افغانستان میں امن کا منظر مزید دھندلا۔اے پی ایس


افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے پاکستان میں گرفتار ہونے والے افغان طالبان رہنماوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کے سرکاری دورے کے آخری روز افغان صدر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے ملا برادر اور دیگر افغان طالبان رہنماوں کی افغان حکومت کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ان سے افغانستان کے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔پاکستان نے گزشتہ دو ماہ کے دوران ملا عمر کے نائب ملا برادر سمیت تقریباً سات اعلی طالبان رہنماوں کو کراچی اور دیگر علاقوں سے گرفتار کیا ہے۔صدر کرزئی نے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان رہنماوں کی حوالگی کےلیے باضابطہ درخواست دینے کی تجویز پیش کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ تجویز ملنے کے بعد اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کی حوالگی کے لیے پاکستان کے ساتھ اس وقت تک بات چیت جاری رکھی جائے گی جب تک یہ لوگ افغانستان کے حوالے نہ کیے جائیں۔صدر کرزئی نے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان رہنماوں کی حوالگی کےلیے باضابطہ درخواست دینے کی تجویز پیش کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ تجویز ملنے کے بعد اس پر فیصلہ کیا جائے گاوزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر کرزئی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اس مسئلے پر وہ قانونی ماہرین سے مشورہ کریں گے اور حتمی فیصلے سے افغان حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔پاکستان کی جانب سے افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے سوال پر افغان صدر نے کہا کہ افغانستان دوبارہ سوویت یونین کا تلخ تجربہ دہر انا نہیں چاہتا۔ افغان صدر کا اشارہ سن انیس سو اناسی میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کے قبضے کو تھا جس سے پہلے روس میں افغان فوجیوں کو تربیت دی گئی تھی اور مبصرین کا خیال ہے کہ روس کے زیر تربیت فوجیوں نے افغانستان کے انقلاب میں مدد کی تھی۔صدر کرزئی نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے افغان فوجی افسران کو پاکستان میں تربیت دینے کی تجویز پر سوچا جا سکتا ہے اور اگر پاکستان نے افغانستان کی مدد کرنی ہے تو اس کے لیے دیگر کئی شعبے موجود ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی ملک کو کسی اور ملک سے جنگ کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے نہیں دیا جائے گا۔اس سے پہلے افغان صدر حامد کرزئی نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ کسی بھی ملک کو کسی اور ملک سے جنگ کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے نہیں دیا جائے گا۔پریس کانفرنس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے افغان طالبان کی پاکستان میں حراست اور افغان حکام کو ان سے تفتیش کی اجازت کے سوال پر کہا ’پاکستان میں عدلیہ فعال ہے اور ہم افغان طالبان کے حوالے سے اپنے قانونی مشیران سے مشورہ لیں گے اور اور حتمی فیصلے سے افغانستان حکومت کو آگاہ کر دیں گے۔‘حامد کرزئی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی ملک کو کسی اور ملک کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ’ میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہوں کہ بھارت ایک طرف اگر ہمیں کسی بھی ملک کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ وہ افغان سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو افغانستان اسے روکے گا۔ کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ ہمارے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ افغانستان اپنی سرزمین پر کسی اور کی جنگ ہرگز نہیں چاہتا۔ خواہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو یا پھر امریکہ اور ایران کے درمیان۔‘افغان فوج کو تربیت دینے کی پیشکش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے صدر زرداری کے ساتھ ملاقات میں بہت سی تجاویز پیش کی گئیں جن میں سے کچھ کا ہمیں پہلے سے علم تھا اور کچھ نئی ہیں۔ ’ پاکستان نے افغان فوج کو تربیت دینے کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش پر غور کیا جائے گا تاہم افغانستان پاکستان سے فوجی ساز و سامان خریدنے کے لیے تیار ہے۔‘اس سے قبل صدر حامد کرزئی نے پاکستان بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملاقات کی۔گذشتہ بدھ کے روز افغان صدر حامد کرزئی کے اعزاز میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے عشائیہ دیا۔ صدر زرداری نے کہا کہ دنیا کے پاس اس خطے کے مسائل حل کے لیے کوئی منصوبہ نہیں اس لیے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ کوششوں اور باہمی تعاون میں اضافہ کرکے دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا۔افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ باضابطہ بات چیت کے بعد ا ±ن کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ ’ہر روز ہمارے بچے، بھائی اور بہنیں مر رہی ہیں اور مرنے والے آپ کے بھی بھائی بہنیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کے لیے عجیب اور مشکل وقت ہے اور پورا خطہ یہ سوچ اور دیکھ رہا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟صدر زرداری نے کہا کہ دنیا نے اس خطے میں کوششیں اور تجربے کیے لیکن انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ’وہ لمبے عرصے تک اس خطے میں رہے انہوں نے بہت تجربات کیے، کچھ تجرے شاید کامیاب ہوئے ہوں لیکن عمومی طور پر ہم کہہ سکتے کہ حالات میں زیادہ بہتری نہیں آئی ہے‘۔ صدر زرداری نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کو دنیا کی توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا دونوں ممالک کی مدد کرنا چاہتی ہے لیکن شاید وہ کوئی فارمولا بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔اس موقع پر صدر حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان اور خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے دونوں ممالک کو تعاون بڑھانا ہو گا۔ صدر کرزئی نے کہا ’افغانستان میں امن اور خوشحالی کے لیے باہمی تعاون ہی ایک راستہ ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی مدد کر کے ہی اپنی آئندہ نسل کے لیے کچھ کر سکتے ہیں‘۔دریں اثنائ پاکستان اور افغانستان نے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور ا ±ن کے ہم منصب ڈاکڑ زلمے رسول نے گذشتہ جمعرات کو مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کیے تھے۔ اس موقع پر صدر حامد کرزئی وار وزیرِاعظم گیلانی بھی موجود تھے۔ مفاہمت کی یاد داشت میں دونوں ممالک کے مابین سڑک ، ریلوے اور ہوائی رابطوں کو بڑھایا جائے گا۔دونوں ممالک سنہ دو ہزار پندرہ تک دو طرفہ تجارت پانچ ارب ڈالر تک بڑھائیں گے۔پاکستان افغان طلبائ کے لیے وظائف کی تعداد بھی ایک ہزار سے دو ہزار تک بڑھائے گا۔جبکہ معروف تجزیہ کار رشید احمد کا کہنا ہے کہافغاستان میں دیرپا امن کی تلاش میں طالبان کے مضبوط گڑھ ہلمند کے شہرمرجہ میں اس وقت مغربی افواج کی طالبان کےخلاف فیصلہ کن کاروائی جاری ہے یہاں کامیابی نہ صرف نیٹو اور افغان فوج کی آزمائش ہے بلکہ افغان حکومت کی بھی آزمائش ہوگی کہ وہ ان علاقوں میں رہنے والوں کو کیسے سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں جو برسوں سے طالبان کے زیر اثر ہیں۔افغانستان کی حکومت جو کچھ اب کررہی ہے یعنی صوبائی تعمیر نو کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں چند برس قبل یعنی دو ہزار دو میں یہ طرز حکمرانی آزمایا نہیں گیا تھا مگر اب اس کمی کا مداوا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ویسے بھی علاقے میں مغربی افواج کی تعیناتی کے بعد افغان حکومت کے لیے ملکی ترقی اور تعمیر نو کے لیے کچھ نہ کرسکنے کا کو ئی جواز باقی نہیں رہا۔مگر تعمیر نو کے باوجود ملک میں فوجی صورتحال آئندہ کچھ وقت تک مخدوش رہیگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان خود ساختہ دستی بم اور زمینی سرنگیں استعمال کرتے رہیں گے۔ جبکہ طالبان کے چھوٹے گروپ ان فوجی قافلوں کو بھی نشانہ بناتے رہیں گے جن کے ذریعے مرجہ میں تازہ کمک اور رسد پہنچتی ہے۔طالبان کو فیصلہ کن انداز میں پسپا کرنے کے لیے شائد ہر علاقے کی صفائی تو ممکن نہ ہوسکے مگر خصوصاً قندھار اور کابل کے گرد و نواح کو طالبان کے اثر و رسوخ سے پاک کرانا از حد ضروری ہے۔افغانستان میں نیٹو کے فوجی لڑائی کے علاوہ دوسری سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں۔واشنگٹن کے سرکاری حلقوں میں خاصی شدت سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ طالبان سے گفت و شنید کرنے سے پہلے ان کی فوجی قوت کا خاتمہ ضروری ہے۔افغانستان میں امن قائم کرنے کے تناظر میں ایک پیشرفت پاکستان میں بھی نظر آتی ہے وہ ہے پاکستان میں کئی طالبان رہنماو ¿ں کی گرفتاری۔پاکستان پر دو ہزار دو سے شدت پسند طالبان کو پناہ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان ابھی تک امریکیوں کو یہ قائل نہیں کرسکا ہے کہ پاکستان میں یہ گرفتا ریاں پاکستان کی فوجی قیادت کی پالیسی میں نہ صرف تبدیلی بلکہ اس کی سوچ میں ’یو ٹرن‘ کے مترادف ہے۔بظاہر ایسے وقت میں جب افغانستان میں طالبان کو غیر موثر بنانے کے لیے ایک بڑی فوجی کارروائی ہورہی ہے پاکستان کی فوجی قیادت کی سوچ میں نمایاں تبدیلی افغانستان کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔اس کے بر عکس ایسے میں جبکہ مغربی حکام اگلے دو برس کے دوران افغا نستان کے قضیے کو ہمیشہ کے لیے طے کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی اس تشویش میں اضافہ ہورہا ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت افغانستان کے سیاسی مستقبل میں ممکنہ کردار ادا کرنے کے لیے ایک طاقت کے طور سامنے آنا چاہتی ہے۔اس منظر نامے میں جبکہ اوبامہ انتظامیہ سن دو ہزار گیارہ تک افغانستان میں موجود امریکی فوج کا انخلاء اور ملک کی سکیورٹی کی ذمے داری زیادہ سے زیادہ افغان حکومت کو سوپنا شروع کرنا چاہتی ہے افغانستان میں امن کا منظر مزید دھندلا نظر آرہا ہے۔کچھ سینئیر امریکی فوجی حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ سی آئی اے کے حکام نے ملا برادر کی دوسرے طالبان رہنماو ¿ں سے جائے ملاقات کی خفیہ اطلاع پاکستانی حکام کو فراہم کی تھی جس کے بعد طالبان کے اہم کمانڈر ملا عبد لغنی برادر کی فروری میں کراچی سے گرفتاری محض ایک حادثہ تھی۔پاکستان کی فوج نے صرف ملا برادر کو پکڑنے کا اعتراف کیا ہے حالانکہ اس نے پانچ سے زیادہ طالبان رہنماو ¿ں کو پکڑ رکھا ہے۔ملا برادر کی گر فتاری کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد افغانستان نے ان کی حوالگی کا مطابہ کیا لیکن فوجی خفیہ ایجینسی آئی ایس آئی کے ایک ریٹائرڈ افسر کی لاہور کے ہائی کورٹ میں درخواست پر عدالت نے ان کی حوالگی پر پا بندی لگا دی۔متعدد درخواستوں کے بعد امریکی حکام کو ملا برادر اور دوسرے گرفتار رہبنماو ¿ں تک رسائی دی گئی مگر بہت محدود حد تک۔ملا برادر کی گرفتاری سے نیٹو کے خلاف جوابی اور طویل جنگ کرنے کی طالبان کی قوت کو شدید زک پہنچی ہے۔ملا برادر ملا عمر کے نمبر دو مگر افغانستان کے اندر وہ طالبان کے مرکزی رہنما تھے۔مگر پاکستان میں پناہ لینے کے باوجود ملا برادر کے کابل حکومت کے ساتھ مذکرات کے معاملے پر پاکستان کی فوجی قیادت سے اختلافات تھے۔ ملا بردار اور صدر حامد کرزئی کا ایک ہی پشتون قبیلے درانی سے تعلق ہے اور اطلاعات یہ تھیں ہیں کہ وہ صدر حامد کرزئی کے بھائی اور دوسرے نمائندوں سے رابطے میں تھے۔معاملات کو اگے بڑھانے میں وقتاً فو قتاً سعودی حکومت بھی شامل ہوئی مگر پاکستان کی خفیے ایجنسی آئی ایس ائی کو اس پیشرفت سے دور رکھا گیا۔دوسری جانب پاکستان کے فوجی حکام کہتے ہیں کہ ملا برادر پہلے ہی سے سی آئی ا ے کے پیرول پر تھے بلکہ سی آئی اے نے انھیں صدر کرزئی سے سلسلے شروع کرنے کے لیے پچاس لاکھ ڈالر ادا کیے ہیں تاہم امریکی حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔اسی دوران ایک قضیہ لندن میں افغانستان پر ہونے والی کانفر نس میں اٹھ کھڑا ہوا۔ کانفرنس میں صدر کرزئی نے طالبان کو کھلم کھلا مذاکرات اور سیاسی عمل شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی۔جبکہ امریکی انتظامیہ اور نیٹو حکام کا موقف تھا کہ موجودہ منظر میں طالبان سے مذاکرات نہ کیے جائیں بلکہ صرف ان طالبان کو سیاسی عمل میں شامل کیا جائے جو مزاحمت ترک کرکے پہلے سے اپنے ہتھیار چھوڑ دیں وہ اس عمل کے لیے مالی مدد کرنے کے لیے بھی تیار تھے یعنی طالبان سے مجبری کی حالت میں کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے دوسرے لفظوں میں اگر وہ اچھے بچے بن جائیں تو قبول۔جہاں تک طالبان سے مذاکرات کا تعلق ہے تو اس پر بھی امریکہ کی سول انتظامیہ اور محکمہ دفاع پینٹاگون کی رائے بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ سول انتظامیہ چاہتی ہےکہ آئندہ چند برسوں کے دوران طالبان کی فوجی قوت کو بے اثر بنانے کے بعد ان سے کسی بھی قسم کے رابطوں کی حوصلے افزائی کی جائے تاہم پینٹاگون کا خیال ہے کہ یہ دونوں عمل ایک ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔تمام حکام اس پر متفق ہیں کہ کسی بھی صورت میں طالبان کو القاعدہ سے تعلقات مکمل طور پر ترک کرنے ہونگے۔پاکستان کی فوجی قیادت کا موقف ہے کہ افغانستان کے حالات سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ اور کسی بھی دوسرے ہمسایہ ملک کے مقابلے پاکستان کی سیکورٹی کے لیے خطرات زیادہ ہیں۔اس صورت میں افغانستان کے سیاسی مستقبل میں پاکستان کے کردار کی مخالفت نہ صرف صدر کرزئی کرتے ہیں بلکہ افغانستان کے غیر پشتون قبائل اور بہت سے ایسے طالبان بھی کرتے ہیں جو لڑائی سے تنگ آچکے ہیں اور جو پاکستان پر انحصار بلکل ختم کردینے کے حامی ہیں۔گوکہ افغانستان سے ملنے والی اپنے سرحد کی سیکورٹی کے بارے میں پاکستان کے خدشات بجا ہیں مگر دوسرے ہمسایہ ملک ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ چین، بھارت اور خلیج کی عرب ریاستوں کے بھی خدشات ہیں۔اگر یہ سب ریاستیں افغانستان میں پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہوا دیکھیں گی تو وہ بھی یہاں کے معاملات میں مداخلت شروع کردیں گیں۔اس منظر نامے میں جبکہ اوبامہ انتظامیہ سن دو ہزار گیارہ تک افغانستان میں موجود امریکی فوج کا انخلاءاور ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داری زیادہ سے زیادہ افغان حکومت کو سوپنا شروع کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کا منظر مزید دھندلا نظر آرہا ہے۔اے پی ایس