دو سالہ جمہوریت اور پاک امریکہ تعلقات۔چودھری احسن پر یمی


صدرِ مملکت آصف علی زرداری چھبیس مارچ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں اور اسی اجلاس میں آئینی اصلاحاتی بل پیش کیا جائے گا۔ کیو نکہ سینیٹر رضا ربانی کی صدرات میں بننے والی مشترکہ اصلاحاتی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔یاد رہے کہ اصلاحاتی کمیٹی کا مینڈیٹ فوجی سربراہان کے دور میں متعارف کردہ ترامیم ختم کرکے آئین کو انیس سو تہتر والی شکل میں بحال کرنا ہے۔ یہ کمیٹی صدر کے اختیارات وزیراعظم اور پارلیمان کو سونپے جانے اور اسمبلی توڑنے کے بارے میں صدر کا اختیار ختم کرنے پر بھی کام کر رہی تھی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ا ±س وقت تک جاری رہیں گے جب تک یہ بل جو اٹھارویں ترمیم کی صورت میں پیش کیا جائے گا، ا ±س کو دو تہائی اکشریت سے منظور نہیں کیا جاتا۔ اس آئینی کمیٹی میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان نے جو آرا اور تجاویز دی ہیں ا ±ن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں کسی نکتے پر تعطل نہیں ہے اور بہت جلد متفقہ آئینی پیکج کا اعلان کیا جاءرہا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔یاد رہے کہ اس آئینی پیکج میں اعلی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے لیے ایک پارلیمانی کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ اس کمیشن میں آٹھ ارکان پارلیمنٹ شامل ہوں گے جن میں سے اگر چھ ارکان چیف جسٹس، جو جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہیں، کی آراءسے متفق نہ ہوں تو ججوں کی تقرری کے لیے چیف جسٹس کی سفارشات منطور نہیں کی جائیں گی۔ جمہوری حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر صدر اور وزیراعظم نے مشکلات کے باوجود حکومت کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا ہے جبکہ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جمہوریت کو بحال ہوئے دو سال مکمل ہو گئے ہیں میں اس موقع پر قوم پارلیمنٹ جمہوری قوتوں اور حکومت کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں دو سال کاو قت ایک طویل عرصہ نہیں ہے تاہم جمہوری حکومت کی کارکردگی قابل تحسین ہے جس نے اس عرصہ کے دوران عوام کی خدمات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جمہوری حکومت کے نمایاں اقدامات جن متعدد کامیابیوں کا ثبوت پیش کرتے ہیں ان میں ساتواں این ایف سی ایوارڈ ، آغاز حقوق بلوچستان ، گلگت بلتستان اور فاٹا میں سیاسی اصلاحات ، مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پختون خواہ کے لئے 120بلین روپے کے کل ہائیڈل منافع کی تفویض ، غربت کے خاتمہ کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز بلوچستان کے گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج میں اضافہ ، عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنا اور حال ہی میں آئین میں اصلاحات کرنے کے سلسلے میں کامیاب پیش رفت شامل ہیں جہاں یہ کامیابیاں نہایت قابل ذکر ہیں وہاں ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ہمیں مستقبل کیلئے کام کرنا ہے جو اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم امن ، خوشحالی اور ترقی کے ثمرات کی خاطر جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھیں تزویراتی اور عملدر آمد کی سطحوں پر حکومتی پالیسی کی تشکیل کیلئے شمولیت ، مشاورت اور سب کیلئے برابر مواقع کی فراہمی کا جذبہ رہنما اصول ہیں میں حکومت جو کہ وسیع سطح پر سیاسی نمائندگی رکھتی ہے کی کارکردگی کو سراہتا ہوں جو اس نے دو سال کے قلیل عرصہ میں کامیابیاں حاصل کر کے دکھائی ہیں مجھے پختہ یقین ہے کہ عوامی حکومت یہ معیار برقرار رکھے گی اور اپنی پانچ سالہ مدت کے اختتام پر ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان نمودار ہو گا اور یہ حکومت ایک شاندار کارکردگی اور کامیابیوں کے ریکارڈ کے ساتھ عوام کی عدالت کے سامنے جانے کے قابل ہو گی جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قوم کی خدمت کے دو سال مکمل ہونے پر وقت کارکردگی کا جائزہ لینے کا ہے حکومت کی کارکردگی اور طریقہ کار اس امر کے روشن ثبوت ہیں کہ عوام کی جمہوریت کیلئے جدوجہد نے کیسے ایک واضح سمت متعین کر دی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں اتحادی حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا جائزہ اس نتیجہ پر پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ گھمبیر سیاسی ، اقتصادی اور سیکیورٹی چیلنجوں کے ساتھ کیسے خوش اسلوبی سے نمٹا گیا ہے دو سال کے دوران جن اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے ان میں دیگر اقدامات کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ،وسیلہ حق پروگرام ،گرین ٹریکٹر سکیم اور آغاز حقوق بلوچستان شامل ہیں ان پروگراموں نے بے کسوں اور غریبو ں کی اقتصادی مشکلات کو کم کرنے میں کافی مدد فراہم کی ہے ہم زراعت ، سماجی شعبہ ، غربت کا خاتمہ ، دفاع ، خارجہ تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت متعدد شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں کی احسن طریقے سے بجاآوری میں اپنے فخریہ کردار کو ثابت کر سکتے ہیں ہماری یہ منہ بولتی پر جوش کاوشیں عوام کی خوشحالی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں بڑی مخلص ہیں ۔ تعمیری تنقید کے باعث حکومت نے گڈ گورننس کو یقینی بنانے کیلئے واضح اقدامات کئے ہیں حکومت ان بلند امیدوں سے پوری طرح آگاہ ہے جو عوام اس کی کارکردگی اور امیدوں کو پورا کرنے کی حکمت عملی سے منسلک کئے ہوئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ ایک عشرہ پر محیط آمریت کی خرابیوں کو دورکرنے اور ملک کو خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں تھوڑا اوروقت لگے گا پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں اتحادی حکومت کی نمایاں خصوصیت دراصل مصالحت کے عمل اور اندرونی مسائل سے نمٹنے میں اتفاق رائے کی پالیسی کو جاری رکھنا ہے محاذآرائی کے بجائے انکساری اور خود پسندی سے اجتناب ہماری حکومت کے رہنما اصول ہیں جس سے پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ اور مذاکرات کے عمل کو فروغ ملا ہے حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا عزم بھی کئے ہوئے ہے خارجہ تعلقات کے شعبہ میں ہماری حکومت نے چین ،ترکی اور سعودی عرب جیسے آڑے وقت کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے نمایاں اقدامات کئے ہیں امریکہ اور برطانیہ سمیت دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں اپنے اتحادیوں سے قریبی تعلقات کے تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو برابری کی بنیاد پر قائم رکھا گیا ہے۔ ہم ا سوقت مسئلہ کشمیر اور پانی کے معاہدے جیسے مسائل پر بھر پور حمایت اور ستائش حاصل کر نے کے لئے عالمی برادری کے سامنے بہتر طریقے سے پیش کر نے کے ضمن میں اپنی پوزیشن کا تحفظ کر نے کے قابل ہیں آج پاکستان کو اپنے دوستوں اور بین الاقوامی اتحادیوں پر بھر پور اعتماد ہے اور تمام بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات کار قائم ہیں۔ پاکستان اب بین الاقوامی برادری کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور خوشحال اور مستحکم پاکستان کے لئے کفایت شعاری پر مبنی انفراسٹرکچر اور اجتماعی دانش مندی کے ساتھ جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے میں عوام کی بھر پور حمایت شامل ہے۔ جبکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ ان مذاکرات میں دونوں جانب سے ’برسوں کی بداعتمادی کے خاتمے‘ اور تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر غور کیا جائے گا۔ گذشتہ بدھ کو امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے مذاکرات کے آغاز پر کہا ہے کہ امریکہ ان مذاکرات کا منتظر تھا کیونکہ یہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے درمیان اگلا قدم ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان پہلے بھی بات چیت ہوئی ہے لیکن وزرائے خارجہ کی سطح پر ایسے مذاکرات پہلی مرتبہ ہو رہے ہیں جن میں واضح اقدامات کا تعین کیا جائے گا۔ ’یہ ڈائیلاگ طویل عرصے تک جاری رہیں گے اور آج ان کا پہلا حصہ ہے۔ اگلے مذاکرات کے لیے امریکی ٹیم اسلام آباد جائے گی۔ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی توانائی کے شعبے میں ضرورتوں سے آگاہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذاکرات میں طویل المدتی شراکت پر بات ہوگی۔ ہم حکومت کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔اس موقع پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ پاکستان کو ان مذاکرات سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ مذاکرات جنھیں ’اپ گریڈ‘ کیا جا رہا ہے اس سے خطے کو فائدہ ہوگا۔انھوں نے کہا کہ مذاکرات الزامات کا شکار بھی ہوں گے اور انھیں دھچکے بھی لگ سکتے ہیں لیکن اس وقت سیاسی خواہش موجود ہے جو ان مذاکرات کو آگے بڑھائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کیا جس سے پاکستانی معیشت پر کافی بوجھ پڑا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کی شراکت طویل ہونی چاہیے جو پاکستان، امریکہ اور عالمی امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔پاکستان انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ’ ہمیں امید ہے کہہ ہمیں بھی توانائی کے اہم وسائل میں غیر امتیازی رسائی حاصل ہو گی تاکہ ہم بھی اپنے صنعتی، معاشی منصوبوں کو آگے بڑھا سکیں۔‘ انھوں نے کہا کہ تعیلم کا شعبہ جو انتہائی اہم ہے اس کے لیے بھی وسائل مہیا کیے جائیں۔ ان مذاکرات سے قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل پیٹریاس اور پینٹاگون کے اہم رہنماو ¿ں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ ان مذاکرات میں جوہری تعاون اور سکیورٹی جیسے معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ’اوباما انتظامیہ کے اہلکار اس پر خاموش ہیں کہ امریکہ، پاکستان کو جوہری طاقت تسلیم کرنے اور ایٹمی توانائی کے معاملات پر کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کرے گا۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک تقریب کے دوران کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں‘۔اسی دوران امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے ’تعلقات کو مزید فروغ ملنا چاہیے۔ لیکن جادو کے کسی ڈنڈے کی توقع نہ کی جائے جو راتوں رات سب کچھ بدل دے گا اور عشروں پرانی بداعتمادی کی فضا ختم ہو جائے گی۔‘فوجی ذرائع کہتے ہیں کہ اب بات محض طیاروں اور توپوں جیسی مزید عسکری امداد کے لیے نہیں ہوگی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تقریباً ہر شعبے میں ٹھوس امریکی کمٹمنٹ چاہیے ہوگی۔ اسی غرض سے گزشتہ دنوں اعلیٰ فوجی قیادت نے مشترکہ موقف کے ساتھ مذاکرات میں جانے کے لیے تیاریوں کے سلسلے میں وزارت خارجہ سے بھی مشاورت کی تھی۔ پاکستان اس مرتبہ ان مذاکرات سے محض نشستاً برخاستاً کی توقع نہیں کر رہا۔ سرکاری طور پر کہا جا رہا کہ ’ہم تحریری ضمانتیں مانگیں گے تاکہ ماضی کی طرح کی صورتحال سے بچا جاسکے۔ امریکی حکام سے دوٹوک بات ہوگی اسی غرض سے گزشتہ دنوں اعلیٰ فوجی قیادت نے مشترکہ موقف کے ساتھ مذاکرات میں جانے کے لیے تیاریوں کے سلسلے میں وزارت خارجہ سے بھی مشاورت کی تھی۔واشنگٹن روانگی سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی میڈیا بریفنگ میں واضح کیا تھا کہ ان کی حکومت نے بڑے سوچ بچار کے بعد ہر شعبے میں تعاون کے امکانات کی ایک فہرست تیار کی ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے مذاکرات سے قبل ہی چھپن صفحات پر مشتمل ممکنہ امداد اور تعاون کے شعبوں کی نشاندہی کی تفصیل امریکی حکام کے حوالے کر دی تھی تاکہ وہ ان کا جائزہ لینے کے بعد مذاکرات کے لیے ذہن بناسکیں۔ان دستاویزات میں امریکہ سے بجلی اور پانی کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے مدد کے علاوہ جاسوس طیاروں کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کا تقاضا بھی شامل ہے۔ لیکن ان سب میں سے زیادہ اہم، ماہرین کے مطابق، پاکستان کی امریکہ سے بھارت کی طرز پر سول جوہری توانائی پروگرام میں تعاون کی امید ہے۔اے پی ایس