پیر اسماعیل شاہ بخاری المعروف پیرکرمانوالا۔اے پی ایس


اقوا م عالم میں اسلام طاقت اور تلوار سے نہیں بلکہ سیرت طیبہ کی روشنی میں بزرگان دین کی تبلیغ سے عام ہوا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور درپیش چیلنجز اور مشکلات کے باوجود آج بھی عالم اسلام کی امیدوں کا محور و مرکز ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں کئی ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری تبلیغی کاوشیں اس راستے سے ہٹ گئی ہوں جن کو ہمارے پیارے نبی نے ہمارے لئے پسند کیا تھا یہ لمحہ فکریہ ہے خرابیاں ختم کرنے کیلئے پوری قوم کو ایک ہو کر سوچنا ہوگا۔گذشتہ دنوں اوکاڑہ میںپیر اسماعیل شاہ بخاری المعروف پیرکرمانوالا کا چوالیسواں عرس مبارک منعقد ہوا۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات سید صمصام علی بخاری مذکورہ درگاہ کے جانشین بھی ہیں۔پیر اسماعیل شاہ بخاری المعروف پیرکرمانوالا کا چوالیسواں عرس مبارک اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ اسلام اسماعیل شاہ بخاری جیسے صوفیاءکرام مشائخ اورعلماءکی تبلیغ کے ذریعے پھیلا ہے اسلام امن ومحبت مساوات اور اخوت کادرس دیتا ہے علماء اسلام کے اصل پیغام کو پھیلانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور صوفیاءکرام کے درس کا سلسلے جاری رہنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک کیلئے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے ہم جلد دہشت گردی کا خاتمہ کرکے اپنے وسائل غربت جہالت اور مہنگائی جیسے مسائل کے خاتمے کیلئے استعمال کرسکیں گے۔دہشت گردی کے خاتمے کیلئے علماءکرام اورعوام بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اس وقت حکومت اپوزیشن اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کو احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اسلام خود کش حملوں کی اجازت دیتا ہے ہمارے فوجی جوان اپنا آج ہمارے کل کیلئے قربان کررہے ہیں۔ ہم ان پر فخر ہے اور پاک فوج کا دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور ساتھ دینا ہو گا ۔انہوں نے کہاکہ پاک فوج کے جوان پولیس ایف سی رینجرز میڈیا اور عوام دہشت گردی کیخلاف بہترین کردارادا کررہے ہیں جس پر ہمیں انہیں خرا ج تحسین پیش کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ عرس میں شرکت کے پہلے مجھے رپورٹ دی گئی تھی کہ یہاں آنا سکیورٹی رسک ہے مگر ہم عوام سے اپنا رشتہ نہیں توڑ سکتے اور نہ ہی دہشت گرد ہمارے حوصلے پست کرسکتے ہیں۔ آج پوری قوم کو دہشت گردی کیخلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ پر ہمارا کثیر سرمایہ خرچ ہورہا ہے مگر ہم کٹھن حالات کے باوجود عوام کے معیار زندگی کوبلند کرنا اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ صوفیاءاور اولیاءکرام کے تبلیغی مشن کے نتیجے میں یہ علاقے اسلام کے نور سے منور ہیں۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو عام کیلئے جو بھی سفارشات آئیں حکومت ان پر عمل کرے۔حضور اکرام کی ذات کے صدقے میںیہ ملک قائم ہوا اور تمام تر مشکلات اور دشواریوں کے باوجود یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ حضور پاک کی ذات گرامی رشد و ہدایت کا ابدی چشمہ ہے ۔ اس چشمہ سے ہدایت کے دریا ہمیشہ رواں رہیں گے ۔ وقت کا دھارا بہتا رہے گا ۔ دنیا ترقی کرے گی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی آگے بڑھے گی انسانیت ارتقائی مراحل سے گزرے گی حیات رسول پاک ہر دور میں انسانیت کے دکھوں کے مداوے کا سامان مہیاکرتی رہے گی ۔ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ رسول کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس کا کوئی ورق پوشیدہ نہیں اور جس کا ہر پہلو بے داغ ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیںکہ حضور پاک نے بلا امتیاز ہر ایک کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ۔ اسلام میں دعوت و تبلیغ کی بنیاد سراسر بھلائی اور خیر خواہی پر ہے ۔ نبی اکرم کی سیرت پاک سے سبق ملتا ہے کہ دین کی ابتداء سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہونی چاہیئے پھر اپنی بستی اور پھر اپنے شہر سے ، اسی طرح یہ سلسلے آگے بڑھ کر تمام انسان اور پوری کائنات کو دعوت و تبلیغ کے دائرے میں داخل کر لیتے ہیں ۔ہمارے رسول پاک نے دنیا کی تمام قوموں کو برابری اور مساوات کا درس دیا ۔ اپنی تبلیغ کیلئے قریش و غیر قریش، حجاز ویمن ، عرب و عجم روم اورہند کی تخصیص نہیں فرمائی بلکہ دنیا کی ہر قوم و زبان اور ہر گوشہ میں پیغام الہی پہنچانا فرض قرار دیا ۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ خیر کی دعوت دیں ، اچھائی کرنے اور برے کاموں سے روکنے کی ترغیب دیں اور ایک دوسرے کو سچائی کی نصیحت کرتے رہیں ۔ مسلمانوں کا یہ فرض بھی بتایا ہے کہ وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی تاریکی سے نکالنے کی جدوجہد کریں ۔ رہبر کامل کی تعلیمات کا اولین مقصد پوری دنیا میں امن و سلامتی کا قیام او رنسل انسانی کی مکمل حفاظت تھا آپ نے اپنے عالم گیر انسانی پیغام کے ذریعے جو انقلاب برپا کیا اس کے بنیاد ی مقاصد میں قتل و غارت گری اور ہمیشہ کیلئے فساد کا خاتمہ بھی شامل تھا ۔ اگر رہبر انسانیت کے دیئے ہوئے عملی نمونوں اور توقیر انسانیت پر مشتمل تعلیمات پر آج بھی صدق دل سے عمل کیا جائے تو نہ صرف مسلمانوں اور امت مسلمہ کیلئے دنیا و آخرت کی کامیابی کی راہیں کھل جائیں گی بلکہ پوری دنیا میں امن و سکون اور سلامتی کا دور دورہ ہو جائے گا ۔ملک بھر میں بے شمارمساجد مدارس درسگاہیں ، خانقاہیں ہیں ، دینی جماعتیں اپنی اپنی جگہ تبلیغ کا کام کر رہی ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں افراتفری اور شدت پسندی کی روش کیوں کر پید اہو گئی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری تبلیغی کاوشیں اس راستے سے ہٹ گئی ہوں جن کو ہمارے رسول پاک نے ہمارے لئے پسند فرمایا تھا ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے اورہمیں مل کر یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کہاں خرابیاں ہیںاور ان خرابیوں کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے ۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مسلمانوں کی تبلیغی کوششوں ہی سے دین اسلام کو دنیا بھر میں پھیلنے اور پھولنے کا موقع ملا ۔یہ بات درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔اگر ایسا ہوتا تو جاوا ، سماٹرا ، انڈونیشیا ، ملائشیا اور وسط افریقہ وغیرہ میں آج مسلمانوں کی آبادی اور حکومتیں کیسے قائم ہو سکتی تھیں جب کہ وہاںآج تک کسی مسلم جرنیل نے فوج کشی نہیں کی بلکہ صرف صوفیا ء اور اولیا ءکرام کے تبلیغی مشن کے نتیجے میں یہ علاقے اسلام کے نور سے منور ہوئے ۔ اس کے علاوہ اسلام کی روشنی نبی پاک کی زندگی میں ہی تمام سر زمین عرب تک پھیل گئی تھی آج بھی جزیرہ العرب میں 18ملین سے زیادہ عیسائی اور یہودی آباد ہیں جن کے آبائو اجداد اور سول اللہ کے زمانے میں بھی عیسائیت اور یہودیت کے پیرو کار تھے ۔مسلمانوں کی 1500سالہ حکومت کے باوجود کسی نے انہیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی لیکن آج بھی اس خطے کی اکثریت غیر مسلم ہے اس کی وجہ حکمرانوں کی دین سے لگائو میں کمی نہیں ہے ۔ بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام میں زبردستی نہیں اگر اس سر زمین پر مقامی آبادی کے جو افراد قبول اسلام کی سعادت سے فیضیاب ہوئے اس کی وجہ بزرگان دین کا ذاتی کردار ، اخلاق ، انسان دوستی اور دلوں کو گرویدہ کر دینے والا طریقہ تبلیغ تھا ۔اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ صوفیاءاور اولیاءکرام کی جماعت اسلام کی تبلیغ کیلئے ہمیشہ مصروف عمل رہی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں ان حضرات نے تمام مشکلات کے باوجود اسلام کی شمع کو روشن رکھا ۔گویا ہر علاقے میں ان درویشوں نے اپنے پیار کی شمعیں روشن کیں ۔ انہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے تھے ۔ خون نہیں بہایا تھا ۔ خوف و دہشت کی فضا قائم کر کے اپنے عقائد دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اپنے حسن سلوک ، روادری اور تحمل و برداشت کی مثالیں قائم کر کے محبت کی وہ شمعیں فروزاں کیں جن کی روشنی سے اہل علاقہ کو جہالت کی گمراہیوں سے نکلنا نصیب ہواور انسانیت کے صحیح مرتبے سے آشنائی حاصل ہوئی ۔ اسلام در اصل ایک تبلیغی مذہب ہے جس نے اپنے آپ کو تبلیغ کی بنیادوں پر قائم کیا ۔ اسی کی قوت سے ترقی کی اور اس پر اس کی زندگی کا انحصار ہے '' اگر اسلامی تعلیمات پر غور کیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ اسلام اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ دعوت حق ہے اور مسلمانوں کی زندگی کا مقصد نیکی کا پرچار اور برائیوں سے انکار ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اسلام کی درست سمت اور نبی اکرم کی سیرت پاک پر چلنے اور اسے عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ اے پی ایس