پاک امریکہ سٹریٹجک مذاکرات اورباہم اعتماد کی کمی ۔اے پی ایس


پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وفد کی قیادت حکمران ڈیموکریٹک پارٹی ڈیوڈ پرائس کررہے ہیں جوامریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے ڈیموکریسی پارٹنرشپ کے چیئر مین بھی ہیں۔وفد کے ارکان نے گزشتہ منگل کو پاکستانی پارلیمان میں مصروف دن گزارا جس میں انھوں نے اپوزیشن اور حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے سینئر اراکین سے دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات کرنے والوں میں سینٹ میں قائد ایوان نیر بخاری اور قائد حزب اختلاف وسیم سجاد بھی شامل تھے۔ ان دونوں پاکستانی سینیٹروں کا کہنا ہے کہ امریکی وفد کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ معاشی استحکام امن وامان کی صورتحال کو مزید بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔امریکی وفد سے ملاقات کے بعد سینیٹر نیر بخاری نے بتایاکہ اس طرح کی ملاقاتوں سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے مواقع میسر آتے ہیں اور ان کے بقول ہونے والی ملاقات بھی اس حوالے سے حوصلہ افزا رہی۔پاکستانی پارلیمان کے اراکین نے امریکی وفد کے ساتھ بات چیت میں ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ آمد پر پاکستانی شہریوں اور پارلیمان کے اراکین کی خصوصی سکریننگ کا نظام ایک امتیازی سلوک ہے جسے ختم ہونا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں بدگمانیوں کو دور کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔امریکی وفد نے قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا سے بھی ملاقات کی سپیکرقومی اسمبلی نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان خاص طور پر اقتصادی روابط اور توانائی کے شعبے میں تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیااور کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے منتخب نمائندوں کے درمیان اس طرح کے رابطوں کو بڑھانے سے دوطرفہ تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔اس موقع پر امریکی وفد کے سربراہ ڈیوڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ اقتصادی،سماجی اور تعلیم کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کا خواہاں ہے اور امریکی کانگریس پاکستانی پارلیمان کی استداد کار کو بڑھانے کے لیے اقتصادی اور تکنیکی نوعیت کی مدد فراہم کری گی۔ جبکہ پاک امریکہ سٹریٹجک تعلقات کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اعلیٰ سطح کے سٹریٹجک مذاکرات کی روح یہ تھی کہ باہم اعتماد کی کمی پر کس طرح قابو پایا جائے ۔ پاکستان میں یہ احساس اب بھی باقی ہے کہ امریکہ نے اس وقت پاکستان کو اپنے مطلب کے لیے پارٹنر بنایا ہوا ہے اور جب طالبان اور القاعدہ کو شکست دینے کا مقصد حاصل ہو جائے گا تو پاکستان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔اور ادھر امریکہ میں پالیسی سازوں کے حلقے میں بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کیادہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں پاکستان واقعی مخلص ہے ۔ یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسرلیری گوڈسن کہتے ہیں کہ بدگمانیاں دور ہونے میں وقت لگے گا۔ انھوں نے کہا”ایک طرح سے یہ میاں بیوی کی کونسلنگ کی طرح ہے۔ اگر تعلقات بہت خراب ہیں لیکن آ پ نے انہیں بہتر کرنے کا تہیہ کر لیا ہے تو پھر کہیں نہ کہیں تو ابتدا کرنی ہوگی۔ شاید آپ سے کہا جائے گا کہ آپ پھول بھیجنا شروع کر دیں۔ آپ کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ اگر آپ ہمیشہ تاریک پہلو پر نظر رکھیں گے تو پھر تو بات نہیں بنے گی۔“ کانگریشنل ریسرچ سروس میں جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار ایلن کرونسٹڈٹAlan Kronstadt کہتے ہیں کہ اس بار سٹریٹجک ڈائیلاگ میں نیا لب و لہجہ دیکھنے میں آیا۔”ہو یہ رہا ہے کہ اب ایک برس سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کا لب و لہجہ اور رویہ پاکستان کے ساتھ مختلف ہے اور اس سے کچھ فرق پڑا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسا تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے یہ احساس پیدا ہو کہ یہ باہم اعتماد پر قائم ہے ۔“ لیری گوڈسن کہتے ہیں کہ پاکستان نے حال ہی میں بعض اہم طالبان شخصیات کو گرفتار کیا ہے اور سرحد کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فوجی کارروائی کی ہے ۔ پاکستانی قیادت کی اب یہ کوشش ہے کہ ان گرفتاریوں کو سٹریٹجک ڈائیلاگ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔امریکہ نے پاکستانی کے توانائی، پانی، زراعت اور تعلیم کے شعبوں میں امداد کے نئے وعدے کیے ہیں اور واشنگٹن نے وعدہ کیا ہے کہ بغاوت کے خلاف پاکستان کے اخراجات کی جو ادائیگی کی جانی ہے امریکہ اس میں تیزی سے کارروائی کرے گا۔ لیکن پاکستان کو اصل دلچسپی سویلین نیوکلیئر طاقت کے سودے میں ہے، جس طرح کا سمجھوتہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ہوا ہے ۔پاکستان میں بجلی کی شدید قلت ہے۔ لیکن جب اس بارے میں رپورٹروں نے وزیرِ خارجہ کلنٹن سے سوال کیا تو انھوں نے صاف جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا”ہم نے کہا ہے کہ ہم اپنے پاکستانی شراکت داروں کی ہر بات سنیں گے اور ان کا وفد جوبھی مسئلہ اٹھانا چاہے اس پر بات چیت کریں گے۔ ہم نے توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے میں پاکستان کی مدد کا وعدہ کیا ہے ۔“ ایلن کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے پچھلی انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ شائستہ اور نرم جواب دیا ہے۔ یہ ایسی تبدیلی ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیئے۔ بش انتظامیہ اس قسم کی تجویز کا جواب صاف انکار کی صورت میں دے دیتی۔ لیکن اب ہماراا یسا تعلق ہے جو تبدیل ہو رہا ہے ۔ اگر کوئی دوست آپ سے کوئی درخواست کرے تو آپ ٹکا سا جواب نہیں دیتے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مستقبلِ قریب میں کیا ہوگا لیکن ہم یہ ضرور دیکھ رہے ہیں کہ اس قسم کی درخواست کے جواب میں امریکہ کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے ۔ لیکن لیری گوڈسن کو شبہ ہے کہ پسِ پردہ کسی زیادہ ٹھوس تجویز پر کام ہو رہا ہے ، لیکن یہ بھارت کے ساتھ ہونے والے سودے سے مختلف ہو گی۔”بھارتی حکومت، پاکستانی حکومت اور امریکی حکومت سب کے بیانات سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ یہ اس قسم کا سودا نہیں ہوگا جیسا بھارت کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ سودا یا کوئی مفاہمت ہو گی ضرور جو پاکستان کوبھارت کی سطح پر تو نہیں لائے گی لیکن جس کے ذریعے پاکستان کے ساتھ سویلین نیوکلیئر پروگرام میں پیش رفت ہوگی۔“ پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان عبدالقدیر خان نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے پھیلاو ¾میں جو کردار ادا کیا اس کی وجہ سے امریکہ میں اور وی آنا میں نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کوسیاسی طور پر پاکستان کے ساتھ کسی نیوکلیئر سودے کی تجویز پر قائل کرنا مشکل ہوگا۔ جبکہ افغانستان میں تعینات نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ اتحادی فوج جون میں افغانستان کے جنوبی شہر قندہار میں کارروائی شروع کرے گی۔امریکی فوجی ذرائع کے مطابق اس کارروائی کا مقصد قندہار کو اگست میں رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے قبل طالبان سے پاک کرنا ہے۔یاد رہے کہ امریکی فوج قندہار کے پاس صوبے ہلمند کے علاقے مارجہ میں آپریشن کر رہی ہے۔امریکی حکام نے پہلے بھی قندہار میں نیٹو افواج کے آپریشن کا ذکر کیا تھا تاہم انہوں نے کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔حکام نے نام نہ ظاہر کی شرط پراس آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کارروائی میں دس ہزار فوجی حصہ لیں گے۔انہوں نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا ہے کہ جون سے اگست تک کے مرحلے میں قندہار کو طالبان سے صاف کیا جائے گا۔ اس مرحلے کے بعد اگلا مرحلہ حکومت قائم کرنے کا ہو گا جو اکتوبر کے وسط تک مکمل ہو گا۔حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے راستے محفوظ کرنے کا کام شروع کر لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آس پاس کے اضلاع کے رہنماوں کو قائل کیا جا رہا ہے کہ وہ اتحادی افواج کا ساتھ دیں۔ایسوسی ایٹڈپریس سروس