حکومت کے سامنے نوازشریف کلیر ہیں۔چودھری احسن پر یمی



وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے گذشتہ جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران سینٹ کو بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان ایجنسی میںآپریشن راہ نجات کے دوران 823 دہشت گرد ہلاک کیے گئے ہیں۔ سوات مالا کنڈ اور وزیرستان سے 2550 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ۔ جنوبی وزیرستان میں القاعدہ اور طالبان کے تربیتی مراکز کی وڈیو پارلیمنٹ کو دکھانے کو تیارہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران غیر ملکیوں کو اسلحہ لائسنس جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ سینیٹر صالح شاہ کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے کوائف فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں ایوان میں 50 کی بات کی گئی میں 100 دہشت گردوں کے علاقوں ، گھروں سمیت دیگر تمام تفصیلات فراہم کرنے کو تیار ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بے گناہ بھی جاں بحق ہوجاتے ہیں کیونکہ جب بم گرتا ہو یا گولی چلتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی ہے کہ علاقے میں دشمن ہے یا معصوم ۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں یمن ، افریقہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی دیکھے گئے تھے۔ مکین دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ بیت اللہ محسود مارا گیا ضمنی سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں جب کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے تو اس کے گلے میں شناختی کارڈ تو نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ سوات مالا کنڈ میں 1950 شمالی و جنوبی وزیرستان ایجنسی سے 600 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں امن قائم ہوا ہے ۔ سوات میں لوگوں کے گلے کاٹے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کارروائی کے دوران اگر معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں تو اس پر افسوس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں دہشت گردی کے تربیتی مراکز کی وڈیو ایوان بالا کو دکھانے کو تیار ہوں ۔ دہشت گرد افغانستان کے کنٹر سے قبائلی علاقوں میں آتے ہیں ان کو مار پڑی تو یہ کراچی اور دیگر علاقوں میں گئے ۔سینیٹر پروفیسر خورشید کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ 2008 میں انسانی سمگلنگ میں 951 سمگلروں ، ایجنٹوں اور معاونین کی نشاندہی ہوئی تھی۔ مقدمات درج کیے گئے تھے انسانی سمگلروں کے خلاف 264 مقدمات درج کیے گئے ۔ 251 مقدمات میں چالان پیش کیے گئے ، عدالتوں نے 73 مقدمات میں فیصلے بھی سنا دئیے گئے ہیں۔ 2009 ءمیں 551 مقدمات کا اضافہ ہوا ، اس ضمن میں 625 مقدمات میں عدالتوں نے فیصلے صادر کیے ہیں ۔سینیٹر پروفیسر خورشید کے سوال کے جواب میں وزیراعظم کے مشیر لطیف کھوسہ نے کہا کہ 2008 ءمیں نیشنل آئی سی ٹی سکالر شپس پروگرام کے تحت 110، 2009 ءمیں 180 سکالر شپ کو استعمال میں نہیں لایا گیا تھا سکالر شپ کے حوالے سے تین شکایات موصول ہوئیں ۔سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت ریلوے افضل سندھو نے کہا کہ 16 سیکشنز پر ریل کی سہولت بند کردی گئی ہے ۔ مجموعی طور پر کل 1498 کلومیٹرریل پٹڑیوں پر ریلوے سروس ختم کی گئی ہے ۔ مندرہ بھاون ،نارروال ، چک عمرہ ، بہاولنگر فورٹ عباس ، اور میانی بھیرہ میں ریلوے ٹریفک کی بحالی کی تجدید زیر غور ہے اور اب اس کا پی سی ون منظوری کے لیے منصوبہ بندی کمیشن میں زیر کارروائی ہے سینیٹر محمد صالح شاہ کے سوال کے جواب میں وزیرریاستیں و سرحدی علاقہ جات نجم الدین نے کہا کہ کس اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف فاٹا سیکرٹریٹ کو کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔ اگر فاضل سینیٹر کے پاس کوئی شواہد موجود ہیں تو ہمیںد ے تحقیقات کی جائیں گی۔ سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت ریلوے افضل سندھو نے کہا کہ لاہور سے پنڈی تک 250 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین چلانے کے لیے فیزیبلٹی سٹڈی کی گئی ہے ۔ ٹریک بچھانے پر 137 ارب روپے لاگت آئے گی جبکہ اس ٹریک پر کوچز اور لوکو موٹیوز انجنوں کو شامل کرتے ہوئے 395 ارب کی لاگت آئے گی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں ریلوے کی اراضی اونے پونے فروخت کی گئیں ۔ سینیٹر صالح شاہ کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات صمصام علی بخاری نے کہا کہ حکومت جنوبی وزیرستان ایجنسی میں نجی جائیدادوں کو ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے یکساں شرح سے ادائیگی کرے گی ۔ فیصلہ نقصانات کے سروے کے بعد کیا جائے گا۔ جنوبی وزیرستان کے ہر رجسٹرڈ شدہ بے گھر خاندان کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے فراہم کیے جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اداروں سے جنوبی وزیرستان ایجنسی کے متاثرہ علاقوں میںا پنے ایسسمنٹ مشن بھیجنے کی درخواست کی گئی ہے ۔ بے گھر خاندانوں کا واپسی کے لیے پیکج مفت ٹرانسپورٹ ، طبی سہولت اور ایک ماہ کے لیے خوراک پر مشتمل ہو گا ۔ سینیٹرطلحہ محمود کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران وزارت داخلہ نے کسی غیر ملکی کو اسلحہ لائسنس جاری نہیں کیا تھا۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے متفقہ آئینی ترامیم کے لئے پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات سے چند دنوں کی مہلت مانگ لی ہے۔ جبکہ پارلیمانی آئینی کمیٹی نے واضع کیا ہے کہ مجوزہ سفارشات کے حوالے سے اتفا ق رائے قومی امانت ہے اس کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا۔پارلیمانی کمیٹی برائے اصلاحات نے یہ بھی عزم کیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہونے دیں گے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے سلسلے میں کوششیں جاری رہیں گی ۔آئینی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے نمائندوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ انہیں اگر کسی ترمیم سے اختلاف تھا تو کمیٹی کو پہلے کیوں نہیں آگاہ کیا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کو اس بارے میں اختلافی نوٹ لکھنا چاہیے تھا تاکہ کمیٹی اس حوالے سے اپنی حکمت عملی پر غور کرتی اور نئی صورت حال پیدا نہ ہوتی ۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو کمیٹی کے چےئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا ۔ چےئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان نے طویل غیر حاضری کے بعد جمعہ کو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی ۔ ذرائع کے مطابق بیشتر جماعتوں کے اراکین نے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے نمائندوں سینیٹر اسحاق ڈار اور احسن اقبال پر کڑی تنقید کی ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا گیا تھا ۔ایک موقع پر پارلیمنٹ ہاوس میں کمیٹی روم نمبر پانچ جہاں کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا ۔پاکستان مسلم لیگ ن پر دیگر اراکین کی تنقیدی اور اظہار برہمی کے حوالے سے آواز راہداری میں سنائی دی جا رہی تھی ۔ دیگر جماعتوں کے ارکان نے کہا یہ اگر مجوزہ سفارشات کے بارے میں نواز شریف کے تحفظات تھے تو اس بار ے میں کمیٹی کے اراکین نے اختلافی نوٹ تحریر کیوں نہیں کیا تھا اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین کمیٹی کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ افہام و تفہیم سے معاملات کے حل میں کمیٹی کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں ۔انہوںنے نواز شریف کی پریس کانفرنس کے حوالے سے بھی وضاحت کی اور کہا کہ معاملات کو الجھنے نہیں دیں گے ۔انہوں نے ججز کی تقرری کے طریقے کار سے متعلق نواز شریف کی تجاویز سے بھی آگاہ کیا ۔بیشتر ارکان نے کہا کہ کمیٹی نے مشترکہ طور پر ججز کی تقرری کے طریقہ کار کے بارے میںمجوزہ سفارشات کا اعلامیہ بھی جاری کیا تھا اس موقع پر بھی نواز شریف کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات سامنے نہیں آئے تھے ۔اگر کوئی معاملہ تھا تو کمیٹی کو اس سے بے خبر کیوں رکھا گیا کمیٹی نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ جن تاریخی دستاویزات پر دستخط کے لیے تقریب منعقد ہونا تھی وہ عین وقت پر ایک جماعت کے نئے موقف کی نظر ہو گئی ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے پارلیمانی کمیٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کمیٹی کی کوششوں کو سبوتاڑ ہونے دیں گے نہ کسی معاملے پر کوئی ڈیڈ لاک آئے گا۔پاکستان مسلم لیگ ن نے آئینی ترامیم کے حوالے سے چند دن کی مہلت طلب کی جس پر کمیٹی کا اجلاس بدھ تک ملتوی کر دیا گیا ۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ آئینی ترامیم کا مسودہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کر دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ معاملات کیونکہ پیچیدہ ہیں اس لئے اختلافات ہو نا کوئی بڑی بات نہیں ہے انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے ایشو کو بھی مشاورت سے حل کر لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے قومی امانت ہے اس کا تحفظ کریں گے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشریف دوسال سے زرداری کی ریڑھ کی ہڈی بنے رہے، سمجھ نہیں آرہا کہ آج انہیں کیاسوجھی۔ان کے فیصلے سے اختیارات فرد واحدکے پاس رہ جائیں گے۔فرد واحد ہی فیصلے کرے گا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب ادھورا رہے گا۔سترھویں ترمیم کا خاتمہ نہ ہونے سے چھوٹے صوبوں کوحقوق نہیں مل سکیں گے جس سے پنجاب کے بارے میں غلط تاثر قائم ہوگا۔ججوں کی تقرری کے حوالے سے نواز شریف کواس کے خلاف پہلے ہی آواز اٹھانی چاہےئے تھی۔اس کمیٹی میں ججوں کی تعیناتی کا معاملہ زیربحث لایا ہی نہیں جانا چاہئیے تھا۔ہم نہیں جانتے کہ نواز شریف کا یہ فیصلہ کسی خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہے مگرفیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نواز شریف حیلے بہانوں سے زرداری کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے اچانک فیصلے پر اپنا رد عمل جاری کرنے کے لئے مرکزی میڈیا سیل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ آئینی اصلاحات کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے اراکین دوسال سے موجود ہیں۔اس کمیٹی میںمسلم لیگ ن کے رکن اسحٰق ڈار ٹی وی پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کمیٹی کے معاملات سے مطمئن ہیں۔نواز شریف دو سال سے آصف علی زرداری کو بچاتے رہے ہیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی بنے رہے ہیں۔مسلم لیگ ن فرینڈلی اپوزیشن کا کردارادا کرتی چلی آئی ہے مگر آج نواز شریف کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس بنیاد پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے فیصلے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ وہ حیلے بہانوں سے آصف زرداری کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیںاور ان کے اختیارات بدستور قائم رکھنا چاہتے ہیں۔نواز شریف کے اس فیصلے سے پہلا نقصان یہ ہوگا کہ ایک آمر نے آئین میں ترمیم کرکے جو اختیارات حاصل کئے تھے وہ بدستور آصف زرداری کے پاس رہ جائیں گے جس سے وہ مضبوط ہوں گے۔دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ آئین میں ترمیم سے جوحقوق چھوٹے صوبوں کو ملنے تھے وہ نہیں مل سکیں گے اورپنجاب بارے غلط تاثر قائم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی اصلاحات کمیٹی میں ججوں کی تقرری پر نواز شریف کو بہت پہلے اعتراض کرنا چاہئیے تھا مگر تب وہ خاموش رہے۔آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں ججوں کی تقرری کا معاملہ زیربحث لایا ہی نہیں جانا چاہئیے تھا۔ایسا عدلیہ کی آزادی کو صلب کرنے کے لئے کیا گیا۔اگر عدلیہ کا معاملہ زیربحث لایا گیا ہے تو کرپٹ اداروں اور بیوروکریسی کو کیوں نہیں لایا گیا جہاں اربوں کی کرپشن ہورہی ہے اور خسارہ غریب عوام پر ٹیکس لگا کر پورا کیاجارہا ہے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ جمہوری حکومت امریکہ نہیں اپنی قوم کو جوابدہ ہے ملک و قوم کے مفاد میں جو ہو گا اس پر عمل کریں گے قوم سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔نواز شریف کی بات پر شک نہیں کیا جا سکتا۔لوڈ شیڈنگ مستقل مسئلہ نہیں ہے۔منصوبوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔پارلیمنٹ سے صدرمملکت کا خطاب آئینی تقاضا ہے ۔آئین کے منافی کوئی اقدام نہیں کریں گے جو کام کریں گے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کریں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں نظریہ پاکستان کونسل کے زیر انتظام ”ایوان قائد“کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب وطن واپس آئیں گے تو وہ پاک اسٹرٹیجک کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کریں گے۔پاک اسٹرٹیجک مذاکرات کے حوالے سے باہمی اتفاق رائے سے حکمت عملی طے کی گئی تھی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ صدر کا پارلیمنٹ سے خطاب آئینی ضرورت ہے ماضی میں فوجی صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے گریز کرتا رہا۔ ہم نے نہ غیر آئینی کام کیاہے نہ کریں گے جو کام کریں گے اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے گا نواز شریف کی بات پر شک نہیں کر سکتا لوڈ شیڈنگ مستقل نہیں ہے تاہم فوری طور پر بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ۔ وقت لگے گا۔ ماضی میں مسئلے کا احساس نہیں کیا گیا تھا ہم نے منصوبوں کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ سب کام حکومت نہیں کر سکتی سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت پر یقین رکھتے ہیں فلاحی منصوبوں بالخصوص تعلیم کے حوالے سے نجی شعبے کا کردار اہم ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ عدلیہ سے اچھے تعلقات ہیں جمہوری حکومت ہے جو اپنی عوام پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے امریکہ نہیں اپنے عوام کو جوابدہ ہیں ملک و قوم کے مفاد میں جو ہو گا اس پر عمل کریں گے قوم سے کچھ نہیں چھپائیں گے انہوں نے کہاکہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں عالمی برادری بھارت پر زور دے کہ وہ مذاکرات پر آمادہ ہو تاکہ مسائل کے حل کے ذریعے خطے میں پائیدار امن قائم ہو پاکستان مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے ۔پاک بھارت جامع مذاکراتی علاقائی استحکام کا ضامن بن سکتے ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت نے اب تک جامع مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ بھارتی اپروچ دہشت گردی تک محدود ہے۔ پاکستان نے دو طرفہ تعلقات کے سلسلے میں ایک روڈ میپ تجویز کیا ہے ۔ بھارتی رد عمل کا انتظار ہے ۔ پاک بھارت مسائل کے حل اور خطے میں امن سلامتی اور ترقی کے حصول کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے ۔ وزیر خارجہ نے جمعہ کو ماروی میمن کے سوال کے تحریری جواب میں قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ ممبئی میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھارت نے جامع مذاکرات کا عمل روک دیا تھا ۔ پاکستان نے خفیہ معلومات کے تبادلے اور پاک بھارت مشترکہ انسداد دہشت گردی میکانزم کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔پاکستان نے ممبئی حملوں پر مشترکہ تحقیقات کی بھی تجویز دی تھی ۔انہوں نے بتایا کہ 2004 ءسے اب تک جامع مذاکرات کے چار ادوار منعقد ہوچکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ شرم الشیخ میں دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران دہشت گردی کے مسئلے کو جامع مذاکرات کے عمل سے منسلک نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا ۔ حالیہ خارجہ سیکرٹریز کے درمیان ملاقات میں بھی پاکستان نے جامع مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوںنے کہا کہ بھارت نے اب تک جامع مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ جامع مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر بھارتی اپروچ ایک نکتہ یعنی دہشت گردی تک محدود ہے ۔ پاکستان کو اس بات کا یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ مسائل کے حل اور خطے میں امن سلامتی اور ترقی کے حصول کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ خارجہ سیکرٹریز پر بات چیت کے دوران فریقین نے رابطہ برقرار رکھنے سے اتفاق کیا ہے ۔ پاکستان نے اپنی جانب سے مستقبل میں دو طرفہ تعلقات کے سلسلے میں ایک روڈ میپ تجویز کیا ہے بھارت کی جانب سے رد عمل کا انتظار ہے۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں کامیابی کے لئے پاکستان سے تعاون انتہائی ضروری ہے ۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر انتہا پسندی کو شکست دینا ناممکن ہے ۔ واشنگٹن میں سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی سے گفتگو میں ہیلری کلنٹن نے کہا کہ اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان سے اشتراک کو مضبوط بنانا اپنی سٹرٹیجک ترجیح بنا لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لئے پاکستان سے تعاون نہ صرف افعانستان بلکہ اپنی سیکورٹی کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے ۔ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ ایک سال پہلے انتہا پسند اسلام آباد سے صرف 100کلومیٹر کے فاصلے پر تھے اورانہیں سرحدی علاقے میں امریکی فوجیوں پر حملے کے دوران بہت معمولی مزاحمت کا سامنا تھا جس کے بعد حکومت پاکستان نے سوات جنوبی وزیرستان اور ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف اہم کارروائیاں کیں ۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن نے پاکستانی حکومت اور فوج کے ساتھ کام کرنے کے لئے واضح عزم کر لیا ہے وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ امریکہ کی پاکستان پالیسی میں بڑی اہم تبدیلی آئی ہے اور وہ پاکستان سے افغانستان اور بھارت سے آزاد تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات آزادانہ ہوں اور ان کا تعلق افغانستان یا انڈیا کے ساتھ نہ ہو۔ وہ باہمی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک ڈائیلاگ میں پاکستان نے سکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کو چند تجاویز دی ہیں اور پاکستان کی یہ کوشش ہے پاکستان کو درپیش چیلنجز کے متعلق غور کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وزراءکی سطح پر ایسے سٹریٹیجک مذاکرات ہوئے ہیں اور یہ ایک عمل کا حصہ ہے۔ ’ہم قطعاً یہ امید نہیں کرتے کہ تمام چیزیں اسی راو ¿نڈ میں حل ہو جائیں اور ہم نے جو بھی تجاویز پیش کی ہیں وہ چاہے طاقت کے شعبے میں ہو، زراعت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یا سکیورٹی کے بارے میں ہو ہم یہ امید نہیں کر رہے تھے کہ ان پر ایک ساتھ معاہدے ہو جائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عمل کا حصہ ہے۔ ’دونوں طرف سے بڑی سنجیدہ خواہش ہے کہ ان تعلقات کو بہتر کیا جا سکے۔‘ڈاکٹر عبدالقدیر خان ماضی کا ایک قصہ ہے۔ میرے خیال میں امریکی حکام کو پاکستان کے نئے کمانڈ اور کنٹرول سٹرکچر کا علم ہے۔ میرے خیال میں وہ ہمارے سکیورٹی اور حفاظتی نظام سے مطمئین ہیں اور وہ اس بات کو سراہتے ہیں۔دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو میں کہا کہ وہ امریکی حکام کے ساتھ جوہری تعاون پر بات چیت پر ’کافی مطمئن‘ ہیں۔’میں کافی حد تک جوہری تعاون کے حوالے سے بات چیت پر مطمئن ہوں اور اس مرحلے پر میں مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔‘پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا ’وہ ماضی کا ایک قصہ ہے۔ میرے خیال میں امریکی حکام کو پاکستان کے نئے کمانڈ اور کنٹرول سٹرکچر کا علم ہے۔ میرے خیال میں وہ ہمارے سکیورٹی اور حفاظتی نظام سے مطمئین ہیں اور وہ اس بات کو سراہتے ہیں ۔ امریکہ کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی جنرل جیمز جونز نے پاکستانی وفد کو وائٹ ہاو ¿س بلایا ہے جس میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ توقع یہ ہے کہ شاید صدر اوباما بھی کسی موقع پر اس میٹنگ میں شریک ہوں۔ ’اسے یہاں ’ڈراپ اِن‘ کہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پروٹوکال کے مطابق امریکی صدر آرمی چیف یا وزیر خارجہ کو خود نہیں بلا سکتے۔ وہ انہیں کسی جونیئر اہلکار سے بلواتے ہیں اور پھر خود شامل ہوجاتے ہیں۔ امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان کو احساس دلایا جائے کہ امریکہ ان مذاکرات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔‘مذاکرات کی اہمیت پر بات چیت کا کوئی مخصوص ایجنڈا نہیں تاہم اس میں اب تک ہونی والی بات چیت کا جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ جو بات چیت ہوگی، چھ ماہ بعد اسلام آباد میں، یا پھر مستقبل کے تعلقات ہیں اس پر بات چیت ہوگی۔‘اس سٹریٹیجک ڈائلاگ کے حوالے سے اس دورے کے بارے میں میڈیا ہائپ کی وجہ سے پاکستان میں خاص طور پر لوگوں نے غلط توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ ’شاید اس کے نتیجے میں پاکستان کو نیوکلیئر پلانٹ مل جائے یا کوئی بڑا پیکج مل جائے جبکہ ان مذاکرات کا یہ مقصد نہیں تھا۔ ’یہ مزاکرات پاکستان۔امریکہ تعلقات کو ایک دھارے پہ لانے کے لیے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے وزارتی سطح پر سٹریٹیجک ڈائلاگ کا ڈھانچہ بنا لیا اور اس کا اگلا اجلاس اسلام آباد میں ہوگا۔ جبکہ برطانیہ کے ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ سرحد پر مزید فوج تعینات کرے گا اورپاکستان نے اس سلسلے میں امریکہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر وہ بھارت کے ساتھ سرحدوں پر مزید فوج تعینات کرے گاجبکہ برطانیہ میں ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کہناہے کہ پاکستان سرحدوں پر مزید خطرات مول لینا نہیں چاہتا۔ برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ واشنگٹن میں اسٹریٹجک مذاکرات کرنے والے پاکستانی وفد نے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو پاکستان کی تشویش سے آگاہ کردیاکہ بھارت سے کشیدگی کے باعث فوج کو بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحدوں سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ امریکا کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اپنی مزید فوجی افغان سرحد پر بھیجے تو طالبان کا خاتمہ ممکن ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے فوج کی واپسی موخر کردی ہے ۔بھارت کا اقدام بھی پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے اخبار کو بتایاکہ بھارت سے کشیدگی کے باعث طالبان سے نمٹنے کی پاکستانی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔اے پی ایس