آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی کا پختہ عزم۔اے پی ایس



وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ جمہوریت ملک میں بڑی قربانیوں کے بعد بحال ہوئی اسے سازشوں کی نذر نہیں ہونے دیں گے ۔ تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ تمام ریاستی ستونوں کا احترام پیپلز پارٹی کی بنیادی حکمت عملی میں شامل ہے ۔ قیادت و کارکنوں نے عدلیہ کی آزادی کے لیے ماضی میں بھی قربانیاں دیں اور آئندہ بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ہی ریاستی ستونوں کے درمیان مشاورت کے مقصد اور تعمیر ی عملی کو فروغ دیا ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے اور دستور پاکستان میں بھی واضح ہے کہ مسائل و مشکلات گفت و شنید سے حل کیے جائیں ۔انھوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے جس سیاسی بصیرت اور دانشمندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ انہیں شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو سے ورثہ میں ملی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم بھٹو ازم کے وارث ہیں اور شہید قائد کے مشن کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار قمر زمان کائرہ نے گذشتہ جمعہ کو سرائے عالمگیر میں میاں طاہر اقبال کی رہائش گاہ پر صحافیوں اور معززین علاقہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر ہم ایوانوں میں پہنچے ۔ انھوں نے کہا کہ پی پی پی کی حکومت وطن عزیز اور عوام کے تابناک اور روشن مستقبل کے لیے کوشاں ہے ۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے مفاہمتی پالیسی اپناتے ہوئے اور جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ سیاسی عمل کو غیر مستحکم کرنے والے لوگ ملک وقوم کے خیر خواہ نہیں منتخب عوامی حکومت کے خلاف سازشیں کرنے والے سازشی عناصر اپنی موت آپ مرجائیں گے ۔ موجودہ منتخب حکومت انشاءاللہ اپنی موجودہ آئینی مدت پورا کرے گی بلکہ عوامی حمایت سے مستقبل بھی ہمارا ہو گا ۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جمہوریت ملک میں بڑی قربانیوں کے بعد بحال ہوئی اسے سازشوں کی نذر نہیں ہونے دیں گے ۔ تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پی پی پی ملک کے آئین کے محافظ ہے اس پر آنچ نہیں دے گی ۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آئین میں رہتے ہوئے تمام امور انجام دے رہی ہے جب تمام ادارے اپنی حدود میں مقید ہوں تو اداروں کے درمیان تصادم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی حکومت کی دو سالہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے میڈیا اور اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقیات اور حقائق کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، آئین میں ترمیم کے حوالے سے قوم جلد خوشخبری سنیں گی ،انتخابات کے دوران کئے گئے عوام سے وعدے پورے کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔وزیر اعظم نے گزشتہ شب ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کے ساتھ رابطے کو مزید قریبی اور مسلسل بنانے کے لئے میں نے ہر ماہ کے پہلے جمعہ کے دن شام 7 بجے آپ سے ریڈیو کے ذریعے براہ راست مخاطب ہونے کا فیصلہ کیا ہے، میری بھرپور کوشش ہو گی کہ آپ کو حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کیا جائے اور ان اقدامات بارے میں اعتماد میں لیا جائے ۔اپنے خطاب میں حکومت کی دو ساکہ کارکردگی پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دوران ہم نے نہ صرف اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے لئے پیش رفت کی بلکہ ہم ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی کوشاں رہے جو ہمیں ورثے میں ملے تھے۔ ان مسائل میں دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی کشیدگی، ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان، توانائی کا بحران، خوراک کی قلت، پڑوس میں رونما ہونے والے غیر متوقع واقعات کے پریشان کن اثرات، معاشی عدم استحکام، صنعتی پیداواری انحطاط، امن و امان کی غیر تسلی بخش صورت حال اور عوام میں پایا جانے والا عدم اطمینان انتہائی قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے ہم سے بے پناہ امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی ہیں ،ہم نے حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو ترجیحات مقرر کیں، ا آج ہم اپنی کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا۔انہوں نے کہاکہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہم اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کر دیں گے ۔ دہشت گردی کے واقعات سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، امن و امان کی خراب صورت حال سرمایہ کاری کے امکانات کے لئے حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے اور خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کار آنے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نجات حاصل کر کے معیشت کی صورت حال بہتر بنایا جا رہا ہے، قوم کے اتحاد اور تعاون سے ہم اس آزمائش سے بھی سرخرو ہو کر نکلیں گے۔انہوں نے کہاکہ غریبوں کی مالی امداد کے لئے حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور وسیلہ حق پروگرام کا اجراءکیا،رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے 3ارب روپے سے زائد کی سبسڈی فراہم کی۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا۔ مزدوروں کی کم از کم اجرت 4600روپے سے بڑھا کر 6000روپے کر دی گئی۔ بے نظیر ایمپلائز سٹاک آپشن سکیم کے تحت 80سرکاری اداروں کے 5لاکھ سے زائد ملازمین میں 100ارب روپے سے زائد مالیت کے حکومتی حصص مفت تقسیم کئے گئے ۔ بے روزگاری کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حکومت نے تمام برطرف شدہ ملازمین کو بحال کیا ۔ بے روزگاری کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ پرائم منسٹر انٹرن شپ پروگرامکے تحت اس وقت 43000تعلیم یافتہ نوجوان اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس ملکی ضرورت کے مطابق گندم کا ذخیرہ موجود ہے، چینی کی مصنوعی قلت دور کرنے کے لئے تسلی بخش انتظامات کئے جا چکے ہیں،پانی اور بجلی کے مسائل بلاشبہ اہم ہیں لیکن حکومت ان کو مستقل طور پر حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ماہرین اس ضمن میں اپنی قابل عمل تجاویز فراہم کریں۔ملک میں سیاسی اعتبار سے ایسی خوشگوار فضاءموجود ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملکی مسائل حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاسی کشیدگی کو مفاہمت کے جذبہ اور فلسفہ سے تبدیل کر دیا ہے۔ ریاستی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی کا پختہ عزم کر رکھا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ طالع آزماو ¿ں نے 1973کے متفقہ آئین کا چہرہ مسخ کیا۔ہم اس کو بھی ٹھیک کر رہے ہیں۔قوم بہت جلد یہ خوشخبری بھی سن لے گی۔انہوں نے کہا کہ ہماری نیت اوردامن صاف ہے اور ضمیر مطمئن ہے ،قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کے دوران بعض سخت فیصلے بھی کئے مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ فیصلے ملک و قوم کے وسیع تر مفادات میں ناگزیر تھے ۔انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا اور اپوزین کی تنقید کا برا نہیں مناتے بلکہ اس سے اپنی اصلاح کا کام لیتے ہیں لیکن تنقید کرنے والوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اخلاقیات اور حقائق کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئینی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق ہم عوام کی طرف سے دئیے گئے مینڈیٹ کے مطابق اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ایک بار پھر عوام کے سامنے پیش ہوں گے جو ہمارا اور ہماری حکومت کا احتساب کرنے کے مجاز ہیں۔ عوام کا فیصلہ ہی معتبر، صائب اور آخری فیصلہ ہوا کرتا ہے جسے دل و جان سے قبول کریں گے۔گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جھنگ سے تقریبا 40 کلو میٹر دور روڈوسلطان کے مقام پر 66 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے منصوبہ سوئی گیس کی فراہمی کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم امن و محبت کا پیغام لیکر نکلے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے ذریعے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے سوائے کھوکھلے نعروں کے اور کچھ نہ کیا ہے ۔ گندم کا ریٹ 950 روپے فی من ہم نے کیا پنجاب حکومت نے کچھ نہیں کیک بلکہ دس گنا زیادہ خرچہ کر کے سوائے رائے ونڈ کو ابوظہبی بنانے کے اور کوئی کام نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ کچھ لوگ صدر ہٹاو ¿ مہم چلا رہے ہیں جبکہ میں صدر ہٹاو ¿ مہم چلانے والوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ صدر آصف علی زرداری 2013 تک نہیں بلکہ 2018 ئ تک صدر رہیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میں بات کرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ ماحول گھڑا جبکہ نواز شریف آصف زرداری سے مسلسل دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں جمہوریت دشمن قرار دے رہے ہیں ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار حلقہ پی پی 82 میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ سال جیل میں گزارنے والا اور سب کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنانے والی جمہوریت کا دشمن ہے یا ملک چھوڑ کر جانے والا ۔ انہوں نے کہا 23 مارچ سے قبل 17 ویں ترمیم ختم کر دیں گے اور اس کا باقاعدہ اعلان 23 مارچ کے دن کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی وفاق کی علامت ہے جبکہ باقی سب جماعتیں علاقائی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 1973 ءکا آئین پیپلز پارٹی کا تحفہ ہے جس پر تمام سیاسی جماعتیں اور پورا پاکستان متفق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بلوچستان سمیت کئی بڑے پیکج لیکر آئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک تین دن ملک میں کچھ نہیں تھا اگر ہم یعنی آصف علی زرداری پاکستان کھپے کا نعرہ نہ لگاتے تو آج ملک ٹوٹ چکا ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے پاکستان کی سلامتی کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف جھوٹ بولنا بند کر دیں میں سچ بولنا بند کردوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ مانسہرہ اور گلگت بلتسان میں ہارنے والے پنڈی کیلئے بڑا شو رمچا رہے ہیں حالانکہ وہاں تو ہم نے ہلکی سی پھونک ہی ماری تھی جس پر شیخ رشید نے اتنے ووٹ لئے اگر ہم وہاں مقابلے میں ہوتے تو آج وہاں نتائج کچھ اور ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے صوبہ میں 80 بلین کا خسارہ پیدا کر کے بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔پنجاب میں تین ماہ تک فوڈ سٹمپ سکیم چلا کر 6 ارب روپے لوٹ لئے گئے اور سستی روٹی کے نام پر تندوروں سے پیسہ کھایا جا رہا ہے ۔ 30 ہزار روپے فی تندور سے آدھے پیسے ن لیگ والے لے جاتے ہیں ۔ اس موقع پر سینئر وزیر پنجاب راجہ ریاض احمد اٹھارہ ہزاری کو تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ چاروں صوبوں میںبلدیاتی الیکشن مشاورت سے ہونگے جس پر مشاورت جاری ہے جلد ہی وقت کا تعین کر لیں گے۔ جبکہ آئی جی پنجاب طارق سلیم ڈوگر نے کہا ہے کہ پولیس کا جذبہ چاہے جتنا بھی نیک ہو پولیس کو غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ جلال پور بھٹیاں، چنیوٹ اور جوہر ٹاو ¿ن لاہور کے واقعات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں بعض اوقات پولیس اہلکاروں کو مدعی اور افسران کے دباو ¿ کے باعث بھی ملزمان پر تھرڈ ڈگری تشدد کرنا پڑتا ہے ۔ جلال پور بھٹیاں کے واقعہ میں ایم پی اے ملوث ہوا تو اس کی قیادت ایکشن لے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ آئی جی نے کہا کہ چنیوٹ میں تھانہ کی بجائے سڑک پر ملزمان پر تشدد کیا گیا جس پر انہوں نے ایس ایچ او تھانہ کے خلاف ایف آئی آر اور ڈی ایس پی کو معطل کرنے کا حکم دے دیا جبکہ ڈی پی او سے 15 روز کے اندر واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس تشدد کے واقعات سے عوام میں پولیس سے خوف و ہراس پیدا ہوا ہے حالانکہ پولاس کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان واقعات میںملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے کا حکم دیا ہے تا ہم میرے اس حکم پر بعض پولیس اافسران نے اسے نا مناسب قرار دیا ہے کہ اس سے پولیس کے مورال کو نقصان پہنچے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کا کام وہی ہونا چاہیے جس کے لئے یہ محکمہ وجود میں آیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے ہم ان واقعات پر ایکشن لینے پر مجبور ہوئے ہیں تا ہم انہوں نے دعوی کیا کہ اگر چہ ماضی میں بھی پولیس تشدد کے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں تا ہم اب ان میں کمی آئی ہے اور مستقبل میں اور کم ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ جلال پور بھٹیاں میں جن تین ملزمان پر تشدد کیا گیا ان میں سے دو قتل، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کے ریکارڈ یافتہ ملزمان ہیں جبکہ تیسرا ملزم بھی موٹر سائیکل چھینتے ہوئے رنگے ہاتھوں پڑا گیا ہے ۔ واقعہ کی تحقیقات کے لئے میں نے فوری طور پر ڈی آئی جی گوجرانوالہ اور ڈی پی او کو موقع پر بھیج دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں جن تین واقعات کا میڈیا نے ذکر کیا ان میں سے دو پولیس مقابلوں کے واقعات میں کوئی پولیس اہلکار گناہ گار نہیں پایا گیا جبکہ جوہر ٹاو ¿ن کے واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب نے بھی اجلاس میں پولیس کے تفتیشی نظام کو شفاف بنانے کی ہدایت کی ہے ۔ اس مقصد کے لئے ریجن اور ضلع کی سطح پر پولیس پبلک کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں تا کہ پولیس کے غیر قانونی اقدامات کا تدارک کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات میں ملوث بہت سے اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ کیا جا چکا ہے ۔ حکومت کی پہلی ترجیح عوام کو امن و امان اور انصاف فراہم کرنا ہے۔ اسی وجہ سے مالی مساول کے باوجود پولیس ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا ۔ انہو ں نے کہا کہ 50 فیصد سے زائد پولیس فورس کو ان واقعات پر عام شہریوں کی طرح ہی غم میں وہ پہلے مسلمان پھر شہری اور اس کے بعد پولیس ملازم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات پولیس کو مدعی اور افسران کے دباو ¿ پر بھی ملزمان پر تشدد کرنا پڑتا ہے ۔ جلال پور بھٹیاں کے واقعات میں شائد ایم پی اے بھی ملوث ہو تا ہم اس بارے میں الگ سے انکوائری کی جا رہی ہے ۔ ایسا ہوا تو اس کے خلاف اس کی سیاسی قیادت ہی ایکشن لے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جلل پور بھٹیاں میں جن پانچ ملزمان پر تشدد کیا گیا ان پر تشدد کے لئے ہزاروں افراد نے تھانہ کو گھیرے میں لے لیا تھا اور بعد میں پولیس کے حق میں جلوس بھی نکالا اس کے باوجود میں اس واقعہ کو درست نہیں سمجھتا ۔ پولیس کو ہر صورت قانون کے دائرہ کے اندر ہی رہنا چاہیے ۔ ملزمان سے مجھے سوالات اور جواب کے ذریعے بھی انہیں حقائق اگلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے جو تشدد سے زیاہ موثر طریقہ ہے ۔ اس مقصد کے لئے پولیس اہلکاروں کو ٹریننگ کورس بھی کرائے جا رہے ہیں۔سابق صدارتی امید وار اور ممتازقانون دان جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا سٹنگ ووٹ چیف جسٹس آف پاکستان کو دیا جانا ضروری ہے ۔ اس طرح سے ججوں کی تقرری سو فیصد میرٹ پر یقینی بنائی جا سکے گی وہ کراچی سے چکوال پریس کلب میں ٹیلی فونک گفتگو کر رہے تھے ۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے مزید کہا کہ اگر دوسری تجویز یہ ہے کہ ان چھ ممبران میں سے اس صوبے کے دو سینئر ترین ہائی کورٹ کے جج صاحبان بھی شامل کر لیے جائیں جس صوبے سے سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری ہونی ہے تو اس سے بھی ایک تو اس صوبے سے عدلیہ کی نمائندگی بھی ہو جائے گی اور آزد عدلیہ کا استحقاق بھی واضح اور نمایاں ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں چھ ممبران کو موجودگی میں چونکہ تین ممبران عدلیہ سے ہوتے ہیں اور تین باہر سے جس میں وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ہے اس میں کسی بھی معاملے پر تین تین کا ڈیڈ لاک پیدا ہونے سے معاملات ڈیڈ لاک کا بھی شکار ہو سکتے ہیں لہذا عدلیہ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کے لیے قوم اب ایسے ڈیڈ لاک کی متحمل نہیں ہو سکتی لہذا کاسٹنگ ووٹ چیف جسٹس آف پاکستان یا پھر مذکورہ دو سینئر ترین ہائی کورٹ کے جج صاحبان جس صوبے سے سپریم کورٹ میں تقرری ہوتی ہے وہ نا مزد کیے جائیں۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے مزید کہا کہ افتخار محمد چوہدری سمیت ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور موجودہ جج صاحبان کی موجودگی میں کسی غلط آدمی کی اعلیٰ عدلیہ میں تقرری تقریباً نا ممکن ہے مگر باریک بینی کے ساتھ آنے والے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ موجودہ جج صاحبان ساری عمر تو نہیں رہ سکتے لہذا بحیثیت ادارہ اب یہ سب معاملات جوڈیشل کمیشن میں طے کر دیئے جانے چاہیں۔ این آر او پر حکومت کی طرف سے عملدرآمد کرانے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ اب یہ معاملات زیادہ عرصہ چلنے والے نہیں این آر او کی زد میں آنے والے حکومتی اکابرین کو چاہیے کہ وہ عدالتوں کا سامنا کریں اس وقت تو ہر چیز ان کے کنٹرول میں ہے اور جس طرح وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک بھی بری ہو گئے ہیں اور حکومتی اکابرین جو این آر او کی زد میں ہیں وہ اپنی صفائی لائیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ آزاد عدلیہ ان کو بے گناہ ثابت نہ کرے۔اے پی ایس