ایوان صدر اور پارلیمان میں توازن۔چودھری احسن پر یمی


گزشتہ جمعرات کواٹھارویں ترمیم کا مسودہ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کو پیش کیا کردیا گیا ہے۔آئینی اصلاحات کمیٹی نے مجوزہ اٹھارویں ترمیم کے مسودے کو گزشتہ روز حتمی شکل دی اور کمیٹی میں شامل تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے مسودے پر دستخط کیے۔مسودہ میں تینوں سروسز چیف کی تقرری اور اسمبلی توڑنے کا اختیار وزیر اعظم کو دینے، جبکہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کی منظوری کا حتمی صدارتی اختیار پارلیمانی کمیٹی کے سپردکرنے سفارش کی گئی ہے۔مجوزہ سفارشات کے تحت صدر کو فوجداری مقدمات میں حاصل استثنیٰ برقرار رہے گا اور مجرموں کی سزائیں ختم کرنے کا اختیار بھی صدرکے پاس ہی رہے گا۔مجوزہ سفارشات کے مطابق گورنر کو حاصل کئی اہم اختیارات وزیر اعلیٰ کومل جائیں گے اور گورنر وزیر اعلیٰ کے مشورے پر عمل کا پابند ہو گا۔کسی صوبے کے گورنرکی تقرری کیلئے لازم ہوگا کہ وہ اسی صوبے سے تعلق رکھتا ہو۔کمیٹی نے فوجداری مقدمات، اعلیٰ اور فنی تعلیم، بین الاقوامی معاہدوں، ثالثی اور نارکوٹکس کو کنکرنٹ لسٹ سے نکال کر فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے پارٹ ٹو میں شامل کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔آئینی کمیٹی نے دو بار سے زائد وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ بننے پرعائد پابندی ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔صوبہ سرحدکا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اورعوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے خیبر پختونخواہ کے نام کو آئینی ترمیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو اٹھارویں ترمیم کا مسودہ پیش کر دیا ہے۔تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کس روز یہ مسودہ منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔اس موقع پر میاں رضا ربانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور جمہوری پاکستان کی بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے صوابدیدی اختیارات ختم کر کے اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔یاد رہے کہ اصلاحاتی کمیٹی کا مینڈیٹ فوجی سربراہان کے دور میں متعارف کردہ ترامیم ختم کرکے آئین کو انیس سو تہتر والی شکل میں بحال کرنا ہے۔ یہ کمیٹی صدر کے اختیارات وزیراعظم اور پارلیمان کو سونپے جانے اور اسمبلی توڑنے کے بارے میں صدر کا اختیار ختم کرنے پر بھی کام کر رہی تھی۔اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر گزشتہ ماہ مارچ کی پچیس تاریخ کو دستخط ہونے تھے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ججوں کی بھرتی کے طریقہ کار اور صوبہ سرحد کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ گزشتہ بدھ کو رات گئے مسودے پر اتفاق رائے سے دستخط کیے گئے۔ اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن میں نواز لیگ کی تجویز کو منظور کیا گیا ہے اور کمیشن میں ایک ریٹائرڈ جسٹس بھی شامل کیے جائیں گے۔احسن اقبال نے کہا کہ اب حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری آ گئی ہے کہ وہ عام افراد کی مشکلات کو حل کرنے میں زیادہ کام کرے۔اس کے علاوہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی میں بھی اتفاق رائے ہوا اور صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ تجویز کیا گیا ہے۔اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے اسمبلی میں واقع کمیٹی روم نمبر دو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیا کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بڑی سنجیدہ کوریج کی۔ انہوں نے مزید کہا ’میں پاکستان کی عوام کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنا لمبا عرصہ اس کمیٹی کی سفارشات کا انتظار کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ان کی جماعت کے تحفظات بہت حد تک دور ہو گئے ہیں۔جب اے این پی اور نواز لیگ نے صوبہ سرحد کا نیا نام تجویز کیا تو ہماری جماعت اس سے متفق نہیں تھی اور اسی لیے ہم نے اس تجویز کے حوالے سے مسودے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک تحفظ ججوں کی تقرری کے جوڈیشل کمیشن پر تھا۔ ’اس کمیشن میں چھ اراکین تھے اور اگر ان میں ٹائی ہو جائے تو فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس پر کمیٹی میں اتفاق ہوا کہ ساتواں رکن شامل کیا جائے جو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس یا چیف جسٹس ہوں۔ تاہم اس پر بھی ہمارا تحفظ تھا کہ اگر ساتویں رکن کو منتخب کرنے پر بھی ٹائی ہو جائے تو پھر کیا ہو گا۔ اسی لیے ہماری تجویز تھی کہ پاکستان کے چیف جسٹس کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ساتویں رکن کو منتخب کریں جس پر کمیٹی کا اتفاق ہوا ہے۔‘احسن اقبال نے کہا کہ اب حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری آ گئی ہے کہ وہ عام افراد کی مشکلات کو حل کرنے میں زیادہ کام کرے۔جبکہ مسلم لیگ ق کے سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ اس مسودے کو ایک بار پھر پڑھنے کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ آج ہی پڑھ لیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ایک دو دن میں اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔انہوں نے صوبہ سرحد کے نئے نام کے حوالے سے کہا کہ اس بارے میں اے این پی اور نواز لیگ میں مذاکرات ہو رہے تھے اور ان کی جماعت ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی۔ ’جب دونوں جماعتوں نے نیا نام تجویز کیا تو ہماری جماعت اس سے متفق نہیں تھی اور اسی لیے ہم نے اس تجویز کے حوالے سے مسودے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے۔‘وفاقی وزیر برائے قانون بابر اعوان نے کہا کہ ان تمام ترامیم پر پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی رائے اور اتفاق شامل ہے۔آئینی اصلاحات کمیٹی کے اراکین نے اتفاقِ رائے کے بعد اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر دستخط کردیے ہیں۔ ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ اور ججوں کی تقرری پر کمیشن میں اضافی ممبر کی تجاویز شامل ہیں۔اس کمیٹی کے تمام اجلاس بند کمرے میں ہوتے رہے اور کمیٹی کے اراکین نے ان معاملات کو میڈیا میں لانے سے گریز کیا۔اس کمیٹی کی تشکیل سے اب تک کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔دس جنوری دو ہزار نو کو مسلم لیگ قاف نے صدر کو سترہویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل اختیارات میں کمی اور پارلیمان کو انیس سو تہتر کے آئین کے مطابق خودمختار بنانے کےحوالے سے سینیٹ میں پیش کیے گئے دو بلوں کی پیروی کرنے کا اعلان کیا۔ تیرا جنوری کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سترہویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو مختلف سیاسی جاعتوں کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی ترامیم کے مسودوں کا جائزہ لے گی۔ ا ±نہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں اس کمیٹی کی تشکیل کی جائے گی۔ تئیس جنوری کو حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز سترہویں ترمیم کے خاتمے کےلیے ایک آئینی کمیٹی بنانے پر متفق ہوگئے۔ یہ اتفاق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کے درمیان ایوان صدر میں علیحدگی میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران ممکن ہوا۔ ستائیس جنوری کو متحدہ قومی موومنٹ نے صدر کے اختیارات میں کمی، مرکز سے صوبوں کو اختیارت کی منتقلی اور وفاقی شرعی عدالت ختم کرنے سمیت مختلف تجاویز پر مبنی آئینی ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جو مزید کارروائی کے لیے وزارت قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔پچیس جون کو آئینِ پاکستان میں وسیع پیمانے پر ترامیم کے لیے بنائی گئی پارلیمان کی ستائیس رکنی کمیٹی نے میاں رضا ربانی کو اپنا کنوینر مقرر کردیا۔ انتیس جون کو آئین میں اصلاحات اور میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد سے متعلق کمیٹی نے اپنے پہلے باضابطہ اجلاس میں عوام سے آئینی میں ترامیم سے متعلق تجاویز اور سفارشات ایک ماہ تک کمیٹی کو ارسال کرنے کی اپیل کی۔ اجلاس میں سینیٹ میں قائد ایوان اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کو کمیٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ اجلاس میں کمیٹی کے رولز کی منظوری بھی دی گئی۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وہ عوام خصوصًا دانشوروں، سول سوسائٹی اور وکلاءسے اپیل کرتے ہیں کہ آئندہ ماہ کے آخر تک آئین سے متعلق اپنی تجاویز کمیٹی کو ارسال کر دیں تاکہ ان پر غور ہوسکے اور ایک جامع آئینی ترامیم کا پیکج تیار کیا جاسکے۔ یکم جولائی کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آئینی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی ستائیس رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی جلد کام شروع کر دے گی اور اس کی رپورٹ کو پارلیمان میں بحث کے بعد منظور کیا جا ئے گا۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ کمیٹی صوبوں کے خدشات اور حکومت میں توازن کے علاوہ آئینی معاملات پر بھی سفارشات پیش کرے گی۔ بارہ جولائی کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ’ملک میں نافذ آئین موجودہ شکل میں نہ صدارتی ہے اور نہ ہی پارلیمانی ہے بلکہ یہ دونوں کا ملغوبہ بن چکا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ انیس سو تہتر کے آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہونا چاہیے لیکن آمریت کے دور میں کی گئی ترامیم کے باعث اس کی سمت تبدیل کر دی گئی ہے۔ ’اسی لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کر دیں۔‘ نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے آئینی پیکیج پر نہ تو کوئی یو ٹرن لیا ہے اور نہ ہی انہیں اپنے موقف پر کوئی پچھتاوا ہے۔ نواز شریف نے آئینی پیکیج پر اپنے موقف کا دفاع کیا اور کہا کہ انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ذاتی لالچ میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں ہے۔تیس دسمبر کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انیس سو تہتر کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرتے ہوئے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی اجازت دیں گے۔انھوں نے تقریر میں سابق فوجی حکمرانوں کی جانب سے انیس کے تہتر کے آئین میں کی گئی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جن افراد نے خلاف ورزی کی ہے انھیں سزا ملنی چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی دوہرایا کہ آئین سے اٹھاون ٹو بی اور سترھویں ترمیم کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور اس حوالے سے آئینی کمیٹی کام کر رہی ہے۔ بائیس فروری دو ہزار دس کو وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے تمام آئینی ترامیم تئیس مارچ سے قبل مکمل ہو جائیں گی جس کے بعد ایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہو جائےگا۔ تین مارچ کو وکلاءنمائندوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے اختیارات پارلیمانی کمیٹی کو دینا عدلیہ کو بطور ادارہ مفلوج کرنے کی ایک سازش ہے۔ وکیل رہنما اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ نے آئینی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی ان تجاویز کی توثیق کی تو وکلاءاپنا لائحہِ عمل تیار کریں گے۔ چوبیس مارچ کو وفاقی وزیر قانون اور پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری چھبیس مارچ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے اور اسی اجلاس میں آئینی اصلاحاتی بل پیش کیا جائے گا۔ قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینیٹر رضا ربانی کی صدرات میں بننے والی مشترکہ اصلاحاتی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔ پچیس مارچ کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا کہ ججوں کی بھرتی کے طریقہ کار کے بارے میں حکومت اور ان کی جماعت میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اس لیے آئینی پیکیج کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کلِک ججوں کی بھرتی کے بارے میں مجوزہ کمیشن میں حکومت سے عدلیہ کے اراکین کی تعداد زیادہ ہو۔ میاں نواز شریف کی اس پریس کانفرنس سے قبل وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ اٹھارویں ترمیم جمعہ کو پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔چھبیس مارچ کو پارلیمان کی آئینی کمیٹی کے سربراہ میاں رضا ربانی نے کہا کہ کسی بھی طے شدہ نکتے پر دوبارہ غور نہیں کیا جائے گا اور تمام اختلافی نکات افہام و تفہیم سے طے کر لیں گے۔آئینی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میاں رضا ربانی نے کارروائی کی کوئی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن اتنا کہا کہ تمام اختلافی معاملات افہام و تفہیم سے طے ہوجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہا کہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی طے شدہ نکتے پر دوبارہ غور نہیں ہوگا۔ ستائیس مارچ کو مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے آئینی پیکیج پر نہ تو کوئی یو ٹرن لیا ہے اور نہ ہی انہیں اپنے موقف پر کوئی پچھتاوا ہے۔ نواز شریف نے آئینی پیکیج پر اپنے موقف کا دفاع کیا اور کہا کہ انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ذاتی لالچ میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں ہے۔ ان کے بقول انہوں اس بات کی پرواہ بھی نہیں کی کہ ان کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا معاملہ بھی اس آئینی پیکیج میں شامل ہے۔ انتیس جنوری کو میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر آئینی اصلاحات سے متعلق اپنے تحفظات عیاں کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ یہ یکایک سامنے لائے گئے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ ان اختلافات پر کافی عرصے سے بحث چل رہی تھی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا، ہمارا اعلان کوئی عجوبہ نہیں تھا، آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن اسحاق ڈار نے ایک روز قبل ہی اپنا اختلافی نوٹ لکھ دیا تھا۔اے پی ایس