نان ایشو۔چودھری احسن پر یمی


ملک میں عوامی مسائل حل کر نے میں موجودہ حکومت اس لئے بھی بری طرح ناکام ہے کیو نکہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے وہ خود قا نونی و آئینی حثیت حا صل نہیں کر سکی جس کی بنیاد پر اسے ہم ایک جمہوری حکومت کہہ سکیں۔پاکستان میں جمہوری نظام میں پارلیمانی طرز حکومت کا ڈھا نچہ متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت ملک کا چیف ایگز یکٹو وزیر اعظم ہوتا ہے دوسال گزرنے کو ہیں لیکن موجودہ حکومت پارلیمانی طرز حکومت کی وہ شروعات نہیں کر سکی جو ایک پارلیمانی نظام تقاضا کرتا ہے۔اس وقت پا کستان میں آئینی طور پر جمہوری پار لیمانی طرز نظام حکومت نہیں لیکن جمہوری لیبل ضرور ہے جو اصل جمہوری ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی ہے۔اس بات کا اعتراف وزیر اعظم گیلانی خود بھی کر چکے ہیں کہ" اس وقت ملک میں کو ئی نظام نہیں بلکہ چوں چراں کا مر بہ ہے"۔آٹے، چینی، بجلی ،گیس کے بحران نیز ان کے مہنگے بلوں اور مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ دی ہے ملک بھر کے غریب و متوسط طبقہ کے عوام بڑھتی مایوسی اور بے بسی سے حکمرانوں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔گزشتہ 63برس سے ملک و قوم پر چند مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے اور انہی مخصوص خاندان کے افراد نسل درنسل اقتدار و ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔ انہیں غریب و متوسط طبقہ کے عوام کو درپیش مسائل کا علم ہی نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے 98فیصد غریب و متوسط طبقہ کے عوام ہر انتخاب میں انہی جاگیرادروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو ووٹ دیکر منتخب کرتے چلے آرہے ہیں جو ان کے مسائل کی اصل جڑ ہیں اور جنہوں نے محنت کشوں سمیت زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے غریب و متوسط لوگ اپنے طبقے میں شعور و آگاہی سے کام لیں اور ملک سے فرسودہ نظام کے خاتمہ کیلئے متحد ہوکر جدوجہد کریں عوام پانی ، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں اور انہیںاپنے مسائل کے حل کیلئے خود منظم ہو کر جدوجہد کیلئے آگے آنا ہوگا۔ اگر ملک سے ظالمانہ اور غاصبانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تو طے کرنا ہوگا کہ ملک کے ایوانوں میں صرف وہ جائے گا جس کو غریب عوام کے مسائل اورمصائب کا پتہ ہو اور جسے احساس ہو کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔اس سلسلے میں ایک قدم آگے آنا ہوگا۔ عوام،عوام دشمن پالیسیوں سے مایوس ہوچکے ہیں پرویز مشرف کے جانے کے بعد جب الیکشن ہوئے تو اس وقت سب میں نئے سرے سے امید کی کرن اجاگر ہوئی کہ اب مشکلات کے دن کٹ جائیں گے ۔لیکن ایسا نہیں ہوا عوام مزید مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ملکی و عوامی مفاد میں پالیسیاں بنا نے اور ان پر عملدرآمد کے حوالے سے ہماری مصنوعی سیاسی قیادت کو اپنے پر خود اعتمادی نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی معاشی اداروں کی مرضی کے بغیر عوامی مفاد میں اگر کو ئی پالیسی بنائی تو خدشہ ہے کہیں یہ ادارے ناراض نہ ہوجائیں اور ان سے انسانی ترقی کے نام پر حاصل کئے گئے قرضے جو بعدازاں ان قر ضوں کو غیر ترقیاتی اخراجات کی شکل میں دائیں بائیں کیا جاتا ہے وہ نہ مل سکیں۔اس وقت ملک کی اکثریت ایسے عوام کی ہے جو بے روز گار ہے جس کا کو ئی ذریعہ آمدن نہیں جبکہ ملک میں دوسرا وہ طبقہ تھا جو زراعت پر انحصار کرتا تھا جو کہ وہ بھی اب اسی صف میں کھڑا ہوگیا ہے جبکہ تیسرا طبقہ وہ ملازم پیشہ ہے جو اب اپنی تنخواہ سے ہر ماہ کے پہلے سات دن نکا لتا ہے کیو نکہ انہیں تنخواہ لینے کے ساتھ ہی یوٹیلٹی بلز آڑے ہاتھوں آ لیتے ہیں وہ اپنی جیبوں کو وہیں خا لی کر آتے ہیں اس کے بعد بچوں کی فیسیں،وغیرہ۔ملازم پیشہ کا یہ حال ہے کہ بد سے بدنام برا۔یعنی وہ نام کے صا حب روز گار ہیں۔ عالمی معاشی اداروں اور عوام دشمن پالیسی ساز وں کی طرف سے عوام کو دبانے کیلئے ایک ایسی حکمت عملی بنائی گئی ہے کہ عوام کو ان کے مسائل کے نیچے دبا دیا جائے۔اور وہ اپنی موت آپ مرتے رہیں۔اس وقت ملک میں مہنگائی اور بے روز گاری ایک ایسا ایشو ہے جس کا کسی کے پاس کو ئی حل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے سترہ کروڑ عوام کے اس بنیادی اور اہم ایشو سے تو جہ ہٹا نے کیلئے ہر روز ایک نیا مصنوعی ایشو کھڑا کیا جا تا ہے اور ہر روز مختلف فورموں پرملک کے نام نہاد بے شرم شرکاءگفتگولا حاصل بحث کر کے ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر وقت کا ضیاع کرتے ہیں اور ان قوتوں کو تقویت فراہم کرتے ہیں جو پاکستان کے عوام کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہیں۔مذکورہ بالا مسائل سے نجات حاصل کر نا پاکستانی قوم کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ان مسائل سے چھٹکارہ حا صل کرنے کیلئے انقلاب آنے سے رہا کیو نکہ جس ملک میں بدعنوانی اور منافقت عروج پر ہو وہاں انقلاب نہیں آتے۔جبکہ دوسرا طریقہ نظام کی تبدیلی ہے وہ بھی نا ممکن ہے کیو نکہ اس ملک کی دو بڑی پارٹیاں جا گیر دار جو ایوانوں پر قابض ہیں اور دوسری اسٹیبلشمنٹ وہ کبھی بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے جس سے ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو۔جبکہ تیسرا طر یقہ ممکن دکھائی دیتا ہے جس کیلئے پاکستانی قوم اور میڈیا گذشتہ چار سال سے جدوجہد کر رہا ہے وہ ہے قانون کی حکمرانی۔قانون کی حکمرانی کی تعریف اس وقت تک نا مکمل ہے جب تک ایک آزاد عدلیہ کی طرف سے دیے گئے فیصلے پر حکومت کی طرف سے عملدر آمد نہ ہو۔اس طرح کام نہیں چلے گا کہ کہ کو ئی بھی متا ثرہ حصول انصاف کیلئے ایک آزاد عدلیہ سے اپنے حق میں فیصلہ لے آئے اور اس پر عملدر آمد کے انکار کے بعد اس حکم نامے کو فریم میں لگا دے۔قانون کی حکمرانی اس وقت تک یقینی نہیں بنا ئی جاسکتی جب تک حکومت عدلیہ کی طرف سے دیے گئے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان پر عملدر آمد کو یقینی نہ بنائے۔خواہ یہ فیصلے وقت کے حاکم سے لیکر پارلیمنٹ میں بیٹھے چینی یا قر ضہ چور وںکے خلاف کیو ں ہی نہ ہو۔ پاکستانی آئین کی شق 62 کی ذیلی شقوں D,E,F میں بیان کیا گیا ہے کہ وہی شخص رکن پارلیمنٹ بن سکتا ہے جو اچھے کردار کا حامل ہو، نیک ہو، دیانتدار ہو اور بدکردار نہ ہو، شق 62 میں مزید کہا گیا ہے کہ امیدوار اسلامی احکامات سے روگردانی نہ کرتا ہو، ا ±سے اسلامی تعلیمات اسلام کی جانب سے تفویض کئے گئے فرائض کا مناسب علم ہو اور وہ گناہوں سے اجتناب کرے ۔مذکورہ بالا سطور کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔پا کستان کے آئین سے بھی انحراف کیا گیا ہے لہذا اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو بھی اپنے پر لگے دھبوں کو دھونا ہوگا اور ایک فیصلہ کن کردار کرنا ہوگا کہ ملک کے عوام پر کسی ایسی قیادت کو مسلط نہ ہونے دے جو ملزم یا مجرم ہو۔قانون پر وہی عمل نہیں کرتا جو قانون شکن ہو اور ایسے قانون شکن ایوانوں پر قابض ہو جائیں تو عوام ان سے یہی توقعات رکھیں گے جن کا خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں۔الیکشن کمیشن جس کے بارے یہی دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے تو اسے ایسی اصلاحات کو نہ صرف متعارف بلکہ پورے عزم سے لاگو کرنا ہوگا جن اصلاحات کی روشنی میں ایسے جا گیردار اور ،صنعتکار اور بزنس کمیو نٹی کے افراد کو پار لیمنٹ میں آنے سے روکا جائے جو منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ کر براہ راست عوامی مفاد پر اثر انداز ہوتے ہیں کیو نکہ اس وقت ملک کی اکثریت منتخب جا گیر دار کلاس زرعی ٹیکس نہ دے کر قو می خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ حکومت سے ترقیاتی فنڈز حا صل کر کے اپنے علاقوں میں ایسے منصو بوں پر خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں جن سے مقا می افراد میں شعور آئے اور چار جماعتیں پڑھ کر کر اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکیں۔یہی حال پارلیمنٹ میں منتخب صنعتکار بزنس اور تاجر کلاس کا ہے وہ پارلیمنٹ میں آکر عوامی مسائل کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ذخیرہ اندوزی کر کے اپنی دکانداری چمکا کر اربوں رو پے کما رہے ہیں۔ٰیہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن میں ایسے گوشوارے جمع کروائے ہوئے ہیں جن کی روشنی میں وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے وہی جائیداد اور اثا ثے ڈکلیر کئے ہیں جو ہمارے نام ہیں اس ضمن میں ان کا ایک اور دھو کہ ہے جو نہ صرف عوام بلکہ الیکشن کمیشن کی آ نکھوں میں مٹی جھونکنے کے مترادف ہے۔اس ضمن میں بھی یہ ضروری ہے کہ ایسے افراد جو اس طرح کی غلط بیا نی کرتے ہیں ان کا کو ئی بھائی،بیٹا یا باپ دادا کا بھی اس طرح کا کو ئی بزنس ہے اس پر بھی پابندی لگا ئی جائے۔