قائد عوام کو اپنے داماد پر فخر ہوگا" بے نظیر بھٹو۔۔چودھری احسن پر یمی


پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی31ویں برسی کے سلسلے میںلاڑکانہ ،نوڈیرو اور گڑھی خدا بخش بھٹو میں مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ قائم کئے گئے ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کا باضابطہ آغاز تین اپریل کی شام نوڈیرو میں سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے ہوا بعد میں گڑھی خدا بخش بھٹو میں مرکزی جلسہ ہوا جو چار اپریل کی صبح تک جاری رہا جبکہ گڑھی خدا بخش بھٹو اور نوڈیرو آنے والے کارکنوں کی رہنمائی کیلئے ٹریفک پلان بھی جاری کیاگیا ۔ اس سال ایک عظیم الشان اجتماع ہواجس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام اور پارٹی کارکنان شرکت کرکے شہید بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا، برسی کی تقریبات کا آغازگزشتہ تین اپریل کو 10بجے شب تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کو ہدایات دی تھیں کہ 4 اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر صوبے بھر میں سیکورٹی کے منظم و مربوط اقدامات کو یقینی بنایا جائے اور اس موقع پر خفیہ نیٹ ورک کو قانون نافذکرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتے ہوئے ہر سطح پر فعال و ٹھوس بنانے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جائیں۔برسی کے موقع پرگڑھی خدا بخش جانے والے قافلوں کو سفری راستوں پر غیرمعمولی سیکورٹی کی فراہمی کے ضمن میں تمام تر اقدامات کو یقینی بنایا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست وڈیروں ، جاگیرداروں اور طاقتور لوگوں سے چھین کر گلیوں ، محلوں میں پہنچا دی تھی۔ 8 ویں ترمیم کو ختم کئے بغیر 1973 ءکا آئین اصل حاصل میں بحال نہیں ہو سکتا ۔ ان خیالا ت کا اظہار پیپلز لائرز فورم کے زیر اہتمام بھٹو کی 31 برس کی تقریب سے مقرین نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔پروفیسر مہدی حسن نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے اپنی بیٹی کو خط تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جنت ماں کے قدموں تلے جبکہ سیاسی کی طاقت عوام کے قدموں تلے ہوتی ہے ۔ بھٹو نے سیاست کو عوام کی نچلی سطح تک پہنچایا ۔ پاکستان ناکام ریاست کہا جا رہا تھا اس کو دوبارہ زندہ کیا ۔ اسلامی ممالک کو اکٹھا کر کے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی۔ پاکستان کو نیو کلیئر ٹیکنالوجی سے رشناس کرایا یہ تمام کام بھٹو کیلئے ناقابل معافی جرم بن گئے ۔ مقررین نے کہا کہ لیڈر ہمیشہ صاف اور کبھی عوام سے جھوٹ نہیں بولتا ۔ نواز لیگ کے بر سراقتدار آنے سے سرمایہ دار طبقہ خوش ہوتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں غریب ، مزدور ، محنت کش کی آنکھ میں چمک پیدا ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مشن کو جاری رکھے گی اور یہ پارٹی ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنی ہے ۔ کچھ ملاو ¿ں کی طرف سے فتوے دیئے گئے تھے کہ پیپلز پارٹی کافروں کی جماعت ہے ۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے این ایف سی ایوارڈ، بلوچستان پیکج ، گلگت بلتستان پیکج، 18 ویں ترمیم کے ذریعے 73ءکا آئین بحال کر کے عوام کی خدمت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ صدر مملکت و پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک عوامی جلسہ میں کہا تھا ہم نے عہدہ لڑ کرلیا ہے ، لڑاور مرکر عوام کی خدمت بھی کریں گے ۔ پاکستان ی خدمت کا دوسرا نام بھٹو ازم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح لیڈر بننا چاہتا ہے تو ان کی طرح مرنا بھی سیکھے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہاو ¿س لاہور میں وسیلہ حق کی قرعہ اندازی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ صدر مملکت نے کہا تھاکہ جب کوئی ذوالفقار علی بھٹو شہید یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی کوئی مخالفت کرتا ہے تو ہمارے دل میں درد ہونے لگتا ہے یہی بھٹو ازم کا جذبہ ہے یہی وہ سوچ ہے جس کے ذریعے ہم پھاڑوں اور بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو شہید نے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان اس لئے کیا تھا کہ انہیں یقین تھا کہ آنے والے وقت میں بھی ان کے لاکھوں پروانے ان کی سوچ کو آگے بڑھاتے رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ میں محترمہ کی سوچ کو تو نہ سمجھ سکا لیکن وہ مجھے سمجھاتی ہیں کہ آصف تم میرے بیٹوں، بیٹیوں اور بچوں کے مستقبل کے ضامن ہو۔ ان کا خیال رکھنا اسی سوچ کو لے کر میں نے وسیلہ حق پروگرام بنایا جسے وزیر اعظم اور دوسرے لوگ آگے بڑھا رہے ہیں ۔ یہ جنگ غریب کے حقوق کی جنگ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی عوامی سیاست دیکھنا چاہتا ہے تو بھٹو خاندان سے عاجزی سیکھے ، کوئی لیڈر بننا چاہتا ہے تو ان کی طرح جیل جانا اور مرنا بھی سیکھے ۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے نام کی طرح پاکستان کو بے نظیر بنتا دیکھنا چاہتی تھیں اور میں ان کی سوچ کا ضامن ہوں جسے آگے بڑھا رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میری بھی خواہش ہے کہ میں بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح شہادت حاصل کروں اور کفن پر بھی پیپلز پارٹی کا جھنڈا ہو ۔ میں بھی اس قابل ہو جاو ¿ں کہ میری قبر پر بھی بھٹو کے نعرے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹائمز اور نیوز ویک نے لکھا ہے کہ پاکستان بہت مشکل ملک ہے لیکن ہم نے یہ عہدہ لڑ کر لیا ہے اور لڑ اور مرکر عوام اور ملک کی خدمت کریں گے ۔ انہو ںنے بغیر کسی کا نام لئے حاضرین سے کہا کہ ان سے مت گھبراو ¿ جب تک بھٹو کے سپاہی میرے ساتھ ہیں میں ان کا مقابلہ کرتا رہوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح دہشت گردوں کو سوات سے بھگایا ہے ان سے وزیر ستان کو بھی بچائیں گے اور آنے والی نسلوں تک پاکستان کا لوہا منوائیں گےصدر پاکستان آصف علی زرداری کے بقول ملک میں جاری سیاسی عمل سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور اس طرح کی باتیں ملک دشمن عناصر پھیلا رہے ہیں۔ سیاسی عمل میں شامل تمام فریق ملک میں جمہوری نظام کی کامیابی اور اس کے برقرار رہنے کے بارے میں متفق ہیں لہذا اس نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کسی کو پاکستانی قوم کے عزم، اس کے اداروں کی طاقت اور رہنماو ¿ں کی ملک کو مشکلات سے نکالنے کے ارادے پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ملک دشمن عناصر اس طرح کا پروپیگنڈا کر کے ملک اور عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرف سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ’لیکن ہم نے ماضی میں بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے چیلنج سے مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی اس دشمن سے لڑنے کا عزم اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج پاکستان ایک پھلتی پھولتی جمہوریت رکھتا ہے جس میں آزاد میڈیا اور شہری حقوق رائج ہیں۔ ’جمہوری نظام، ہمارے ادارے اور انکی صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس بارے میں کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے’۔ پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت کی علم بردار ہے اور اسکی مرحوم سربراہ کی کوششوں سے آج ملک میں جمہوری دور رائج ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد وزیراعظم بنے اور آخر فوجی آمر کی ہوسِ اقتدار کا نشانہ بن گئے ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر1971 کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدرِ مملکت کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور 13اگست 1973 تک صدر مملکت رہے۔14اگست 1973 کو نئے آئین کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیرِاعظم بن گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اکتسویں برسی جو چار اپریل کو منائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی دستاویزی فلم میں ذوالفقار علی بھٹو کے اہل خانہ کے علاوہ ان کے رفقاءکار اور ان لوگوں کے انٹرویوز ریکارڈ کیے گئے ہیں جو انکی اسیری سے لے کر پھانسی کے دنوں تک مختلف حوالوں سے ان کے قریب رہے۔ان میں سابق جیل حکام، وکلاءاور فوجی افسران بھی شامل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی اور موت کا مقصد نظام کی تبدیلی ہے اور یہی مقصد لیکر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی حکومت میں آئے ہیں۔ جس ملک کےلئے ذوالفقار علی بھٹو نے قربانی دی اسے موجودہ قیادت کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتی اور ملک مضبوط اس وقت ہوگا جب ادارے مضبوط ہوں گے۔پی پی پی نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہوا ہے کہ انیس سو تہتر کے آئین کو اسکی روح کے مطابق بحال کرے گی‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو نے سپریم کورٹ سے آصف زرداری کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے کے بعد چوبیس نومبر دوہزار چار کوکہا تھا کہ وہ ’اتنی آزمائش کے بعد پارٹی کے سینیئر رہنما بن چکے ہیں‘۔ بینظیر بھٹو نے ایک غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھاکہ پارٹی کی قیادت ان کے پاس ہے اور پاکستان کے اندر پارلیمانی لیڈر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری ایک سینیئر لیڈر کی حیثیت سے ’اپنا کردار ادا کریں گے‘ اور ملک میں جمہوری نظام کے لیے کام کریں گے۔ شہید بے نظیر نے اس وقت کے عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے انصاف کی جیت کہا تھا۔ آصف زرداری کی رہائی کے لیے حکومت کے ساتھ بات چیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بینظیر بھٹو نے یہ بھی کہا تھاکہ ’بات چیت کئی سال کے دوران سے جاری ہے لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا‘۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے بات چیت کے بارے میں آصف زرداری سے براہ راست پوچھا جا سکتا ہے کیونکہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ آزادی سے گفتگو نہیں کر سکتی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے کہا ’میں یہ جانتی ہوں کہ لوگ وقتاً فوقتاً پچھلے کئی سالوں سے بات چیت کرتے رہے ہیں اور ماضی میں بھی حکومت سے بہت مذاکرات ہوئے ہیں‘۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ایک تحریری بیان میں بینظیر بھٹو نے کہا کہ آصف علی زرداری نے مشکل کا سامنا جرات اور حوصلے سے کیا اور ’قائد عوام (ذوالفقار علی بھٹو) کو اپنے داماد پر فخر ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ آصف زرداری کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ بینظیر نے کہا کہ افواہیں پھیلانے والے لوگ عوام کا دھیان اپنی غلط کاریوں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ پی پی پی کی سربراہ نے کہا کہ آصف زرداری نے پارٹی کا پرچم بہادر ترین انسان کی طرح اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ جیل مینویل کے تحت کسی سزا میں ممکنہ کمی کا حساب کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے آصف زردای نے بغیر کسی مقدمے میں سزا پائے عمر قید سے زیادہ وقت جیل میں کاٹا ہے۔ ”رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھےمگر وہ ابھی جاگتا تھاکھبی ایک کاغذ پہ کچھ لکھ کر پرزے اڑاتاکبھی مسکراتاکبھی آسماں کی طرف دیکھتاآسماں دو پہاڑوں کی میخوں پر اترا ہوااسکی چکی کے روزن سے ہنستا رہااور وہ دیر تک شیو کرتا رہا“’رات کے دو بجے‘ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر نظم شاعر مسعود منور نے لکھی تھی۔جو بات ذوالفقار علی بھٹو نہیں جان سکے تھے وہ یہ تھی کہ اسی ایف آئی آر میں محسن کش جنرل ان کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کر کے چیف جسٹسز انوار الحق اور مولوی مشتاق جیسے ججوں کے ذریعے ان کا ’عدالتی قتل‘ کروائیں گے، جس سے باقی ماندہ پاکستان اور اس کی عدلیہ مہذب دنیا کی نظروں میں خوار و رسوا ہوجائے گی۔ جیسے حبیب جالب نے ان دنوں کہا تھا:اک حشر بپا ہے گھر گھر میںدم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میںاک شخص کے ہاتھوں مدت سےرسوا ہے وطن دنیا بھر میں۔‘ بھٹو کی پھانسی سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایک عدالتی قتل ہی تھا۔اے پی ایس