غریب کا خون پسینہ نچوڑا جارہا ہے۔لوھراءچودھری احسن پر یمی


نواز شریف نے کہا ہے کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کے حوالے سے جوڈیشنل کمیشن کی تشکیل پر انہوں نے کوئی یو ٹرن نہیں لیااور نہ ہی انہیں اپنے فیصلہ پر کوئی ندامت ہے۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے جنہیں میں ویلکم کہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد کے نئے نام کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) صوبہ سرحد کے رہنماوں کے اپنے جذبات ہیں تاہم یہ معاملہ حل کرلیا جائے گا۔ حکومت نے پاک امریکہ مذاکرات پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی باقیات چاروں صوبوں میں موجود ہیں۔جس دن مشرف رخصت ہوئے اس دن ہمارے صدر مملکت کی نامزدگی کیلئے مذاکرات بھی ہوئے ۔ اس موقع پر مجھ سے مطالبہ کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدام سمیت تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا جائے۔انہوں نے سوال کیا کہ مجھے یوٹرن لینے کا طعنہ دینے والے بتائیں کہ معاہدات قرآن یا سنت نہیں ہیں جو ان پر عمل کیا جائے کس نے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ میں ویلیو ایڈڈٹیکس کا نفاذمرکز کی ہدایت پر کیا جارہا ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے لیکن عدلیہ کی آزاد ی کو بھی برقرار رہنا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ان کے سٹینڈ کو بہت اچھالا گیا اور کہا گیا کہ میں نے یوٹرن لیا ہے۔میں نے کوئی یو ٹرن لیا اور نہ ہی مجھے اپنے اس فیصلے پر کوئی ندامت ہے۔ آئینی کمیٹی کے ممبران ڈسپلن کے باعث باہر بات نہیں کر سکتے لیکن جوڈیشل کمیشن کو جو تشکیل کی جارہی تھی اس میں تین پارلیمنٹ کے ارکان اور چیف جسٹس سمیت تین جج شامل کئے جارہے تھے۔ جس کے باعث اس کمیشن کا ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے ٹائی پڑ جانے کے باعث کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل تھا اسی لئے ہم نے اسے سات رکنی بننے کی تجویز دی جس کا چیئرمین چیف جسٹس ہو اور اس میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج شامل کرنے کے علاوہ ایک ریٹائرڈ جج شامل کیا جائے جس کی نامزدگی چیف جسٹس کرے لیکن حکومت یہ اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دینا چاہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں 18 ویں ترمیم کا بل پیش کرنے اور صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کا اعلان بھی اچانک کردیا گیا حالانکہ اس سے پہلے آئینی کمیٹی کے بنائے جانے والے آئینی پیکج پر اتفاق رائے حاصل کرنا ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پانچ ارکان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی جسے تسلیم نہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی وزیر قانون جن پر این آر او کیسز میں تین کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام ہے جوڈیشل کمیشن میں بیٹھا اچھا نہیں لگے گا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ مجھے یو ٹرن لینے کے طعنے دے رہے ہیں وہ میرے 12 فروری کی پریس کانفرنس دیکھیں اس میں بھی میں نے ایسی ہی باتیں کہیں تھیں۔انہوں نے کہا کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کا مجھ سے زیادہ حامی اور کون ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اس ترمیم کے پاس ہونے کی صورت میں تیسری بار وزیر اعظم بن کر مجھے قوم کی خدمت کرنے کا موقع مل سکتا ہے لیکن میں نے ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ 17 ویں ترمیم کے خاتمہ کا بل الگ سے پارلیمنٹ میں لا کر پاس کیا جاتا اور باقی معاملات کو الگ رکھا جاتا اس طرح مشکلات پیدا نہ ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد کے نئے نام پر اے این پی اور مسلم لیگ (ن) سرحد دونوں جانب سے جذبات موجود ہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہ نام اتفاق رائے سے رکھا جائے اور ہم ایسے کسی نام کی مخالفت نہیں کریں گے جس سے قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر صریحا غلط ہے کہ میں نے فیصلہ کسی ٹیلی فون کال پر کیا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ میں نے کبھی کسی کی ڈکٹیشن پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی ذاتی مفاد کو ترجیح دی اگر ایسا ہوتا تو چیف جسٹس کی بحالی کیلئے مطالبہ منظور ہونے پر لانگ مارچ کا گوجرانوالہ میں خاتمہ نہ کرتے اور اسلام آباد تک اس مطالبے کے ساتھ جاتے کہ پنجاب حکومت بحال اور میری نا اہلی ختم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ جس دن سابق صدر پرویز مشرف رخصت ہوئے اسی دن ہماری میٹنگ ہوئی جس میں طے کرنا تھا کہ ملک کا آئندہ صدر کون ہوگا لیکن میٹنگ میں آئندہ صدر کے حوالے سے بات کرنے کی بجائے کہا گیا کہ پی سی او کے تحت جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر سمیت 2007ءکے تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کی باقیات ابھی بھی چاروں صوبوں میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتے کیونکہ اس وقت ملک میں 12،12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ مہنگائی انتہا کو پہنچ چکی ہے، غریب کا خون پسینہ نچوڑا جارہا ہے ہم نے تو حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ اگر وہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کے دباوپر کر رہی ہے تو اس سے بات چیت کی جائے اور اسے کہا جائے کہ ہمیں ریلیف دے تاکہ ہم اپنے عوام کو ریلیف دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے گذشتہ 10 سال کے دوران قربانیاں اس لئے نہیں دیں کہ آج سودے بازیاں کر کے ہم مصلحتوں کا شکار ہو جائیں اس سے بہتر ہے کہ ہم سیاست چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے ان سے ملنے کی خواہش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے ان کا یہ بیان پڑھا ہے اور انہیں ویلکم کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کچھ معاملات آئینی کمیٹی کی سطح پر حل نہیں ہو سکتے تو انہیں وزیر اعظم کی سطح پر حل کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر بھی قطعا غلط ہے کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے ذریعے ہم پیپلز پارٹی کو کریڈٹ نہیں دینا چاہتے اب معاملہ ذاتی مفادات سے بہت آگے نکل چکا ہے ہمیں قومی مفاد کی بات کرنا ہوگی۔ پیپلز پارٹی پانچ رکنی جوڈیشل کمیشن کے فارمولے پر راضی ہو جائے ہم آج ہی اسے پاس کروانے کیلئے تیار ہیں اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کو بھی جائے اور ہمیں بھی ، ہم نے بھی اس کیلئے بہت محنت کی ہے اور ہمارے بغیر یہ ترمیم منظور بھی نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ جن ارکان اسمبلی نے جعلی ڈگریوں پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی اور عوام کو دھوکا دیا انہیں سزا مل چکی ہے اور عوام میں بھی ان کی بدنامی ہوئی ہے۔آئینی ترمیم تعطل کا شکار ہو نے کے حوالے سے سینئر صحا فی افضل بٹ نے ایسوسی ایٹڈ پر یس سروس سے خصوصی گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ پوری قوم اس بات کی منتظر تھی کہ سنیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں کام کرنے والی آئینی اصلاحات کمیٹی اگلی ہی صبح آئینی پیکیج کا متفقہ مسودہ پارلیمینٹ میں پیش کر دے گی اور پاکستان کے عوام کو اس بل کے پاس ہونے کے بعد اسی مہینے میں آئین کی اپنی اصلی شکل میں بحال ہونے کی نوید مل جائے گی۔ مگر اچانک اسی دن پارلیمانی کمیٹی میں شامل 22سیاسی جماعتوں کے متفقہ آئینی پیکیج پر دستخطوں کی تقریب کے مقررہ وقت شام 7بجے سے ایک گھنٹہ قبل مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا دستخط سے انکار کا اعلان سامنے آگیا۔ سینئر صحا فی افضل بٹ نے اس حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہو ئے مزید کہا کہ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی اور حکومت کی اتحادی پارٹی کی جانب سے عین آخری مراحل میں17ویں ترمیم کے جلد تر خاتمے کے لئے اپنے دیرینہ اور پرزور موقف سے گریز کرتے ہوئے 18ویں ترمیم کے مستقبل کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کردینا تعجب خیز ہے کیونکہ اس سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے وسیع عوامی حمایت رکھنے والے آئین کی بحالی کا معاملہ ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے سینئر صحا فی افضل بٹ نے مزید کہا کہ جس پر ہر محب وطن کو بجا طور پر تشویش ہے، پاکستان مسلم لیگ ن کو اس طرح کا یوٹرن لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کا پس منظر تو ابھی پوری طرح واضح نہیں لیکن جو کچھ بھی ہوا اسے مایوس کن اور افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے قوم حقیقی خوشی کے ایک ایسے موقعے سے محروم ہوگئی ہے جس کا وہ بڑی بے تابی کے ساتھ انتظار کر رہی تھی۔ سینئر صحا فی افضل بٹ نے مزید کہا کہ مذکورہ بیان سے پہلے تک یہی پتہ چلتا رہا کہ حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان آئینی پیکیج کو متفقہ طور پر پیش کرنے کی راہ میں کوئی اختلاف موجود نہیں عام تاثر یہی تھا کہ اس بارے میں موخر الذکر کے تمام تحفظات کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرلئے گئے تھے تاہم اگر اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ( ن) کو کوئی اعتراض تھا تو اسے کم ازکم آئینی اصلاحات کمیٹی کے آخری اجلاس میں تو اس کا ذکرضرور کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا پارلیمانی حلقوں میں یہ سمجھا جا رہا تھا۔ کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کئے جانے کے بارے میں عدم اتفاق اصلاحاتی کمیٹی کی قطعی سفارشات کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے جسے افہام و تفہیم سے دور کر دیا جائے گا مگر مسلم لیگ (ن) کے قائد کی طرف سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بھرتی کے طریق کار کو اختلاف کی وجہ قرار دیا گیا ہے اور اب یہ کہنا شروع کر دیا گیا ہے کہ ججوں کی بھرتی کا اختیار فرد واحد کو نہیں دیا جاسکتا اور اس بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان سے بہرطور مشاورت کی جانی چاہئے۔سینئر صحا فی افضل بٹ نے مزید کہا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ کے ذہن میں اس طرح کے تحفظات موجود تھے تو کیا انہیں اس وقت سامنے نہیں لایا جانا چاہئے تھا جب اس بارے میں آئینی اصلاحات کمیٹی میں بحث و تمحیص جاری تھی اور خود اس کی اپنی تجویز پر ایک ریٹائرڈ جج کو جوڈیشل کمیشن میں ساتویں رکن کے طور پر شامل کرنے کی بات مان لی گئی تھی۔ جن آئینی معاملات پر اتفاق رائے ہو چکا ہے ان پر از سر نو بحث کا دروازہ کھولنا کوئی پسندیدہ بات نہیں پاکستان مسلم لیگ ”ن“کہہ سکتی ہے کہ اس نے عدالتی کمیشن کی تشکیل پر سرعام رضا مندی کا اظہارکبھی نہیں کیا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان مسلم لیگ ”ن“ کے کئی بڑے رہنما نجی طور پر متعدد بار یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ متفقہ آئینی پیکیج کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں اگر فی الواقع ایسا ہی تھا تو پھر اب یہ تحفظات کہاں سے آگئے؟ سینئر صحا فی افضل بٹ نے مزید کہا کہ جہاں تک صوبہ سرحد کے نام پر اختلاف کا تعلق ہے تو اس بارے میں بھی یہاں تک خبریں آچکی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن مذکورہ صوبے کی غیر پشتون آبادی کی نمائندگی کو ظاہر کرنے کے لئے اس کا نام اباسین پختونخواہ یا خیبر پختونحواہ رکھنے پر آمادہ ہوگئی تھی لیکن اب س ضمن میں بھی جونسبتاً زیادہ سخت موقف اختیار کیا گیا ہے اس کے پس پردہ اسباب کیا ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ان کی پارٹی کے غیر پشتون نمائندوں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اگر ان کے جذبات و احساسات کاخیال نہ رکھا گیا تو پھر و ہ پارٹی ہی کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔سینئر صحا فی افضل بٹ نے مزید کہا کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے ہونے والی پیش رفت کو اس صورتحال سے جو شدید دھچکا لگاہے۔پارلیمان کی آئینی کمیٹی کے سربراہ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ کسی بھی طے شدہ نکتے پر دوبارہ غور نہیں کیا جائے گا اور تمام اختلافی نکات افہام و تفہیم سے طے کر لیں گے۔آئینی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میاں رضا ربانی نے کارروائی کی کوئی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن اتنا کہا کہ تمام اختلافی معاملات افہام و تفہیم سے طے ہوجائیں گے۔ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی طے شدہ نکتے پر دوبارہ غور نہیں ہوگا۔اطلاعات کے مطابق کمیٹی نے مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کو مہلت دی ہے کہ وہ صوبہ سرحد کے نام کا معاملہ طے کرلیں۔پاکستان کے دستور میں فوجی ادوار میں کی گئی ترامیم ختم کرنے اور صوبائی خودمختاری دینے کے متعلق وسیع پیمانے پر ترامیم کرنے کے لیے پارلیمان کمیٹی کے اجلاس میں اطلاعات کے مطابق اکثر جماعتوں کے نمائندوں نے مسلم لیگ (ن) پر تاخیری حربے استعمال کرنے کے بارے میں تنقید کی۔ذراگئع ابلاغ میں نواز شریف کے بیان پر کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔حکومت کہتی ہے کہ صوبہ سرحد کے نام کے علاوہ ججوں کی تقرری کے طریق کار سمیت تمام امور پر آئینی کمیٹی میں اتفاق رائے ہو چکا تھا اور پروگرام کے مطابق گزشتہ روز تمام اراکین کے دستخط کے بعد یہ آئینی پیکیج گذشتہ جمعہ کو پارلیمان میں پیش ہونا تھا۔لیکن گزشتہ روز اچانک سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے لیے بننے والے کمیشن میں عدلیہ کے نمائندے زیادہ ہونے چاہیں۔ انہوں نے وزیراعظم گیلانی کو فون پر کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اعتماد میں لیں۔جس پر ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور وزیر اطلاعات کے علاوہ اکثر جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آئینی پیکیج کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے پر سخت تنقید کی۔ذرائع ابلاغ میں بھی ججوں کی تقرری کے طے شدہ طریقہ کار کو دوبارہ اختلافی معاملہ بنانے کے سوال پر میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پر کڑی نکتہ چینی کی گئی۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ججوں کی بحالی سمیت مختلف معاملات میں جس طرح میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے گزشتہ دو برسوں میں عوامی پذیرائی حاصل کی، وہ ’سیاسی کمائی‘ انہوں نے ایک جھٹکے میں کھو دی ہے۔چند روز قبل طالبان کو ہم خیال ہونے کے ناطے پنجاب میں حملے نہ کرنے کی میاں شہباز شریف کی اپیل کے بعد جس طرح سیاسی حلقوں اور میڈیا نے مسلم لیگ کو ہدفِ تنقید بنایا، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔مسلم لیگ (ن) ابھی اس جھٹکے سے سنبھلی ہی نہیں کہ میاں نواز شریف نے اٹھارویں آئینی ترمیم کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی اور انہیں پہلے سے بھی زیادہ ہزیمت اٹھانی پڑی۔کچھ تجزیہ کاروں نے مسلم لیگ (ن) کے اس فیصلے کو غیر سیاسی قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا انہوں نے اس لیے کیا کہ ’آئین سے فوجی آمروں‘ کی ترامیم ختم کرنے کا کریڈٹ پیپلز پارٹی اور صدر آصف علی زرداری حاصل نہ کریں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) ایسے تاثر کو رد کرتی ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (شیر پاو ¿) کے مرکزی چیئرمین اور سابق وزیر داخلہ کپتان آفتاب احمد خان شیر پاو ¿ نے مسلم لیگ ن کی جانب سے آئینی ترامیم کے عین موقع پر ڈیڈ لاک کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پختونوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا عوام کے ساتھ مل کر ہر محاذ پر مقابلہ کریں گے ۔ان خیالات کااظہار انھوں نے ہفتہ کی سہ پہر صوابی میں سینئر نائب صدر حاجی فیاض علی خان کی صدارت میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں مختلف علاقوں کے سینکڑوں لوگوں نے مختلف سیاسی جماعتوں سے مستعفٰی ہو کر پی پی پی(شیر پاو ¿) میں شمولیت کا اعلان کیا جلسے سے صوبائی جائنٹ سیکرٹری مسعود جبار، ضلعی جنرل سیکرٹری خالد باچہ ، ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر المالک خان اور حاجی فیاض علی نے بھی خطاب کیا ۔ آفتاب احمد خان شیر پاو ¿ نے متاثرین مالا کنڈ ڈویڑن کی بحالی ، تعمیر نو، تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی ، شہید اور زخمی ہونے والے خاندانوں کے لیے مدد کے لیے قومی سطح پر ایک ٹرسٹ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ مالا کنڈ اور فاٹا میں جہاں حالات کی خرابی میں حکومت کا ہاتھ جواب آپریشن کے بعد حالات بہتر ہو رہے ہیں مگر تا حال اعلانات اور دعووں کے باوجود حکومت نے شہدا اور زخمی ہونے والوں کو معاوضہ کی ادائیگی کی ہے نہ ہی بحالی اور تعمیر نو کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔انھوں نے عالمی ممالک سے اپیل کی کہ وہ متاثرہ عوام کے فلاح و بہبود کے لیے قرضے حکومت کے بجائے براہ راست عوام کو فراہم کیا جائے کیونکہ حکومت کو قرضہ مل جانے سے کمیشن کے نذر ہو جائے گا ۔لہذا ہمیں ایسے قرضے ہرگز قابل قبول نہیں ہے ۔انھوں نے کہا کہ پی پی پی (شیر پاو ¿) ملک میں جو بھی پارٹی پختونوں کے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرے گی اور در پیش مسائل کے لئے جدوجہد نہیں کرے گی اس پختون دشمن مخالفین کا بھر پور مقابلہ کرے گی اور پختونوں کے حقوق کے علمبرداروں کی مرکز اور صوبے میں حکومتیں پختونوں کے ساتھ نا انصافی ، ظلم اور زیادتی کر رہی ہے ۔ آفتاب احمد شیر پاو ¿ خان نے کہا کہ صوبے میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے بعد پختونوں پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، پٹرولیم مصنوعات ، گیس، آٹا، چینی اور دیگر اشیاءخود و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی آفت آئی ہے دیگر صوبوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ تین سے چار گھنٹے ہے جبکہ سرحد میں سولہ گھنٹے ہے جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ بہت جلد 18 ترمیم پاس اور 73 کے آئین کو اصل شکل میں بحال کر دیا جائے گا توانائی کے مسائل عوامی طاقت سے حل کئے جائیں گے اور شہید بے نظیر بھٹو کے تمام وعدوں کو پورا کیا جائے گا وہ ہفتہ کو اپنا کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی گوجرانوالہ کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی وفاقی جماعت ہے جس کی جڑیں ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے فلسفے پر گامزن ہے ہم ان کے مشن کو ضرور پورا کریں گے اور ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہوا آئین بحال اور 18 ویں ترمیم جلد پاس کی جائے گی جس سے پارلیمنٹ اور حکومت طاقتور ہو گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنے قائد ذوالففقار علی بھٹو کے روٹی ،کپڑا اور مکان کے وعدے کو پور ا کریں گے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کو روٹی کپڑا مکان کی آج اشد ضرورت ہے ہم جلد عوام کی طاقت سے تمام مسائل کو حل اور بحرانوں پر قابو پا لیں گے آج ملک کو پانی گیس اور توانائی کی کمی کا سامنا ہے اور ان بحرانوں پر عوام کی طاقت سے قابو پانے میں کوشاں ہیں وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں توانائی کی کمی کوپورا کر نے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں کیونکہ توانائی ہوئی تو کارخانے چلیں گے اور لوگوں کو روز گار ملے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر جمہوریت مضبوط ہو گی تو ملک اور معیشت مستحکم ہو گی۔جب معیشت مستحکم ہو گی تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جس نے قربانیاں دے کر آمر کا مقابلہ کیا اور عوام کی انہی قربانیوں کے نتیجہ میں جمہوری حکومت اقتدار میں آئی اور آج جمہوری حکومت اپنے دو سال کامیابی سے مکمل کر چکی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا منشور ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے وقت صرف کریں گے عوام سے کئے گئے تمام وعدے پورے کریں گے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے ٹی برج کی منظوری دی اور اپنا یونیورسٹی کے علاقے کے لئے گیس کی فراہمی وزیر آباد سے خان گڑھ تک 25 ارب روپے کی لاگت سے ایکسپریس ہائی وے بنانے اور قلعہ دیزر سنگھ کے رورل ہیلتھ سنٹر کو اپ گریڈ کر نے کا بھی اعلان کیا۔وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی آئینی اصلاحات کمیٹی کسی بھی فیصلے کے لئے با اختیار ہے اور وہ جلد ہی تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل کر لے گی ۔وزیر اعظم نے یہ بات لالہ موسیٰ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کے بھتیجوں کی شادی میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔وزیر اعظم نے کہا کہ آئینی اصلاحات کمیٹی صوبہ سرحد کے نام پر جلد ہی اتفاق رائے قائم کر نے میں کامیاب ہو جائے گی ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ میاںنواز شریف ان کے دوست ہیں اور انہیں کبھی ان سے ملنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی ہے۔اے پی ایس