عالمی جوہری کانفرنس ۔لورائے چودھری احسن پر یمی



امریکی صدر اوبامہ نے القاعدہ کی جانب سے امریکہ پر ممکنہ حملوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ امریکہ پر ایٹمی حملہ کر سکتی ہے ۔ جس سے نمٹنے کے لئے عالمی برادری کی جانب سے دنیا بھر میں تمام غیر محفوظ جوہری مواد کی حفاظت کے لئے ان کی کوششوں میں حمایت اور مدد کی ضرورت ہے ۔ واشنگٹن میں عالمی جوہری سلامتی کانفرنس سے پہلے امریکی صدر نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ عالمی برادری ہتھیاروں کی حفاظت و سلامتی کے لئے کئے گئے ان کے اقدامات میں تعاون فراہم کرے گی ۔ صدر کا کہنا تھا کہ القاعدہ نیویارک ‘ لندن اور جوہانسبرگ میں نیوکلیئر ہتھیاروں سے حملے کر سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں معاشی بحران ‘ سیاسی اور سیکورٹی عدم استحکام کے نتیجے میں القاعدہ موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے ۔ باراک اوبامہ کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ جیسی تنظیم نیوکلیئر ہتھیاروں کے حملے سے دریغ نہیں کرے گی ۔ انتہاپسندوں پر گہری نظر کے باوجود 2 ممالک ایران اور شمالی کوریا پہلے سے ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ عالمی برادری اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ تعاون فراہم کرے ۔ واضح رہے کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی نیوکلیئر ہتھیاروں سے امریکہ پر ممکنہ حملوں کے حوالے سے تشویش ظاہر کر چکی ہیں ۔ بلکہ امریکہ پر ہتھیاروں سے حملے کی اس تشویش نے اوبامہ انتظامیہ میں بے چینی کی فضاءپیدا کی ہے اور امریکہ میں 65 سالہ تاریخ میں صدر اوبامہ نے عالمی جوہری ہتھیاروں پر کانفرنس بلائی ہے ۔اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے عالمی جوہری ہتھیاروں پر کانفرنس کا مقصد ایران اور شمالی کوریا پر دبائو بڑھانا چین کے ایٹمی پروگرام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا،بھارت اور پاکستان کو بلیک میل کرنا اور اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کو مشرق وسطی کیلئے کھلی چھٹی قرار دینا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کی سربراہی میں واشنگٹن میں شروع ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں ہندوستان اور پاکستان سمیت سینتالیس ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ہے وزیر اعظم گیلانی نے امریکہ روانگی سے قبل کہا کہ پوری قوم اور دنیا کو یقین دلاتا ہوں پاکستان کا ایٹمی پرگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔اس اجلاس میں وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تھے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اس حوالے سے حکومت کو پوری قوم کا تعاون حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے انہوں نے پالیمان کی سکیورٹی کمیٹی کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔وزیر اعظم گیلانی کی اس اجلاس کے علاوہ سربراہان کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ ان کی امریکی صدر براک اوباما سے بھی باہمی ملاقات ہوئی ہے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دنیا کو ان اقدامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جو پاکستان نے گذشتہ کئی سالوں میں جوہری ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھائے ہیں۔جبکہ امریکہ میں جوہری سلامتی کے بارے میں ہونے والے بین الاقوامی سربراہی اجلاس کے موقع پر امریکہ کے صدر براک اوباما نے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ کس طرح جوہری ہتھیار محفوظ رکھے جا سکتے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے اپنی نئی جوہری پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت امریکی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکان میں کمی کی گئی ہے اور مزید جوہری تجربوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، تاہم ایران اور شمالی کوریا کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اب بھی جوہری حملے کا سامنا کر سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں صحافیوں کو نئی پالیسی کی تفصیل بتاتے ہوئے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور اعلیٰ فوجی حکام نے بتایا ہے کہ روس کے ساتھ معاہدے کے تحت جوہری ہتھیاروں میں کمی بھی کی جاسکتی ہے۔صدر براک اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں گے۔ ان کی انتظامیہ کی جانب سے نئی جوہری پالیسی کے اعلان پر ریپبلکن پارٹی نے کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کے مخالفین جوہری ہتھیار بنانے میں مصروف ہیں، امریکہ کی جانب سے ان ہتھیاروں میں کمی سے امریکی سلامتی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔امریکہ نے جوہری پالیسی کی دستاویز میں چین کے جوہری پروگرام کے مبینہ طور پر شفاف نہ ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکہ کی پالیسی کا اعلان امریکہ اور روس کے درمیان اس متوقع تاریخی معاہدے سے صرف دو روز قبل کیا گیا ہے جس میں دونوں ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں میں بڑے پیمانے پر کمی کر رہے ہیں۔نئی پالیسی میں پہلی مرتبہ امریکہ نے خود پر کیمیائی، حیاتیاتی یا روایتی ہتھیاروں سے حملے کے جواب میں جوہری ہتھیار کے استعمال کے امکان کو رد کیا ہے۔ لیکن یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ صرف ان ممالک کے خلاف جوہری ہتھیار استمال نہیں کئے جائیں گے جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاو ¿ کے معاہدے پر دستخط کریں گے اور معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ اس میں ایران اور شمالی کوریا شامل نہیںاس نئے معاہدے پر اتفاق دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ ماہ ہوا تھا اور نیا معاہدہ امریکہ اور روس کے درمیان 1991 میں کئے گئے تخفیف جوہری اسلحہ کے پرانے معاہدے کی جگہ لے گا۔ایران کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے لیکن اس کی جانب سے مبینہ طور پر عالمی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے اس کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی امکانی امریکی یا اسرائیلی حملے کے امکان میں اضافہ ہورہا ہے۔امریکہ نے کہا ہے کہ وہ انتہائی شدید حالات میں جوہری ہتھیار استعمال کرے گا، تاہم وہ مزید ہھتیار نہیں بنائے گا۔نئی پالیسی کے تحت امریکہ روایتی جنگ کی مکمل تیاری اور ہتھیار رکھے گا تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔دستاویز کے مطابق چین کے پاس امریکہ اور روس کے مقابلے میں بہت کم جوہری ہتھیار ہیں لیکن اس کا جوہری پروگرام شفاف نہیں جو تشویشناک بات ہے۔واضع رہے کہ صدر اوباما کے ان خیالات کی وجہ سے کہ وہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کام کرتے رہیں گے، امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر دمیتری میدویدو نے جوہری ہتھیاروں کو کم کرنے کے تاریخی معاہدے پر پراگ میں دستخط کئے ہیں۔
اس معاہدے کے مطابق سرد جنگ کے یہ دو حریف اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو پندرہ سو پچاس تک محدود کرنے کے پابند ہونگے۔ یہ تعداد اس وقت دونوں ممالک کے پاس موجود ہتھیاروں سے تیس فیصد کم ہے۔ معاہدے کے مطابق بھاری بمبار اور بیلِسٹک میزائل جیسے ’لانچروں‘ کی تعداد میں بھی کمی کی جائے، جو کہ اب سات سو سو سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ کے پاس دو ہزار جوہری ہتھیار ہیں جبکہ روس کے پاس یہ تعداد تین ہزار ہے۔ دنوں ممالک جوہری ہتھیاروں میں کمی کرنے کے متعلق کئی مہینوں سے مذاکرات کر رہے تھے۔ معاہدے کی اب امریکی سینیٹ اور روسی پارلیمان (ڈوما) سے منظوری لازمی ہے۔ یہ نیا معاہدہ جسے ’نیو سٹارٹ’ کہا جا رہا ہے، تخفیفِ اسلحہ کے 1991 کے معاہدے ’سٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی‘ (سٹارٹ) کا متبادل ہے۔ سٹارٹ کی مدت دسمبر میں پوری ہوگئی تھی۔
گزشتہ ماہ معاہدے کی منظوری کے وقت صدر اوباما نے کہا تھا کہ دو دہائیوں میں ہتھیاروں پر کنٹرول کا یہ سب سے جامع معاہدہ ہے۔انہوں نے وائٹ ہاو ¿س میں کہا تھا ’اس معاہدے سے امریکہ اور روس۔دنیا کی دو بڑی جوہری طاقتیں۔۔یہ واضح پیغام بھی دے رہی ہیں کہ ہمارا مقصد رہنمائی کرنا ہے۔‘امریکی اور روسی رہنماو ¿ں نے اس نئے معاہدے پر چیک صدر کی رہائش گاہ ’پراگ کاسٹل‘ کے شاندار پراگ ہال میں منعقد ایک تقرتب میں دستخط کیے۔ روس کے وزیر خارجہ سرجیئے لاو ¿روف نے کہا کہ معادہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے اعتماد کی ابتدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ماضی کی ’سٹارٹ ٹریٹی‘ سرد جنگ میں وجود میں آئی تھی اس میں بہت کچھ ایسا تھا جو روس کے حق میں نہیں تھا۔گزشتہ سال دونوں ممالک نے اپنے ہتھیاروں کو کم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن ان کی تصدیق پر اختلافات کی وجہ سے یہ معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔
امریکی صدر براک اوباما کی میزبانی میں واشنگٹن میں ایٹمی سلامتی سے متعلق ایک غیر معمولی کانفرنس ہو ئی ہے کانفرنس کا مقصد ان اقدامات کا جائزہ لینا تھاجن کے تحت ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے لئے استعمال ہونے والے مواد اور سازوسامان تک دہشتگردوں کی رسائی روکنے کو یقینی بنانا تھا۔ساتھ ہی کانفرنس کے موقع پر ہونے والی دیگر ملاقاتوں میں، جنہیں سائیڈ لائینز پر ہونے والی ملاقاتیں کہا جاتا ہے، صدر اباما نے ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام اور ایران کے خلاف ممکنہ نئی اقتصادی پابندیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔کانفرنس میں شرکت ہونے والے ممالک کو ایجنڈے سے متعلق جو مجوزہ مسودہ دیا گیا اس میں امریکہ نے تجویز پیش کی کہ دنیا میں موجود غیر محفوظ ایٹمی مواد کو چار برس میں محفوظ بنایا جائے۔ایک اور تجویز جو بحث کے لئے پیش کی گئی وہ یہ کہ امکانی طور پر غیرمحفوظ ممالک کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے ممالک میں موجود غیر محفوظ ایٹمی، دفاعی اور طبی تنصیبات سے ہر طرح کا تابکاری مواد عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کے تعاون سے محفوظ مقامات پر منتقل کروالیں۔اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔کانفرنس کا آخری روز ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے لئے تمام ممالک کی تجاویز پر بحث ہوگی۔پاکستان کی شرکت پر بھی دنیا بھرکی نظریں لگیں رہیں۔ پاکستان اور ہندوستان نے انیس سو ستر میں ہونے والے ایٹمی پھیلاو ¿ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے گو دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے بھی این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے
اور نہ ہی اس نے خود کو ایٹمی ملک ظاہر کیا ہے۔ لیکن اسرائیل کے پاس بھی ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ تینوں ممالک این پی ٹی پر دستخط کریں۔اس کانفرنس کے لئے ایران اور شمالی کوریا کو دعوت نہیں دی گئی۔ دونوں ممالک پر اقوام متحدہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں نافذ ہیں۔ ایران پر مغربی ممالک ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ شمالی کوریا نے دوہزار تین میں این پی ٹی سے الگ ہونے کے بعد دو مرتبہ ایٹمی دھماکے کئے ہیں گو وہ کہتا ہے کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ترک کردے گا۔امریکی دارالحکومت میں سفارتکار اور تجزیہ نگار اس کانفرنس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے رہے اور ان کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ اس نوعیت کی سب سے بڑی کانفرنس ہے۔ ایک تجزیہ نگار کے مطابق اس کانفرس کے اثرات سرکاری ایجنڈے سے کہیں زیادہ دور رس ثابت ہوں گے۔واشنگٹن میں سفارتی حلقے خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ چین کے صدر ہو جن تاو ¿ کی اس کانفرنس میں شرکت اوباما کی بڑی کامیابی ہے اور ان کی شرکت یہ بات واضع کرتی ہے کہ چین، تائیوان اور بعض دیگر معاملات پر امریکہ کے ساتھ تنازع کو بنیاد بنا کر دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہنا چاہتا اور عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔جو دیگر اہم رہنما شرکت کر رہے ہیں ان میں روس کے صدر میدودیف، فرانس کے صدر سارکوزی اور جرمنی کی چانسلر مرکل بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی امریکہ کے صدر باراک اوباما کی طرف سے جوہری تحفظ کے حوالے سے بلائی گئی عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے اتوار کو واشنگٹن پہنچے صدر اوباما اور وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات اتوار کی شام کو ہوئی جبکہ بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ پہلے ہی واشنگٹن پہنچ چکے تھے۔اسرائیلی وزیراعظم نے کانفرس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ان اطلاعات کے بعد کیا تھا کہ ترکی اور مصر اسرائیل کے جوہری پروگرام کا معاملہ اس کانفرنس میں اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اسرائیل مشرق وسطیٰ میں واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں تاہم اسرائیل اپنے جوہری پروگرام اور جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ابہام رکھنے کی پالیسی پر کار بند ہے۔ اسرائیل نہ تو ان کی موجودگی سے نہ انکار کرتا ہے اور نہ ہی اقرار کرتا ہے۔
امریکہ میں جوہری سلامتی کے بارے میں ہونے والے بین الاقوامی سربراہی اجلاس کے موقع پر امریکہ کے صدر براک اوباما نے ہندوستان کے وزیر اعظم من موہن سنگھ اور پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی ۔براک اوباما کے ساتھ ملاقات میں منموہن سنگھ نے کہا کہ ایٹمی حفاظت میں ہندوستان کا ریکارڈ صاف ہے اور تین چار دہائیوں سے اس نے اپنے ایٹمی مواد کو مکمل طور پر محفوظ رکھا ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ہندوستان میں ایٹمی مواد کی حفاظت سے متعلق بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔امریکی اہلکاروں نے بتایا ہے کہ ان ملاقاتوں کا مقصد بنیادی طور پر ان اقدامات پر غور کرنا ہے جن کے ذریعے دنیا میں ایٹمی دہشتگردی کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ہندوستانی سفارتخانے کے حکام کے مطابق صدر اوباما اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ایٹمی دہشتگردی کے خطرے سے متعلق خیالات یکساں ہیں اور ہندوستان نے اس سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ مل کر تمام ضروری اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر براک اوباما کے ساتھ ملاقات میں اپنے اس مو ¿قف کو دہرایا کہ پاکستان نے پچھلے چند برسوں میں وہ تمام اقدامات کیے ہیں جن سے ملک کے ایٹمی ہتھیاروں اور مواد کو مکمل طور پر محفوظ بنایا گیا ہے۔ امریکی صدر اور انتظامیہ پاکستان کے انتظامات سے مطمئن ہیں۔ تاہم پاکستان ایٹمی دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ صدر اوباما عالمی رہنماو ¿ں سے توقع کر رہے ہیں کے وہ ایک فریم ورک پر متفق ہوں جس کے ذریعے اگلے چار برس میں ایسے تمام ایٹمی مواد کو محفوظ بنایا جائے جس کا شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ ہو۔امریکہ چاہتا ہے کہ عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے میں بھی اصلاحات کی جائیں اور ایٹمی مواد کو محفوظ بنانے کے لیے اس کے کردار کو بڑھایا جائے۔خیال کیا جارہا ہے کہ کانفرنس کی توجہ کا مرکز تو ایٹمی مواد کو دہشتگردوں کی دسترس سے دور رکھنا ہی رہے گا لیکن دوطرفہ ملاقاتوں میں عالمی ایٹمی سیاست کے معاملات بھی زیر بحث آئے اور امریکی کوشش یہی رہی کہ روس، چین، ہندوستان وغیرہ کے رہنماو ¿ں کے ساتھ ملاقاتوں میں شمالی کوریہ اور ایران پر دباو ¿ میں اضافہ کرنے اور ان پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے ساتھ ہی بعض اسلامی ممالک دو طرفہ ملاقاتوں میں اسرائیل کی ایٹمی صلاحیتوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ان ممالک نے واضع کیا کہ دنیا کو ایٹمی دہشتگردی سے خطرے کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اسرائیل کی ایٹمی طاقت سے بھی شدید خطرہ ہے۔پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوکر ان ممالک کو موقع نہیں دینا چاہتے جو کانفرنس کی توجہ دیگر معاملات کی جانب سے موڑنا چاہتے ہیں۔امریکی صدر براک اوباما ایٹمی دہشتگردی کو ایک شدید خطرہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ تاہم دنیا کے کئی ممالک اس خطرے کو اتنا سنگین تصور نہیں کرتے۔امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار کہتے ہیں کہ امریکہ اس کانفرنس کی توجہ کا مرکز ایٹمی شدت پسندی کو ہی رکھے گا تاہم دیگر معاملات کو دوسرے فورموں میں اٹھایا جاسکتا ہے۔دو روزہ کانفرنس کے دوران ممالک نے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں اور گزشتہ کئی ماہ سے ممالک کے درمیان جاری بات چیت میں سامنے آنے والی سفارشات کو حتمی شکل دی گئی جائے گی امریکی صدر براک اوباما اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت میں وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ باقی امور کے علاوہ سول نیوکلیئر تعاون کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا، 'اور، ہمیں امید ہے کہ بہت جلد قوم کو اس ضمن میں اچھی خبر ملے گی پاکستان چاہتا ہے کہ اسے باقاعدہ عالمی نیوکلیئر کلب کا رکن تسلیم کیا جائے۔پاکستان بھارت تعلقات پر پوچھے گئے ایک سوال پر، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان باہمی مذاکرات کا کھلے دل سے حامی ہے۔ ان کے بقول، سیاستداں امن، نہ کہ جنگ کے حق میں ہوا کرتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ملاقات میں انھوں نے صدر اوباما کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے جو انھوں نے بخوشی قبول کر لی ہے۔اِس سے پیشتر ہونے والی ایک اخباری بریفنگ میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ملاقات میں سکیورٹی، توانائی اوراقتصادی تعاون پر بات چیت ہوئی ہے۔ بات چیت میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کا ذکر آیا، اور وزیر اعظم گیلانی نے بتایا کہ پاکستان کے پاس عالمی سطح کا حفاظتی معیار اور مکینزم موجود ہے، اور یہ کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہیں جاسکتے۔ یاد رہے کہ اِس ضمن میں ایک عرصے سے امریکی اخبارات میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے غلط ہاتھوں میںچلے جانے کے بارے میں پائے جانے والے سکیورٹی خدشات کی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں۔بعد میں سوالات کے جوابات کے دوران شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ دو روزہ اجلاس صرف پاکستان کے لیے نہیں بلایا گیاتھا، بلکہ اِس میں46سے زائد ممالک نے شرکت کی۔ ان کے بقول، 'کانفرنس سے پاکستان پر کوئی قدغن نہیں آئی ملاقات میں امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن اور ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے علاوہ دونوں ملکوں کے دیگر اعلیٰ افسر اور سفارت کار شریک ہوئے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بات چیت میں پاکستان کے قبائلی اورپاک افغان سرحدی علاقے میں ترقیاتی منصوبے جاری کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا، اور امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انھیں اِس بات کا بخوبی علم ہے کہ شدت اور انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ کے باعث پاکستان نے اقتصادی طور پر کتنا نقصان اٹھایا ہے۔انھوں نے بتایا کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے استحکام اور ترقی کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔ 'صدر اوباما نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ پاکستان نے مشکل معاشی فیصلے کیے ہیں جس کے باعث اس کی معیشت پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ ''امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان امریکہ تعلقات کو ایسی سطح پر لے جایا جائے گا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔'ملاقات میں، پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم گیلانی نے توانائی کے بحران کا معاملہ اٹھایا، اور طویل لوڈشیڈنگ سے ہونےوالی تکالیف کا حوالہ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ا،س موقعے پر سوات، ملاکنڈ اور قبائلی علاقے میں فوجی کارروائیوں کا ذکر ہوا 'اور، امریکی صدر نے پاکستانی عوام اور فوج کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں کامیابی پر شکریے کے کلمات ادا کیے، اور بتایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اِس معاملے میں انسانی اور معاشی لحاظ سے کتنی قیمت ادا کی گئی ہے۔اے پی ایس