گھیرائو،جلائو اور سول نافرنانی کی طرف بڑھتے عوام۔اے پی ایس



امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے مدد کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی منصوبہ تیار کیا ہے البتہ اگر دونوں ممالک باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں تو امریکہ ان دونوں کی مدد و حمایت جاری رکھے گا اور مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرے گا ان خیالات کا اظہار امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان فلپ جے کرولی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا کرولی کاکہنا تھا کہ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ واشنگٹن کانفرنس میں صدر اوبامہ سے ملاقات کے دوران دونوں رہنماوں نے ایک دوسرے کو دیکھنے سے گریز کیا تھا۔ پی جے کرولی نے مزید کہا کہ واشنگٹن اس وقت دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی میں کردار ادا کرنے کاکوئی بھی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس لیے اگر دونوں ممالک خود مذاکرات کی بحالی کے لیے کوشش کرتے ہیں تو امریکہ کی جانب سے حمایت اور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ امریکی نژاد پاکستانی ڈیوڈ کولمن ہیڈلی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کرولی کاکہنا تھا کہ یقینا امریکہ نے بھارت کو اپنی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن اس معاملے میں صدر اوبامہ اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے مابین کیا معاملات طے پائے ہیں اس بارے میں میں نہیں جانتا۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ ایٹمی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کوضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔پاکستان کو سول ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے دوہرا معیار نہیں ہونا چاہے۔ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر عمل پیرا ہیں پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بہترین ہے۔پاک بھارت مذاکرات خطے میں امن کیلئے ضروری ہیں،دونوں ممالک کو تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔اسامہ بن لادن پاکستان میں نہیں وہ کہاں ہے اس بارے میں بھی کوئی علم نہیں۔طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جنگجو صرف جنگجو ہوتے ہیں جو نظام کوغیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔واشنگٹن میں جاری دو روزہ جوہری سلامتی سربراہی کانفرنس کے پہلے روزوزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی خطاب کیا اوراس اہم ایشو پر عالمی کانفرنس منعقد کرنے پرامریکی صدرباراک اوباما کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے قبل امریکی صدر باراک اوباما، فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی جاپانی وزیر اعظم یوکیو ہاتو یاما نے بھی خطاب کیا۔ یوکرائن نے افزودہ یورینیم تلف کرنے اور کینیڈا نے استعمال شدہ ایٹمی ایندھن امریکا کو واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکی صدر نے ان اقدامات کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کا کہنا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوں گے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ امریکا سول نیوکلیئرٹیکنالوجی کے معاملے میں امتیازی سلوک نہ برتے اور پاکستان کو سول ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ35سال سے کامیاب نیوکلیئر پاور آپریشن کررہے ہیں اوراعلیٰ تربیت یافتہ افرادکی موجودگی میں پاکستان ہرلحاظ سے عالمی سول نیوکلیئرتعاون میں شرکت کا اہل ہے،اس لیے پاکستان کو عالمی سول نیوکلیئرتعاون میں شریک کیا جائے اس حوالے دوہرا معیار نہیں ہونا چاہے۔ وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت ایٹمی سلامتی کو یقینی بنائے گی۔ انہوں نے جوہری مواد کے غیرقانونی کاروبار کو روکنے کے عالمی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت پر زوردیا اورکہا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے مکمل طور پرمحفوظ ہیں۔پاکستان اس حوالے سے سلامتی کونسل کوباقاعدگی سے آگاہ بھی کرتا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا پاکستان ذمہ دارایٹمی ملک ہے، اور اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر عمل پیرا ہیں پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بہترین ہے۔وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کوتمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے جبکہ پاکستان ایٹمی معاملے میں اعتماد سازی کے لیے بھارت کے ساتھ کام کرچکا ہے، دریں اثنا ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں نہیں وہ کہاں ہے اس بارے میں بھی کوئی علم نہیں اورنہ ہی یہ جانتے کہ وہ زندہ ہے یامرچکا۔ پاک فوج نے سوات اور قبائلی علاقوں میں کامیاب کارروائیاں کی ہیں۔ اگر پاکستان کو کوئی ٹھوس معلومات ملی تو اس کو امریکا کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ ایک سوال پران کا کہنا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جنگجو صرف جنگجو ہوتے ہیں جو نظام کوغیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا پاکستانی عوام مٹھی بھرمتعصب انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دنیا پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو سمجھے اور تعاون کرے ، کیر ی لوگر بل کی امداد پاکستانی اداروں کے ذریعے دی جائے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ منگل کو امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کی دعوت پر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے قائد کے اعزاز میں شاندار ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ امریکی سفیر کی دعوت پر میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف ‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان ‘ سینٹ میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر اسحاق ڈار ‘ پاکستان مسلم لیگ کے سینئر راہنما مخدوم جاوید ہاشمی اور پارٹی ترجمان احسن اقبال کے ہمراہ امریکی سفارتخانے کا دورہ کیا ۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اور امریکی سفیر ڈین ڈبلیو پیٹرسن کے درمیان ملاقات میں مختلف امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ پاک امریکہ تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر بھی گفتگو ہوئی ۔ امریک سفیر نے سوات مالا کنڈ کے آپریشن کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کی جانب سے بھرپور حمایت پر اس ضمن میں نواز شریف کے کردار کی تعریف کی ۔ امریکی سفیر نے 18 ویں ترمیم کے حوالے سے بھی پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے کردار کی تعریف کی ۔ امریکہ نے اس توقع کا اظہار کیا ہے ۔ پاکستان کے ایکٹ میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی بالادستی ہو گی ۔ جمہوریت مضبوط ہو گی ۔ ملاقات میں عوامی سطح پر رابطوں کے فروغ پر اتفاق کیا گیا ۔جبکہ سینٹ میں پاکستان مسلم لیگ(ق) کی پارلیمانی پارٹی صوبہ سرحد کے لیے ہزارہ پختونخوا نام کا مطالبہ کردیا ۔ حکومت سے فوری طور پر نام کی تبدیلی سے متعلق شق پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ق) کی پارلیمانی پارٹی کااجلاس پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاو ¿س میں منعقد ہوا ۔ خیبرپختونخوا کے حوالے سے ہزارہ میں پھوٹنے والے فسادات کے نتیجہ میںپیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ(ق) صوبہ سرحد کے صدر امیر مقام نے خصوصی دعوت پر شرکت کی ۔ اجلاس کے بعد میڈیا کے استفسار پر سینیٹر طارق عظیم نے کہاکہ ہم نے ہزارہ کے وسیع تر مفاد میں ہزارہ پختونخواکا نام تجویز کیا ہے۔جبکہ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے ہزارہ کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر وتحمل اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں معاملات کوتشدد کے بجائے افہام وتفہیم سے حل کیا جائے۔ ہزارہ کے عوام کا احتجاج ریکارڈ ہوگیا ہے۔ تشدد سے گریز کیا جائے مہتاب خان عباسی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہزارہ کے لوگوں کے تحفظات کو فوری دورکریں۔ وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے گزشتہ روز تشدد واقعہ میں انسانی جانوں کے ضیاں پر انتہائی دکھ وافسوس کا اظہار کیا ۔منگل کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں راجہ محمد فاروق حیدر خان نے ہزارہ میں مقیم کشمیری مہاجرین جموں وکشمیر خصوصاً ہزارہ کے تمام عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر وتحمل اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں۔تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ہزارہ کے عوام کا احتجاج ریکارڈ ہوگیا ہے اب اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعہ ہی حل کیاجانا چاہیے۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز پیش آنے والے پر تشددواقعات جس میں متعدد افراد زخمی اور ہلاک ہوگئے ۔واقعہ پر سخت افسوس ودکھ کا اظہار کیااور کہا کہ ہزارہ کے لوگوں نے خون کا نذرانہ بھی پیش کر دیا ہے ۔راجہ فاروق حیدر خان نے سابق وزیراعلیٰ سرحد سردار مہتاب احمد خان عباسی سے ٹیلیفون پر بات کی اور ا ±ن سے بھی اپیل کی کہ ہزارہ کی صورت حال کا فوری حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ اور تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہزارہ کے لوگوں کے تحفظات دور کریں۔جبکہ ایبٹ آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ مشتعل افراد نے اسلحے کی دو دکانیں لوٹ لیں ہیں اور مسلم لیگ نواز کے دو دفاتر کو آگ لگا دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ہزارہ ڈویژن میں گزشتہ پیر کو کئی شہروں میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ اس پرتشدد مظاہروں میں کم سے کم پانچ افراد افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ گزشتہ پیر کو ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف تین اضلاع میں سوگ منایا جارہا ہے جبکہ کئی شہروں میں خیبر پختونخواہ کے خلاف احتجاج اور شڑڈاو ¿ن ہڑتال کی گئی ہے۔ اس ہڑتال کی وجہ سے تمام سڑکیں، بازار ، تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر بند ہیں۔ایبٹ آباد کے ضلعی رابطہ افسر اقبال خان نے بتایا ہے کہ مظاہرین نے دو اسلحے کی دکانوں کے تالے توڑ کر لوٹ لیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی اہلکار سرکاری دفاتر کی سکیورٹی کے لیے تعینات ہیں۔ پیر کو ہزارہ کے ڈویژنل ہیڈکوارٹر ایبٹ آباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپوں اور ہلاکتوں کے خلاف تحریک صوبہ ہزارہ ایکشن کمیٹی کی طرف سے تین اضلاع میں سوگ منایا گیاہے۔ تحریک صوبہ ہزارہ ایکشن کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک ہزارہ کو صوبہ بنانے کا اعلان نہیں کیا جاتا اس وقت تک پرامن احتجاج جاری رہے گا۔ ابھی تک ان کے ساتھ کسی بھی حکومتی اہلکار کی طرف سے کوئی رابط نہیں کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اٹھارویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ تجویز کیا گیا ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے اور اب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ایبٹ آباد شہر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور شہرکے مختلف علاقوں میں مظاہرین بدستور سڑکوں پر موجود ہیں اور ٹائر جلا کر تمام شاہراہیں بند کردیں ہیں۔ احتجاج کی وجہ سے علاقے میں کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے جبکہ تمام بازار، تجارتی مراکز، سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہورہا کہ مظاہرین کی قیادت کون کررہا ہے لیکن شہر کے ہر مقام سے لوگ اس احتجاج میں شامل ہورہے ہیں۔ کل کے ہلاکتوں کے واقعہ کے بعد یہ احتجاج ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور اس میں مزید شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ادھر ہزارہ کے اضلاع مانسہرہ اور ہری پور میں بھی ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف سوگ اور شٹرڈاو ¿ن ہڑتال کی گئی ہے۔ مظاہرین نے سڑکوں پر روکاوٹیں کھڑی کرکے احتجاج کررہے ہیں۔خیال رہے کہ کل ایبٹ آباد میں صوبہ کے نام کی تبدیلی کے خلاف جاری احتجاج میں پولیس اور مظاہرین کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں کم سے کم پانچ افراد ہلاک اور سو سے زآئد زخمی ہوئے تھے۔خیبرپختونخوا کے حوالے سے ہزارہ ڈویڑن کے تحفظات کے تناظر میں ملک کی پارلیمانی جماعتوں کے درمیان کسی نئے نام پر اتفاق رائے کی صورت میں ا س کے لیے 19 ویں ترمیم تیار کی جائے گی ۔ 18 ویں ترمیم کو بغیر کسی ردوبدل کے منظور کیا جائے گا۔ ہزارہ ڈویژن میں پرتشدد واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں نے حالات میں بہتری کے لیے مختلف تجاویز پر غورشروع کردیا ہے ۔ بعض جماعتیں صوبہ ہزارہ کی تحریک کی حمایت کرنے کا جائزہ لے رہی ہیں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے حلقوں میں ہزارہ پختونخوا کی تجویز زیر گردش ہے ۔ خیبر پختونخوا پر نظر ثانی کے لیے قومی مفاہمت کی صورت میں نئی تجویز پر 19 ویں ترمیم کے ذریعے ہی عمل کیا جائے گا۔ پارلیمانی جماعتوں کے بعض سرکردہ رہنماو ¿ں کے مطابق 18 ویں ترمیم کو سینٹ سے بھی من وعن منظور کرایا جائے گا ۔ صدر مملکت کی جانب سے ترمیم کی توثیق کے بعد ترمیم کے نفاذ کے بعد ہی کسی اور ترمیم پر بات چیت ہو سکے گی ۔ اور تجویز پر19 ویں ترمیم کے ذریعے عملدرآمد ہی ممکن ہو گا۔ جبکہ راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے پلیٹ فارم سے شہر وچھاو ¿نی کی 250 کے قریب مرکزی و مقامی تاجر تنظیموں نے بجلی اور گیس کی غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے تمام صنعت کار ، برآمد و درآمد کندگان ، ہول سیلرز اور پرچون فروش مشترکہ احتجاجی ریلیاں اور جلوس نکالیں گے ۔ جس کے بعد مرکزی وصوبائی تنظیموں اور تمام چیمبر کے اشتراک سے غیر معینہ مدت تک شٹر ڈاو ¿ن ہڑتال کی جائے گی ۔ اس امر کا اعلان راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر کاشف شبیر نے گزشتہ منگل کے روز چیمبر میں ایگزیکٹو کمیٹی اور تاجر تنظیموں کے نمائندہ مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔ اس موقع پر ٹیکسٹائل ، پولٹری ، فارماسیوٹیکل ، مل مالکان ، فرنیچر، جیولرز ، ماربل تنظیموں کے عہدیداران کے علاوہ دیگر تاجر تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ کاشف شبیر نے ملک میں جاری لوڈ شیڈنگ کو حکومت کی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت 19 ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداواری استعداد موجود ہے جبکہ پاکستان میں بجلی کی کل ڈیمانڈ 15 ہزار میگا واٹ ہے ۔ اس کے باوجود حکومت رینٹل پاور پراجیکٹس پر زور دے کر ملک میں بجلی کو عام آدمی کی پہنچ سے دو رکرنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی صورت میں گندم اور آٹے کے علاوہ ہر قسم کی اشیاءاور سروسز پر15 فیصد ہے ۔ مجو ز و ٹیکس کومہنگائی بم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک میں توانائی ، تجارتی ،زرعی اور معاشی پالیسی وضع کرنے میں ناکام ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت مجموعی خسارہ 107 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔ ایکسپورٹ کی مد میں سالانہ 70 بلین روپے اور جی ڈی پی کی مد میں سالانہ 219 بلین روپے خسارے کا سامنا ہے ملک میں اس وقت بے روزگاری کی تعداد 4 لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت بجلی کا کوئی بحران نہیں بجلی کے مصنوعی بحران کے ذریعے مفاد پرست حکمران اور پالیسی ساز ملکی مفادات اور قومی ضروریات کو داو پر لگا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ مئی کے مہینے میں ملک میں سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ کا اعلان بھی ملکی انڈسٹری کو تباہ کرنے کی سازش ہے حکومت آر پی پیز کو گیس کی سپلائی دینے کے لیے صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کی جا رہی ہے اسی طرح نیٹو فورسز کو پٹرول 40 روپے لٹر دے کر اپنی عوام کو وہی پٹرول 80 روپے لٹردیا جا رہاہے انہوںنے کہا کہ اگر حالات یہی رہے اور حکومت نے ا پنی پالیسیوںپر فوری نظر ثانی نہ کی تو ملک میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہو سکتی ہے۔اے پی ایس