چھپن چھپائی سے محاذ آرائی آگے چلے گی۔چودھری احسن پر یمی


سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) سے متعلق عدالتی فیصلے میں کسی بھی شخص کو مستثنٰی قرار دینے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔گذشتہ جمعہ کے روز جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بینکرز سٹی ہاوسنگ سوسائٹی کے مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت سے کہا کہ وہ سوئس مقدمات دوبارہ شروع کرنے کے لیے سوئس عدالتوں کے متعلقہ حکام کو خط لکھے۔ جبکہ قومی احتساب بیورو سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں سوئس مقدمات کا ریکارڈ اپنی تحویل میں لے ۔سماعت کے دوران نیب کے قائمقام چیئرمین عرفان ندیم نے عدالت کو بتایا ’اِن مقدمات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے نیب نے وزارتِ قانون کو متعدد بار یاد دہانی کے خطوط لکھے ہیں کیونکہ سوئس عدالتوں میں نیب کی حثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام کی طرف سے نیب کو بتایا گیا ہے کہ صدر آصف علی زردرای کو آئین کے تحت استثنٰی حاصل ہے اس لیے ا ±ن کے خلاف ملک کے اندراور بیرونِ ممالک میں مقدمات دوبارہ نہیں کھولے جاسکتے۔آئین کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں عدالت اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا جانتی ہے۔جسٹس جاوید اقبال نے نیب کے قائم مقام چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’وہ چھپن چھپائی کا کھیل بند کریں اور اس ضمن میں عدالت کو تحریری طور پر بتائیں کہ کس شخص کو آئین کے تحت استثنٰی حاصل ہے۔‘انہوں نے کہا ’کسی بھی شخص کے مستثنٰی ہونے کے بارے میں فیصلہ عدالت کرے گی کیونکہ عدالتِ عظمی کو آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے ۔‘بینچ میں شامل جسٹس طارق پرویز کا کہنا تھا کہ عدالت کو کسی خاص فردِ واحد سے کوئی سروکار نہیں ہے اور این آر او کے بارے میں فیصلہ قانونی نکات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے جاری ہونے والے این آر او کے تحت صدر آصف علی زرداری کے خلاف اندرون اور بیرونِ ممالک مقدمات ختم کیے گئے تھے۔عدالت نے نیب سے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں سوئس عدالتوں میں مقدمات ختم کروانے کے سلسلے میں غائب ہونے والے ریکارڈ کے بارے میں رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔نیب کے قائم مقام چیئرمین کی جانب سے این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس پر عدالت نے عدِم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ این آر او کے بارے میں عدالتی فیصلے پر من وعن عمل نہیں کیا جارہا۔جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا ’آئین کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں عدالت اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا جانتی ہے۔‘متعلقہ حکام کی طرف سے نیب کو بتایا گیا ہے کہ صدر آصف علی زردرای کو آئین کے تحت استثنٰی حاصل ہے اس لیے ان کے خلاف ملک کے اندراور بیرونِ ممالک میں مقدمات دوبارہ نہیں کھولے جاسکتے۔انہوں نے نیب کے قائم مقام چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’اگر عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہوا تو پھر ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘بینچ میں شامل جسٹس سائر علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’نیب کو مذید مہلت نہیں دینی چاہیے۔‘عدالت نے نیب کے قائم مقام چیئرمین سے این آر او کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق ایک مفصل رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کرلی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔یہ ریمارکس انہوں نے حارث سٹیل ملز کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیے تھے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حارث سٹیل ملز کے ذمہ بینک آف پنجاب کے نو ارب روپے سے زائد کے قرضوں کے مقدمے کی سماعت کی تھی۔حارث سٹیل ملز کے ڈائریکٹر سیٹھ یعقوب کے وکیل عبدالباسط نے عدالت کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے واضح ہدایات جاری کیں تھیں کہ اگر سیٹھ یعقوب کے ذمے اکیاون ارب روپے کا قرضہ واپس کردیا جائے تو ان کے بیٹوں کو رہا کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ مذ؛کورہ رقم جمع کروانے کے باوجود نیب نے اس کے موکل کے بیٹوں کو رہا نہیں کیا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے نیب کے اہلکاروں کو سیٹھ یعقوب کے دونوں بیٹوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نیب کے چیئرمین نوید احسن کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ وہی چیئرمین ہیں جن کے متعلق سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے اور ابھی تک ا ±نہیں تبدیل نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ نیب کے چیئرمین کی تبدیلی سے متعلق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ نیب کے چیئرمین کا عہدہ ایک محدود مدت کے لیے ہوتا ہے اور اس کو وہ بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ا ±ن کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی صرف ا ±سی صورت ہی عمل میں آسکتی ہے جب چیئرمین نیب خود مستعفی ہوں۔نیب کے چیئرمین کی تبدیلی سے متعلق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ نیب کے چیئرمین کا عہدہ ایک محدود مدت کے لیے ہوتا ہے اور اس کو وہ بھی تبدیل نہیں کر سکتے نیب کے پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ حارث سٹیل ملز کے نادہندہ ڈائریکٹروں سے آٹھ ارب روپے سے زائد کی رقم وصول کرلی گئی ہے جبکہ ان افراد کے ساتھ نیب نے پلی بارگین کی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب کو ان افراد کے ساتھ پلی بارگین کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔بینک آف پنجاب کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیب کے چیئرمین کو اس مقدمے کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں متعدد بار لکھا ہے لیکن ا ±نہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر قانون بابر اعوان کو انہوں نے اس لیے خط نہیں لکھا کیونکہ ان پر نادہندہ افراد سے رشوت لینے کا الزام ہے۔خواجہ حارث نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے اہلکار نادہندہ سےقرض کی رقم کی وصولی کے بعد اس میں کروڑوں روپے کی کمیشن کا تقاضا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قومی دولت ہے لہذا اس کو سرکاری خزانے میں ہی جمع ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ملزمان کے دوبئی اور دوسرے ملکوں میں اثاثوں کے بارے میں معلوم ہوا ہےجس کا نیب نے اپنی تفتیش میں ذکر نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں عدالت میں درخواست دیں۔ا ±دھر بینک آف پنجاب کے سابق صدر اور اس مقدمے کے مرکزی کردار ہمیش خان کے وکیل نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ا ±ن کا مو ¿کل اس مقدمے میں شامل تفتیش ہونا چاہتا ہے۔انہوں نے استدعا کی کہ نیب اور ایف ائی اے کو ہدایات دی جائیں کہ وہ ا ±ن کے مو ¿کل (ہمیش خان) کو ہتھکڑی نہ لگائیں۔ واضح رہے کہ ہمیش خان پر قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حارث سٹیل ملز کو نو ارب روپے کا قرضہ دینے اور پچاس کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قومی احتساب بیورو(نیب) کے چئیرمین نوید احسن سے کہا تھا کہ سولہ دسمبر کو قومی مفاہمتی آرڈیننس کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو پھر ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔بینکرز سٹی ہاوسنگ سوسائٹی کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا جب سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی روشنی میں اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والے زیادہ تر افراد کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے گئے تو پھر چند افراد کے خلاف ابھی تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نیب کے چئیرمین سے استفسار کیا کہ سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے ابھی تک جنیوا کے حکام کو خط کیوں نہیں لکھا گیا جس پر نوید احسن کا کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں سیکریٹری قانون سے ہدایات لے رہے ہیں۔انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ نیب چند روز میں سوئس مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے لیے جنیوا کے حکام کو جلد ہی خط لکھے گا۔واضح رہے کہ صدر آصف علی زردرای کے خلاف سوئس عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات زیر سماعت تھے جن کی سماعت این آر او کے تحت روک دی گئی تھی اور اس ضمن میں بائیس مئی سنہ دوہزار آٹھ کو ا ±س وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جنیوا کی حکومت کو ان مقدمات کی سماعت روکنے کے لیے خط لکھا تھا۔این آر او کے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ملک قیوم نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے یہ خط حکومت کے کہنے پر جنیوا کے حکام کولکھا تھا جبکہ ا ±س وقت کے قائمقام اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک قیوم کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی تھیں۔عدالت نے این آر او سے متعلق اپنے تفصیلی فیصلے میں حکومت کو ملک قیوم کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب کے پراسیکوٹر جنرل اور ایڈشنل پراسکیوٹر جنرل کو ہٹانے کی بات کی تھی لیکن ابھی تک ا ±نہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا کیوں نہیں گیاچیف جسٹس کا استفسارعدالت نے چیئرمین نیب سے کہا کہ این آر او کے بارے میں سولہ دسمبر کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرونا جانتی ہے۔چیف جسٹس نے نیب کے چیئرمین سے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو پھر ان کی تنخواہ روک لی جائے گی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب کے پراسیکوٹر جنرل اور ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل کو ہٹانے کی بات کی تھی لیکن ابھی تک انہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا کیوں نہیں گیا۔نوید احسن نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹانا ا ±ن کے اختیار میں نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان کا رویہ تبدیل نہ ہوا تو وہ تمام عدالتوں کو حکم دیں گے کہ وہ مقدمات کی سماعت کے دوران نیب کے اہلکاروں کو نہ سنیں۔یاد رہے کہ این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کے چئیرمین، پراسکیوٹر جنرل اور ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل کو تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔حکومت نے این آر او سے متعلق عدالت کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد اس فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی اپیل بھی دائر کر رکھی ہے۔سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او کے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔ اس میں این ار او کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ سیاسی مفاہمت کے نام پر اس ارڈیننس کے تحت فوجداری اور دیوانی مقدمات ختم نہیں کیے جاسکتے۔287 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا جبکہ سترہ رکنی بینچ کے اس متفقہ فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین ججوں نے اضافی نوٹ تحریر کیا ۔ ان میں جسٹس سردار رضا خان، جسٹس اعجاز چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل ہیں۔ان ججوں نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ کرپشن ایک ایسی چیز ہے جو قوموں کو برباد کردیتی ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کرپشن کو تحفظ دیکر نظام کو بچایا جاسکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں حکومت سے سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں مقدمات کی بحالی کے بارے میں اقدامات کرنے کو کہا گیا ۔ صدر آصف علی زردرای کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات چل رہے تھے تاہم این آر او کے تحت تہ تمام مقدمات ختم کر دیے گئے تھے۔287 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا ہے جبکہ سترہ رکنی بینچ کے اس متفقہ فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین ججوں نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ ان میں جسٹس سردار رضا خان، جسٹس اعجاز چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل ہیںفیصلے میں نائجریا اور فلپائن کے دو کیسز کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں ان ملکوں کے صدور سے سوئس بینکوں میں پونے دو ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی گئی۔فیصلے میں کہا گیا کہ این آر او عوام کے خلاف اور مجرموں کے حق میں تھا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ آرڈیننس نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے منافی تھا بلکہ یہ ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ سے بھی متصادم ہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتیں اس بات کا تعین کریں گی کہ جن افراد کے مقدمات این ار او کے تحت ختم کیے گیے ہیں ا ±ن پر بنائے گئے مقدمے جھوٹے ہیں یا سچے۔تافصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر عدالتیں کسی شخص کو قصوروار ٹہراتی ہیں اور اگر وہ پارلیمنٹ کا رکن ہے تو پھر اس پر آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کا نفاذ ہوگا اور مجرم قرار دیے جانے والے شخص کو پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا پڑے گا۔فیصلے میں سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کو کہا گیا جنہوں نے وفاقی حکومت سے کوئی اجازت لیے بغیر سوئس عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات واپس لیے تھے سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ کے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این آر او مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے منافی تھا اور ایسے قوانین بنانتے ہوئے ایگزیکٹیو اتھارٹی کو ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صدر کو این آر او جاری کرنے کا جواز فراہم کرتی۔فیصلے میں سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کو کہا گیا جنہوں نے وفاقی حکومت سے کوئی اجازت لیے بغیر سوئس عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات واپس لیے اور اس کے علاوہ انہوں نے جو اقدامات کیے انہیں قانون کی حمایت نہیں تھی۔ کہا گیا ہے کہ ملک قیوم نے سوئس محکمہ انصاف کو خط بھی لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قانونی معاونت کے لیے جو اشتراک قائم کیا گیا تھا اس کی اب ضرورت نہیں رہی اور نہ ہی انہوں نے سوئس بینکوں میں موجود رقم پاکستان میں واپس لانے کے لیے اقدامات کیے۔نیب کے چیئرمین ، پراسکیوٹرجنرل اور ایڈشنل پراسکیوٹر جنرل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان افراد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا لہذا ان کو تبدیل کردیا جائے اور جب تک ان عہدوں پر تقرریاں نہیں ہوتیں تو مذکورہ افراد اپنے عہدوں پر کر کام کرسکتے ہیں۔فیصلے میں عدالت نے نیب کی عدالتوں کو ان مقدمات کی فوری سماعت کے بارے میں کہا ہے اور ان عدالتوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر مانٹرنگ سیل قائم کیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ کے اس تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این آر او ایک امتیازی قانون ہے اور اس سے مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا گیا۔فیصلے میں این آر او کا دفاع نہ کرنے پر موجودہ جمہوری حکومت کے اقدام کو سراہا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کے بارے میں دائر درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اس ارڈیننس کو کالعدم قرار دیا گیا اور ایسے تمام مقدمات جو اس ارڈیننس کے تحت ختم کیے گئے تھے انہیں پانچ اکتوبر سنہ دو ہزار سات کی پوزیشن پر لانے کے احکامات جاری کیے جس روز این آر او کا نفاذ کیا گیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق آٹھ ہزار اکتالیس مقدمات این آر او کے تحت ختم کیے گئے تھے ان افراد میں دو سو اڑتالیس سیاست دان اور بیوروکریٹس بھی شامل ہیں جن کے خلاف مقدمات حتم کیے گئے تھے۔ این آر او سے مستفید ہونے والوں میں صدر آصف علی زردرای، وزیر داخلہ رحمان ملک، وزیر دفاع احمد مختار، حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کے علاوہ حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے علاوہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراءفاروق ستار اور بابر غوری بھی شامل ہیں۔حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے این آر او سے متعلق دائر درخواستوں پر ایسے پہلووں پر بھی احکامات جاری کیے ہیں جن کے متعلق درخواست گزار ڈاکٹر مبشر حسن نے استدعا نہیں کی۔پاکستان کے اٹارنی جنرل اور صدارتی ترجمان نے مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کی تردید کر دی تھی کہ صدر آصف علی زرداری نے وزارتِ قانون کی ہدایت دی ہے کہ وہ سوئس عدالتوں میں دائر کیے گئے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے کارروائی کریں۔واضح رہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر تی ر ہیں کہ ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں صدرِ پاکستان نے اٹارنی جنرل انور منصور خان اور وزارت قانون کو احکامات دیے ہیں کہ ان کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے کا عمل شروع کر دیں۔ججوں کی تقرری پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنازع کے حوالے سے ایوانِ صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق صدرِ پاکستان نے اس اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ وزارتِ داخلہ کو احکامات دے دیے جائیں جس کے تحت وہ سوئس حکومت سے مقدمات دوبارہ کھولنے کی درخواست کرے گی۔تاہم اٹارنی جنرل منصور احمد خان نے کہا ہے کہ نہ تو وہ اس اجلاس میں شامل تھے اور نہ ہی ان کو ایسی کوئی ہدایت ملی ہے۔ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بھی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صدرِ پاکستان اور اٹارنی جنرل کے درمیان ایسی ملاقات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی ایسے احکامات جاری ہوئے ہیں۔ایک انگریزی اخبارکے مطابق صدرِ پاکستان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے ساتھ تصادم میں حالات مزید خراب ہوں گے اور عوام بھی اس تصادم کو نہیں سراہیں گے۔ انہوں نے اس اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ سوئس مقدمات کا سامنا کریں گے اور متعلقہ افراد کو ہدایات جاری کیں کہ سوئس مقدمات کھولنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔اخبار کے مطابق اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات کے حوالے سے بتایا جائے گا کہ صدر کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔یاد رہے کہ پچھلے سال سولہ دسمبر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صدارت میں سپریم کورٹ کی فل بینچ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او کے بارے میں دائر درخواستوں کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا اور این آر او کے تحت ختم کیے گئے تمام مقدمات پہلی پوزیشن پر بحال کر دیے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ این آر او کے تحت جن فیصلوں کے تحت مقدمات ختم کر دیے گئے تھے وہ تمام فیصلے اب کالعدم ہو گئے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ این آر او قومی مفاد کے خلاف ہے اور یہ آرڈیننس آئین کی متعدد شقوں سے متصادم ہے۔ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بیرون ممالک جن افراد کے خلاف مقدمات درج ہیں اور وہ مقدمات این آر او کے تحت ختم کیے گئے تھے حکومت ان مقدمات کی بحالی کے لیے متعلقہ ملکوں کی عدالتوں میں درخواستیں دیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ سوئس مقدمات ختم کرنے کے لیے خط لکھتے۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بدھ کی شام کو قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے اور حکومت ان کے خلاف سوئس مقدمات نہیں کھول سکتی۔وزیراعظم کے بیان پر قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے بعض اراکین بھی ڈیسک بجاتے رہے اور کسی جماعت کی جانب سے اجلاس ختم ہونے کے بعد کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔وزیراعظم نے کہا کہ صدر کو استثنیٰ آئین دیتا ہے اور آئین میں ترمیم پارلیمان کر سکتا ہے اور کسی فرد واحد کو ترمیم کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمان صدر کو حاصل استثنیٰ ختم کردے تو وہ سوئس مقدمات کھول دیں گے۔انہوں نے کہا کہ تمام ادارے اپنے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں تصادم کا کوئی خطرہ نہیں اور جمہوری نظام کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنے کا موقف دوہرایا اور کہا کہ حکومت نے قومی احتساب بیورو کو مقدمات کھولنے کی ہدایت کردی ہے لیکن صدر کے خلاف مقدمات اس لیے نہیں کھل سکتے کہ انہیں آئین میں استثنیٰ حاصل ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کا چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل قائد حزبِ اختلاف کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار سیاسی قوتوں کے درمیان رہنا چاہیے کسی غیر جمہوری قوت کو موقع نہیں دیا جانا چاہیے۔صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس مقدمات نہ کھولنے کے وزیراعظم کے اعلان پر مسلم لیگ (ن) نے بڑے محتاط رد عمل کا اظہار کیا مسلم لیگ (ن) کے ایک ترجمان صدیق الفاروق نے کہا کہ آئین کی تشریح کا اختیار وزیراعظم کو نہیں بلکہ سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی مصالحتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرچکی ہے اور اس میں عدالت عظمیٰ صدر کے استثنیٰ کے ن ±کتے کی وضاحت کرے گی اور جو بھی عدالتی حکم ہوگا مسلم لیگ (ن) اس پر عمل درآمد چاہے گی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدر کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے لیکن جو وزیراعظم کا بیان ہے اس سے لگتا ہے کہ محاذ آرائی آگے چلے گی۔۔۔ کیونکہ یہ بھی تو سپریم کورٹ کے اختیار میں ہے کہ کس طرح استثنیٰ کی شق کی تشریح کرے اور اگر سپریم کورٹ ذرا زیادہ صدر کے خلاف جانے میں زیادہ تشریح کرے تو اس سے پھر ایک اور پنڈورا باکس کھل سکتا ہے کیونکہ یہ پیچیدہ معاملہ ہوگیا ہے۔تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی فل کورٹ بینچ نے جب متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ سوئس مقدمات کھولے جائیں تو انہوں نے صدر کو حاصل استثنیٰ کے ن ±کتے پر بھی غور کیا ہوگا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔اس بارے میں انسانی حقوق کی علمبردار اور قانون دان عاصمہ جہانگیر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدر کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے لیکن جو وزیراعظم کا بیان ہے اس سے لگتا ہے کہ محاذ آرائی آگے چلے گی۔۔۔ کیونکہ یہ بھی تو سپریم کورٹ کے اختیار میں ہے کہ کس طرح استثنیٰ کی شق کی تشریح کرے اور اگر سپریم کورٹ ذرا زیادہ صدر کے خلاف جانے میں زیادہ تشریح کرے تو اس سے پھر ایک اور پنڈورا باکس کھل سکتا ہے کیونکہ یہ پیچیدہ معاملہ ہوگیا ہے۔‘واضح رہے کہ وزیراعظم نے یہ بیان ایسے موقع پر دیا ہے جب وکلائ کی تنظیم نے قومی مصالحتی آرڈیننس کے بارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے ہڑتال کی اپیل واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔اے پی ایس