قوم کے ساتھ تماشا اور مذاق۔اے پی ایس


موجودہ حکمرانوں کے طرز حکمرانی سے ملک بھر کے عوام کو پتہ چل چکا ہے کہ اب پاکستانی سیاست میں ان کی کوئی گنجائش نہیں۔ موجودہ حکومت دو سالو ںمیں بہت کچھ کر سکتی تھی مگر کچھ نہیں کیا ۔حکمرانوں کا یہ فعل قابل افسوس ہے کہ انہوں نے آئین اور قانون توڑنے والے کو گارڈ آف آنر پیش کیا ۔ قانون شکن جرنیلوں نے اپنے پیشہ، آئین اور قانون سے بے وفائی کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کے تختہ الٹائے اور سیاستدانوں نے وزارتوں کے لالچ اور مفاد کی خاطر اپنے ضمیر بیچ دیئے۔ملک بھر کے سیاسی قائدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ انھیں ملک و قوم کے وسیع تر قومی مفاد میں پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دینا ہوگا۔ کیو نکہ ان کے موجودہ طرز سیاست سے اب عوام کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ نواز شریف نے محترمہ بے نظیر کے ساتھ چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کر کے اکٹھے مل کر پاکستان کی خدمت کرنے کافیصلہ کیا اور یہ ایک خوبصورت آغاز تھا ۔ لیکن افسوس کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی پر عمل کرنے سے گریز کیا گیا ۔ حکمرانوں کو ایسی پالیسیااں بنا نا ہوں گی جس سے بیرون ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاروں سمیت اوورسیز پاکستانی بھی وطن عزیز میںسرمایہ کاری شروع کریں۔ موجودہ حکمرانوں کو ایسے اقدامات پر سختی سے کاربند رہنے کی ضرورت ہے جس سے ان کے دامن پر کرپشن اور کک بیکس کا کوئی دھبہ نہ آئے ۔ آج ملک میں لوڈشیڈنگ، کرنسی ، اکانومی کا کیا حال ہے ۔ ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب قوم کے ساتھ تماشا اور مذاق ختم ہونا چاہیے جو بھی آتا ہے اپنی جیبیں بھرتا ہے ۔ کمیشن ، زمینوں کی بندربانٹ کرپشن کے ذریعے پیسہ کمایا جارہا ہے ۔جبکہ دوسری طرف عوام زندہ درگور ہیں۔ پرویز مشرف نے آٹھ سال میں ملک کا کیا سنوارا ہے اور موجودہ حکومت نے بھی دو سالوں میں کچھ نہیں کیا۔دراصل سابقہ حکومت میں غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے دی گئی پا لیسیاں اورجو ایجنڈا تھا اسی کے تسلسل کیلئے موجودہ حکومتی سیٹ اپ بنا یا گیا تھا۔اس کے باوجود حکمرانوں کو چاہیے کہ حکومت کرپشن میں ملوث ہونے کی بجائے اس کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرے ۔ کرپشن ، جمہوریت کو بدنام کر رہی ہے۔ خالص جمہوریت کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی ۔ ووٹ سے حکومت قائم اور اس سے ختم ہو ۔ کسی فرد واحد کو اس کا اختیار نہیں ہونا چاہیے ۔ آمر پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا ۔ ایسے فیصلوں سے ملک د و لخت اور صوبوں کے درمیان نفرت میں اضافہ ہوا ۔ کچھ بھی ہو آمریت عوام کیلئے زہر قاتل ہے ۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنا نا ہوگا۔سب سے پہلے فلاحی مملکت مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔ مغرب میں فلاحی ریاست کا تصور مسلمانوں سے لیا مگر ہم نے اسے چھوڑ دیا دیا۔ موجودہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہمارے نصیب میں ہے۔موجودہ منتخب جمہوری حکومت کے آنے سے پہلے صدر آصف علی زرداری نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا تھا کہ ہم نظام بدلیں گے لیکن ابھی تک وہ ایسا نہیں کر پائے۔اس کے پس پردہ ان کے سامنے کیا رکاوٹیں ہیں یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔بہرحال سابقہ آمریت کے دس سال بعد ملک بھر کے عوام کو جو سب سے زیادہ مایوس کیا ہے وہ مو جودہ پارلیمنٹ ہے کیو نکہ پارلیمنٹ ہی وہ ادارہ ہے جو کسی بھی تبدیلی سے قبل قانون سازی کے مراحل سے گذرتا ہے لیکن اس ضمن میں پا رلیمنٹ بری طرح ناکام رہی اس کی وجہ بھی ملک بھر سے مٹھی بھر وہ لوگ ہیں جو ہر دور میں پارلیمنٹ پر اپنے وسائل کی مدد سے براجمان رہے ہیں اور اب بھی وہی قابض ہیں اور ان کی ہی وجہ سے نظام گندہ ہے یہی لوگ نظام کی تبدیلی کے لئے اپنے خلاف کیسے قانون سازی کریں گے اس کے لئے ضروری ہے کہ کو ئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔اس وقت پارلیمنٹ میں ایسے جاگیر دار بھی ہیں جو اپنے پر زرعی ٹیکس نہیں لگنے دیتے۔جبکہ پارلیمنٹ میں دوسری قسم ان صنعت کار تاجر طبقے کی ہے جو ذخیرہ اندوزی کر کے روز مرہ کی اشیاءضروری کی اپنی پسند کی عوام سے قیمتیں وصول کر رہے ہیں جن کے سامنے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود بھی حکومت عملدرآمد کر نے میں ناکام رہی ہے۔اس کے علاوہ ملک بھر کے وسا ئل پر قابض اکثریت ایسے طبقے کی بھی ہے کہ جسے اپنے بزنس ایمپائر کو تحفظ دینے کیلئے اس کی خواہش رہتی ہے کہ وہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں میں بھی رہے اس ضمن اس سوچ کے حامل طبقے کی بظاہر براہ راست جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں لیکن وہ ایسے ہتھکنڈے کرتا رہتا ہے جس سے غیر جمہوری سوچ رکھنے والوں کیلئے باعث تقویت سمجھا جاتا ہے۔بات کرنے کا مقصد جمہوریت ہو یا آمریت پاکستان میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے اقتدار پر وہی خاندان رہے ہیں جو مختلف مافیا کے سرغنہ ہیں۔بہرحال پاکستان میں لاگوں نو آبادیاتی نظام سے لیکر دور آمریت اور بعض سول حکومتوں میں بھی ایسے فرسودہ قوانین و ترامیم کا خاتمہ ناگزیر ہے جو عوامی مفاد سے متصادم ہیں۔ اگرچہ قانون سازی کے عمل میں پچھلے سال کے مقابلے میں 2009ءمیں قومی اسمبلی کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے اور اس دوران مجموعی طو رپر 29بل پاس کیے گئے جب کہ پچھلے سال یہ تعداد صرف چار تھی۔ پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ منتخب ہوکر آنے والے نوجوان ارکان کی طرف سے اجلاسوں میں سینئر اراکین اور وزراءکی کم حاضری پر تنقید کا سلسلہ دوسرے سال بھی جاری رہا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں جس باقاعدگی سے شرکت کی روایت کو فروغ دیا ماضی قریب میں ملک کے کسی دوسرے وزیر اعظم نے ایسا نہیں کیا ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی میں بہتری کے باوجودکئی اہم معاملات پر قانون سازی دوسرے سال بھی نہیں ہو سکی جب کہ حکومت اس حوالے سے باربار یقین دہانیا ں اور وعدے کرتی رہی۔ ان میں اراکین پارلیمان کے احتساب سے متعلق قانون سازی قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ قومی نوعیت کے اختلافی ا ±مور اور بحرانوں پر قومی اسمبلی کا مبینہ کمزور کردار بھی زیر تنقید رہا۔ اس بل کا مسودہ اپریل میں پارلیمان کے سامنے پیش کیا گیا لیکن پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی اس پر بحث جاری رکھے ہوئے ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر اختلافات اور این آر او کے خلاف عدالت عظمی ٰ کے فیصلے پر عمل درآمد یہ دونوں ایسے معاملات تھے جن پر پارلیمنٹ کا کردارایک خاموش تماشائی کا تھا۔ پارلیمنٹ کے اندر تما م جماعتوں کی مجموعی کارکردگی پر عدم اطمینان کے حوالے سے کسی بھی اہم قومی نوعیت کے مسئلے پر کو ئی بھی جماعت ایک واضح حکمت عملی یا موقف پیش کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کارکردگی کو بہتر کرنے سے پارلیمنٹ کو زیاد ہ متحرک اور فعال کیا جا سکتا ہے۔اے پی ایس