سوچی سمجھی سازش۔چودھری احسن پر یمی


عالمی برادری اور خصوصی طور پر امریکہ کی طرف سے لڑی جانے والی انسداد دہشت گردی کی یہ جنگ پا کستان کے کندھوں پر بیٹھ کر اس کی داڑھی نوچی جارہی ہے۔اگرچہ اس دہشت گردی کی لڑی جانے والی جنگ کے ہر کو ئی اپنے مفادات کے تناظر میں تشریح کر تا ہے۔ان میں وہ نام نہادمبصراورتجزیہ کار بھی شامل ہیںجو عوام کو الو کا پٹھا سمجھتے ہیں۔ان تجزیہ کاروں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکن یو نیورسٹیوں کے پرو فیسر اور امریکی صحا فی کئی ایک کتا بیں بھی لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے حقائق اور دلا ئل سے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر مخصوص عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے اس خطے میں عدم استحکام کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اسی بلین ڈالر سا لانہ صرف افغانستان میں نیٹو فورسز کو اسلحہ سپلائی کر نے پر کما رہا ہے اور وہ بھی کارو بار کو تسلسل دینے کیلئے دہشت گردی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔جبکہ بھارت بھی خطے میں مفاد رکھنے والی عالمی طاقتوں کا حواری بن کر پاکستان کے خلاف پرا پیگنڈہ میں سرگرم ہے جبکہ دوسری طرف بھارت پاکستان کی سر زمین کو بنجر بنانے اور مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر دبائو ڈا لنے میں تاحال کامیاب ہے۔جبکہ دوسری طرف ہماری خوف زدہ کمزور قیادت میں ساسی خود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے عالمی برادری میں اپنا موقف پیش کرنے اور اس موقف پر قائل کر نے میں ناکام ہے۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات کشمیر اور پانی کے مسئلے کو سرفہرست ہونا چاہئے ۔کسی بھی حکمران اور حکومت نے ابھی تک سنجیدگی سے بھارت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بات نہیںکی ۔ بھارت ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے بھاگنے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کر لیتا ہے ۔مذاکرات کا مقصد تنازعات کو حل کرنا ہوتا ہے لیکن مذاکرات برائے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز ہونا چاہئے اس لئے بے مقصد مذاکرات میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ مذاکرات شرواع کرنے چاہئیں تاکہ تریسٹھ سال پرانے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جا سکے ۔ بھارت کے ساتھ پانی کے مسئلہ پر بھی بات کرنی چاہئے ۔ بھارتی وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ پاکستان اپنے حصے سے زیادہ پانی استعمال کر رہا ہے حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے ۔ سندھ طاس معاہدے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق بھارت چناب ‘ جہلم اور سندھ کا پانی استعمال نہیں کر سکتا ۔ بھارت کی طرف سے پانی روکنے کا غیر اخلاقی اور غیر انسانی اقدام اچانک نہیں اٹھایا گیا بلکہ یہ سوچی سمجھی سازش ہے ۔ بھارتی وزیر چکروتی نے 2003 ءمیں کہا تھا کہ بھارت پاکستان کا پانی روکے گا اور پاکستان پانی کے لئے چلائے گا بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان پر دباو ¿ بڑھانے کے لئے پانی روک رہا ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو گا ۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر کو طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ مسئلہ کشمیر کو اصولوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے جبکہ امریکی کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان،بھارت اور کشمیری قیادت مل بیٹھ کر اس مسئلے کو اولین فرض سمجھ کر اس کا دیرپا حل تلاش کرے کیونکہ کانگریس نہیں سمجھتا کہ کالعدم لشکر طیبہ کا مقصد کشمیر کے مسئلے کا حل ہے بلکہ اس کے مقاصد واضح ہیں یہ تنظیم مغربی سیکولرازم ‘ اعتدال پسندی اور دیگر قوانین کے خلاف ہے اور درحقیقت یہ ان مسلح گروپوں کا ایک حصہ ہے جو 21 ممالک میں اپنی کارروائیوں کیلئے سرگرم ہے۔مسئلہ کشمیر کو حل کر کے لشکرِ طیبہ اور اس طرح کی دیگر مسلح تنظیموں کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے ۔بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان ایک جوہری ملک ہے اور وہ بھارتی جارحیت کی پوری صلاحیت ر کھتا ہے ۔لشکر طیبہ اور پاکستان میں مسلح دیگرتنظیموں کے حوالے سے کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں سماعت منعقد کی گئی ۔ سماعت میں امریکہ کے مختلف تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے ماہرین نے شرکت کی۔ کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیر مین گیری ایکر مین نے اپنے ابتدائی کلمات میں اس بات کا عندیہ دیا کہ لشکر طیبہ اپنے نیٹ ورک اور آپریشنز کومقبوضہ کشمیر سے آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور اسے پاکستان میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ چیئر مین کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں لشکرِ طیبہ کے تقریباً دو ہزار دفاتر ہیں۔اس کے پاکستانی فوج کے ساتھ بھی روبط قائم ہیں۔اس بات کو سچ نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستانی فوج ان دہشت گردوں کے خاندانوں کو مالی مدد دے رہی ہے جو ممبئی حملوں میں مارے گئے۔یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی ہیں۔ کمیٹی کے ایک ممبر کانگریس مین ڈین برٹن کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کر کے لشکرِ طیبہ اور اس طرح کی دیگر مسلح تنظیموں کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں کشمیر کے مسئلے اور پنجاب پر کئی برسوں سے کام کر رہا ہوں ۔ اور میرا خیال ہے کہ ہم یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں کر سکتے جب تک پاکستان اور بھارت اکٹھے نہ بیٹھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ دونوں ملک کشمیریوں کو ان کا حقِ رائے دہی دینے کے لیے کیا کر سکتے ہیں کہ وہ حق جس کا ان سے 1940 ءکی دہائی میں وعدہ کیا گیا تھا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور کشمیریوں کو ان مذاکرات میں شامل کر لیں تو میرا خیال ہے کہ ہم لشکرِ طیبہ کا ایک بڑا حصہ ختم کر سکتے ہیں جو بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سماعت میں شرکت کرنے والے تجزیہ کار مارون وائن بام کا کہنا تھا کہ لشکرِ طیبہ اپنے نیٹ ورک اور مہارت کی بنیا د پر القاعدہ کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عالم اسلام میں عطیات اکٹھے کرنے کے لیے اس جماعت کی اہلیت القاعدہ سے زیادہ ہے۔ القاعدہ کے برعکس لشکرِ طیبہ کو معاشرتی حمائت اور حکومتی اداروں کی طرف سے تحفظ کا حاصل ہے۔ لشکرِ طیبہ عالمی سطح پر امریکی اور مغربی ریاستوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سماعت میں موجود دائیں بازو کے تھنک ٹینک ہیرٹیج فاونڈیشن کی تجزیہ کار لیسا کرٹس نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کی سول حکومت لشکر طیبہ سمیت ملک میں کسی بھی مسلح جماعت کوکسی بھی قسم کی حفاظت یا سہولت فراہم نہیں کر رہی۔ اٹلانٹک کونسل کے اسکالر شجاع نواز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی عوام نے حکومت اور فوج پر دباو ڈالا ہے۔ اور فوج ملک کے اندر سے اٹھنے والے اس خطرے کو واضح طور پر پہچان چکی ہے۔ اس کا اظہار پاکستانی فوج کی طرف سے سوات اور فاٹا میں ہونے والے آپریشنز کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ امریکی کانگریس کے رکن آشلے جے ٹیلس نے کہا کہ اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ اب ہمیں مسئلہ کشمیر کا موثر اور دیرپا حل نکالنا ہو گا ۔ کیونکہ لشکر طیبہ کا مقصد مسئلہ کشمیر کا حل نہیں کچھ اور مقاصد ہیں ۔ مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہو گیا ہے ورنہ اس تنظیم کی کارروائیوں سے بھارت اور مغربی ممالک کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔امریکی اراکین کانگریس نے زور دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے امریکہ اور دیگر ماہرین اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیری قیادت کو پاکستان ‘ بھارت سمیت مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر اس کا حل نکالنا چاہئے ۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی امریکی کانگریس کے رکن گہرے آکر مین نے بھی کہا تھا کہ لشکر طیبہ کا مقصد کشمیر نہیں بلکہ یہ اپنی نظریات میں کامیابی کے حصول کے لئے جنوبی ایشیاءمیں راج قائم کرنا چاہتی ہے۔امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ او بلیک نے بھی کہاہے کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل امن کا خواہاں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مستقل امن لازمی ہے۔ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات اچھا آغاز ہے۔ واشنگٹن میں جاپانی اخبار کو دئیے گئے انٹرویو میں جنوبی ایشیا ءکیلئے نائب امریکی وزیر خارجہ رابرٹ او بلیک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی سرحدوں سے فوج ہٹانے کا اعلان دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری میں اچھی پیش رفت ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ مذاکرات جاری رکھیں اور مستقل امن کے راستے تلاش کریں تاکہ خطے میں امن اور خوشحالی آئے۔ رابرٹ او بلیک نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ امریکی ناب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل امن کا خواہاں ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گا۔ جبکہ گزشتہ روز ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ مجھے بھارتی قیادت سے ملاقات کرنے سے انکار نہیں لیکن ایسی ملاقات کا کیا فائدہ جس کا کوئی مقصد نہ ہو وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے ۔ اگر کوئی نتیجہ خیز ملاقات ہو تو میں ملنے بلکہ خود چل کر جانے کو تیار ہوں انہوں نے کہا کہ مجھے صرف تصویریں کھنچوانے والی ملاقاتوں کی کوئی خواہش نہیں ہے مخلصانہ طور پر چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی ختم ہو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات میںبہتری آئے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کا عمل بحال ہو ۔تعلقات میں بہتری آئے ہم اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کا جومیکانزم طے ہے اس کے مطابق آگے بڑھا جائے تو مسائل حل ہوں گے۔ شاہ محمو د قریشی نے کہا کہ اگر مذاکرات بحال کرنے کی بات میں اخلاص اور سیاسی بصیرت شامل ہو تو آگے بڑھا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم امریکہ میں قید پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروا کے واپس پاکستان لا سکتے تو آج ہی لے آتے عافیہ کی رہائی امریکہ کیلئے بہتر اقدام ہو گا۔ اے پی ایس