ملک انتشار کی طرف گامزن۔چودھری احسن پر یمی


ملک کے حالات تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان سنجیدہ اختلافات ان حالات کی ایک اہم وجہ ہے۔ملک میں وہ اسباب تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو کسی بھی معاشرے کو انارکی کی جانب دھکیل دیتے ہیں عوام انصاف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور نسلی اور ذات کی بنیاد پر ہونے والی جھڑپوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والے ٹکراو ¿ کے سبب ملک کے حالات بےحد خراب ہو چکے ہیں۔ وکیل ججوں کو عدالتوں میں نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ بچوں کو نجی ملیشیاٰو ¿ں میں بھرتی کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، سوئی گیس کے پریشر میں عدم دستیابی اور قیمتوں میں اضافہ روز کا معمول ہے جس سے نہ صرف صنعتوں کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ اس سے بے روز گاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اور ریاست کے تمام ستونوں کو مل کر اس مشکل صورتِ حال کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ آئینی اصلاحات میں اچانک رخنہ ان قوتوں کے باعث پڑا جو نہ تو صوبائی حقوق اور نہ ہی پارلیمان کی بالادستی قبول کرنے پر تیار ہیں۔ملک میں اس وقت مکمل جمود کی حالت ہے اور کسی بھی چیز کا جمود اس کی موت ہوتی ہے۔ جبکہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان وزیراعظم کے مشیر اور چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات سینیٹر میاں رضا ربانی ہی ر ابطوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے تمام اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماو ¿ں سے رابطے ہیں۔ ایک طرف جہاں سینیٹر میاں رضا ربانی ، اسفند یار ولی خان ، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنماو ¿ں سے رابطوں میں مصروف ہیں ۔ وہیں ان کا سینیٹر اسحاق ڈار کے ذریعے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے ساتھ بھی رابطہ ہے سینیٹر میاں رضا ربانی نے پارلیمنٹ سے 18 ویں ترمیم کی منظوری تک پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات میں شامل جماعتوں سے قریبی رابطے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ کمیٹی میں شامل جماعتوں سے مسلسل رابطوں میں ہیں ۔ سینیٹر میاں رضار بانی کسی امکانی ڈیڈ لاک کے پیش نظر مکمل طورپر متحرک اور ہم آہنگی برقرار ر رکھنے کے لیے سرگرم ہیں ۔ سیاسی جماعتوں سے ان رابطوں ہی کو حکومت کے ان جماعتوں سے بلاواسطہ رابطے قرار دیا جا رہا ہے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیاسی و جمہوری قوتوں کے درمیان اتفاق رائے کے لیے حکومت کی جانب سے مکمل اختیار دیا ہے ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ،سینیٹر میاں رضا ربانی کے حوالے سے پراعتماد ہیں کہ وہ جلد معاملے کو سنھبال لیں گے۔سینٹ میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر اور پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات کے رکن سینیٹر اسحاق ڈار نے انکشاف کیا ہے کہ آئینی کمیٹی نے آئین کی 90 سے زائد شقوں میں ترامیم تجویز کی ہیں ۔ ایک تہائی آئین کو دوبارہ تحریر کیا جا رہا ہے مسئلے کا جلد حل نکال لیں گے ۔ تاہم صوبہ سرحد میں پوری پارٹی کو پختونخواہ کا نام قبول نہیں ہے وہ کوئی اور نام قبول کرلیں گے۔ گزشتہ روز ایک انٹرویو میں سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ایک ایک معاملے پر اتفاق رائے کے لیے 18 ، 18 اجلاس ہوئے ہیں ہم جمہوری عمل پریقین رکھتے ہیں مسلم لیگ ( ن ) قومی جماعت ہے ، صوبوں کو اکٹھا ساتھ لے کر چلنے والی جماعت ہے ، ہم علاقائی جماعت نہیں ہے انہوں نے کہا کہ آئینی کمیٹی کے حوالے سے حکومت نے غیر ذمہ دارانہ روئیے کا مظاہرہ کیا ہے ڈاکٹر بابر اعوان کو ٹائم فریم نہیں دینا چاہیے تھا۔ پیکج مکمل نہیں ہوا تھا کہ بابر اعوان نے اعلان کردیا۔ پوری کمیٹی نے حکومتی روئیے پر افسوس کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ سترہویں ترمیم کا مخالف ہم سے بڑا کون ہو گا۔ ہم تو دو سال قبل اس ترمیم کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اسے پیکج کے ساتھ منسلک کردیا ہم نے تو صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایشو کو الجھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہماری کاوشوں کے بارے میں کمیٹی کے ہر رکن سے رائے لی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے کوئی آسان کام نہیں کیا ۔ یہ معمولی مشق نہ تھی 90 سے زائد شقوں میں ترامیم کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے ہمارے موقف کو مسترد نہیںکیا ۔ اختلافی نوٹ کمیٹی کارروائی کے ریکارڈ کا حصہ ہوتے ہیں رولز کو سمجھنے کی ضرورت ہے 37 سالوں کے بعد آئین کو ٹھیک کررہے ہیں ۔ آمروں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے عدلیہ میں جج کی تقرریوں کے مجوزہ طریقہ کار کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دو ادارے آپس میں نہ ٹکرائیں ملک کے منتخب ادارے سے بات کررہے ہیں جو کسی کا پابند نہیں ہے کوئی ترمیم اگر چیلنج ہوتی ہے تو ہو آزاد عدلیہ موجود ہے وہ فیصلہ کرے گی۔ جبکہ امریکی حکومت نے پہلی بار پاکستان میں شدت پسندوں پر کیے جانے والے جاسوسی طیاروں یا ڈرون کے حملوں کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیرِ قانون ہیرالڈ کوہ نے امریکی سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاءکے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ستمبردو ہزارایک میں ٹوئن ٹاورز پر ہونے والے حملوں کے بعد امریکہ شدت پسندوں کے ساتھ مسلح جنگ کر رہا ہے۔ا ±ن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق یہ امریکہ کا قانونی حق ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے شدت پسندوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے۔مسٹر ہیرالڈ کوہ نے کہا کہ ڈرون حملے اوباما انتظامیہ کے اس اصول سے مطابقت رکھتے ہیں جن کے تحت فوج حملوں کو فوجی اہداف تک محدود کیا جاتا ہے اور شہریوں اور شہری املاک کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ نے حملوں کے سلسلے میں تناسب کے اصول کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے اور کوئی ایسا حملہ نہیں کیا جاتا جس میں اس سے ہونے والی شہری ہلاکتیں فوجی کامیابی سے کہیں زیادہ ہوں۔ انہوں نے کہا بین الاقوامی قانون کسی ملک کو اپنے دفاع کے لیے مہلک حملے کرنے کی اجازت دیتا ہے اس لیے جاسوس طیاروں کے کیے گئے ڈرون حملوں کو ماورائے قانون ہلاکتوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔گزشتہ چند دنوں سے جاسوسی طیارے سے کیے جانے والے حملوں کو امریکہ میں بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی سول لبرٹیز یونین نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ فوج اور سی آئی اے ڈرون حملوں کو افغانستان، عراق اور پاکستان میں غیر قانونی ہلاکتوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ قانونی حدود میں رہ کر لڑی جائے۔اکتوبر میں ماورائے قانون ہلاکتوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے فلپ آلسٹن نے کہا تھا کہ یہ امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان طریقوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے جن کو بروئے کار لا کر وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ ان ہتھیاروں(ڈرونز) کے ذریعے ہونے والی ہلاکتوں غیر قانونی ہلاکتیں نہ ہوں۔ انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے سامنے پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہی ہے۔ یہ رپورٹ اس مطالبے کی ایک کڑی ہے کہ کسی ملک کو احتساب سے بالاتر نہ رہنے دیا جائے۔امریکی صدر براک اوباما انتظامیہ کی پالیسی کے تحت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں رواں برس اضافہ ہوا ہے۔جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا کے دورے میں عسکری اور سیاسی قیادت نے پاکستان کا مقدمہ لڑا، امریکا نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستانیوں کے بارے میں باڈی اسکیننگ کے معاملے پرنظر ثانی کرے گا۔ پاک امریکا اسٹریٹجک مذاکرات کے بعدوطن واپسی پر لاہور ائیر پورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ماضی کے برعکس امریکا کے دورے میں پہلی بارسیاسی اورعسکری قیادت نے مل کرپاکستان کا مقدمہ لڑا جبکہ ماضی میں ایک ادارہ کچھ کہتا اور دوسراکچھ اور۔مذاکرات کی بدولت امریکی پاکستان کے بارے میں سوالات اورشکوک و شبہات سے باہر آگئے ہیں،اوراب تعلقات پارٹنر شپ میں تبدیل ہوں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دورے کے دوران وہ ماحول تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں،مذاکرات کے دوران پیش رفت ان کی توقع سے زیادہ ہوئی ہے،انہوں نے کہا کہ امریکاباڈی اسکیننگ کے معاملے پرنظر ثانی کرے گا ، جبکہ ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول پر جلد پیشرفت ہو گی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی روکی ہوئی رقم جلد امریکا سے مل جائے گی ، جبکہ امریکا نے پاکستان کو ملٹی لیئر سکیورٹی سسٹم دینے کا عندیہ دیا ہے۔ انھوں نے بتایاکہ اپریل سے انرجی،تعلیم ، معیشت،ڈیفنس اور زراعت سمیت مختلف شعبوں کے امریکی وفود پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے اور ہلیری کلنٹن بھی دوبارہ پاکستان آئیں گی جبکہ وہ خود بھی اگلے ماہ امریکا جائیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا نے اس بارپاکستان سے کوئی نیا تقاضا نہیں کیا ، نہ ہی اس بار امریکا کی جانب سے کوئی ڈو مور کی بات کی گئی کیونکہ دنیا کو باور ہو گیا ہے معصوم شہریوں اور مسلح افواج نے پہلے ہی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے بھی پیشرفت سامنے آئی ہے اور انرجی کے شعبے میں فوری طورپر چارسومیگاواٹ بجلی کی فراہمی کا معاہدہ طے پاگیاہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کیساتھ سر جوڑنے کے سوال کے جواب میں مسکراتے ہو ئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کسی چیز پرکامیابی حاصل کرنے کیلئے سرجوڑنا پڑتے ہیں۔پاک امریکا سٹریٹجک تعلقات کے حوالے سے سینئر صحافی عاصم قدیر رانا نے ایسوسی ایٹڈ پریس سروس سے خصوصی گفتگو کر تے ہو ئے کہا ہے کہ اسلام آباد کو دہشت گردی کی جنگ کے نتیجے میں برآمدات سمیت تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں کمی، بجٹ خسارے، تجارتی خسارے ، کرنسی کی قدر میں کمی، مہنگائی ، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا سامنا ہے۔ جانی نقصانات اور انسانی المیے اس کے علاوہ ہیں۔ سینئر صحافی عاصم قدیر رانا نے مزید کہا کہ اس کے باوجود صدر بارک اوباما کا ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں خطاب کے دوران مزید فوج افغانستان بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ واشنگٹن کی نئی افغان پالیسی پر عملدرآمد کے لئے پاکستان کی پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی ضروری ہے۔ اب امریکی نائب صدر اور وزیر خارجہ کے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بارے میں امریکی حکومت کی تشویش بڑی حد تک دور ہوچکی ہے۔سینئر صحافی عاصم قدیر رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کانگریس کی پاکستان سے متعلق سوچ بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ اور پاکستان میں ”ری کنسٹرکشن اپر چیونٹی زون“ یا خصوصی تجارتی زون کا منصوبہ روبہ عمل لانے کے لئے قانون سازی کی تیاری ہورہی ہے۔سینئر صحافی عاصم قدیر رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاک امریکہ اسٹرٹیجک مذاکرات کے وقت کا تعین ایک واضح سفارتی اشارہ ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے ان مذاکرات کو حساس اور اہم قرار دیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں بھی عسکری و سیاسی قیادت کی مشاورت اور مختلف سطحوں پر غوروخوض کے ذریعے تیاری کی گئی تھی۔ مذاکرات سے قبل اور ان کے دوران امریکی حکام کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد کو احکامات دینے کے طریق کار کی خامی محسوس کرتے ہوئے باہمی مشاورت کی اہمیت کو محسوس کرلیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستانیوں کے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکیوں کی دوستی صرف ان کی ضرورت کے وقت تک کے لئے ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی سیکورٹی ضروریات کا اعتراف الفاظ سے بڑھ کر عملی تعاون کی صورت میں جلد ڈھلنا ضروری ہے۔سینئر صحافی عاصم قدیر رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی حکومت کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے معاشی و سماجی مسائل کے شکار ملک پاکستان کی مشکلات افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد مزید بڑھی ہیں۔ اس کے باوجود اسلام آباد کو الزامات کا ہدف بنا کر درحقیقت دہشت گردوں کو تقویت فراہم کی گئی ہے۔ اس مہم کی کامیابی کے لئے جہاں اسلام آباد کو ڈرون سمیت اعلیٰ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور فوجی سامان کی فراہمی ضروری ہے وہاں دہشت گردوں سے خالی کرائے جانے والے علاقوں میں تعمیرنو، بحالی اور سویلین انتظامیہ کا کنٹرول موثر بنانے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔سینئر صحافی عاصم قدیر رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹرٹیجک شراکت داری کو صرف اعلانات تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسے نتیجہ خیز بنانے کیلئے ان مسائل کو حل کیا جانا ضروری ہے جو ملک میں بے چینی پیدا کرکے دہشت گردوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تھرمل پلانٹس کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد اگرچہ بجلی کے بحران میں کمی کی ایک صورت پیدا ہوئی ہے مگر دریائی پانی کا حصول سستی بجلی اور آب پاشی سمیت 18کروڑ پاکستانیوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے ان دریاو ¿ں پر بند باندھ کر اور سرنگوں کے ذریعے پانی چوری کرکے پیدا کی ہے جن پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق ہے۔ کشمیر اور سیاچن سمیت کئی دیگر امور ایٹمی فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے پہلے ہی موجود ہیں۔ ان معاملات کو بھارت کی خوشنودی کے لئے نظر انداز کرنے کا نتیجہ کسی بھی وقت دھماکہ خیز صورتحال کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سویلین ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کو پاکستانی عوام اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کے امریکی دعوے کو جانچنے کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کے بارے میں کوئی واضح پیشکش سامنے نہیں آئی۔ نئے ڈیموں کی تعمیر، سورج، ہوا اور پانی کی لہروں سے توانائی کے حصول جیسے امور بھی عالمی برادری کے موثر تعاون کے متقاضی ہیں۔سینئر صحافی عاصم قدیر رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیرملکی معاونت کی اس ہنگامی ضرورت سے قطع نظر ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملکی وسائل پر بھروسہ کو بنیادی پالیسی کے طور پر اپنانا چاہئے۔ 62 برس غیرملکی معاونت پر انحصار کا نتیجہ خوشحالی میں اضافے کی بجائے نت نئے بحرانوں کی صورت میں ہی ظاہر ہوتا رہا ہے۔ معدنی ذخائر اور افرادی طاقت ہمارے لئے قدرت کے عطا کردہ وہ انعامات ہیں جن سے اب تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ افرادی طاقت کی تنظیم ، معدنی وسائل اور ایجاد و اختراع کی حوصلہ افزائی کے ذریعے ہی ہم معاشی ترقی کی منزلیں سر کرسکتے اور چین کی طرح اپنے بین الاقوامی تنازعات کو وقار سے حل کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے حکمرانوں کو خود بھی ایثار و قناعت کی راہ اختیار کرنی ہوگی۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق آئینی اصلاحات کے بارے میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کا خاتمہ نہ ہوا تو نظام نہیں حکومت رخصت ہو جائے گی۔ پارلیمنٹ کو ججز کی تقرری میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ورنہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا ۔ رینٹل پاورپراجیکٹس میں 50 کروڑ ڈالر کے کک بیکس لیے گئے ہیں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے کوئی بپھرے لوگوں کو نہیں سنبھال سکے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ اتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔عمران خان نے کہا کہ رینٹل پاور پراجیکٹس میں 5 سو ملین ڈالر کا فراڈ ہوا ہے ایران نصف قیمت پر بجلی فراہم کرنے کے لیے بار بار پیش کش کررہا ہے مگر کرائے کے بجلی گھروں میں کک بیکس کی وجہ سے ایران سے بجلی خریدنے سے گریز کیا جا رہا ہے عمران خان نے کہا کہ ضمنی انتخابات پرانی فہرستوں پر کرائے گئے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہ گئے ہیں انتخابی فہرستوں کو نادرا کے ڈیٹا کے مطابق مرتب نہیں کیا گیا تو نہ صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بات کی جائے گی بلکہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جائے گا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے قانونی ماہرین سے مشاورت کررہے ہیں عمران خان نے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں بجلی اور مہنگائی کی بنیادی وجہ امراءکی جانب سے ٹیکس چوری ہے ۔ اسمبلیوں کے ارکان نے جو گوشوارے دئیے ہیں وہ انتہائی معمولی اثاثوں پر مبنی ہے جو واضح کرتا ہے کہ یہ ارکان ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔ا نہوں نے کہا ک ہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوا تو عوام کا شدید ردعمل ہو گا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ سترہویں ترمیم کے ساتھ آخر کیوں ججز کی تقرری کا ایشو ڈالا گ گیا تھا سیاستدان عدلیہ میں مداخلت نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری میں پارلیمنٹ نے مداخلت کی تو سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گی اس معاملے پر پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کی وجہ سے سسٹم نہیں حکومت رخصت ہو جائے گی انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سرحد ایگزیکٹو کمیٹی نے صوبہ سرحد کے نئے نام کے لیے ریفرنڈم کی تجویز دی ہے ۔عمران خان نے کہا کہ پاک امریکہ سٹریٹجک مذاکرات میں پاکستان کی تو بات ہی نہیں ہوی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مسلح افواج کے استعمال کی ضرور بات ہوئی ہو گی کیونکہ اس جنگ میں ایک امریکی فوجی پر دس لاکھ ڈالر جبکہ ہماری فوج پر سات سو ڈالر خرچ ہوتا ہے مذاکرات میں کشمیر پانی کے حوالے سے تو کوئی بات نہیں ہوئی ۔ غلاموں کو ہدایت کیلئے بلایا گیا تھا۔عمران خان نے کہا کہ ڈاکٹر بابر اعوان جس پر ساڑھے تین کروڑ روپے لینے کا الزام ہے جب اس جیسے لوگ نیب کے انچارج وزیر ہوں گے تو نیب کس طرح چوروں ، بدعنوانوں اور بیرون ملک دولت منتقل کرنے والے کرپٹ عناصر کے خلاف مقدمات کی سماعت کر سکے گا۔اے پی ایس