پولیس کی طرف سے کئی گئی سالانہ دہشت گردی۔چودھری احسن پر یمی

تشدد رسانی کو ایک مجرمانہ فعل سمجھا جائے اور کسی بھی تشدد کرنے والے پولیس اہلکار کو تلاش کر کے فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور اذیت کا نشا نہ بننے والوں کو معاو ضہ دیا جائے۔کسی بھی معاشرہ میں ایک خوب تربیت یافتہ،مناسب وسائل کی حامل قانون نافذ کرنے والی پولیس بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔دنیا بھر میں پولیس فورسز کی طرف سے عمومی طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور بد عنوانیوں کی بہت سی اور مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ان کے تدارک کیلئے مناسب تربیت اور معقول تنخواہ اہم اقدامات ہوسکتے ہیں۔قانون نافذ کرنے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں۔یہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں انہیں طاقت سے پہلے جذبہ خدمت کو بروئے کار لانا چاہیے۔جب وہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں یا بعض صورتوں میں کسی سیاسی اثر رسوخ کی بدمعاش شخصیت کے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں تو وہ قابل قبول اور طے شدہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں جن کی حفاظت کی انہیں ذ مہ داری سونپی گئی ہوتی ہے۔اگرچہ گذشتہ چند روز سے الیکٹرانک میڈیا کی وساطت سے پولیس تشدد کے اکا دکا واقعات دیکھے گئے ہیں لیکن یہ سلسلہ ایک سو تریسٹھ سال سے چل رہا ہے یہ طر یقہ انگریز نے نکا لا تھا کہ اس خطے کے عوام کو پولیس کے ہاتھوں اتنا غیر محفوظ بنا دیا جائے کہ یہ بغاوت پر نہ اترے اور غلام بن کر رہے لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعدسے آج تک جن ہاتھوں میں اس ملک کا اقتدار چلا آ رہا ہے وہ بھی انگریز کی طرح اس ملک کا سب سے اقلیتی طبقہ ہے اس نے بھی اپنی نام نہاد چودھراہٹ ،بے غیرتی اور دلا گیری کو دوام بخشنے کیلئے پو لیس سٹیٹ کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جبکہ پو لیس بھی اس کلچر کی عادی بن کر حرام اس کے منہ لگ گیا ہوا ہے۔پو لیس گردی،تشدد کے علاوہ پنجاب پو لیس کا ایک اور گھنائونا طر یقہ واردات رشوت لیکر جھوٹی ایف آئی آر کا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ لوگ جیلوں میں پڑے ہیں جن کو اپنی ضمانت کروانے کیلئے پراپرٹی کے کاغذات یا دیگر وسائل نہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی پولیس نے ملک کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے سبب دنیا بھر کی مہذب اقوام عالم میں 136ویں نمبر پر لا کھڑا کیا ہے ۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پولیس تشدد سے 35 شہری ہلاک، دہشت گردی کی آڑ میںمختلف ناکوں پرپولیس اہلکاروں نے 8 شہریوں کو گولی ماری گئی جن میں ایک چاند رات بچوں کے کپڑے خریدنے گھر سے نکلا تھا ،تین ایس ایچ اوز سمیت46پولیس اہلکار گرفتار،ایس پی ، تین ایس ایچ اوز سمیت28اہلکاروں کے خلاف عدالتوں کے حکم پر مقدمات درج،تنخواہیں دوگنا ہو جانے کے باوجودملک پولیس سٹیٹ بن گیا،ہمارا ملک سو موٹو ایکشن تک محمدود ہو کر رہ گیا ہے صورتحال کا نوٹس کون لے گا۔ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے عام شہریوں اور زیر حراست افرادکی ہلاکتوں کی کے حوالے سے سال 2009میں27جنوری کو گوجرانوالہ پولیس نے تشدد کر کے کاشف نامی شہری کو ہلاک کر دیا،سر میں زخم کی میڈیکل رپورٹ، سپریم کورٹ کے حکم پر دس اہلکارگرفتار۔29جنوری نارووال پولیس نے بااثر شخص کی ایما پربابو خان کے دو بیٹوں کو فرضی پولیس مقابلے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور انکی لاشوں کو گاو ¿ں کے چوک میں لٹکا دیا۔سپریم کورٹ کے حکم پر بااثرشخص سمیت ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج چھ پولیس افسران گرفتار 13فروری کراچی پولیس نے خالد بن ولید روڈ پر گاڑی میں سوار کوئٹہ کے چار معروف تاجروں کواشارے پر نہ رکنے کی پاداش میں گولی مار کر ہلاک کر دیا4مارچ نارووال تھانہ نان کوٹ پولیس نے تشددکر کے شہری کو ہلاک کر دیا مقتول کی بہن یاسمین منور کی درخواست پر سپریم کورٹ کے حکم پرایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج ۔22مئی فیصل آباد پو لیس نے شہادت سیال نامی ریٹائرڈ پروفیسر جو کہ ائر فورس کاملازم تھا رات کو ناکہ پر روکا تلخ کلامی پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔14مئی ملتان ،پنجاب ،پولیس نے نوابشاہ کے تین دوستوں بشیر مگسی، ذوالفقار کھوسہ،مبارک آرائیں جو کہ زیارتوں کی سیر کے لئے ملتان گئے ہوئے تھے کو روک کر نقدی اور موبائل چھین لئے مزاحمت پر حراست میں لیکر مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں ڈاکو قرار دیکر ہلاک کر دیا10جون ٹوبہ ٹیک سنگھ پنجاب، تھانہ سٹی پولیس نے محلہ بخشی پارک میں احسان الحق نامی شہری کوڈاکو سمجھ کر گولی مار ہلاک کر دیا لواحقین نے لاش ریلوے لائن پر رکھ کر اجتجاج کیا ڈی پی او نے ایس ایچ او کو گرفتار کر لیا دیگر اہلکار فرار16جون پنجگورپولیس(بلوچستان)نے چتکان کے رہائشی نور احمد ولد گل محمد کو تشدد سے ہلاک کر دیا ، مشتعل مظاہرین نے بنک کو آگ لگا دی 18جون ٹھٹھہ،سندھ، تھانہ سجاول کے گاو ¿ں پتن ناکہ میں دو پولیس اہلکاروں مصطفیٰ اور سولہونے کموں نامی دیہاتی سے پیسے مانگے نہ ملنے پر گولی مار کر ہلاک کردیا، بعد ازاں گرفتارکر لیا گیا18جولائی راولاکوٹ،آزادکشمیر،تھانہ ہجیرہ پولیس کے اہلکاروںنے کامران ولد شبیر علی نامی شہری کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا9اگست تھانہ کلر سیداں سے زیر حراست شہری قربان حسین چوہدری پراسرار طور پر غائب ہو جانے پر لواحقین کا زبردست مظاہرہ،سی پی اوکے حکم پر بغیر اندراج مقدمہ کے زیر حراست رکھنے پر سب انسپکٹر اور اہلکار کے خلاف مقدمہ درج 13اگست خیر پور سندھ نواحی گاو ¿ں فتح علی بڑدی میں نور محمد کو تھانے لیجا کر تشدد کا نشانہ بنایاجس سے وہ ہلاک ہو گیاجس پر پولیس نے لاش نہر میں پھینک دی اوربتایا کہ وہ فرار ہو گیا ہے ورثا نے نعش سڑک بلاک کرکے اجتجاج کیا ، وزیر اعلی سندھ کے حکم پر ایس ایچ او، اے ایس آئی،سمیت چار اہلکاروں کو مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا26اگست،لوئر دیر۔ سرحد، گاو ¿ں پکا غونڈ جمیلاکے رہائشی ظاہرخان نے پولیس کے تشدد سے تنگ آ کر بجلی کے تاروں کو چھو کر خود کشی کر لی31اگست ٹھٹھہ، پولیس کے ہاتھوں سستا آٹا لینے کے لئے قطار میں کھڑا بارہ سالہ لڑکا تشدد سے ہلاک۔31اگست دادو پولیس سندھ کے ایس پی نے مورو کے رہائشی اپنے کاروباری پارٹنر امان اللہ بروہی کے گھر مبینہ طور پرچھاپہ مارکر سرعام دن دیہاڑے گولیاں مار کر ہلاک کردیااور پولیس مقابلہ قرار دے دیا مقتول کی بیوی چھپتے چھپاتے کراچی جا کر سند ھ ہائی کورٹ میں درخواست داخل کر دی سندھ ہائیکورٹ کاایس پی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم31اگست ساہیوال پنجاب، ہڑپہ پولیس کے زیرحراست چک نمبر190ایل جی کا رہائشی سرفراز مسیح دوران تشدد سے ہلاک 8ستمبر سی آئی اے اسلام آباد کے زیر حراست قمر عباس پولیس تشددسے ہلاک18ستمبر لاہور سبزہ زار پولیس کے اہلکاروں نے ناکہ پر نہ رکنے پر اشفاق نامی شہری کو گولی مار دی19ستمبر لیاقت پور پولیس کے زیر حراست ملزم مشتاق احمد تشدد سے ہلاک ایس ایچ او، محررسمیت 12اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج5نومبر تھانہ لاڑکانہ، سندھ میں زیر حراست عمران نامی شہری تشدد سے جان بحق ،ایس پی او، ایس ایچ او ، کے خلاف مقدمہ درج19نومبر تھانہ ڈیرہ غازی خان پولیس نے رشوت نہ دینے پرزیر حراست کاشف نامی نوجوان تشددسے ہلاک، تحقیقات سے بچنے کے لئے مقتول کے سر میں گولی مار دی، سب انسپکٹر ہیڈ کانسٹیبل اور تین سپاہیوں سمیت چار اہلکاروں کے خلاف قتل کامقدمہ درج، دو ہفتوں بعد بحال ،ہلاکت کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش جاری28نومبرکراچی پولیس نے ناکہ پر نہ رکنے پر دو شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا، شہریوں نے ٹائروں کوآگ کر اجتجاج کیا29نومبر گوجرانوالہ پولیس نے گلشن اقبال پارک کے سامنے شہری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا29نومبر ڈیرہ غازیخان کے تھانہ کالا پولیس نے لطیف نامی شہری کو گولی مار کرہلاک ،ڈی پی او کے حکم پرایس ایچ او سمیت چھ اہلکاروںکے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر کے گرفتار 2دسمبر گوجرانوالہ، تھانہ کھیالی پولیس نے گھر کے باہر بیٹھے ہوئے آٹھ بچوں کے باپ نذیر احمد پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا ، اہلخانہ کا اجتجاج3دسمبرلاہور، کامران نامی شہری کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا، لواحقین کے مطابق ایس ایچ او نے ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل کیا،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جوڈیشنل انکوائری کا حکم دے دیا3دسمبرگوجرانوالہ پو یس نے ناکہ پر گاڑی نہ روکنے پر تعاقب کر کے آصف نامی شہری جو کہ بچوں کے لئے عید کے کپڑے لینے نکلا تھا کوگولی مار کر ہلاک کر دیا 10دسمبرکراچی فیروز آباد پولیس نے تشد دسے ایک شہری عابد جاوید کو شدید زخمی کر دیااور جیل بھیج دیا جہاںوہ اسی دن ہلاک ہو گیا، جیل ڈاکٹر اور دو اسٹنٹ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔مذکورہ بالا اعدادو شمار گلو بل فائو نڈیشن کی طرف سے جاری کی گئی سالا نہ رپورٹ سے لئے گئے ہیں جو اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائر یکٹر الفت کاظمی نے میڈیا کو جاری کئے ہیں۔پولیس کے بے پناہ اختیارات بجائے خود ان کے خلاف غلط استعمال کا موجب بنتے ہیں جس طرح قومی آئین حکومتوں پر اختیارات کے استعمال کے حوالے سے قدغن لگاتے ہیں اسی طرح انہیں قانون نافذ کرنے والے حکام کے کردار کو بھی ضابطوں کا پابندبنانا چاہیے۔ جبکہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے میڈیا کی جانب سے پنجاب پولیس کے ملزموں پر تشدد کے واقعات کو منظر پر لانے کے بعد ہنگامی طور پر اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں وزارت داخلہ اور پولیس حکام کے علاوہ اہم سرکاری شخصیات نے شرکت کی ہے۔ اجلاس میں پولیس تشدد کے رویے کی روک تھام کے لیے غور کیا گیا اور اس تشدد کو روکنے کے اقدامات پر بحث کی گئی۔ اجلاس میں پولیس تشدد میں ملوث اہلکاروں کو سزا دینے کے لیے اقدامات پر بھی غور کیاگیا اور ایسا جامع پلان ترتیب دینے پر غور کیا گیا ہے جس کی مدد سے آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پولیس تشدد سے لگتا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون ہے۔ وہ پشاور میں چینوٹ پولیس تشدد کے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس تشدد میں ملوث ذمہ دار اہلکاروں کیخلاف کارروائی کرے۔ صرف اہلکاروں کو معطل کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس خلجی عارف حسین اور چوہدری اعجاز احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی۔بینچ نے انکوائری کمیٹی کی مکمل رپورٹ گیارہ مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو11 مارچ کو طلب کیا ہے۔ پولیس تشدد ازخودنوٹس کیس کی سماعت11 مارچ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ اعلان ویا نا کی کا نفرنس میں موجود ریاستوں نے ذمہ داری سے بیان کیا تھا کہ تشدد انسانی عزت و و قار کی ایک نہایت قا بل نفرت خلاف ورزی ہے۔اس کے نتیجہ میں انسا نی وقار مجروع ہوتا ہے اور یہ نشا نہ بننے والوں کی صلاحیت کو بگاڑ دیتا ہے اور وہ اپنی زندگی گزارنے اور اپنے معمولات جاری رکھنے کی استعداد سے محروم ہو جاتے ہیں یہ اعلامیہ تمام ریاستوں سے یہ بھی مطا لبہ کرتا ہے کہ ایسے قوانین کو منسوخ کردیا جائے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مر تکب افراد کو سزا سے بریت کا جواز فراہم کرتے ہیں۔مثلا تشدد اور ایسی خلاف ورزیوں کی بنا پر مقدمہ چلایا جائے تاکہ قانون کی حکمرانی کی مضبوط بنیاد مہیا کی جا سکے۔سلوک یا سزا کو غیر انسانی سلوک کی کم سے کم سطح کے معیار پر پورا اترنا چاہیے یہ کم سے کم سطح اس معاملہ کے حالات پر منحصر ہوتی ہے۔تفتیش کا کو ئی بھی طریقہ کار جو سوال و جواب سے آگے بڑھ جاتا ہے کسی فرد پر دبائو ڈالتا ہے۔لیکن صرف اس حقیقت کی وجہ سے اس کو غیر انسانی سلوک نہیں کہا جاسکتا۔اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔جیسے بعض اوقات شدید ذہنی اور جسمانی دبائو ڈالنے کیلئے طویل قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے یا نیند سے محروم رکھا جاتا ہے۔ٰایسا سلوک جو کسی انسان کو ذلیل و خوار کرنے یا اس مرد/عورت کو اس کی مرضی اور ضمیر کے خلاف کوئی کام کرنے پر مجبور کرنے کی غرض سے کیا جائے اہانت آمیز سلوک کہلاتا ہے۔یہ سلوک ضروری نہیں کہ جسمانی ہو۔کوئی بھی کام جو کسی فرد کو اس کے عہدہ،مرتبہ،شہرت یا کردار کے لحاظ سے گرا دے" اہانت آمیزسلوک" کہا جاتا ہے بشرطیکہ یہ شدت کی وجہ کی ایک خاص حد تک پہنچ جائے۔اس میں وہ تمام طریقے شامل ہوتے ہیں جو انسانوں میں خوف اور ڈر کا احساس پیدا کرتے ہیں جو غم و غصہ،احساس کمتری،انسان کو بے عزت کرنے اور ممکنہ حد تک ان کی جسمانی یا اخلاقی قوت برداشت کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔کسی مرد/ عورت کی عزت اور وقار کے منافی سلوک جرم سمجھا جائے اگر کسی شخص کے دائرہ اختیار میں کسی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جائے وہ انسان نہیں بے جان شے ہے۔ضروری نہیں کہ سلوک کھلے بندوں کیا جائے۔اتنا ہی کافی ہے کہ اگر کسی انسان کو بے عزت کیا جائے اور اس مرد/عورت کو خود اس کی اپنی نظروں میں گرا دیا جائے۔مثلا کو ڑوں کی سزا یا کسی کو پیٹنا نہ صرف کسی انسان کو ذلیل کرتی ہے اور جرم کرنے والے کو بے عزت کرتی ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی مقام و مرتبہ سے گر ادیتی ہے جو اس کاروائی میں حصہ لیتے ہیں۔لیکن اگر سخت سزا جرم کو روک دیتی ہے تو کیا یہ ہر ایک لئے بہتر نہیں ہوتا؟اس کا ثبوت کوئی نہیں ہے کہ اس سے ایسا ہوجاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات سزا موثئر تا دیب بن جاتی ہے لیکن اس کیلئے جواز فراہم نہیں کرتی مزید براں یہ کہ وہ اہانت آمیز بھی ہو۔وہ سزا جو بنیادی عالمی معیار کی خلاف ورزی کرتی ہے ناقابل قبول ہے اور اسے درست نہیں کہا جاسکتا۔اس بات کا ثبوت شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدہ کی دفعہ(7) کی خلاف ورزی کو ثابت کرنے میں بہت سی مشکلات حائل ہیں۔ عموما کوئی گواہ نہیں ملتا یا نشانہ بننے والا ڈرتا ہے کہ اس مرد/عورت یا اس کے خاندان سے انتقام نہ لیا جائے۔ایسے افسران اپنے عملے کے خلاف کوئی تفتیش شروع کرنے سے پہلے ہچکچاتے ہیں قا نون نافذ کرنے والے ادارے نے کوئی قانون شکنی کی ہے یا محض تفتیش۔ظلم و تشدد یا دوسرے ظالمانہ،غیر انسانی ،اہانت آمیز سلوک یا سزا جس نے کوئی ظاہری نشان نہیں چھوڑا۔اس قسم کے الزامات میں یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ ان الزامات کو غلط ثابت کرے یہ کافی نہیں ہے کہ ایک متعلقہ ذمہ دار فریق ریاست،حکومت،اعلی حکام صرف ان الزامات کو یہ کہہ کر رد کردے کہ ان پر کو ئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔اس دفعہ کے نفاذ کیلئے یہ کافی نہیں ہے کہ اس قسم کے سلوک یا سزا کو ممنوعہ قرار دیا جائے۔ریاست کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکومت کو بھی چاہیے کہ کنٹرول کرنے والی کسی مشینری کے ذریعہ مو ثر تحفظ کو یقینی بنائے۔اے پی ایس