جمہوریت کی حفاظت۔اے پی ایس


سیاسی تجزیہ کاروں نے اب تواتر کے ساتھ یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پانی کے مسئلہ پر اگر پاکستان اور بھارت نے سنجیدگی نہ دکھائی تو جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے معاہدوں اور مذاکرات سے پاک سعودی تعلقات متاثر نہیں ہو سکتے لیکن حکومت کو آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیئے۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران مسئلہ کشمیر کا کہیں ذکر نہیں ہوا حالانکہ سعودی عرب او آئی سی میں مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کی حمایت میں اہم رول ادا کرتا رہا ہے اور پاکستان کا کلیدی دوست ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی حکومت کی کوتاہی ہے اور یہ کمزوری واضح ہو گئی ہے۔ 28 سال بعد بھارتی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اس مسئلہ پر انہوں نے تیاری بھی کی ہو گی لیکن پاکستانی حکومت سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو کوئی خط تحریر کیا یا خصوصی ایلچی بھیجا جو ان کو مسئلہ کشمیر اور پانی کے معاملات کے بارے میں آگاہ کرتا اگر ایسا کیا جاتا تو سعودی عرب جو پاکستان کا اہم دوست ہے وہ ان باتوں کو ضرور اہمیت دیتا۔ پاکستان کی کمزور قیادت انڈیا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ اس لئے دنیا پاکستان کی کنجی اسلام آباد اور شاہراہ کشمیر سے گزرتی ہے۔ پاکستان این پی ٹی کا ممبر نہیں لیکن ڈکلیئر ایٹمی طاقت ہے اگر پابندی ختم کردی جائے تو ایٹمی ری ایکٹر کے ذریعے ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پانی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اگر اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے۔ مو ¿ثر اور متحرک جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے، جمہوریت کی حفاظت کرنا ہم اورآپ سب کے فرائض میں شامل ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ، منتخب ایوان کو مچھلی بازار بنانے کی بجائے اپنے طرز عمل سے سنجیدہ قانون ساز ادارے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہمارے اردگرد کی دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اگر ہم نے دنیا کا ساتھ دینا ہے تو تبدیلی کی اس رفتار کا ساتھ دینا ہوگا ورنہ ہم ناکام ہو کر پیچھے رہ جائیں گے۔جمہوریت کی حفاظت ملک کے غیر جمہوری لوگ نہیں کرسکتے لہذا موجودہ جمہوری حکومت کو اپنا فرض پورا کرنے سے ہی ملک میں جمہوریت کا پودا پھلے پھولے گا۔ موجودہ حکمرانوں کے کندھوں اور ضمیر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کاطرز عمل نہ صرف غیر جانبدارانہ ہو بلکہ اسے واضح طور پر ایسا نظر بھی آنا چاہیئے۔ جمہوریت کے نگہبانوں کی حیثت سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کریں اور اپنے دور رس اقدامات کے ذریعے اس کمزور پودے کی جڑوں کو مملکت کی گہرائی تک پھیلنے کا موقع دیں۔ قائمہ و دیگر کمیٹیوں کی اپنی اہلیت و افادیت ہے ان کی مو ¿ثر کارکردگی سے ہی پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی قائم ہوتی ہے اور ہر ادارے پر پارلیمنٹ کی گرفت اور اس ادارے کا احتساب ہو سکتا ہے۔ جبکہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات سید صمصام علی بخاری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت پر من و عن عمل کرنا چاہتی ہے مگر مسلم لیگ ن اپنی من پسند شقوں پر عمل کرنے کی خواہاں ہے۔ جبکہ پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلئے وزیراعظم کے کردار کو بھی یکسر ختم کرنے کی تجویز دے دی ۔ گذشتہ منگل کو پارلیمانی کمیٹی کی جاری سفارشات میں کہاگیاہے کہ جوڈیشل کمیشن اپنی سفارشات پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی سفارشات کے بارے میں چودہ دنوں میں فیصلے کی پابند ہو گی اس طرح پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے ججوں کی تقرری کے بارے میں وزیراعظم کے اختیارات کو یکسر ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم ججوں کی تقرری کیلئے سپریم کورٹ کی سفارشات پر مبنی سمری صدر مملکت کو بھجواتے ہیں۔سابق صدر مملکت محمد رفیق تارڑ نے کہا ہے کہ اگر میاں محمد نواز شریف 12 اکتوبر 1999ءکی رات کو کاغذ کے ٹکڑے پر دستخط کردیتے تو انہیں قید و صحبت اور جلا وطنی کی سزا نہ بھگتنی پڑتی۔ میاں نواز شریف کی جانب سے لکھی گئی تحریر میں لفظ معافی کا کہیں ذکر نہیں یہ محض جھوٹ پر مبنی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز لاہور پریس کلب میں سینئر صحافی رانا محمد شفیق خاں پسروری کی کتاب ”شریف قیادت، جلا وطنی سے اہلیت تک “ کی تقریب رہنمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی تہمینہ دولتانہ، مجیب الرحمن شامی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ متعدد مرتبہ اس تحریر کا بغور مطالبہ کیا ہے جس کو میاں نواز شریف کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل مشرف سے معافی نامہ کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں لفظ معافی کا کہیں بھی ذکر نہیں 12 اکتوبر کی رات تین جرنیل نواز شریف کو کال کوٹھری میں ملے اور کہا کہ کاغذ پر دستخط کردیں جس پر تحریر تھا کہ وہ صدر مملکت کو ایڈوائس کریں کہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کیلئے ایسا کرنے پر وہ آزاد ہیں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں مگر نواز شریف ڈٹے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی لاش پر ہی ایسا ہو سکتا ہے ان کے انکار پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں اور جلا وطنی کاٹنی پڑی یہ انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے جب ان بھائیوں کو اپنے پیارے باپ کا جنازہ بھی نہ پڑنے دیا گیا۔ انہوں نے ٹی وی چینلز پر فحاشی و عریانی کو نظریہ پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف قرار دیا۔ تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ (ن) لیگ نے پانچ منٹ میں نو وزارتیں چھوڑیں پر بھی اسے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیا جاتا ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ فوج کبھی اقتدار پر قبضہ کرے مگر ایسی جمہوریت بھی نہیں چاہتے کہ جنرل (ر) مشرف والا دور اقتدار محسوس کیا جانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ آٹھ سالہ آمریت کا دور کافی حد تک ابھی جاری ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کرنے کے باعث ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن نے کہا کہ جمہوریت کے ساتھ اصلی اقتدار کی حفاظت بھی اشد ضروری ہے ہماری جمہوریت اسلام کے سانچے میں ڈھل ہوئی ہے اگر ہماری جمہوریت میں اسلام کا عنصر نظر نہ آئے تو علیحدہ وطن کا مقصد اور ضرورت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ افسوس ٹی وی پر فحاشی کا سیلاب اٹھ رہا ہے مگر مذہبی جماعتیں سوئی ہوئی ہیں۔ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ چکی ہے جبکہ رزق حلال کھانے والے کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ ضلعی عدالتوں نے نیشنل جوڈیشل پالیسی اور قانون کی حکمرانی کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی ہے۔ ڈسٹرکٹ عدلیہ کی مثال ادارے کیلئے ریڑھ کی ہڈی جیسا ہے۔ پاکستان میں عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں ڈسٹرکٹ عدلیہ کا بہت اہم رول ہے کیونکہ پچانوے فیصد مقدمات ضلعی لیول نمٹائے جاتے ہیں بدقسمتی سے عدلیہ کو ایک ادارے کے طورپر پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیاگیا لیکن پچھلے دو سال کی انتھک محنت اور جستجو کے بعد آج عدلیہ ایک مضبوط ادارے کے طورپر ابھر آئی ہے اور ملک میں آئین اور قانون کا بول بالا ہے آج پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح عدلیہ کے سا تھ کھڑی ہے جس میں میڈیا نے بھی بہت اہم کردارادا کیا اور خدا کے فضل و کرم سے آج عدلیہ کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا عدلیہ کو اپنی جدوجہد تیز کرنا ہو گی تاکہ لوگوں کو آسان اور فوری انصاف فراہم کیا جا سکے جوڈیشل افسران انصاف کی فراہمی میں کوئی کسر نہ چھوڑیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سولہ کروڑ عوام میں سے ان کو انصاف کیلئے چناہے اور انصاف ایسا ہونا چاہیے کہ دونوں فریقین کو محسوس ہو سکے نیشنل جوڈیشل پالیسی کے نفاذ میں ڈسٹرکٹ عدلیہ کے کردار کو سراہتے ہیں چیف جسٹس ، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ اس پالیسی کے نفاذ میں ماتحت عدلیہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ منزل نہیں ، منزل اس وقت ملے گی جب ہم اس نظام کو آگے لے کر آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے ججز کو ہدایت کی کہ وہ قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کریں اور نچلی سطح پر جو مقدمات دس دس سال سے زیر التواءہیں اسے جوڈیشل پالیسی کے تحت جلد از جلد نمٹا دیں طویل المعیاد مقدمات عدلیہ کیلئے باعث شرمندگی ہیں ۔اے پی ایس