خواتین آج بھی عدم تحفظ کا شکار ۔چودھری احسن پر یمی


وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ عورتوں کو بااختیار بنانا موجودہ حکومت کی ا ولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سال کے موضوع” مساوی حقوق ، مساوی مواقع اور ترقی سب کے لیے “ پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے حکومت اپنی تمام قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھائے گی ۔ ہمارا آئین بلا امتیاز تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت بے نظیر بھٹو کے وژن کے مطابق اس بات کویقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے تاکہ خواتین نہ صرف ہر طرح کے استحصال سے آزاد ہوں بلکہ حقیقی معنوں میں بااختیار بھی ہوں ۔ خواتین کو سماجی ، معاشی ، قانونی اور سیاسی لحاظ سے بااختیار بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ انہیں ہر شعبہ زندگی میں مساوی حقوق اور مساوی مواقع حاصل ہو سکیں ۔ ان میں خواتین کے لیے مائیکرو کریڈٹ کی سہولت ، فنی تربیت کی فراہمی، پریشانیوں کا شکار خواتین کی بحالی، متحرک کرنے والی خدمات ، آگاہی میں اضافہ کے اقدامات وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنے پچاس فیصد انسانی وسائل کو استعمال کیے بغیر ملک کو ترقی نہیں دے سکتے ۔ خواتین کو قانونی اور اقتصادی لحاظ سے بااختیار بنانا ہماری حکومت کی اولین خواہش ہے خواتین کو معاشی تحفظ ، خوف سے پاک کام کرنے کا ماحول اور خواتین کے لیے آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کر کے ہی اس ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اجراء، کریمینل لاء( ترمیمی) ایکٹ 2009 ءکا پاس کیا جانا اور کام کرنے کی جگہ پر خوف وہرا س کے خلاف تحفظ کا بل 2009 ءاس سلسلے میں کیے گئے چند امتیازی اقدامات ہیں۔کوئی بھی برتری کا اصول جس کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہو سائنسی طور پر جھوٹا،اخلاقی طور پر قابل مذمت،سماجی طور پر غیر منصفا نہ اور خطرناک ہوگا اور یہ کہ نسلی امتیاز کیلئے کہیں بھی کوئی نظری یا عملی جواز نہیں پایا جاتاکو ئی بھی امتیاز،خراج،حد بندی یا ترجیح جس کی بنیاد نسل، رنگ،نسب یا قومی نسلی وابستگی پر ہو اور جس کا مقصد انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے مساوی بنیاد پر اعتراف،خوشی و مسرت یا نفاذ کو سیاسی،معاشی،سماجی،ثقافتی یا عوامی زندگی کے کسی دوسرے میدان میں ختم کرنا یا کمزور کرنا۔جبکہ سی ای آر ڈی کے مقا صد میں یہ شامل تھے(i) نسلی امتیاز کو صا حبان اختیار اور نجی تنظیموں کے ذریعے ممنوع قرار دینا(ii) نسلی امتیاز کو ہوا دینے کو قابل تعزیر جرم بنانا۔جتنی جلدی ممکن ہو رکن ریاستوں کو چاہیے کہ وہ نسلی بنیاد پر قائم تنظیموں کے خلاف مجرمانہ کاروائیوں کی بنیاد پر مقدمہ چلائیں انہیں چاہیے کہ وہ ایسی تنظیموں کو غیر قانونی قرار دیں اور جو لوگ ان میں حصہ لیں ان کے خلاف مقدمات قائم کریں اعلان ویانا بھی انسانی حقوق کے بین الا قوامی قانون اور بنیادی آزادیوں کا بلا امتیاز احترام انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا بنیادی ضابطہ ہے اس کی دفعہ3 میں شریک ممالک عہد کرتے ہیں کہ وہ اس میثاق میں موجود تمام شہری اور سیاسی حقوق پر مردوں اور عورتوں کو برابر کا حق دینے کی ضمانت دیں گے حکومت کو چاہیے کہ وہ اسی خواتین کو ریلیف مہیا کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جو سزا ملے بغیر طویل عرصے سے جیلوں میں پڑی ہوئی ہیں اور ان کی رہائی کے بارے میں بھی غور کیا جائے۔ایک طویل عرصہ سے خواتین کو عدم تحفظ کا شکار گروہ سمجھا جاتا رہا ہے اس ضمن میں حکومت کو صرف اقدامات نہیں بلکہ مثبت کاروائی بھی کرنی چاہیے تاکہ ان حقوق سے مثبت طور پر لطف اندوز ہو نے کو یقینی بنایا جاسکے یہ صرف قوانین تشکیل دینے سے ممکن نہیں بلکہ قومی اداروں کی تشکیل اور زیادہ عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ان عملی مسائل کو حل کیا جاسکے جو مردوں اور عورتوں کیلئے مساوی حقوق کو یقینی بنانے سے وابستہ ہیں۔قانون میں خواتین مردوں جیسی ہیں مزید یہ کہ امتیاز کی تعریف حکومت یا اس کے ایما پر ہونے والے اقدامات پر نہیں ہے سیڈا معاہدہ کی رکن ریاستیں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ کسی بھی شخص،تنظیم یا ادارہ( دفعہ2 ای ) کی طرف سے کسی عورت کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کیلئے اقدام کرے اس لئے وہ ریاستیں جو پرائیویٹ افراد کے کاموںکو روکنے،یا تفتیش کرنے اور سزا دینے کیلئے ضروری اقدام کرتے میں ناکام ہوجاتی ہیں وہ اس دفعہ کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں۔جنس کی بنیاد پر کئے جانے والے تشدد کے اسباب پر غور فکر کرتے ہوئے اس کا ہدف" روایتی رویے" ہوتے ہیں جو عورت کو مرد کا ماتحت سمجھتے ہیں یا اسے ایک ایسی مخلوق تصورکرتے ہیں جو صرف یکساں قسم کے کردار ادا کرسکتی ہے ان رویوں سے خاندانی تشدد،جبری شادی،جہیز پر تنازعات اور اموات تیزاب پھیکنے کے واقعات،عورتوں کے ختنوں کی رسم کو جنم دیتا ہے عام طور پر فحش نگاری کی تشہیرہوتی ہے اور عورتوں کو فردکی حثیت سے نہیں بلکہ جنسی اشیاءکے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔جنس کی بنیادپرکئے جانے والے تشدد سے نمٹنے کیلئے حکومت کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ درج ذیل امور کو یقینی بنائے کہ(1) قوانین تمام خواتین کو تحفظ دیتے ہیں(2)جہاں پر ضروری ہو جرائم پر جرمانے کئے جائیں(3) اگر کسی خاندان کی کوئی عورت قتل کردی جائے یا اس پر حملہ کیا جائے تو غیرت کو بطور صفائی قبول نہ کیا جائے(4) خاندانی تشدد بننے والی خواتین کو محفوظ پناہ گا ہیں اور ضروریات سہو لیات مہیا کی جائیں(5)ذرائع ابلاغ عورتوں کا احترام کریں اور اس احترام کی حوصلہ افزائی کریں(6) ایسے تعلیمی اور عوامی معلوماتی پروگراموں کو معتارف کرایا جائے جن سے ان تعصبات کو ختم کرنے میں مدد ملے جو عورتوں کے برابری کے حق میں رکاوٹ بنتے ہیں(7)عورتوں کی تجارت کرنے اور جنسی استحصال پر قابو پانے کیلئے انسدادی اور تا دیبی اقدام کئے جائیں۔خواتین کے حقوق اور بعض رسوم و رواج،ثقافتی تعصبات اور مذہبی انتہا پسندی کے نقصان دہ اثرات کے درمیان کسی بھی کشمکش کا خاتمہ ناگزیر ہے تاکہ خواتین تمام انسانی حقوق سے پوری طرح اور مساوی طور پر لطف اٹھائیں اور یہ کہ حکومت بھی اس کام کو ترجیح دے نیز خواتین کی مساوی حثیت اور مساوی انسانی حقوق کو اقوام متحدہ کے نظام کے مطابق کی جانے والی سرگرمیوں کا ایک حصہ بنا کر اسے اس کے بنیادی پروگرام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ان معاملات کے ساتھ اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں میں باقاعدہ اور با ضابطہ طور پر نمٹا جانا چاہیے خصوصا ایسے اقدامات کرنے چاہیے جن سے خواتین کے خلاف مخففی اور ظاہری دونوں قسم کے امتیاز ختم کئے جائیں۔مزید یہ کہ خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمے کی کمیٹی کو چاہیے کہ وہ معاہدے کے تحفظات پر نظرثانی جاری رکھے نیز ریاستوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ان تحفظات کو واپس لے لیں جو معاہدے کے مقصد کے منافی ہیں یا جو بین الاقوامی قانون معاہدہ سے ہم آہنگ نہیں۔ پا کستان میں خواتین معاشرہ میں ایک اہم اور نمایاں کردار ادا کرنے کے باوجود انتہائی کمزور اور بے بس ہیں۔ وہ تشدد اور معاشی استحصام کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم وتربیت اور بنیادی حفظان صحت کی نعمتوں سے بھی محروم رہتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہارڈاکٹر فہمیدہ مرزاسپیکر قومی اسمبلی نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر کیاگذشتہ روز عالمی یوم خواتین جو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ساری دنیا میں منایا گیا۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزاسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ خواتین آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں اور مختلف شعبوں میں نمایاں کردارادا کرتی ہیں لیکن انکے اس کردار کو کسی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ موجودہ جمہوری حکومت ان کے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور ان کے حقوق کو تحفظ دینے اوریقینی بنانے کیلئے قوانین میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو گھر کے روزمرہ کاموں اور کھیتوں میں محنت ومشقت تک محدود رکھا گیا ہے اور تعلیم تک انہیں رسائی حاصل نہیں ہے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزاسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو زیورعلم سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے گوناگوں مسائل کا ادارک حاصل کرنے اور ان نبردآزماہونے کے قابل ہو سکیں۔ حکومت ملک میں خواتین کے تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے مطلوبہ فنڈزمہیا کرے۔ خواتین کے حقوق وراثت اور ان کی انصاف تک آسان اور فوری رسائی کو یقینی بنا نا نا گزیر ہے ڈاکٹر فہمیدہ مرزاسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو آگے بڑھانے اور مضبوط بنانے اور ظلم کے خلاف جدوجد کے سلسلے میں عوامی امور میں خواتین کی شرکت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا وژن تھا تا کہ قومی تعمیر وترقی میں وہ بہتر کردار ادا کر سکیں۔ شہید محترمہ کے اس وژن کو مکمل کرنے کیلئے خواتین کی ایک خاطر خواہ تعداد کو اس پارلیمنٹ میں نمائندگی دی گئی ہے اور قومی ترقی میں ان کے پہلے سے زیادہ کردارکیلئے انہیں مواقع دیئے جارہے ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام خواتین کیلئے کام کرنے کے ماحول کو محفوظ بنانے کیلئے قوانین میں تبدیلی لانے کیلئے پر عزم ہے پارلیمنٹ نے مقام کار پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا ایک بل منظور کیا ہے اور خواتین پر ان کے خاندان،جان پہچان والوں،ساتھیوں یا معاشرہ کی جانب سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے تحفظ کیلئے دیوانی اور فوجداری قوانین میں مختلف تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔یہ قوانین صنفی امتیاز کو کم کرنے میں مدد دیں گے اور خواتین اس قابل ہوں گی کہ وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزاسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے خواتین کی آزادی اورانہیں با اختیار بنانے کیلئے متعدد قوانین وضع کئے ہیں اور اقتصادی اقدامات بھی اٹھائے ہیں اور حکومت زندگی کے سماجی،معاشی حلقوں میں ان کے بھر پور کردار کویقینی بنانے کیلئے پر عزم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعدادکو بے گھر ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے یہ خواتین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کو کئی طرح کی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ڈاکٹر فہمیدہ مرزاسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت ان خواتین کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی بحالی کے لیے پوری طرح کوشاں ہے۔ عالمی برادری،این جی او اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ حکومت کی ان کوششوں میں اس کی مدد کریں۔ صوبائی حکومتیں بھی بے زمین خواتین کو زمینیں الاٹ کریں تاکہ وہ اپنے خاندانوں کیلئے روزی کما سکیں۔ معاشرہ کے غریب ترین طبقوں کی قوت خرید پر افراط زر کے اثرات کو کم کرنے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کرنے کے حکومتی فیصلہ کر سراہا جا رہا ہے۔اے پی ایس