آصف زردای کی اہلیت کے خلاف درخواست خارج۔اے پی ایسُ


پا کستان کی کمزور قیادت کی بدولت بھارت پاکستان کے اسلامی برادر دوست ممالک سے پاکستان کے خلاف شکایتیں لگارہاہے جبکہ پاکستانی حکمراں قوم کے موقف کا دفاع کرنے میں ناکام ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے درمیان بہتر تعلقات اور ترقی کا عمل ہونا چاہیے لیکن پاک بھارت مذاکرت میں پاکستان کے کسی مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو کوئی حق نہیں کہ وہ پاکستان کا پانی روکے۔ جبکہ موجودہ حکمرانوں سے عوام کی امیدیں ویسے بھی دم توڑ گئی ہوئی ہیں ان کا خیال ہے کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنیوالی محترمہ بینظیر بھٹو کے جانشین اپنی قائدکے وعدوں سے پھر گئے ہیں۔جو اپنے قائد سے وفا نہیں کرسکے وہ عوام کا کیا سوچیں گے۔ اگرچہ اسپیکر قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے امید ظاہر کی ہے کہ آئینی کمیٹی اسی ماہ میں اپنا کام مکمل کرلے گی اورقوم کو1973 جیسی قابل قبول دستاویز فراہم کی جائے گی ۔ان کا کہناتھا کہ پارلیمنٹ خود مختار ہے اور صوبوں کااحساس محرومی ختم ہورہاہے۔وہ تین روزہ قومی سپیکر کانفرنس میں شرکت کے لئے لاہورآمد پر میڈیا سے گفت گو کررہی تھیں ۔ سپیکرزکانفرنس کا مقصدپارلیمنٹ کو مضبوط بناناہے،کانفرنس میں چاروں صوبوں ،آزاد کشمیراورگلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر شریک ہوئے ہیں جب آئینی تجاویز پارلیمنٹ میں آئیں گی تواس پر ہرپہلوسے بحث ہوگی،ان کا کہناتھا کہ صدر آصف زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے حوالے سے کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی۔ جبکہ پاکستان الیکشن کمیشن نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کو سپریم کورٹ کی جانب سے غیرقانونی قرار دینے کے بعد صدر آصف علی زرداری کی اہلیت کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی ہے۔چیئرمین عوامی حمایت تحریک اور وکیل مولوی اقبال حیدر نے یہ درخواست صدر آصف علی زرداری، ان کے صدارتی انتخاب میں مدِ مقابل سابق چیف جسٹس سید الزماں صدیقی اور مسلم لیگ (قاف) کے مشاہد حسین سید سمیت وفاق کے خلاف دائر کی تھی۔ان کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے بعد صدر زرداری کی اہلیت مشکوک ہوگئی ہے کیونکہ وہ این آر او کے بل بوتے پر ہی صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکے تھے۔لیکن چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) حامد علی مرزا کا سات صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ صدر کے انتخاب کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ آئینی و قانونی طور پر جائز قرار دیے جانے والے انتخاب کو اب جعلی اور من گھڑت وجوہات پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ این ار او کے بارے میں سپریم کورٹ کے سولہ دسمبر کے فیصلے کی روشنی میں تمام ادارے اس فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس فیصلے کی روشنی میں جب اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والے افراد کے خلاف مقدمات دوبارہ ک ±ھل گئے ہیں تو پھر چند افراد کے خلاف مقدمات کیوں نہیں کھولے جا رہے۔انھوں نے کہا کہ سنہ دوہزار آٹھ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران این آر او مو ¿ثر تھا جس کے تحت صدر آصف علی زردرای کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے تھے۔درخواست گ ±زار کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے ا ±میدواروں نے بھی یہ ن ±کتہ ا ±ٹھایا تھا لیکن ا ±ن کو نہیں س ±نا گیا۔چیف الیکشن کمشنر نے درخواست گ ±زار سے استفسار کیا کہ کیا ا ±ن کے پاس کوئی ایسے عدالتی شواہد موجود ہیں جس میں آصف علی زردرای کو سزا دی گئی ہو جس پر مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ یہ تمام ثبوت قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام کے پاس ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ نے کارروائی کا حکم دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ مولوی اقبال حیدر نے استدعا کی کہ صدر آصف علی زردرای کے کاغذات نامزدگی کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جائے۔چیف الیکشن کمشنر نے درخواست گ ±زار سے استفسار کیا کہ کیا ا ±ن کے پاس کوئی ایسے عدالتی شواہد موجود ہیں جس میں آصف علی زردرای کو سزا دی گئی ہو جس پر مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ یہ تمام ثبوت قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام کے پاس ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ نے کارروائی کا حکم دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب کے حکام کو صدر آصف علی زردرای کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ مقدمات سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں این آر او کے تحت ختم کیے گئے تھے۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ستمبر سنہ دوہزار آٹھ میں جب صدارتی انتخابات ہوئے تھے ا ±س وقت این آر او مو ¿ثر تھا اس لیے ان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی طرف سے صدر زردرای کی اہلیت کو چیلنج کرنے کے باوجود بھی ان کے اعتراضات رد کر دیے گئے۔انتخابی کمیشن نے اپنا فیصلہ آخری سماعت میں محفوظ کر لیا تھا۔ جبکہ سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمدخان نے واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن وفاق کے زیر انتظام نہیں بلکہ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے، اورصدر مملکت بھی چیف الیکشن کمشنرکوعہدے سے نہیں ہٹا سکتے۔اسلام آباد سے جاری بیان میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر کی رہنمائی میں آئین و قانون کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیتاہے اور آرٹیکل دوسوبیس کے تحت وفاق اور صوبوں کے تمام انتظامی اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کواس کے امورکی انجام دہی میں معاونت کریں۔ جبکہ ملک کے پا رلیمنٹرین کا دوہرا معیار بھی منظر عام پر آیا ہے پاکستان کے پارلیمنٹرین جو بظاہر دیکھنے میں ارب پتی ہیں لیکن جب ان کے گو شواروں کو دیکھیں تو ان کی منافقت کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیںالیکشن کمیشن کے اب تک مرتب کردہ گوشواروں کے مطابق وزیرِ خزانہ کے اثاثے سب سے زیادہ اور مولانا گل نصیب کے اثاثے سب سے کم ہیں۔پاکستان کے الیکشن کمیشن نے چار سو چالیس سے زائد ارکان پارلیمنٹ کے ارکان کے اثاثوں کی فہرست مرتب کرنا شروع کردی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جو گوشوارے جمع کروائے ہیں ا ±ن کے مطابق وزیر اعظم کے پاس تریسٹھ لاکھ روپے کا گھر اور ایک کروڑ اکیس لاکھ روپے کا بینک بیلنس ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے پاس لاہور اور راولپنڈی میں رہائشی پلاٹ کے علاوہ اسلام آباد اور چکری میں زرعی اراضی بھی ہے۔قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا کے ک ±ل اثاثوں کی مالیت ساڑھے پانچ کروڑ روپے ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سندھ کابینہ میں وزیر داخلہ ہیں۔ اس فہرست کے مطابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز اثاثے رکھنے کے حوالے سے سب سے ا ±وپر ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کی جانے والی فہرست کے مطابق سب سے زیادہ اثاثے پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے ہیں اور ا ±ن کے اثاثوں کی مالیت اربوں روپے ہے۔شوکت ترین کے پاس چوّن کروڑ پچپن لاکھ کی جائیداد، دو کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں اور مختلف مالیاتی ادراوں اور بینکوں میں تین ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی ہے۔ظاہر اثاثوں کے اعتبار سے وزیر داخلہ رحمان ملک دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے اثاثوں کی مالیت کروڑوں روپے میں ہےدوسرے نمبر پر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور وزیر داخلہ رحمان ملک ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت کروڑوں روپے میں ہے۔وزیر داخلہ کے پاکستان میں دو گھر ہیں۔ ایک گھر کراچی میں ہے جس کی مالیت چھ لاکھ روپے ہے جب کہ دوسرا گھر صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ہے جس کی مالیت ایک کروڑ روپے ہے۔اس کے علاوہ ان کے پاس بی ایم ڈبلیو گاڑی ہے جس کی مالیت اکتیس لاکھ پچاس ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ ایک لاکھ چوراسی ہزار روپے کا بینک بیلنس ہے۔وزیر داخلہ کی لندن میں جائیداد کی مالیت انتیس کروڑ پچاس لاکھ روپے ہے جب کہ بیرون ملک تین لاکھ ڈالر کا کاروبار ہے جو ان کی اہلیہ کے نام ہے علاوہ ازیں پچاس تولے زیورات بھی ان کی اہلیہ کے نام ہیں۔مذکورہ دونوں وفاقی وزراءکے اثاثوں کی تفصیلات پہلی مرتبہ سامنے آئی ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے اثاثوں کی مالیت اکتیس کروڑ روپے ہے۔سینیٹ کے چئرمین فاروق ایچ نائیک کا تعلق بھی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور ا ±ن کی جائیداد اور دیگر اثاثوں کی مالیت تیرہ کروڑ سے زائد ہے۔قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے پاس لاہور اور راولپنڈی میں رہائشی پلاٹ کے علاوہ اسلام آباد اور چکری میں زرعی اراضی بھی ہے۔الیکشن کمیشن کے اہلکار کے مطابق اس فہرست میں سب سے غریب مولانا گل نصیب ہیں جن کے پاس آٹھ مرلے کے گھر کے علاوہ ساٹھ گرام سونا بھی شامل ہے۔سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے لاہور اور اسلام آباد میں واقع دو گھروں میں آدھا حصہ ہے جن کی مالیت 72 لاکھ روپے ہے جبکہ تین کروڑ اڑسٹھ لاکھ روپے بینک بیلنس ہے۔مسلم لیگ قاف کے ایک دھڑے ہم خیال گروپ کے سربراہ سیلم سیف اللہ خان کے اثاثوں کی مالیت آٹھارہ کروڑ اکیس لاکھ ہے اس کے علاوہ بارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں اور بارہ لاکھ کے طلائی زیورات بھی ہیں۔سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ناز کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کی بیس لاکھ روپے کی جائیداد کے علاوہ تین لاکھ پچھتر ہزار روپے بینک بیلنس ہے۔قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی کا کراچی میں ایک گھر ہے جس کی مالیت پچپن لاکھ روپے ہے۔ لاہور میں بھی ا ±ن کا ایک گھر ہے جس کی مالیت پچاس لاکھ روپے ہے اس کے علاوہ بیس لاکھ روپے کا بینک بیلنس بھی ہے۔حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر احمد علی کی ایک کروڑ پینتالیس لاکھ روپے کی جائیداد ہے اس کے علاوہ پچاس لاکھ روپے کی دو گاڑیاں بھی ا ±ن کی ملکیت ہیں۔ احمد علی خزانے سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کے پاس چالیس لاکھ روپے کے گھر کے علاوہ چالیس لاکھ روپے کی اراضی بھی ہے۔حکمراں اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کے پاس پچاس لاکھ روپے کی جائیداد کے علاوہ چار لاکھ روپے کا بینک بیلنس بھی ہے۔حکمراں اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کے پاس پچاس لاکھ روپے کی جائیداد کے علاوہ چار لاکھ روپے کا بینک بیلنس بھی ہے۔حکمراں اتحاد میں شامل ایک اور جماعت جمعت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ محمود کی جائیداد کی مالیت ساڑھے چار کروڑ روپے ہے جبکہ بتیس لاکھ روپے کا کاروبار اور ا ±ناسی لاکھ روپے بینک اکاو ¿نٹ میں ہیں۔طلحہ محمود داخلہ کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چئرمین بھی ہیں۔پاکستا ن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فیصل رضا عابدی کے پاس اٹھانونے لاکھ کی جائیداد کے علاوہ ا ±نتالیس لاکھ روپے کی گاڑیاں اور ستر ہزار روپے کا بینک بیلنس بھی ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے اثاثوں کی فہرستیں مرتب کر لی گئی ہیں۔اے پی ایس