¿ نے گزشتہ روز نئی دہلی میں سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کی قیادت میں پاکستانی وفد سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد پاک بھارت جامع مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا ختم ہو گئی تھی اور اس اعتماد کی فضا کو اونا بم دھماکو ںنے مزید نقصان پہنچایا انہوں نے کہا کہ پاکستانی وفد کے ساتھ ملاقات میں کھلے ذہن کے ساتھ بات کی ہے سب سے پہلے اعتماد بحال کر نا ہو گا اس کے بعد مرحلہ وار بات آگے بڑھے گی دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے جو خدشات تھے ان سے پاکستان کو آگاہ کیا ہے اور اپنے ہم منصب کو بتایا ہے کہ وہ اپنی سر زمین بھارت کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال نہ کر نے دیں انہوں نے کہا کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے تک لائے۔ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کے خلاف کاروائی کی جائے لشکر طیبہ نے آزادکشمیر کے اندر ریلیاں نکالی ہیں اور بھارت کے خلاف اشتعال انگیز باتیں کی ہیں ۔ پاکستان نے ممبئی حملوں کے حوالے سے تسلی بخش اقدامات نہیں کئے۔ بھارتی حکومت اپنے شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔پاکستان نے بھی دیگر مسائل پر بات چیت کی ہے اور ہم نے ان کے سامنے اپنے قومی موقف کا اعادہ کیا ہے ۔ پاکستان اگر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے گا تو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو گی ہم پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ بھارت نے کبھی مذاکرات کے راستے بند نہیں کئے ۔ نروپماراو ¿ نے کہا کہ پاکستان نے بتایا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران افغانستان پر کوئی بات چیت نہیں کی گئی تاہم بلوچستان کے حوالے سے پاکستان میں جو ثبوت فراہم کیے ہیں وہ بے بنیاد ہیں بھارت کو کسی دوسرے ملک کے اندر اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں۔ مذاکرات خوش آئند ہیں لیکن ان میں سارک کانفرنس کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں کی گئی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے موقف کو سنا ہے اور کہا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس مسئلے کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر نے کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران پانی کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے ہم نے انہیں کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پانی کے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنر کی ملاقاتیں جاری رہنی چاہئیں ۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت طے شدہ میکانیزم کے ذریعے ہی پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو ممبئی حملوں کے حوالے سے شواہد کی تین دستاویزات دی ہیں ۔ حافظ سعید کا بھارت کے خلاف اشتعال انگیز ایجنڈا ہے پاکستان اس کے خلاف کاروائی کرے کیونکہ اس طرح کے بیانات دونوں ممالک کے تعلقات خراب کر نے کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے ہماری بات چیت جاری رہے گی ۔ الیاس کشمیری نے اونا بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے پاکستان نے اس کی مذمت کی ہے ۔ ایک سوال پر انہو ںنے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی اشد ضرورت ہے ایک اور سوال پر انہو ںنے کہا کہ پاکستانی ہم منصب نے انہیں پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے۔سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا ہے کہ مذاکرات میں کشمیر ،بلوچستان اور دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت ہو گی ۔ کشمیر کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے جبکہ پانی اور بلوچستان کے معاملات کے علاوہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی بات چیت ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دہشت گردی کا معاملہ ہے یہ پاکستان سمیت پوری دنیا کا مسئلہ ہے دریں اثناءمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں جموں وکشمیر کے مسئلے سمیت دہشت گردی اور دیگر اہم معاملات زیر غور آئیں گے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس کو ایڈریس کیا جانا بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستانی وفد مثبت سوچ کے ساتھ بھارت آیا ہے اس لیے بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ بھی مثبت ہو گااور یہ مذاکرات دونوں ممالک کے لیے سود مند رہیں گے ۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام تمام باہمی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور یہ سوچ علاقے کے استحکام اور خوشحالی کے لیے مفید ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ ان کے وفد کی پوری کوشش ہو گی کہ مذاکرات مثبت اور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ اور پاکستان بھی دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت کرناچا ہے گا کیونکہ پاکستان کے بھی تحفظات ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ جموںو کشمیر ایک بنیادی مسئلہ ہے اور باقی تمام مسائل اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر جموںو کشمیر کامسئلہ60 سال پہلے حل ہو جاتا تو یقینا آج حالات کچھ اور ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ان مذاکرات میں بھی اٹھائیں گے ۔ ترجمان نے کہا کہ یقینا دونوں ممالک یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں ۔ اور پاک بھارت تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ انہوں نے کہا کہا گر ان مذاکرات میں جموںو کشمیر کے مسئلے پر بات چیت نہ کی گئی تو بقول ان کے یہ ان مذاکرات کے ساتھ ناانصافی ہوگی ایک سوال کے جواب میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان میں بھی مقدمہ جاری ہے۔ اور امید ہے کہ اس کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جائیگا۔بھارت اور پاکستان کے درمیان خارجہ سکریٹریز کی سطح کی بات چیت سے قبل ہندوستان کی صدرپرتیبھا پاٹل نے کہا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ بامقصد تعلقات کے لیے تیار ہے۔پارلیمان کے بجٹ اجلاس کے پہلے روز دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پرتیبھا پاٹل نے کہا ’ہندوستان پاکستان کے ساتھ بامقصد تعلقات قائم کرنےکے لیے تیار ہے بشرطیکہ پاکستان سنجیدگی سے دہشتگردی سے لاحق خطرے سے نمٹے اور ہندوستان کے خلاف ہونے والی دہشتگرد کارروائی کے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے‘۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ پندرہ ماہ سے معطل مذاکرات کا عمل اچانک دوبارہ شروع کرنے کی جو پیشکش ہوئی ہے وہ بعض سابق سفارت کاروں کے مطابق بظاہر جامع مذاکرات کی بحالی نہیں بلکہ دلی نے ’کمپوزٹ ڈائیلاگ‘ کے نام سے دامن بچاتے ہوئے تمام متنازع معاملات پر بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔لیکن بھارتی موقف میں اس اچانک نرمی کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ کوئی اسے افغانستان میں کرزئی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کے تو کوئی اسے ’بھارت کو آخر مذاکرات کی میز‘ پر آنا ہی تھا کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ استنبول اور لندن کانفرنسوں سے یقیناً بھارت کو شاید یہ احساس ہوا ہے کہ وہ افغانستان کے لیے ترتیب دی جانے والی نئی پالیسی پر عمل درآمد کے بعد اکیلا رہ جائے۔ ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔یہ شاید ایک حد تک ممکن ہو تاہم اس کے علاوہ گزشتہ دنوں ہونے والے دو اہم واقعات بھی شاید اس تبدیلی کی وجہ ہوسکتے ہیں۔اس بابت بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم کا بیان کے ممبئی حملے میں بھارتی شخص ابو جندال جن کا اصل نام سید ذبیح الدین بتایا جاتا ہے ملوث ہوسکتا ہے کافی اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ شک کافی عرصے سے تھا۔ اس دریافت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ممبئی کے حملوں کے بعد پاکستان پر بھارت کے غصے میں قدرے کمی آئی ہے۔ اس سے قبل بھارت پاکستان حکومت کو ہی شدت پسندوں کو قابو میں نہ رکھ سکنے کی وجہ سے اس حملے کا ذمہ دار قرار دیتا رہا ہے۔ ایک دوسری وجہ پاکستان فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا وہ بیان ہے جس نے اپنے اور اپنے ادارے کے انڈیا سینٹرک ہونے کا دوٹوک الفاظ میں اعتراف کیا تھا۔ اس بارے میں بیان سے قبل کسی کو کوئی شک نہیں تھا لیکن جنرل صاحب کے بیان نے واضح کر دیا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے امریکہ اور بھارت پر یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں امن مذاکرات کو یرغمال نہ بنایا جائے تو بہتر ہے۔ لگتا ہے دلی کو ان کا مشورہ پسند آیا ہے اور انہوں نے مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان رابطے بحال کرنے کو ہی بہتر جانا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت کو پاکستان اور اس کے سیکورٹی اداروں کو اپنا دشمن نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ساتھی بنانا چاہیے۔ ان کی مدد سے ہی وہ ان درجنوں شدت پسند گروپوں پر جنہیں دن رات بھارت کو توڑنے کے خواب آتے رہتے ہیں قابو پاسکتا ہے۔ پاکستان خود دہشت گردوں کے نشانے پر ہے لہذا بھارت کو ایسے میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ موجودہ حالات میں مشترکہ خطرے کا مل کر ہی بہتر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایک اور بڑی وجہ ایک امریکی تھنک ٹینک سٹریٹفور کے مطابق امریکہ کی مدد سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بیک چینل سفارت کاری بھی ہے۔ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا اس وقت سب سے زیادہ نقصان اس خطے میں موجود امریکہ کو ہی ہوسکتا ہے۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں چھوڑ کر مشرقی سرحد پر توجہ دینا شروع کر دے۔ امریکی وزیر دفاع کا دورہ بھارت اس بابت کافی اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت آغاز ہی سے تیسرے فریق کی مداخلت کے خلاف رہا ہے لیکن لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر اسے اس پر کسی حد تک رضامند کر لیا ہے۔بھارت مذاکرات میں دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرنے کی بات کرے گا تو دوسری جانب پاکستان کشمیر سمیت تمام متنازع اشوز پر بات کرنا چاہے گا۔ لہذا ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس پر ہوگا کہ بات چیت کا نیا دور کس طرح آگے بڑھایا جائے گا، اس کے گروانڈ رولز کیا ہوں گے اور فریقین کتنی لچک دکھانے پر کتنے رضامند ہوں گے۔ جبکہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ جمعرات کو ہونے والی بات چیت میں ’آگے کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔‘دوسری طرف دلی میں حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذاکرات کے بعد کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا جائے گا۔سیکریٹریوں کی سطح کے باہمی مذاکرات کے لیے دلی پہنچنے پر سلمان بشیر نے کہا کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لینے آئے ہیں اور انہیں امید ہے کہ جمعرات کی بات چیت سے مستقبل میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کی راہ ہموار ہوگی۔اسی دوران ہندوستانی وزارت خارجہ کے ذرائع نے سرکاری ٹی وی چینل دور درشن کو بتایا کہ بات چیت کے بعد کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا جائےگا اور دونوں خارجہ سیکریٹری علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنسوں سے خطاب کریں گے۔مبصرین کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں ملکوں کو بات چیت میں کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ممبئی پر حملے کے بعد سے معطل ہے۔ سلمان بشیر نے کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ اختلافات کو کم کیا جاسکے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے لیے کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہوگا جبکہ ہندوستان کئی مرتبہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ بات چیت کا محور دہشت گردی تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔بہرحال، بات چیت کے لیے ابھی کوئی اجنڈا طے نہیں ہے اور توقع یہ ہی کہ پاکستان پانی اور کشمیر دونوں ہی معاملات کو زیر بحث لانے کی کوشش کرے گا۔ہندوستانی وفد کی قیادت خارجہ سیکریٹری نروپما راو ¿ کریں گی۔ سلمان بشیر نے گذشتہ بدھ کی شام حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے رہنماو ¿ں سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی ہے۔اس سے پہلے لاہور سے دِلی کے لیے روانگی کے موقع پر سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے واضح کیا تھا کہ بھارت سے مذاکرات میں کوئی بھی مسئلہ خارج نہیں ہوگا۔ پاکستان کی ترجیح مسئلہ کشمیر ہے اس کے علاوہ پانی کا مسئلہ بھی اہم ہے اور اس سمیت تمام امور پر بھارت سے گفتگو کرے گا۔ بھارت سے مذاکرات کے لیے آٹھ رکنی پاکستانی وفد دہلی پہنچا تھا جہاں گذشتہ جمعرات کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل وقفے کے بعد باضابطہ مذاکرات ہو ئے۔ قبل ازیںپاکستانی وفد کے سربراہ سلمان بشیر سے پوچھا گیا کہ بھارت صرف دہشت گردی کے معاملے پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے کیا پاکستان اس پر راضی ہوگیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’اس پر دونوں اطراف میں خاصی انڈرسٹینڈنگ پائی جاتی ہے کہ مذاکرات سے کوئی بھی ایشو نکالا نہیں جائے گا اور دونوں اطراف اپنا اپنا موقف بیان کریں گے۔ ہمارا اپنا موقف ہے جو ہم مذاکرات میں پیش کردیں گے۔‘سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ان کی خواہش ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ دہلی مذاکرات کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خواہش سے مراد یہی ہے کہ بات چیت کے اس سلسلے کو ’روڈ میپ‘ بنایا جاسکے اور واضح طریقے سے معاملات آگے بڑھائے جا سکیں جس کے بعد وزارئے خارجہ اور اس سے بھی بڑی سطح پر مذاکرات ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تو مذاکرات کا ایک ہی راو ¿نڈ ہونا ہے اور جہاں تک بھارتی وفد کو پاکستان مدعوکرنے کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان کبھی مبہم نہیں رہا۔’ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملنے کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور جامع مذاکرات کو بحال کیا جائے۔‘انہوں نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات کی بحالی کو کسی کی شکست یا فتح کے زاویے سے نہ دیکھا جائے تو بہتر ہوگا۔’ابھی انتظار کریں کل صورتحال مزید واضح ہوسکے گی۔‘جماعتہ الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید اور دیگر پاکستانیوں کی حوالگی کے بھارتی مطالبہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی سیکرٹری خاجہ نے کہا کہ’میرے خیال میں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کو معاملات کو مذاکرات (کا عمل شروع کرنے) سے مشروط کرنا نقصان دہ ہوگا۔انھوں نے کہا کہ شرم الشیخ کی وزرائے اعظم ملاقات میں بھی اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کے لیے مسئلہ ہے اور دہشت گردی کا خطرہ دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کو اسی طرح درپیش ہے جس طرح دوسرے ممالک کو یہ خطرہ درپیش ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر پاکستان کی نیت و عمل شک سے بالاتر ہے۔ عالمی برادری اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کو سراہتی ہے اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ بھارت بھی اس بات پر اتفاق کرے گا کہ دہشت گردی نہ صرف بین الاقوامی بلکہ خطے کا اور مقامی مسئلہ ہے۔پاکستانی سیکرٹری خارجہ سے پوچھا گیا کہ کشن گنگا ڈیم کا تنازعہ جامع مذاکرات میں بھی شامل نہیں ہے کیا پاکستان اس معاملہ کو بھارت سے اٹھانا چاہے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہمارا ارادہ ہے کہ کشن گنگا ڈیم سمیت پانی اور دیگر تمام مسائل پر انڈیا سے بات چیت کی جائے۔‘انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی کے مسئلے پر توجہ دی جائے اور جامع طریقے سے ان مسائل کرنے کا طریقہ کار طے کیاجائے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ داخلہ اور پانی کی وزارتوں کے افسران کو بھارت جانے والے وفد سے نہیں نکالا گیا بلکہ اسی آٹھ رکنی وفد نے انڈیا جانا تھا۔انھوں نے کہا کہ اس بات کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ ہماری کوششوں کا محور بات چیت کے اس سلسلے کو بحال کرنا ہے جو تعطل کی شکار ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ممبئی حملوں کے بعد سے جامع مذاکرات معطل ہوگئے تھے اور بھارت نے ان مذاکرات کی بحالی کو ممبئی حملوں کے ملزموں کے خلاف کارروائی سے مشروط کیا تھا۔اب بھارت نے بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کی خواہش کے مطابق جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوسکے گا یا نہیں۔بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں نومبر دو ہزار آٹھ کو ہونے والے حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات معطل کئے تھے۔بھارت نے حملوں کا الزام جماعت الدعوہ پر لگایا تھا۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کے بعد کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا جائے گا اور مشترکہ پریس کانفرنس بھی نہیں ہو گی۔ دونوں خارجہ سیکریٹری الگ الگ پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے اور پاکستانی سیکریٹری خارجہ کی پریس کانفرنس ہائی کمیشن میں ہو گی۔ذرائع نے کہا کہ پاکستان کو مذاکرات سے زیادہ توقعات نہیں اور کامیابی کا دارومدار بھارتی رویے پر ہو گا۔ ذرائع نے کہا کہ پاکستان کھلے ذہن کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہو گا۔ اس لئے بعض بھارتی بیانات کا جواب نہیں دیا تاکہ ماحول خراب نہ ہو ۔ذرائع نے کہا کہ بھارت نے مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں گزشتہ سال جولائی میں دونوں ممالک کے وزراءاعظم کی ملاقات کے بعد مشترکہ بیان میں کئی وعدے کئے تھے جسکو بعد میں اندرونی مخالفت کی وجہ سے عملی جامہ نہ پہناسکے اس لئے شاید مشترکہ بیان جاری کرنے سے احتراز کیا جا رہا ہے تاکہ بھارت میں کوئی رد عمل سامنے نہ آئے۔وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر کا بھارت میں چھ رکنی و فود میں وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیاءڈیسک کے سربراہ ڈاکٹر افراسیاب مہدی ہاشمی، ترجمان وزارت خارجہ عبد الباسط اور ڈائریکٹرز سطح کے افسران شامل تھے۔ایک سوال پر ذرائع نے کہا کہ اگر بھارت کو ممبئی حملوں کی تحقیقات میں اندرونی مخالفت کا سامنا ے تو پاکستان پر بھی اندرونی دباو ¿ ہے کہ سمجھوتا ایکسپریس بم حملوں کی تحقیقات کیلئے بھارت پر دباو ¿ ڈالا جائے ۔ 18 فروری 2007 ءمیں سمجھوتا ایکسپریس پر پانی پت کے قرب بم حملوں میں 68 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جس میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی ۔ ایک اور سوال پر ذرائع نے کہا کہ پاکستان ثالثی پر اصرار نہیں کر رہا اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات بشمول کشمیر دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حامی ہے تاہم اگر کوئی ملک ثالثی کرنا چاہتا ہو تو پاکستان یہ کردار بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے۔اے پی ایس