شخصیات کی بجائے آئین کی بات۔چودھری احسن پر یمی


اس وقت تک پاکستان کا عدالتی نظام کمزور رہے گا جب تک تیز تر شفاف اور انصاف کی بہتر فراہمی کو یقینی نہیں بنا لیا جاتا ۔اس بات کا خدشہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بھاری تعداد میں زیر التوا مقدمات کی وجہ سے عام آدمی عدلیہ پر اپنے اعتماد کو کھو دے گا۔مہنگی مقدمہ بازی اور سست روی کے ساتھ مقدمات کی سماعت لوگوں کو خصوصا غریب طبقہ کو مایوس کیا ہے آزاد اور متحرک عدلیہ اچھی گذ گورننس کیلئے ضروری ہے،شہریوں کی جان و مال کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔یہی وقت ہے کہ عدالتی وقار کی بحالی کیلئے اصلاحات پر مخلصا نہ طور پر اقدامات کئے جائیں۔ملک میں انصاف کی فراہمی کے ذریعے عدلیہ پر لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک سال کی قلیل مدت کے دوران بھاری تعداد میں زیر التوا مقدمات کو نمٹا دیا گیا ہے عوامی شکایات حکومتی اہلکاروں کی بد انتظامی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔انتظا میہ قوانین پر عملدرآمد کی پابند ہے۔عدالتیں قوانین کی تشریح کرتی ہیں عدلیہ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔وکلاءنے گذشتہ نو مارچ کوملک بھر میں سابق صدر پرویز مشرف کے ہاتھوں چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کو معزول کئے جانے کے 3 برس مکمل ہونے پر سندھ سمیت ملک بھر میں یوم آزادی عدلیہ منایااس مناسبت سے نو مارچ کو سپریم کورٹ میں ایک کنونشن منعقد کیاگیا۔ جبکہ سندھ بار کونسل کے ممبر و کراچی بار ایسوسی ایشن نے سندھ بھر کی بار ایسوسی ایشنوں سے اپیل کی تھی کہ وہ نومارچ 2007ءکے سیاہ دن کے حوالے سے جنرل باڈی کے اجلاس منعقد کریں اور عدلیہ سے اظہار یکجہتی کیا جائے، کراچی بار ایسوسی ایشن سمیت تمام بار ایسوسی ایشنز کو جنرل باڈی اجلاس میں موجودہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کیخلاف قرار دادیں منظور کیں اور کہا گیا کہ پاکستان میں بھارت کی طرز پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو ججز کی تقرری کرے۔ نو مارچ کی مناسبت سے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جر نلسٹس کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب میں ایک سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی عدلیہ بحا لی تحریک کے لیڈر چودھری اعتزاز احسن تھے جبکہ دیگر شر کاءگفتگو میں سینئر صحافی حا مد میر،مظہر عباس،پرویز شوکت،مظہر برلاس،افضل خان ،وحید الحسن ماہر قانون اطہر من اللہ،جاوید ایڈوکیٹ،واجد حسین گیلانی،سید ذوالفقار نقوی، اور سپریم کورٹ بار کے صدر قا ضی انور محمود جبکہ پی ایم ایل ن کے صدیق الفاروق،پی پی پی کے اسرار شاہ اور تحریک انصاف کی فوزیہ قصوری نے اظہار خیال کیا جبکہ نظا مت کے فرائض آر آئی یوجے کے جمیل مرزا اور قرارداد آر آئی یو جے کے صدر اشفاق ساجد نے پیش کی۔جمیل مرزا نے حرف آغاز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت اپنی آنکھوں کے سامنے لائیے جب اس ملک میں جبر کی حکومت تھی اور ایک آمر نے چیف جسٹس کو اپنے پنڈی کیمپ آفس بلایا اور غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دینے کیلئے کہا لیکن چیف جسٹس کے انکار پر استعفی کیلئے کہا لیکن چیف جسٹس نے استعفی سے بھی انکار کردیا۔ایک انکار شہید ذو الفقار علی بھٹو نے بھی کیا تھاتو اس کو پھانسی دے دی گئی جمیل مرزا نے کہا کہ بات کر نے کا مقصد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جتنے پہلے اپنے ارادے میں پختہ تھے آج بھی اتنے ہی پر عزم ہیں۔نو مارچ کی منا سبت سے منعقدہ سمینار میں سب سے پہلے اطہر من اللہ ایڈوکیٹ کو اظہار خیال کیلئے دعوت دی گئی اس موقع پر اطہر من اللہ نے کہا کہ نو مارچ دوہزار سات کو میرا تھوڑا اور چھوٹا سا کردار تھا نو مارچ کے حوالے سے چند باتیں ضرور کروں گا۔نو مارچ نے ایسا موقع دیا کہ میں اپنے گر یبان میں دیکھ سکوں۔چیف جسٹس میرے سامنے تھے کہ کیمرے سے آپ کے ہی ایک بھائی نے ایک تصویر کھینچی کہ بالوں سے کھیچنے پر تشدد کی علامت سے اس تحریک کا آغاز ہوااس کے بعد دوسال میں پانچ وکلاءشہید اور پچاس ورکر زخمی ہوئے پوری قوم اور سول سوسائٹی نے ساتھ دیا منوں پھول کی پتیاں نچھاور کیں۔اطہر من اللہ نے کہا کہ نو مارچ اپنے ضمیر کو جھجوڑنے کادن تھا اپنے آپ کو اس سے مبرا نہیں سمجھتا۔دوسالوں میں بہت کچھ ہوا۔ جمہوریت جو آئی ہے بدترین جمہوریت بھی کسی بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔اس موقع پر اطہر من اللہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سو لہ مارچ پہلا قدم ہے نا مکمل آزاد عدلیہ ہے آزاد عدلیہ کیلئے آزاد منش جج افتخار محمد چودھری اگر ساڑھے پانچ ماہ قید رہے لیکن ایک آمر کو احساس نہیں ہوا کہ جج قید رہے۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ جمہوریت کی وجہ سے ہوا کہ ججز رہا ہوئے جب ہم آزاد عدلیہ کی بات کرتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تحریک جو صحیح ایک امتحان ہے وہ سولہ مارچ سے شروع ہوا۔سولہ مارچ سے پہلے شاید ایسا نہیں تھا اطہر من اللہ نے کہا کہ کہ این آر او کے فیصلے کو دیکھیے نو مارچ کے بعد مثبت چیزیں ہوئیں کہ ہمارے معاشرے میں بحث ہو رہی ہے۔اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر شعبے میں احتسابی عمل بالکل ناکام ہوچکا ہے ہم نے اداروں کو ایک بار پھر بنانا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ وفاق تریسٹھ سالوں سے مضبوط ہے ایسا نہیں آج وفاق بہت کمزور ہے نو مارچ نے ہمیں ایک بار پھر جگا دیا ہے اطہر من اللہ نے کہا کہ بانی پاکستان کا وژن تھا کہ ملک میں جمہوریت ہوگی تو ادارے بنیں گے ادارے بنیں گے تو جمہوریت مضبوط ہوگی۔اس موقع پر سینئر صحافی افضل خان نے کہا کہ نو مارچ تاریخی نہیں بلکہ ایک تاریخ سازدن تھا وکلاءنے بڑے منظم طریقے سے جس کی قیادت اعتزازاحسن اور اطہر من اللہ و دیگر وکلاءکر رہے تھے وہ آمر جو بیس سال راج کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا اس آمر کو چار مہینے بھی ٹکنے نہیں دیا۔ سینئر صحافی افضل خان نے کہا کہ فوج کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس ملک میں راج کرے۔جبکہ ججز کا بھی یہ کام نہیں کہ آنے والے کسی آمر کو قانونی راستہ فراہم کریں سینئر صحافی افضل خان نے کہا کہ میڈیا نے پہلی دفعہ ٹر ننگ پوائنٹ لیا میڈیا جو ہے وہ تحریک بناتا ہے کسی کو جگاتا ہے یا گراتا ہے میڈیا عام طور پر عوام کے پیچھے چلتا ہے اور عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے لیکن عوام کسی پرو جیکشن کے بغیر گھروں سے با ہر نکلی۔ افضل خان نے کہا کہ ایک کامیابی حا صل ہو ئی کہ ایک آزاد عدلیہ معرض وجود میں آئی یہ ججز جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا انھوں نے قانون کی حکمرانی کی آواز اٹھا ئی اور میڈیا ان کو اس راستے پر لے آیا کہ جو جج اس نظریے سے ٹو ٹے گا وہ عوام کی نظروں میں گرے گا افضل خان نے کہا کہ اپنے اندر اور نچلی عدلیہ میں کرپشن کو ختم کرنا ہے وہاں جو کیسز کا انبار لگا ہوا ہے اس کو ہمیں نمٹانے کی ضرورت ہے۔عدلیہ جو اب نئے جمہوری اداروں کی نگہبان ہے پبلک میں جو کچھ ہورہا ہے عدلیہ کے وقار کو کم کر نے کی کوشش کی گئی ان کے آپس میں جو تضادات ہیں امید ہے ان کو حل کرلیا جائے گا۔اس موقع پر تحریک انصاف کی فوزیہ قصوری نے کہا کہ پاکستان کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ تاریخ میں یکساں تمام شہری فخر محسوس کرسکیں۔نومارچ ملک میں زبردست تحریک کا آغاز ہوا تمام دنیا نے دیکھا کہ لوگ ہمت والے شعور ہی رکھتے ہیں بلکہ ایک ادارے کیلئے انصاف اور مضبوط جدو جہد کرسکتے ہیں فوزیہ قصوری نے کہا کہ جس معاشرے میں انصاف نہیں وہاں معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا اتنی ساری جماعتیں اور جیسا کہ یہ کہا گیا کہ ایک جمہوری حکومت اب یہ ریلائزکرے کہ اب وقت گزر چکا اب وہ سلیب نہیں بنا سکتے عدلیہ کو مزید کام کرنے کیلئے چیلنجز درپیش ہیں انشا ءاللہ ملک کو مزید آگے لیکر جانا ہے آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے پہلی پنڈی بار تھی جس سے اس تحریک کا آغاز ہوا اس حوالے سے ہائی کورٹ بار کے صدر سید ذوالفقار عباس نقوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نو مارچ دوہزار سات اس نظریہ کا تجدید عہد کا دن ہے یہ پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ملک آزاد ہو اور عدلیہ آزاد ہو اس حوالے سے چیف جسٹس کو مستعفی ہونے کو کہا گیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو ئی غیر آئینی کام نہیں ہونے دیں گےہائی کورٹ بار کے صدر سید ذوالفقار عباس نقوی نے کہا جہاں قانون کی حکمرانی ہو وہاں قومیں ترقی کرتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ دو ہزار دس میں ہم بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں میں کچھ دن قبل وزیر اعظم گیلانی کی تقریر سن رہا تھا وزیر اعظم پہلے جو کچھ کہتے ہیں بعد میں شاید بھول جاتے ہیں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے مسائل ہو سکتے ہیں جو طریقہ اپنایا گیا وہی ایڈاپ کرنا چاہیے کسی قسم کا کو ئی کمرو مائز نہیں کرنا چاہیے۔اس موقع پر سینئر صحافی مظہر برلاس نے کہا کہ آج کی تقریب میں مہمان خصوصی چو دھری اعتزاز احسن کے حسن انتخاب پر آر آئی یو جے کی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کیو نکہ چودھری اعتزاز احسن کا قلم سے براہ راست رشتہ ہے مظہر برلاس نے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ نے ہمیشہ ہر آمر کو تحفظ دیا جسٹس منیر سے لیکر سب کو تحفظ دینے والی عدلیہ ہی تھی موجودہ عدلیہ میں بھی ایسے اکا برین موجود ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا مظہر برلاس نے کہا کہ عدلیہ کو انتظامیہ کے دائرے کے اندر مداخلت زیب نہیں دیتی سید یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم بنے تو ان کا پہلا اقدام ججز کی رہائی ہے جمہوریت پسند لوگ کبھی بھی آزاد عدلیہ کے خلاف نہیں ہوتے ۔جب عدلیہ کو غیر فعال کیا گیا اور بعد میں عوام کی طاقت سے آزاد عدلیہ کو بحال کیا گیا عدلیہ نے اس کے بعد جو فیصلے دیے ہیں کیا وہ فیصلے درست تھے کیا عدلیہ کا کام چینی بیچنا ہوتا ہے مظہر برلاس نے کہا کہ اب آزاد عدلیہ کے امتحان کا وقت ہےڈسٹر کٹ بار کے جاوید ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس وقت جو آزاد عدلیہ ہے وہ چودھری افتخار کی نہ کا نتیجہ ہے۔ریاست کا قاضی پابند سلاسل ہوگیا مجھے اعزاز حاصل ہے کہ وکلاءکو اکٹھا کیا پہلی دفعہ تیرہ مارچ دوہزار سات کو چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سامنے لایا گیا آزاد میڈیا نہ ہوتا صرف پی ٹی وی ہوتا تو وکلاءکا وہ پیغام شاید عوام تک نہ پہنچتا جاوید ایڈوکیٹ نے کہا کہ تریسٹھ سال میں جمہوری یا آمریت کے دور میں ایک وزیر قانون اور ایک اٹارنی جنرل کے ذریعے عدلیہ کو قابو رکھنے کی کوشش کی گئی۔عدلیہ کا یہ کام نہیں کہ وہ آنکھیں بند کرکے فیصلے کرے۔ڈکٹیٹر جو تھا وہ دو نمبر آدمی تھا کارکن جو باہر نکلے اور آمر کو پسپا کرنے پر مجبور کیا۔ عدلیہ کا جو تعلق ہے حکومت جو مرضی کرتی پھرے عدلیہ بھی اس ملک کی ہے آزاد عدلیہ کا کام نہ صرف مقدمات بلکہ سوسائٹی کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اس تحریک کو کامیاب بنانے میں پاکستان کے آزاد میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے۔اس موقع پر وحید الحسن نے کہا کہ جمہوریت کو کیسے مضبوط کرنا ہےسپریم کورٹ کی طرف سے جتنے بھی فیصلے آتے رہے ہیں تو سوالات اٹھاتے رہے ہیں میرے ایک بھائی مظہر برلاس نے چینی کے حوالے سے بات کہی تو اس ضمن میں میری رائے ہے کہ جب انتظامیہ نااہل ہوجاتی ہے تو یقینی طور پر عدلیہ کو اپنا فرض ادا کرنا پڑتا ہے ملک کی بقا اسی میں ہے کہ جب سارے ادارے اپنے میں رہ کر کام کریں گے۔اس موقع پر واجد حسین گیلانی نے کہا آزاد عدلیہ کے بعد ججز اور وکلاءپر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے میں کو ئی کسر باقی نہ چھورٰیں۔اس موقع پر کالم نویس حامد میر نے کہا کہ نو مارچ جمعے کا دن تھا پھر مجھے بارہ مارچ کا دن یاد ہے۔حامد میر نے کہا کہ پاکستان تاریخ کا رخ تبدیل کررہا ہے ایک انکار کے بعد بہت سے انکار کئے گئے ان انکار کرنے والوں میں چودھری اعتزاز احسن بھی شامل ہیں انھوں نے کہاں اور کیسے انکار کئے یہ بہت سارے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے حامد میر نے کہا کہ نو مارچ سے ابھی تک جو واقعات ہوئے ہیں سو لہ مارچ دوہزار نو تک تاریخ مرتب کر نی چاہیے اگر آپ نے تاریخ کو درست قرارنہ دیا تو بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں کیو نکہ اب وکلاءلیڈر وہ نظر آرہے ہیں جو ڈوگر کی عدالتوں میں جاتے رہے ہیں وکلاءتحریک میں جن وکلاءنے جدو جہد کی انھوں نے ڈوگرا کورٹ کا بائیکاٹ رکھا اس ضمن میں انھیں بڑی معاشی بدحالی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔جبکہ انھیں اپنے مکانوں کے کرائے اور بچوں کی فیسیں دینا ہو تیں تھیں حامد میر نے کہا کہ تاریخ کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے کہ عدلیہ تحریک کے اصل ہیرو کون تھے حا مد میر نے آر آئی یو جے کے کردار پر روشنی دالتے ہوئے کہا کہ اعتزاز احسن اس وقت جب نظر بند تھے ملک کی بڑی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں وکلاءنے بھی تحریک ختم کردی تھی اس وقت میرے سمیت دیگر نجی چینلز پر پابندی لگی ہوئی تھی لیکن اس وقت بھی آر آئی یو جے کی طرف سے اس جدو جہد کو جاری رکھا گیا ہمارے جو یہ ساتھی تھے یہ آواز لگاتے تھے کہ حامد میر کو بحال کرو اگر پرنٹ میڈیا کے یہ ہمارے دوست نہ ہوتے تو یہ تحریک نہ چلتی ان موقعوں پر سابق وفاقی وزیر جے سالک کا بھی کافی کردار رہا ہے کیو نکہ لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ان کی بھی محنت شامل حال رہی ہے۔وکلاءتحریک نے مہم کا آغاز کیا تو اس وقت نگران حکومت کے ایک وزیر نے مجھے کہا کہ آپ اب ٹی وی پر نہیں آئیں گے آپ کو ہم ری سٹور کرا دیتے ہیں اگر آپ آر آئی یو جے کے ہڑتا لی کیمپ میں جانا بند کردیں حا مد میر نے کہا کہ اس وقت مجھے آر آئی یو جے کی اہمیت کا احساس ہوا۔وہ مجھے ایک دل یزداں میں کانٹوں کی طرح چب رہے تھے میں نے انھیں ٹٹو لنے کی کوشش کی اس سے پہلے اعتزاز احسن بھی اپنا نقصان کر چکے تھے کیو نکہ انھیں طارق عزیز نے وزارت عظمی کی پیش کش کی جس کو چودھری اعتزاز احسن نے ٹھکرا دیا تھا۔ مد میر نے کہا کہ اگر محترمہ بے نظیر کو ستائیس دسمبر کو شہید نہ کردیا جاتا تو مشرف اتنا کمزور نہ ہوتا پرویز مشرف کی سیاسی موت بے نظیر کی شہادت کا نتیجہ ہے محتر مہ بے نظیر نے اپنے بلند مقا صد کے حصول کیلئے اپنے کو قربان کردیا۔حامد میر نے کہا کہ سول سوسائٹی اور میڈیا اب بدل چکا ہے بے نظیر بھٹو نے چیف جسٹس کو اپنا چیف جسٹس تسلیم کرلیا تھا شہید بے نظیر بھٹو کا خواب تھا کہ جب آپ پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کرتے آپ جمہوریت کو مضبوط نہیں کر سکتے ۔حامد میر نے مزید کہا کہ نو مارچ انکار کی تاریخ ہے جنھوں نے انکار نہیں کیا ان کو ہم ہیرو بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اطہر من اللہ بھی آج کل خاموش نظر آتے ہیں جن پر مجھے افسوس ہےاس موقع پر سینئر صحا فی مظہر عباس نے کہا کہ میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ ججز اپنے فیصلوں اور جر نلسٹ اپنی خبروں میں بولا کر تا ہے انقلاب کو سسٹین کرنا مشکل ہوتا ہے آج اگر ہم تین سال بعد کھڑے ہیں اور عدلیہ آزاد ہو گئی ہے اور کیا واقعی عدلیہ آزاد ہو گئی ہے؟ اگر نہیں تو معا ملہ گڑ بڑھ ہے۔اس موقع پر مظہر عباس نے کہا کہ معاف کیجئے میڈیا آزاد نہیں ہے میں کتنی حد تک بول سکتا ہوں مجھے اچھی طرح یاد ہے اس طرح بیس فیصد بھی ان پٹ نہیں ہے جرنلسٹ کو کو ئی آزادی نہیں ملی پا کستان کا کو ئی بھی ایسا چینل نہیں ہے یہاں ایک ماہ سے تین ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی ہیں معذرت کے ساتھ افتخار چودھری نے ایسا فیصلہ دیا جس کا فائدہ حفیظ پیر زادہ اور اخبا ری مالکان کو ہوا یہ تحریک کبھی بھی نہ اٹھتی جب سندھ کے ججز نے کہا کہ ہم چیف جسٹس کے ساتھ یک جہتی کریں۔یہ بنیادی تبد یلی تھی با ر کو نسلز تو ہر آمر کے خلاف کھڑی ہو تی رہی ہیں لیکن اس تحریک میں ٹرننگ پوائنٹ نہیں جب سٹنگ ججز نے انکار کیا تھا۔مظہر عباس نے کہا کہ لا پتہ افراد کی سماعت ہو تی ہے اس کیس کو بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے سب کو پتہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں مظہر عباس نے کہا کہ عدلیہ اور نہ میڈیا کا کام ہے کہ وہ سیاسی ایجنڈا طے کرے۔اگر آپ نے پارلیمنٹ سے تصادم کیا تو یہ بھول جائیں کہ عدلیہ باقی رہے گی۔مظہر عباس نے کہا کہ حکومت سے بہت بڑا بلنڈر رہا ہے کہ وزیر اعظم گیلانی نے ججز کی رہائی کا اعلان کیا لیکن بحالی کا نہ کیا۔اگر اس وقت بحالی کا فیصلہ کیا جاتا تو آج ملک میں سیاسی استحکام ہوتا۔بد قسمتی سے جر نلسٹ تو پھر سڑکوں پر نکلے ہم پر کیسز بھی بنائے گئے ہم نے پی ایم ہائوس تک لانگ مارچ بھی کیا تاریخ میں اچھے برے بھی کام ہوتے ہیں اگر میں اپنی مرضی کی تاریخ لکھوں گا تو میں بھی دھو کا کروں گا۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کہیں ہم استعمال نہ ہوجائیں جب آپ کسی غیر جمہوری خواہش کا اظہار کرتے ہیں یہ باتیں آپ کو اس لئے پتہ نہیں لگتیں کیو نکہ یہ میڈیا میں نہیں آتیں۔اس موقع پر راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جر نلسٹس کے صدر اشفاق ساجد نے قرارداد پیش کی کہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے خلاف اٹھنے والی ہر اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔جسے سب نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے اسرار شاہ نے کہا کہ نو مارچ کے حوالے سے آج انکار کی بات ہے تاریخ نے کبھی بھی دفن ہونے نہیں دیا جس نے بھی انکار کیا انکار کے بعد ہی لہریں نکلتی ہیں میرے لئے خوش قسمتی ہے کہ میں اور اعتزاز احسن آج سے تیس سال قبل ضیاءدور میں ایک سیل میں بند تھے میں نے پوری قیادت کے ساتھ جیل کا ٹی ہے پوری جوانی جیل میں کاٹی ہے میں کسی سے متا ثر نہیں ہوا سوائے چودھری اعتزاز احسن کے۔اسرار شاہ نے کہا کہ سی ای سی کے اجلاس میں ججز بحالی کے حوالے سے ایک واحد آواز اٹھتی رہی جو اعتزاز احسن کی تھی پاکستان کی سیاسی،عدالتی،صحافتی تاریخ کا احا طہ کریں تو معلوم ہوگا کہ عدلیہ بحالی تحریک کی کا میابی چودھری اعتزاز احسن کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اسرار شاہ نے کہا کہ آج ہمیں جو جمہوریت نصیب ہوئی اس موقع پر شہید بے نظیر بھٹو کو نہ بھو لیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے چیف جسٹس کو بحال کیا۔ اسرار شاہ نے کہا کہ اب ضروری ہے کہ چودھری اعتزاز احسن کو بطور لیڈر اپنا کردار ادا کرنے کیلئے آگے آنا ہوگا کیو نکہ اس وقت قیادت کا فقدان ہے۔اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدیق الفاروق نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ بار بار مارشل لائوں کی وجہ سے تضادات کا شکار ہے۔عدلیہ نے اب جو کردار ادا کرنا شروع کیا ہے اس لحاظ سے عدلیہ کا کردار ہمہ گیر ہوجاتا ہے ضروری نہیں کہ عدلیہ کے فیصلے سو فیصد درست ہوں البتہ عدلیہ بلنڈر نہیں کر رہی۔کسی فیصلے پر ریویو پٹیشن داخل کی جاسکتی ہے۔عدلیہ کے کردار کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار بھی بہت بڑا ہے۔اس وقت میڈیا جو کردار ادا کر رہا ہے اس کو ایمانداری کے ساتھ ادا کرتے رہنا چاہیے۔صدیق الفاروق نے کہا کہ صرف عدلیہ اور میڈیا ہی بہتر جمہوری استحکام کے ضامن نہیں ہوسکتے۔سیاسی جماعتیں جو کسی بھی حثیت سے ایک اہم ادارہ ہیں سیاستدان جب تک ذاتی مفادات نہ چھوڑیں معاشرے میں انصاف نہیں ہوسکتا۔صدیق الفاروق نے کہا کہ سیاست میں اختلافات ہوں لیکن دشمنی نہ ہو۔آئین میثاق جمہوریت کے مطابق حل ہوگیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔اس موقع پر پی ایف یو جے کے پرویز شوکت نے کہا کہ وکلاءتحریک کے حقیقی قائد چودھری اعتزاز احسن ہیں آر آئی یو جے کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں عید کے روز بھی عدلیہ بحالی کیلئے کیمپ لگائے ہم اس عدلیہ اور اب آزاد عدلیہ کے سامنے بھی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں لیکن آمر مشرف کے سامنے سر نہیں جھکایا ہمیں دس سال ہوگئے ہیں لیکن ہمارے صحا فیوں کے مسائل کو عدلیہ نے حل نہیں کیا پرویز شوکت نے کہا کہ سول جج یعنی نچلی سطح پر آج بھی کرپشن زوروں پر ہے۔لاہور میں ہمارے ساتھیوں کو مارا پیٹا گیا لیکن بار نے کو ئی ایکشن نہیں لیا۔ پرویز شوکت نے کہا کہ سب مصلحتوں کا شکار ہیںعوام میں بد دلی پھیلتی جارہی ہے۔عد لیہ اس دن آزاد ہو گی جب معاشرے کے ہر طبقے کو انصاف ملے گا۔اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور نے کہا کہ میں عدلیہ کی چارج شیٹ کے جوابات دینے نہیں آیا اعتزاز احسن کو ہم آج بھی اپنے کندھوں پر بٹھاتے ہیں وہ ہمارے لیڈر ہیں کسی بھی مہذب معاشرے کی ضرورت آزاد عدلیہ ہے۔اب عدلیہ اس راستے پر آرہی ہے جو عوامی توقعات و احسا سات کے عین مطابق ہے۔عدلیہ کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور نے کہا کہ یہ انسانی معاشرہ نہیں بے درد معاشرہ ہے اس معاشرے میں عدلیہ آزاد نہیں ہوسکتی۔اس کیلئے مزید جدو جہد کرنا ہوگی۔قاضی انور نے اپنی مختصر تقریر ختم کرتے ہوئے کہا کہ مجھے جلدی گھر جانا ہے کیو نکہ مجھے کہا جاتا ہے کہ تم دیر سے گھر آتے ہو تم راستے میں مارے جائو گے۔آخر میں تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماءو ممتاز ماہر قانون چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ آر آئی یو جے نے میرے لئے یہ اعزاز بخشا ہے نو مارچ کے حوالے سے جو دن منایا جارہا ہے اس میں مجھے مہمان خصوصی مدعو کیا گیا ۔بہت سارے مقررین نے میرے لئے تہنیت کے جملے ادا کئے۔ماہر قانون چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ سمینار میں اظہار خیال پر مغز تھا بہت سارے قائدین ،وکلاءاور صحافی برادری نے کھل کر اپنے احساسات کا اظہار کیا کسی نے بھی کو ئی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔ہوشربا،روح اور ذہن پرور سیمنار تھا۔جس سوچ اور عمل کی ضرورت آج پاکستان کو ہے وہ مجھے آج یہاں ملا۔ چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ نو مارچ دوہزار سات اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی تحریک کے بارے بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ اس تحریک کے دوران یک جہتی کا احساس،ایثار و قربانی کی مثالیں دیکھیں موت کا مقابلہ کرتے شہید بے نظیر بھٹو کو بھی دیکھا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ تجربات ہیں کبھی بھی آج کا شخص وہ نہیں ہوتا جو ماضی میں تھا بہت کچھ پایا ہے اس قوم نے۔عدم تشدد کی روایت اس معاشرے میں قائم ہوئی اور ملک گیر سطح پر ہر دوسرے روز ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔اس معاشرے میں لوگ بچے بوڑھے جوان سبھی گھروں سے نکل کر ایک وقت میں میدانوں میں آرہے تھے لیکن ایک شیشہ بھی نہیں ٹوٹا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک قومی نفسیاتی تجربات میں جاچکے ہیں اور یہ سارا کچھ کس لئے تھا اس میں کسی کی ذاتی انفرا دیت نہیں تھی یہ سب مشترکہ تجر بہ ہے جس میں تمام جماعتوں نے حصہ لیا اور آخر کاروکلاءتحریک سے ایک آمر فارغ ہوا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ آمر کی وردی اس دن اتر گئی تھی جس دن یہ نعرہ لگا گو مشرف گو۔وکلاءنے جب بغاوت کا الم اٹھایا وہ اس وقت پاکستان کی سیاست کا ایک بنجر منظر تھا۔قیادتیں جلا وطن تھیں اور مشرف کے حواری کہہ رہے تھے کہ مشرف کو مزید دس سال کیلئے وردی میں منتخب کریں گے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ حیرت انگیز تبدیلی تھی۔اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر ہم چھوٹے دائرے میں رہیں گے تو بات نہیں بنے گی اب ایک جمہوری حکومت ہے جو منتخب ہو کر آئی ہے۔ہمیں اصلاح کرنی ہے ہم اصلاح بھی نہیں کرتے اور خواہش بھی پوری کرنا چاہتے ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ ججز کی تقرری کا جو طریقہ انیس سو ستتر کا ہے اس سے بڑے بھیانک جج مقرر ہوتے رہے مولوی مشتاق جس نے بغیر شہادتوں کے ایک منتخب وزیر اعظم کو سزا دی۔اعتزاز احسن نے کہا کہ تبدیلی کیا ہے اب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں کل وہ نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ئی چالیس سال تک جج نہیں رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کوئی ڈوگر یا ارشاد حسن جیسا کو ئی جج نہ آجائے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ اداروں کی اصلاح کی جائے شخصیات کو نہ دیکھاجائے۔شخصیات کی بجائے جمہوریت اور آئین کی بات کی جائے۔پارلیمانی کمیٹی کی بات پر اعتراض کیا جارہا ہے اگر چہ جج اور وکیل بھی سٹیک ہولڈر ہیں لیکن پارلیمنٹ بھی عوام کی نمائندہ ہے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر اس ملک کے عوام ہیں جو در بدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں۔سپریم کورٹ لر ننگ پراسس میں ہے۔آزاد عدلیہ نے اپنی اس عوامی دبائو اور عوام کی اس ساری سپورٹ کبھی کسی بھی منظقی طور پر اپنی جگہ تجزیہ نہیں کیا کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو ہمہ وقت رہے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ ہر ایک کا امتحان ہے عدلیہ۔ججز،پارلیمنٹ سب کا امتحان ہے۔ماتحت عدلیہ کو وسائل تو حکومت نے دینے ہیں۔انتظامیہ اور حکومت وسائل بروئے کار لائے۔یہ اپنے طور پر ججز منتخب نہیں کریں گے وہ پارلیمنٹرین جو اس کے ممبر ہونگے وہ پڑھے لکھے ہونگے یہ ایک اچھا نظام ہے۔آپ حکومت کی اصلاح کریں جو ڈیشل کمیشن اور اٹارنی جنرل کو نہ رکھیں وکلاءکی تعداد بڑھا دیں لیکن انیس سو تہتر کا جو نظام تھا جسے ہر آمر نے تبدیل کیا اس میں تبدیلی آنی چاہیے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ آخر میں میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے جب تک پار لیمنٹ کام نہیں کرے گی آسا نیاں پیدا نہیں ہونگی۔کیو نکہ نئے قوانین کے اجرائ،ضابطہ دیوانی،ضا بطہ فو جداری کے حوالے سے کام کیا جائے تاکہ ماتحت عدلیہ کا نظام بہتر ہو۔اعتزاز احسن نے کہا کہ میڈیا اعلی عدالتوں کی کوریج روک دے تو عدالتی نظام بہتر ہو جائے گا۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ وہ پاکستان نہیںجو نو مارچ سے پہلے کا تھا۔اس کی اس حثیت کو کبھی بھو لنا نہیں چاہیے جبکہ منفی پہلو پر نظر رکھنی چاہیے۔اب افتخار محمد چودھری بھی اس تحریک کا عنصر رہ گیا ہے یہ پاکستان ہم نے بنانا ہے جہاں ان کے کام میں سقم ہے ہمیں بتانا چاہیے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ میں اس تقریب میں کا فی ایجو کیٹ ہوا ہوں۔زیادہ وسیع کینوس پر تبدیلی نہیں آئی۔قو می سلامتی کی اس ریاست کو فلاحی ریاست کی طرف آنا ہے۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ شعور لوگوں کو وکلاءتحریک نے دیا کہ ریاست کا مزاج تبدیل ہو۔اے پی ایس