بد ترین طرز حکمرانی کے دوسال۔چودھری احسن پر یمی


ججوں کی بھرتی کے طریق کار کے بارے میں حکومت اور ان کی جماعت میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اس لیے آئینی پیکیج کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ ججوں کی بھرتی کے بارے میں مجوزہ کمیشن میں حکومت سے عدلیہ کے اراکین کی تعداد زیادہ ہو۔اس سے قبل وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ اٹھارویں ترمیم چھبیس مارچ کو پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔گزشتہ چوبیس مارچ کو وزیر قانون اور پارلیمانی امور بابر اعوان نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمعہ کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ مشترکہ اجلاس میں آئینی اصلاحاتی پیکیج پیش کیا جائے گا اور صدرِ مملکت خطاب کریں گے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے بتایا کہ ان کی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے فون پر بات ہوئی ہے اور انہوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عدلیہ (چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری) سے مشاورت کرکے اتفاق رائے پیدا کریں۔مسلم لیگ (ن) کو آئینی ترامیم کا پیکیج تیار کرنے والی پارلیمان کی کمیٹی میں مکمل نمائندگی حاصل ہے اور اس کمیٹی میں وہ اپنا نکتہ نظر پیش کرچکے ہیں۔واضح رہے کہ اس آئینی پیکیج میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے لیے ایک پارلیمانی کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ اس کمیشن میں آٹھ ارکان پارلیمنٹ شامل ہوں گے جن میں سے اگر چھ ارکان چیف جسٹس، جو جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہیں، کی آراءسے متفق نہ ہوں تو ججوں کی تقرری کے لیے چیف جسٹس کی سفارشات منطور نہیں کی جائیں گی۔صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے میاں نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں پارٹی سے مشاورت کرلی ہے اور جلد ہی حتمی فیصلہ مرکزی آرگنائیزنگ کمیٹی کرے گی۔گزشتہ جمعرات کو آئینی پیکیج پر تمام جماعتوں کے نمائندوں کو دستخط کرنے تھے اور جمعہ کو پارلیمان میں پیش کرنا تھا جس کے بعد صدر آصف علی زرداری نے پارلیمان سے خطاب کرنا تھا۔تاہم نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر آئینی پیکیج سے پہلے صدر پارلیمان سے خطاب کرنا چاہتے ہیں تو ان کی جماعت کو اعتراض نہیں ہوگا۔ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے میاں نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں پارٹی سے مشاورت کرلی ہے اور جلد ہی اس بارے میں مرکزی آرگنائیزنگ کمیٹی حتمی فیصلہ کرے گی۔یاد رہے کہ اصلاحاتی کمیٹی کا مینڈیٹ فوجی سربراہان کے دور میں متعارف کردہ ترامیم ختم کرکے آئین کو انیس سو تہتر والی شکل میں بحال کرنا ہے۔ یہ کمیٹی صدر کے اختیارات وزیراعظم اور پارلیمان کو سونپے جانے اور اسمبلی توڑنے کے بارے میں صدر کا اختیار ختم کرنے پر بھی کام کر رہی تھی۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعا ت و نشریات چودھری قمر زمان کائرہ آف لالہ موسی نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی اخباری کانفرنس کے بعد قوم کو شدید صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ آئینی اصلاحات کمیٹی نے 9 ماہ تک کام کیا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس کمیٹی کے کام کے آخری مراحل میں قوم کو ہر گز مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی پر اعتراض کیا ہے اور صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے معاملے کے سوا باقی تمام امور نمٹائے جا چکے ہیں۔ کمیٹی نے دن رات کام کر کے تمام نکات پر اتفاق کر لیا تھا اور آخری مراحل میں ہمیں قوم کو مایوس کی طرف نہیں لے کر جاناچاہیے۔ کمیٹی نے جہاں تمام معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹا لیا ہے وہاں صوبہ سرحد کے نام کے معاملے کو بھی نمٹا لے گی۔ انھوںنے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر کائرہ نے کہاکہ ہمیں امید تھی کہ (ن) لیگ اور اے این پی سرحد کے نام کے مسئلے کو حل کر لیں گی مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔ ہمیںتوقع ہے کہ نواز شریف اپنے نقط نظر پر نظر ثانی کریں گے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ کمیٹی 2 روز میں سرحد کے نام کے معاملے کو طے کر لے گی۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو دو سال پورے ہوگئے ہیں اور حکومت نے اپنی کارکردگی پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کروائے ہیں وہاں اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر بینر بھی آویزاں کیے ہیں۔باوجود اس کے کہ گزشتہ دو برسوں میں جس طرح درجنوں بم دھماکوں میں سینکڑوں لوگ مارے گئے، بجلی اور گیس کا شدید بحران رہا، تیل، بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ اشیاءخوردنوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، لیکن پھر بھی حکومت مطمئن ہے۔ مختلف اخبارات میں حکومت نے’جمہوریت کے ثمرات‘ کے عنوان سے جو خصوصی ضمیمے شائع کروائے ہیں، ان پر جو اخراجات کیے گئے ہیں اس قیمت سے کم از کم تین سے پانچ سکول یا اتنی ہی تعداد میں چھوٹے ہسپتال تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔حکومت نے اپنے دو سالہ دور کی کارکردگی کے بارے میں ’انتشار سے استحکام تک کا سفر‘ کے عنوان سے شائع کردہ ایک اشتہار میں جو ’ٹاپ ٹین‘ کارنامے بیان کیے ہیں ان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی، آئینی اصلاحات، ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ، آغاز حقوقِ بلوچستان، گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، وسیلہ حق پروگرام، بے نظیر ایمپلائیز سٹاک آپشن سکیم، خواتین کی ترقی و تحفظ کے اقدامات اور کسان دوست اقدامات شامل ہیں۔خواتین کی ترقی و تحفظ کے حوالے سے گھریلو تشدد اور دفاتر میں خواتین سے چھیڑ خانی پر سزا کے قوانین کی منظوری، خواتین کے لیے سرکاری ملازمتوں میں دس فیصد کوٹہ مختص کرنے کو حکومت نے اپنی کارکردگی بتایا ہے۔کسان دوست اقدامات میں دس ہزار چھوٹے کاشتکاروں کو رعایتی ٹریکٹرز کی فراہمی، اجناس کی امدادی قیمتوں میں اضافے اور دیگر اقدامات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔خواتین کی ترقی و تحفظ کے حوالے سے گھریلو تشدد اور دفاتر میں خواتین سے چھیڑ خانی پر سزا کے قوانین کی منظوری، خواتین کے لیے سرکاری ملازمتوں میں دس فیصد کوٹہ مختص کرنے کو حکومت نے اپنی کارکردگی بتایا ہے۔بلاشبہ اگر دیکھا جائے تو حکومت نے بعض معاملات میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے لیکن پرویز مشرف کے نو سالہ دور کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومت سے جو عام آدمی کی توقعات وابسطہ تھیں وہ تاحال پوری نہیں ہوسکی ہیں۔یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں عالمی اقتصادی بحران اور پاکستان میں داخلی بحرانوں کا اگر جائزہ لیں تو ایسے میں حکومت کی کارکردگی ایک حد تک کہا جاسکتا ہے کہ اتنی بری نہیں رہی۔ لیکن ’نظام بدلنے‘ جیسے جو حکومت نے خواب دکھائے اس سلسلے میں تاحال کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوسکی۔آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج کی بات تو کی جاتی ہے لیکن آج بھی بلوچستان میں فرنٹیئر کور کا ایک کرنل بھی منتخب وزیراعلیٰ سے زیادہ با اختیار ہے۔ صوبے بھر میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے۔ دس ہزار نوجوانوں کو ملازمت، باہر پڑھنے کے لیے سکالرشپ دینے کے حکومت نے دعوے بھی کیے لیکن مقامی بلوچ نوجوان کہتے ہیں کہ ملازمت ہو یا سکالرشپس، اس میں بلوچوں سے زیادہ غیر بلوچوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔حکومت نے اپنے دو سالہ دور کی کارکردگی کے بارے میں ’انتشار سے استحکام تک کا سفر‘ کے عنوان سے شائع کامیابی، آئینی اصلاحات، ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ، آغاز حقوقِ بلوچستان، گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، وسیلہ حق پروگرام، بے نظیر ایمپلائیز سٹاک آپشن سکیم، خواتین کی ترقی و تحفظ کے اقدامات اور کسان دوست اقدامات شامل ہیں۔حکومت نے بینطئر انکم سپورٹ پروگرام تو شروع کیا اور اس کے تحت غریب لوگوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے مل رہے ہیں لیکن آج بھی پاکستان میں پونے چھ کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں غربت کے بارے اپنے بچے بیچنے کے کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔اس بات کا ادراک حکومت کو بھی ہے جس کے بارے میں جمعرات کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی حکومت کے دو برس کی تکمیل کے سلسلے منعقد ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’مجھے پتہ ہے کہ بجلی نہیں ہے، بھوک ہے، غربت ہے، بیماریاں ہیں، بے روزگاری اور مہنگائی ہے اور یہ مسائل فوری طور پر حل نہیں کیے جاسکتے‘۔وزیراعظم نے ایسے بنیادی اور دیرینہ مسائل کی ایک وجہ پاکستان میں جمہوری نظام کے عدم تسلسل اور اس نظام میں ہونے والی مداخلتوں (آمریت) کو قرار دیا اور اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں جمہوریت چلتی رہے اور تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کریں تو ان مسائل پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔حکومتی ترجیحات اپنی جگہ لیکن لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی پر قابو پانا اور توانائی کے بحران سے نمٹنا جہاں موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلینج ہے وہاں آنے والی حکومتوں کے لیے بھی یہ مسائل حل کرنا ایک بڑا امتحان ہوگا۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت کو لوڈ شیڈنگ سمیت دگر عوامی ایشوز کا پورا پورا احساس ہے ان مسائل کے حل میں کچھ وقت لگے گا پارلیمنٹ سے آئینی اصلاحات کی منظوری چند دنوں کی بات ہے ۔ دو سالوں میں ملک میں نہ صرف سیاسی کلچر کو فروغ ملا ہے بلکہ پارٹی منشور کے مطابق حکومتی ترجیحات پرعملدرآمد کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے گذشتہ جمعرات کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں جمہوری حکومت کی دو سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے حوالے سے تصویری نمائش کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت چلانے کے لیے پارٹی منشوراہمیت رکھتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں عوام کی ضروریات کے مطابق اپنے اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا میری پہلی تقریر کو سامنے رکھتے ہوئے تقابلی جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ پارٹی منشور پر 40 فیصد سے زیاد ہ عمل ہو چکا ہے ابھی تو دوسال مکمل کیے ہیں حکومت نے پانچ سال مکمل کرنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے اہم ایشوز کے حوالے سے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ ۔ عوامی توقعات کے مطابق پارلیمنٹ سے چند دنوں میں آئینی ترامیم منظور ہو جائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی ایشوز کا احساس ہے ۔ اس کے لیے مزید محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک میں بھوک ، افلاس ،بیماری ، امن وامان ، بے روزگاری ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا احساس ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ مسائل کے حل میں کچھ وقت لگے گا۔ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام ہی بہترین منصف ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جمہوری نظام میں فوجی مداخلتوں کی وجہ سے ادارے مضبوط نہ ہو سکے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے عہدے کا مضبوط ہونا اداروں کی مضبوطی ہے اداروں کے استحکام سے جمہوریت مضبوط ہو گی انہوں نے کہا کہ ملک میں فعال عدلیہ و میڈیا کی موجودگی انتہائی خوش آئند ہے ۔ تقریب وزارت اطلاعات ونشریات کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان قائرہ بھی اس موقع پر موجود تھے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات صمصمام علی بخاری نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاک امریکہ اسٹریٹجک مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ امریکی عہدیداروں کے ساتھ ذاتی طورپر انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ پاکستانی وفد کی امریکہ سے وطن واپسی پر ان سے بریفنگ کے بعد قوم کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ سواں پل کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے و زیراعظم نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور علاقائی استحکام چاہتا ہے ۔ اور امریکہ کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس علاقے میں استحکام ہونا چاہیئے اور پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ امریکہ بھارت تعلقات ہماری وجہ سے متاثر ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا فوکس دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز ہے اور ہم اس کے لیے پرعزم ہیں ۔ پانی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پانی کا مسئلہ سفارتی چینل پر پہلے ہی اٹھایا ہوا ہے اوراس پر پیش رفت ہورہی ہے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ سے ملنے والی امداد کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی ۔ عافیہ صدیقی اور سکریننگ کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ امریکی کانگریس کے جتنے بھی ارکان آئے ہیں ان سے ذاتی طور پر یہ معاملات اٹھائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو عوامی مسائل کا احساس ہ ے اور ان کے حل کے لیے حکومت پرعزم ہے۔مخلوط حکومت نے پانچ سال میں سے دو سال کی آئینی مدت مکمل کر لی ہے ۔بدترین لوڈ شیڈنگ سے بلبلائے اور مہنگائی سے پسے عوام پرانے دور کو یاد کرنے لگے ہیں۔عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرف دور کی پالیسیوں میں سے کسی بھی پالیسی کو اب تک تبدیل نہیں کیا گیا ہے اور اغیار کی دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر ملک کو حقیقتا پتھروں کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے۔ آئے روز بم دھماکوں اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے سے عوام کی بے بسی اب غم و غصے میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اب سے دو سال قبل 25 مارچ 2008 ء اس وقت کے فوجی صدر جنرل ( ر ) پرویز مشرف نے نو منتخب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے حلف لیا تھا ۔ 24 مارچ 2008 ءکو سید یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی سے 264 ووٹ حاصل کر کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے وہ پاکستان کے 17 ویں منتخب وزیر اعظم ہیں ۔ سید یوسف رضا گیلانی کے مدمقابل امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ کو صرف 42 ووٹ حاصل کرنے پر بدترین شکست ہوئی تھی ۔ اپنے انتخاب کے بعد وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اگلے روز 25 مارچ کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا ۔ اس وقت کے فوجی صدر جنرل ( ر ) پرویز مشرف نے سید یوسف رضا گیلانی سے وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تھا اس طرح 25 مارچ ( آج ) مخلوط حکومت نے دو سال کی آئینی مدت مکمل کی ہے ۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے حلف اٹھانے کے چار روز بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا اور ملکی پارلیمانی ، سیاسی جمہوری تاریخ میں سید یوسف رضا گیلانی پر قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اعتماد کا اظہار کیا ۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں پہلے 100 روز کے لئے حکومتی ترجیحات کا اعلان کیا تھا ۔مگر ان ترجیحات میں سے ابھی تک کسی پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔اے پی ایس