جوہری عدم پھیلاو اور نیوکلیئر صلاحیت کا پر امن استعمال۔چودھری احسن پریمی


نیوکلیئر سکیورٹی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں موثر بین الاقوامی تعاون پر زور دیا گیا ہے جِس کی مدد سے تخفیفِ اسلحہ، جوہری عدم پھیلاو اور نیوکلیئر صلاحیت کے پر امن استعمال کو یقینی بنایا جاسکے، تاکہ جوہری سکیورٹی کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔ اِس اہم دستاویز میں کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر دہشت گردی بین الاقوامی سلامتی کے لیے سنگین چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مو ¿ثر جوہری سکیورٹی کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصراور دیگر غیر ریاستی عناصر جوہری مواد تک رسائی نہ حاصل کر سکیں۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دو روزہ بین الاقوامی سربراہی اجلاس کے شرکا اِس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جوہری سکیورٹی کے ہدف کو حاصل کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ اِس لیے تمام شرکا اِس کا عزم کرتے ہیں کہ مل کر جوہری سکیورٹی کے استحکام اور جوہری دہشت گردی کے خطرے سے نبر آزما ہونے کے لیے مو ¿ثر اقدام کریں گے۔دستاویز کے الفاظ میں، ‘اِس ضمن میں کامیابی کے حصول کا دارومدار ذمہ دارانہ قومی اقدامات اور مستقل اور مو ¿ثر بین الاقوامی تعاون پر منحصر ہے۔’دستاویز میں صدر اوباما کی طرف سے چار برس کے اندر اندر خطرے سے دوچار جوہری مواد کو محفوظ بنانے کے مطالبے کا خیر مقدم کیا گیا ہے، ‘اور ہم اِس میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں، اور یہ کہ ہم نیوکلیئر سلامتی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کریں گے۔’اعلامیے میں اِس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت، یہ ہر ملک کے بنیادی فرائض کا حصہ ہے کہ تمام جوہری مواد کی مو ¿ثر سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔دستاویز میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے تعاون کے جذبے کے تحت کام کرتے ہوئے جوہری سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے درخواست کی ، اور مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر سکیورٹی کے حصول کے لیے لازم ہے کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں،اور ضوابط و قوائد کی پابندی کی جائے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جوہری سکیورٹی کا اگلا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں سال 2012میں منعقد ہوگا۔واشنگٹن میں بین الاقوامی جوہری سکیورٹی کا سربراہی اجلاس اپریل کی 11اور 12تاریخ کو ہوا جس میں 47ممالک نے شرکت کی، جن میں دیگر ملکوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے سربراہانِ مملکت بھی شامل تھے۔یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب روس کے صدر دمتری مدیدیو نے اعلان کیا ہے کہ ا ±ن کی حکومت اپنی آخری پلوٹونیم فیکٹری کو بند کردےگی، جو ا ±ن عالمی کوششوں میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جِن کا مقصد ایسے مواد کے پھیلاو ¿ کو محدود کرنا ہے جو نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اعلامیے میں شریک ملکوں کو 12ذمہ داریاں پوری کرنے کو کہا گیا ہے جن میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے اندر نیوکلیئر مواد کا مو ¿ثر تحفظ جاری رکھیں گے۔اعلامیے میں اقوام سے ایک مخصوص ورک پلان پر بھی عمل درآمد کے لیے کہا گیا ہے جس میں شریک ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہوں جن کا مقصد نیوکلیئر مواد کے تبادلے کو محدود کرنا اور ملکوں کو ا?ِس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ نیوکلیئر سکیورٹی کے اقدامات کے لیے تحرک میں آئیں۔دستاویز کے مطابق، شریک ممالک اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ غیر سرکاری گروہوں کو اس بات سے دور رکھا جائے گا کہ وہ ایسی معلومات اور ٹیکنالوجی حاصل نہ کریں جس کی مدد سے وہ اپنے مزموم مقاصد کے لیے ایسے مواد کا استعمال کر سکیں۔ جبکہ امریکی صدر براک اوباما نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محفوظ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ کچھ برسوں میں جو اقدامات کئے ہیں ان کی وجہ سے ہمیں اعتماد ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں۔اوباما دنیا میں ایٹمی دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے واشنگٹن میں سینتالیس ممالک کے جوہری سلامتی کے موضوع پر ہونے والے سربراہی اجلاس کے آخری روز مشترکہ اعلامیہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے پاکستان سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔امریکی صدر نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ پاکستان الگ اصولوں پر کارفرما ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ بالکل واضع رہے ہیں جیسے ہم دوسرے ملکوں کو بھی کہ رہے ہیں کہ وہ جوہری عدم پھیلاو ¿ کے معاہدے این پی ٹی میں شامل ہوں وہ انہوں نے کچھ عرصے میں پاکستان میں ایٹمی سلامتی کے معاملے میں پیشرفت دیکھی ہے۔ وہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پورے جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی دیکھنا چاہتا ہیں۔’میرے خیال میں وزیراعظم گیلانی کا یہاں آنا اور مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنا ایک مثبت قدم ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان سے ایٹمی پھیلاو ¿ کے اقدامات ہوں گے۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی بہت کام کرنا ہے۔یہ اجلاس میرے اس ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنا ہے۔ میری خواہش ہے کہ دنیا کے تمام ممالک، بشمول اسرائیل، جوہری عدم پھیلاو کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کریں۔صدر اوباما نے مزید کہا کہ ان کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور تنصیبات کی حفاظت کے انتظامات پر پورا اعتماد ہے تاہم بعض واقعات ہوسکتے ہیں لیکن ایسے واقعات امریکہ سمیت پوری دنیا میں ہو چکے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ہی یہی ہے کہ تمام ممالک سلامتی کے بھرپور اقدامات کریں۔اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اگلے چار برس کے دوران تمام ایسے ایٹمی ایندھن کو محفوظ بنانے کے لئے مو ¿ثر اقدامات کئے جائیں گے جو دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔صدر اوباما نے بتایا کے اس اجلاس کے نتیجے میں کینیڈا اپنے پاس یورینیم کا بڑا حصہ تلف کرنے پر رضامند ہوگیا ہے، چلی اپنے تمام ذخائر ختم کر رہا ہے، یوکرین اور میکسیکو نے بھی ایسا ہی کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسرے ممالک جیسا کہ ارجنٹینا اور پاکستان نے ایٹمی سمگلنگ کو روکنے کے لئے بندرگاہوں کی حفاظت کے لئے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ کئی دیگر ممالک نے عالمی معاہدوں کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری ایٹمی سلامتی کے لئے مل کر مشترکہ اقدامات کرے گی، قوانین بنائے گی اور ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرے گی۔ایران کو دنیا کے تمام مالک کی طرح غیر عسکری اور توانائی کے حصول کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ مسلسل اپنی عالمی ذمہ داریوں کو فراموش کر رہا ہے۔اجلاس اقوام متحدہ اور ایٹمی نگرانی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کو مظبوط اور موثر بنانے پر بھی اتفاق کیا اور متعدد ممالک نے اس سلسلے میں پیسے فراہم کرنے کے وعدے کئے۔ایران کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں صدر اوباما نے کہا کہ ایران کو دنیا کے تمام مالک کی طرح غیر عسکری اور توانائی کے حصول کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ مسلسل اپنی عالمی ذمہ داریوں کو فراموش کر رہا ہے اس لئے اس کے نتائج ہوں گے۔کانفرنس کے دوران صدر اباما نے ایران کے خلاف مزید اقتصادی پابندیوں کے لئے چین کو رضامند کرنے کی کوشش کی لیکن چین کے صدر ہو جن تاو ¿ نے جہاں ایٹمی سلامتی کے معاملے پر اوباما کی حمایت کی، ایران کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ مزید پابندیوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اس سے قبل روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت روس ڈھائی ارب ڈالر کے خرچے سے اپنے افزودہ پلوٹونیم کے کچھ حصے کو تلف کرے گا۔ اس لاگت میں سے چار سو ملین ڈالر کی رقم امریکہ فراہم کرے گا۔روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے ملک کے پاس چونتیس ٹن پلوٹونیم ہے جس کی انہیں ضرورت نہیں۔صدر اوباما نے اجلاس کے دوسرے دن کی کارروائی کے آغاز پر مندوبین سے کہا کہ وہ ایٹمی مواد غلط ہاتھوں میں چلے جانے کے خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ممالک کی جانب سے ایٹم بم استعمال کرنے کا خطرہ بتدریج کم ہوگیا ہے لیکن یہ ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ انتہائی بڑھ گیا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ صرف ایک سیب کے مساوی تابکاری مادے سے بھی ہزاروں لوگ ہلاک کئے جاسکتے ہیں۔امریکی صدر نے کہا کہ القاعدہ اور اس جیسے دیگر دہشتگرد گروہ تابکاری مادے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر وہ ان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ان کو استعمال کریں گے۔جوہری سلامتی کا اگلا سربراہی اجلاس دوہزار بارہ میں جنوبی کوریا میں منعقد کیا جائے گا۔ سینتالیس ممالک کی واشنگٹن میں ہونے والی یہ کانفرنس امریکہ کی جانب سے انیس سو پینتالیس کے بعد منعقد کی جانے والی سب سے بڑی کانفرنس تھی۔ ایران، شمالی کوریا اور شام کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس اختتام ہفتہ جوہری سلامتی کا سربراہی اجلاس منعقد کر رہا ہے جس میں پندہ ممالک شرکت کر رہے ہیں۔اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا میں سولہ ہزار ٹن ایٹمی ایندھن موجود ہے جو کہ تقریباً تمام ان ممالک کے پاس ہے جو خود کو ایٹمی طاقتیں ظاہر کر چکے ہیں اور اس ایندھن کے سب سے زیادہ ذخائر روس میں موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان نے جوہری سلامتی کے حوالے سے عالمی برادری کے خدشات پر دنیا کو اعتماد میں لیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی طرح کے مس ایڈونچر سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے تمام ممکنہ انتظامات کرلیے ہیں۔ یہ یقین دہانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے امریکی صدر بارک اوباما کی میزبانی میں ہونے والے جوہری سلامتی اجلاس کے موقع پر شرکاءکو کرائی۔ وزیراعظم گیلانی نے دہشت گردوں کی جانب سے خطرناک ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کو حقیقی خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خطرہ حقیقی ہے اور اس کی عالمی جہت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کیلئے اضافی اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم گیلانی ان 8 سربراہان میں سے ایک تھے، جنہیں امریکی صدر بارک اوباما نے جوہری سلامتی کے متعلق کانفرنس میں خطاب کی دعوت دی۔ وزیراعظم نے کہا، پاکستان میں منتخب جمہوری حکومت اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کیلئے پرعزم ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب تک جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، ان میں براہِ راست استعمال کے قابل جوہری مواد کی منتقلی کے واقعات انتہائی کم رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سلامتی کے ایشوز کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ ہمیں قومی سطح پر ٹھوس اور سخت اقدامات کرنا ہوں گے اور اس کیلئے وسیع عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی ٹریفکنگ کو روکا جا سکے۔ وزیراعظم نے کہا جوہری طاقت سے لیس ریاست کی حیثیت سے پاکستان اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کو انتہائی اہمیت کا حامل معاملہ سمجھتا ہے اور اس مقصد کیلئے پاکستان نے حفاظتی اقدامات کے طور پر کئی سطحوں پر مشتمل میکنزم بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی کا انحصار قومی اقدامات میں چھپا ہے۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے انتظامات اور دیکھ بھال تین سطحی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ موجودہ جمہوری حکومت نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے نیشنل کمانڈ اتھارٹی آرڈیننس منظور کیا ہے جبکہ قومی سلامتی کے متعلق پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو اس سسٹم کی پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کی نگرانی کرتی ہے۔ پاکستان کے نیوکلیئر سیکورٹی ایکشن پلان (این ایس اے پی) پر عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے تعاون سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف حکومتوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور اس سلسلے میں اپنے اقدامات سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1540 کی کمیٹی کو آگاہ رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ کنونشنز اور آئی اے ای اے کے ضابطہ اخلاق پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے مزید کہا کہ ہم خطے میں استحکام لانے کیلئے کام کر رہے ہیں، ہمارا مقصد جوہری سلامتی میں اضافہ اور جوہری خطرات کو کم کرنا ہے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک ریسٹرینٹ رجیم (ایس آر آر) خطے کو محفوظ اور مستحکم بنانے میں آگے تک جائے گی جوہری اعتماد سازی کے اقدامات کے حوالے سے پاکستان نے متعدد مرتبہ بھارت کے ساتھ مل کرکام کیا ہے اور یہ کوشش جاری رہنی چاہئے۔ دونوں پڑوسی ممالک کو تمام ایشوز کو زیر بحث لانے کیلئے پہلے سے زیادہ کوشش کرنا ہوگی۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ اپنی سماجی و معاشی ترقی کی خاطر پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نیشنل انرجی سیکورٹی کی حکمت عملی کیلئے سویلین نیوکلیئر پاور جنریشن انتہائی ضروری ہے ، ہمیں نیوکلیئر پاور پلانٹس چلانے کا 35 برس کا تجربہ ہے وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر سویلین جوہری تعاون کیلئے پاکستان اہلیت کا حامل ملک ہے۔ ہم تمام بین الاقوامی فورمز سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں، کسی طرح کے امتیاز کے بغیر، پر امن مقاصد کیلئے سویلین جوہری ٹیکنالوجی دی جائے۔ جبکہ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ انہیں توقع نہیں کہ ایران کم سے کم ایک سال سے پہلے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔گیٹس نے گزشتہ دنوںجنوبی افریقہ کے لیے ایک پرواز کے دوران نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔انہوں نے ایران کے جوہری امور کے ایک سینئر عہدے دار کے اس اعلان کے جواب میں یہ بات کہی کہ ملک پر ممکنہ حملوں کی روک تھام کرنے کے لیے، ایران ایک ماہ کے اندر اندر ‘ عالمی جوہری کلب ’ میں شامل ہوجائے گا۔ایران کی خبر رساں ایجنسی فارس نے ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے نائب سربراہ کے حوالے سے کہا ہے کہ جب ایران جوہری کلب میں شامل ہوجائے گا تو ‘ کوئی ملک ا ±س پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔’فارس نے عہدے دار بہزاد سلطانی کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ایران‘توانائی اور ایندھن پیدا کرنے سے مختلف مقاصد کے لیے’ جوہری ٹیکنالوجی کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ایجنسی کی رپورٹ میں سلطانی نے مثال کے طور پر اشیائے خوردونوش کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کیا ہے۔ انہوں مزید وضاحت نہیں کی۔گیٹس نے کہا ہے کہ ا ±ن کی نظر سے گزرنے والے بیشتر اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ ایران کم سے کم ایک سال تک اور ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کرپائے گا۔ جبکہ واشنگٹن کانفرنس میں ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنانے، اس کو دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے، اس کی چوری یا غیر قانونی ایکسپورٹ کی باتیں ہورہی ہیں جبکہ امریکا نے بھارت کے ساتھ سول جوہری تعاون کرنے کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے مگر امر واقع یہ ہے کہ بھارت میں جوہری ہتھیار، جوہری تنصیبات، جوہری آلات اور جوہری سائنسدان محفوظ نہیں۔ بھارت میں کم از کم 5 ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا جوہری پروگرام کس قدر غیر محفوظ ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایک ایٹمی انجینئر پانچ روز تک غائب رہا اور پھر اس کی لاش ایک دریا میں تیرتی ملی۔دوسرے واقعے میں بھارت کے بھابھا ایٹمی سینٹر میں آگ لگ گئی، اس کے نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا جبکہ تیسرے واقعے میں ایٹمی ری ایکٹر میں کام کرنے والے شخص نے تابکاری دھات کو پینے کے پانی کی ٹنکی میں ملا دیا جس سے سائنسدان اور ورکرز بیمار پڑ گئے۔ چوتھے اس نے کوبالٹ دھات کو غیر ذمہ داری کے ساتھ مارکیٹ میں بیچ دیا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں تابکاری اثرات کے حامل لفٹ بٹن، خواتین کے پرس کے بکل اور بٹن عام طور پر فروخت ہوتے رہے۔ پانچویں شمال مشرقی بھارت میں شعاع کا حامل کیمرہ گم ہوگیا اور تاحال دستیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اس لیے پاکستان کو ایٹمی تحفظ کانفرنس میں ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔اے پی ایس