وزیر اعظم گیلانی کاصحافتی قیادت سے خطاب۔چودھری احسن پر یمی



اظہار رائے اور آزادی صحافت کو یقینی بنانا ناگزیر ہے اس ضمن میں ضروری ہے کہ کوئی بھی حکومت میڈیا کا گلا گھونٹنے سے باز رہے تاکہ اس پر کوئی قدغن نہ لگائی جاسکے ۔اور ایک جمہوری حکومت کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے میڈیا کو مزید حقوق دے تاکہ میڈیا کے نمائندوں کے حالات کار کو بہتر بنایاجاسکے۔ سیاسی و معاشی ، سماجی آزادیوں میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جنگ آزادی ہو یاقیام پاکستان کی تحریک یابعدمیں آمریت کا دور ہو یا قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی عدلیہ بحالی تحریک سب کو کامیاب بنانے میںمیں میڈیا کا ہاتھ رہا ہے۔ حکومتوں کو ہمیشہ میڈیا کی تنقید کے حوالے سے گلہ شکوہ رہتا ہے۔ بعض اوقات یہ گلہ شکوہ جائز جبکہ بعض اوقات تنقید اچھی ثابت ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں جمہوری حکومت کو اس بات پر فخر محسوس کرنا چاہیے۔ شہری آزادیوں پر یقین آزادی صحافت کا طرہ امتیازہے ۔ آدمی روزانہ اپنا منہ نہ دھوئے تو وہ گندہ ہوجاتا ہے اسی طرح تنقید برائے تعمیر معاشرے کو صاف رکھنے کیلئے ضروری ہے تاکہ گندگی اور غلاظت سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے سکے پریس کلب جیسے فورم قومی اتفاق رائے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے فورمز پر ہر کوئی اپنے نکتہ نظر کو کھل کر بیان کرتا ہے ۔ قومی زندگی میں پریس کلبوں کا اہم کردار ہے ۔ اس ضمن میںان کلبوں کو مضبوط بنانے کے لیے فوری قدامات ناگزیر ہیں۔حکومتی غلطیوں اور کوتاہیوں کے حوالے سے میڈیا کی تنقید اصلاح کا ذریعہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا اپنا کردار ذمہ دار اور فرض شناسی سے ادا کرے۔ ذمہ دار صحافت تقلید کی مثال بن جاتی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گذشتہ پیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے نو منتخب عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر اعظم نے کہا میںنیشنل پریس کلب اسلام آباد کے نو منتخب عہدیداروں کو ان کی کامیابی اور نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پریس کلب کے انتخابات انتہائی پرامن اور خیر سگالی کی فضاءمیں منعقد ہوئے جس سے یہ تاثر نمایاں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وطن عزیز میں جمہوریت اور جمہوری طرز احساس کو فروغ میسر آ رہا ہے۔ آپ نے ملک میں جمہوری طاقتوں اور اداروں کو یہ احساس دلایا ہے کہ رائے کا احترام اور اظہار ہی وہ راستہ ہے جو مہذب اور شائستہ معاشرے اپنے بہتر مستقبل کے سفر کی خاطر اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جو کسی قوم کو ذہنی اور فکری اعتبار سے توانا اور مستحکم بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ مجھے یہ نشاندہی کرتے ہوئے انتہائی اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری حکومت وطن عزیز میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے لئے اپنے فرائض کو انتہائی خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج پورے ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ کوئی کارکن صحافی پابندی یا اسیری کا شکار نہیں، تمام اخبارات ، چینلز اور صحافتی ادارے اس مثالی آزادی کی فضاءمیں اپنے فرائض بلاخوف انجام دے رہے ہیں جس کا وعدہ ہماری قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پختہ یقین ہے کہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار خیال کے بغیر قومی خوشحالی، ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ موجودہ دور میں اہل فکر و نظر اس حقیقت کو اجتماعی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ میڈیا کی آزادی دراصل قوم کے تشخص اور خود مختاری کے تحفظ کیلئے آہم کردار اداکرتا ہے۔ یہ حقیقت بھی کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے کہ میڈیا کو جدید ریاست میں چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے بلکہ اس کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ میڈیا ریاست کے دیگر تین ستونوں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر نہ صرف گہری نگاہ رکھتا ہے بلکہ وہ ان اداروں اور عوام کے درمیان رابطہ اور ترجمانی کے تناظر میں ایک پل کا کام بھی انجام دیتا ہے۔وطن عزیز کی تاریخ صحافت دراصل اس حقیقت کا نہایت اعلیٰ ثبوت ہے کہ ایک ذمہ دار پریس کسی قوم کی تشکیل اور عوام کا سیاسی و سماجی شعور اجاگر کرنے میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک پاکستان میں اہل صحافت نے جو خدمات انجام دیں، وہ تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف سے رقم ہیں ۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو صحافت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔مولانا محمد علی جوہر سے مولانا ظفر علی خان تک ، فیض احمد فیض اور حمید نظامی سے لے کر میر خلیل الرحمن اور مجید نظامی تک کتنے ہی ایسے معتبر اور اہم نام ہیں جو تاریخ صحافت کے ساتھ ساتھ تاریخ پاکستان کے حوالے سے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قوم کس طرح شورش کاشمیری، مولانا صلاح الدین ، اے ٹی چودھری، اے بی ایس جعفری، نسیم حجازی، عنایت اللہ، عبداللہ ملک، حسین نقی، نثار عثمانی اور الطاف حسین قریشی جیسے اکابرین کو فراموش کر سکتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار کی اہمیت ، افادیت اور قوت اسی وقت اثر انگیز اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے جب صحافت یعنی میڈیا اپنے فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کرے۔ذمہ دار صحافت تقلید کی مثال بن جاتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ جرات مندانہ صحافت کا ہر گزیہ مفہوم نہیں کہ سماجی اخلاقیات اور قانونی حدود کا احترام نہ کیا جائے ۔ صحافی کے قلم میں جو طاقت ہے ، وہ نشتر کی کاٹ سے زیادہ ہے لیکن اس قلم کو سرجن کا نشتر بننا چاہیے ۔ انہوںنے کہا کہ اہل صحافت قوم کا چہرہ اور ضمیر ہیں،چنانچہ لفظ کی حرمت، اقدار کا تحفظ اور قانون کی پاسداری ان کا حقیقی اور بنیادی فرض ہے۔ میں خود صحافت کا طالب علم رہا ہوں اورمجھے احساس ہے کہ خبر نگاری کے وقت غیر جانبداری کو بہرحال برقرار رکھا جانا چاہیے۔ یہی وہ اصل فرض ہے جس کی ادائیگی کے باعث صحافی کو معاشرہ کا محترم اور مقبول فرد تسلیم کیا جاتا ہے۔ صحافی کو اگر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے تو وہ اس کے لئے اداریہ نویسی، کالم نگاری، مضمون نگاری یا تبصرہ اور تجزیہ نگاری کی اصناف سے استفادہ کرے کیونکہ دنیا بھر میں خبر نگاری میں ذاتی پسند و ناپسند کا اظہار یا جانبداری کا رویہ صحافتی اخلاقیات کے برعکس رویہ تصور کیا جاتا ہے ۔ حکومت صحافی برادری کے مسائل سے پوری طرح باخبر ہے اور ہم ان مسائل کو حل کرنے کی طرف بھرپور توجہ دے رہے ہیں ۔ اس ضمن میں مدیران، مالکان اور کارکن صحافیوں سے وزارت اطلاعات و نشریات کا مستقل رابطہ رہتا ہے اور اس وزارت کے تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ صحافیوں کو انشورنس اور علاج معالجہ کی بہتر سہولیات فراہم کی جا ئیں ۔ صحافیوں کو درپیش رہائشی مسائل کو موثر انداز میں حل کیا جائے ۔ صحافیوں کی صحافت کی تعلیم و تربیت اور ریسرچ کے لئے بہتر مواقع پیدا کئے جائیں ۔ صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا ہر ممکن ازالہ کیا جائے ۔ فرائض کی ادائیگی کے دوران صحافیوں کے جانی و مالی نقصان کی ہر ممکن تلافی کی جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے یہ نشاندہی کرتے ہوئے مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ ہم اپنی ان کوششوں میں نہایت تسلی بخش انداز میں کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں اس تقریب کے توسط سے یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت میڈیا کو اپناہمدرد تصور کرتی ہے ۔ اگر میڈیا ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تنقید کرتا ہے تو ہم اس سے اپنی اصلاح کرتے ہیں کیونکہ مثبت اور تعمیری تنقید ہمیشہ کارکردگی کو بہتر بناتی ہے تنقید برائے تنقیدبہرحال کوئی مثبت نتائج کا ذریعہ ثابت نہیں ہوتی۔ ہم میڈیا اور میڈیا سے وابستہ کارکنوں کا دل سے احترام کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کے تعاون اور توجہ کے بغیر پیپلز پارٹی کا عوامی تشخص اجاگر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو بھی اپنا کردار ذمہ داری اور فرض شناسی سے ادا کرنا چاہیے۔ ہماری اسی سوچ کا سبب اور بنیاد یہ حقیقت ہے کہ اگر وطن عزیز کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں تو اس سے ملک و قوم کے مفادات کو بہتر انداز میں یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ انداز ہے جو جمہوری معاشرہ کی پہچان تصور کیا جاتا ہے اور یہی وہ ماحول ہے جس میں گڈ گورننس کا نصب العین حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری حکومت میڈیا کے ساتھ خوشگوار دوستانہ اور قابل اعتماد تعلقات کومضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر جرنلسٹ ہاوسنگ سوسائٹی میں پلاٹوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے 14 کروڑ ، نیشنل پریس کلب کے لیے 1 کروڑ کی گرانٹ ، پریس کلب کے اراکین کی او او بی آئی میں رجسٹریشن ، سرکاری ہسپتالوں میں میڈیکل ان ٹائٹل ، صحافیوں کو گھروں کی تعمیر کے لیے سافٹ لون ، نیشنل پریس کلب کی چار دیواری کی تعمیر کے اعلانات بھی کئے ۔نیشنل پریس کلب کے صدر افضل بٹ ، سابق صدر طارق چوہدری نے بھی خطاب کیا۔اے پی ایس