جمہوریت،حاکمیت،مساوات۔ چودھری احسن پریمی


وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری قمر زمان کائرہ آف لا لہ موسی نے کہا ہے کہ نئے صوبوں کے مطالبے پر آئینی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا، 18 ویں ترمیم کی متفقہ منظوری سے آئین کی خرابیاں دور کی گئی ہیں، اتفاق رائے کی صورت میں 19 ویں ترمیم آ سکتی ہے، شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے لائیں گے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔گزشتہ جمعرات کو پارلیمنٹ ہاوس کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت نے 18 ویں ترمیم کی متفقہ منظوری سے آئین کی خرابیاں دور کی ہیں۔ صدر مملکت نے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر کے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم کیا ہے۔ نئے صوبوں کے مطالبہ پر آئینی طریقہ کار اختیار کیا جائے تو یہ ملک و قوم کیلئے بہتر ہو گا،ہزارہ کے عوام کے صوبہ کے نام سے متعلق اختلافات ہیں۔ہزارہ کے عوام کے تحفظات باہمی اتفاق رائے سے دور کئے جائیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو قتل پر اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے لائیں گے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کریں گے، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو عوام کی مقبول لیڈر تھیں اور پاکستانی قوم اقوام متحدہ کی رپورٹ کا انتظار کر رہی ہے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ امید ہے کہ کمیشن نے سعودی عرب، افغانستان اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں سے معلومات حاصل کر لی ہوں گی کیونکہ انہوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو متنبہ کیا تھا کہ پاکستان جانے کی صورت میں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق نئے صوبے بننے چاہئیں، آئین میں ایک طریقہ کار وضع ہے اور جو بھی فیصلہ تمام فریقوں کے اتفاق رائے سے ہو گا حکومت اسے قبول کرے گی، مختلف تنظیموں کی خواہشات پر فیصلے نہیں کئے جا سکے۔سینٹ نے متفقہ طورپر آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری دے دی ہے اٹھارہویں ترمیم 102شقوں پر مشتمل ہے ترمیم کی حمایت میں100کے ایوان میں 90ووٹ پڑے ۔ اٹھارہویں ترمیم اب دستخط کیلئے صدر آصف علی زرداری کو بھجوائی جائے گی صدر کی جانب سے ترمیم کی توثیق کے بعد یہ 1973ءکے آئین کا حصہ بن جائے گی ۔ گزشتہ روز ایوان میں پہلے مرحلے میں چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے اٹھارہویں ترمیم کی شقوار منظوری حاصل کی۔ بعد ازاں ڈویژن کی بنیاد پر 18ویں ترمیم پر رائے شماری کرائی گئی ۔ رائے شماری کیلئے باہر موجود ارکان کی ایوان میں آمد کیلئے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائیں گئیں ڈویژن کی بنیاد پر رائے شماری کرائی گئی ۔ چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے نتیجہ کا اعلان کیا 90 اراکین سینٹ نے 18ویں ترمیم کی حمایت میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا ۔ متفقہ طور پر 18ویں ترمیم کی منظوری کا اعلان کیا گیا تو اراکین نے انتہائی پرجوش انداز میں ڈیسک بجائے 18ویں ترمیم کی منظوری کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے مرحلہ مکمل ہو گیا ہے ۔ صدر مملکت کی جانب سے 18ویں ترمیم پر دستخط کے نتیجے میں ملک میں تیسری بار وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے کی پابندی ختم ہو جائے گی ۔ 58-2/B،17ویں ترمیم منسوخ ہو جائے گی صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا ہو گا ۔ وزیراعظم کو فوج میں اعلیٰ تقرریوں کا اختیار حاصل ہو جائے گا کنکرنٹ لسٹ منسوخ ہو جائے گی اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریوں کیلئے جوڈیشل اور پارلیمانی کمیشن قائم ہوں گے ۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007ءکو جاری کئے گئے پی سی او اور ایمر جنسی کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی شرط کے بارے میں شق کو آئین سے حذف کر دیا جائے ۔ جنرل ضیاء الحق کا نام آئین سے حذف ہو جائے گا صوبوں کو خدمات پر سیلز ٹیکس وصول کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا وفاقی کابینہ کا حکم اراکین پارلیمنٹ کے گیارہ فیصد تناسب کے مطابق ہو گا ۔ سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ایام کار میں اضافہ کر دیا گیا ہے صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر ڈپٹی سپیکرز ہی قائم مقام گورنر بن سکیں گے ایمر جنسی کے نفاذ کیلئے صوبائی اسمبلیوں سے قرار دادوں کی منظوری آئینی تقاضا ہو گا چیف الیکشن کمشنر کا تقرر قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہو گا بندرگاہوں پر وفاق صوبوں کا مشترکہ کنٹرول ہو گا صوبائی خود مختاری کے تحت پچاس سے زائد محکمے صوبوں کے سپرد ہو جائیں گے عام انتخابات کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں ، وزیراعظم ، وزیراعلیٰ ، سپیکرز کے انتخابات کا ٹائم فریم مقرر کر دیا گیا ہے وزیراعظم کی مشاورت سے ہی گورنرز کی تقرری ہو سکے گی۔ایوان میں خیبر پختونخوا اور سیاسی جماعتوں میں انتخابات سے متعلق شقوں کی مخالفت میں بھی ووٹ آئے شق تین جو کہ خیبر پختونخوا کے بارے میں تھی کے حق میں 80، مخالفت میں12ووٹ آئے ۔ سیاسی جماعتوں میں انتخابات سے متعلق شق آئین سے حذف کرنے کے بارے میں ترمیم کے حق میں 78ووٹ آئے جبکہ 16اراکین نے مخالفت کی ۔ 18ویں ترمیم کی آئین کے آرٹیکل ترسٹھ کے بارے شق پر حق میں 80ووٹ آئے اور ایک مخالفت میں آیا جبکہ دیگر شقوں کو متفقہ طورپر منظور کر لیاگیا ۔ سینٹ سے اٹھارہویں ترمیم کی متفقہ طورپر منظوری کے بعد اسے اب دستخط کیلئے صدر آصف علی زرداری کو بھجوادیا جائے گا۔ صدر کی جانب سے ترمیم کی توثیق کے بعد یہ آئین کا حصہ بن جائے گی۔جبکہ صدر آصف علی زرداری نے 18 ویں ترمیم کی سینٹ سے منظوری پر پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتوں اور تمام قوم کو مبارکباد دی ہے ۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابرکے مطابق 18 ویں ترمیم کی منظوری کے موقع پر اپنے تہنیتی پیغام میں صدر مملکت نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی قیادت کو ملکی تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا جنہوں نے 1973 ءکے آئین کی بحالی میں غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے 18 ویں ترمیم کی منظوری پر انتہائی خوشی ہوئی ہے۔ صدر مملکت نے اس موقع پر وزیراعظم ،سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈروں ، چیئرمین سینٹ ، آئینی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے ممبران اور ان تمام اراکین پارلیمنٹ کو مبارکباد پیش کی جنہوں نے قومی جذبے اور اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قومی اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کی منظوری سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی شہید ذوالفقارعلی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ویژن کی پیروی کررہی ہے اور ہماری جماعت اپنے شہید رہنماو ¿ں سے کیے گئے تمام وعدے پورے کر ے گی ، صدرمملکت نے کہا کہ آج جمہوریت جیت گئی اور ملک کے عوام اور سیاسی قوتوںنے آمروںکو شکست دیدی۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جمہوری نظام کو فوج کی حمایت حاصل ہے کرسی بچانے کی ترامیم کاوقت بیت چکا ہے۔ پارلیمنٹ سے اٹھارہویں ترمیم کی متفقہ منظوری سے جمہوری اداروں کی بالادستی حقیقت کا روپ بن گئی ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ہزارہ کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کیلئے مذاکرات کئے جائیں گے پورے ملک کو ساتھ لے کر چلیں گے ۔ صدر وزیراعظم پارلیمنٹ اپوزیشن کی سوچ یکساں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کی منطوری جمہوریت کی فتح ہے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ صدر پاکستان پارلیمنٹ ،سول سوسائٹی، خصوصاً سینیٹر رضا ربانی اور کمیٹی کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ قومی اتفاق رائے تاریخ میں غیر معمولی بات ہے آمرانہ اداروں کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف اتفاق رائے سے جمہوریت کی فتح ہوئی ہے میثاق جمہوریت کے موقع پر بھی قوم نے ان کو تاریخی دستاویز قرار دیا ۔ پارلیمنٹ نے اسے حقیقت کا روپ دیا ہے پوری قوم پارلیمنٹ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ پارلیمنٹ پر غیر فعال ربڑ سٹمپ ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں پارلیمنٹ نے اپنی بالادستی آزادی وخود مختاری ثابت کر دی ہے نظام چوں چوں کا مربہ ہو گیا تھا اٹھارہویں ترمیم سے حقیقی معنوں میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہو گیا ہے جب میں امریکہ گیا تو پوری دنیا پاکستان کی پارلیمنٹ کا اعتراف کر رہی تھی پارلیمنٹ کے تاریخی کارنامہ نظام دیاہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزیراعظم دونوں ایوان کے سامنے جوابدہ ہو گیا ہے غیر معمولی پیش رفت ہے تاریخ میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی گئی ہے ملک کی ترقی میں ناخواندگی رکاوٹ ہے اٹھارہویں ترمیم میں مفت تعلیم کے تصور سے تعلیم کو فروغ ملے گا ۔ آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ہوں گی تعلیم کو آئینی تحفظ حاصل ہو گیا ہے وزیراعظم نے کہاکہ صدر، سینٹ ، قومی اسمبلی ملک کر پارلیمنٹ بنتا ہے آج صدر وزیراعظم پارلیمنٹ اپوزیشن کی سوچ یکساں ہے تمام ادارے یکجا ہیں ماضی میں کرسی کو مضبوط کرنے کیلئے ترامیم ہوتی رہیں اب یہ رواج ختم ہو گیا ہے اقتدار میوزیکل چیئر ہے اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو کرسی کو بھی تحفظ حاصل ہوگا آج پہلا موقع ہے فوج آئینی دائرے میں رہ کر جمہوریت کی حمایت کر رہی ہے اداروں اور سیاسی قیادت میں پختگی آر ہی ہے صوبائی خود مختاری سے صوبوں اور وفاق دونوں مضبوط ہوں گے بہت بڑی ذمہ داری وفاق کے ساتھ صوبوں پر بھی آ گئی ہے انہوں نے این ایف سی ایوارڈ کے حوالہ سے وزیر خزانہ شوکت ترین کی تعریف کی مساویانہ وسائل کی تقسیم سے صوبوں میں خوشحالی آئے گی وزیراعظم نے کہاکہ ہزارہ کے عوام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے قومی دھارے میں لائیں گے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہماری کسی کے ساتھ مخالفت نہیں ہے جمہوریت کے ثمرات میں سب کو شامل ہونا چاہیے پورے ملک کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ آئندہ مرحلے میں احتساب ایکٹ منظور کرایا جائے گا ا آنے والی نسلوں کے ممکنہ مسائل کو حل کر کے جائیں گے اب صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کریں آئینی تقاضوں کے ثمرات کا عوام کو فائدہ ملنا چاہیے وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کریں گے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں عمل درآمد کمیٹی کا چیئرمین میاں رضا ربانی کو ہی بنایا جائے گا ۔ انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کی تیاری اور اس کی منظوری کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان پاکستان دینے کیلئے صدر مملکت سے سفارش کروں گا۔سینٹ میں جمعرات کو نئے صوبوں کے قیام اور خیبر پختونخوا پر نظر ثانی کرنے کے بارے میں5 الگ الگ ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ۔ 100 کے ایوان میں خیبر پختونخواکے نام کے بارے میں شق کو 80 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔ 12 ارکان نے خیبر پختونخوا کے خلاف ووٹ دیا ۔ سینیٹر اعظم خان سواتی اور سینیٹر محمد علی درانی غیر حاضرتھے۔ مسلم لیگ(ق) کے 8 ارکان نے بھی خیبر پختونخوا کے حق میں ووٹ دیا ۔ارکان نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر رائے شماری میں حصہ لیا ۔ ایوان میںبل کی شق تین میں پاکستان مسلم لیگ(ق) کے سینیٹر جمال لغاری نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی ترمیم پیش کی ۔ سینیٹر رضا ربانی نے ترمیم کی مخالفت کی ۔ سینیٹر جمال لغاری نے کہا کہ پنجاب اور جنوبی پنجاب کے درمیان واضح فرق رکھا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے ۔ پنجاب حکومت مقروض ہونے کی وجہ سے گندم کی خریداری سپورٹ پرائس کے مطابق نہیں کررہی ہے ۔ پنجاب کی آبادی 9 کروڑ ہے ۔ا نتظامی بنیاد پر تقسیم ضروری ہے ۔ میں لسانیت کی بات نہیںکر رہا ہوں۔ کیا یہ چاہتے ہیں کہ ہزارہ کی طرح جنوبی پنجاب میں خون بہے ۔ ہم لاشوں کی سیاست نہیں کرتے اگر خون بہے گا تو سب سے پہلے میرا خون بہے گا۔ سینیٹر میاں رضا رانی نے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم صوبے کی حدود کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہے ۔اس کے لیے پنجاب اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے قرار داد کی منظوری ضروری ہے ۔ چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے ترمیم پر رائے شماری کرائی ۔ ایوان نے کثرت رائے سے نئے صوبے کے قیام کے بارے میں ترمیم کو مستر د کردیا ۔ سینیٹر محمد علی درانی نے سرائیکی صوبہ کے بارے میں ترمیم پیش کی اور کہا کہ صوبوں کے حوالے سے آئین کی متعلقہ شق میں بھی ترمیم کی جائے اور نئے صوبے کے قیام کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے ۔ صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے قرار داد کی منظوری شرط کو سادہ اکثریت میں تبدیل کیا جائے ۔ 1950 ء میں بہاولپور کو صوبے کا درجہ د یا گیا تھا ۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بہاولپور کو دوبارہ صوبہ بننا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے وعدہ کیا گیا تھا عوام کی خواہشات کے خلاف ایل ایف او کے تحت 1970 ءمیں بہاولپور کو پنجاب میں شامل کردیا گیا تھا انہوں نے نئے صوبے کے بارے میں ترمیم کو پذیرائی نہ ملنے پر ایوان سے واک آو ¿ٹ کردیا ۔سینیٹر میاں رضا ربانی نے اس ترمیم کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ آئین میں درج طریقہ کار تحت اس ترمیم کو نہیں لیا جا سکتا ۔ سینیٹر بابر غوری نے انکشاف کیا کہ پارلیمانی آئینی کمیٹی میں نئے صوبوں کے قیام کی ترمیم کو بلڈوز کردیا گیا تھا۔ ہمارے تحفظات موجود ہیں ۔ ایوان نے کثرت رائے سے اس ترمیم کو مسترد کردیا ۔ سینٹر سلیم سیف اللہ ، سینیٹر سیمی صدیقی ، سینیٹر وسیم سجاد کی ا یک جیسی 12 ترامیم کویکجا کردیا گیا تھا۔ شق 3 میں ترمیم تجویز کی گئی تھی وسیم سجاد نے خیبر پختونخوا کانام سرحد رکھنے کی ترمیم پیش کی ۔ سینیٹر سلیم سیف اللہ نے ہزارہ صوبے کی ترمیم پیش کی ۔ پارلیمانی آئینی کمیٹی کو مستقل حیثیت دی جائے اور نئے صوبوں کے قیام کا مینڈینٹ دیا جائے ۔ مسلم لیگ (ق) کی خاتون سینیٹر سیمی صدیقی نے ہزارہ صوبے کے قیام کی ترمیم پیش کی ۔ سینیٹر وسیم سجاد نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی جگہ سرحد کانام لکھا جائے ۔ یہی عوام کے لیے قابل قبول نام ہے ۔ 25 مارچ کو کمیٹی کو اس بارے میں خط لکھ دیا تھا ۔ کمیٹی میں 31 مارچ کو بھی خیبر پختونخوا کی مخالفت کی تھی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اصلاح کی جائے ۔ لوگ جانوں کا نذرانہ د ے کر پیغام دے رہے ہیں صوبہ سرحد کے عوام کے احساسات کو مجروح کیا گیا ہے۔ انتشار پھیل ر ہا ہے ۔ سینیٹر نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ اے این پی اگر ہزارہ کے عوام کے لیے ایوان میں کوئی وعدہ کرے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اے این پی صوبہ سرحد کے اقتدار کو آخری نہ سمجھے بلکہ عوام کے جذبات کو سمجھے ۔ سینیٹر نیلوفر بختیار نے کہا کہ کیا کوئی نام اتنا اہم ہے جس کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دی جائے ۔ سینیٹر سردار جمال لغاری نے کہا کہ صدر آصف علی زراری نے اقوام متحدہ کے اور خطاب کے دوران صوبہ سرحد کو پختو نخوا کے نام سے پکارا جبکہ جب تک دونوں ایوانوں سے اس نام کی منظوری نہ دیں کوئی اس کو پختونخوا نہیں کہہ سکتا ۔ سینیٹر فوزیہ فخر الزمان نے کہا کہ بڑے درختوںکے پیچھے چھوٹے پودے نہیں ہل سکتے ۔ سینیٹرچوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ اس ایوان میں بیٹھے ہوئے متعدد سیاسی رہنماو ¿ں کے آباو ¿ اجداد نے صوبہ سرحد کے نام پر اتفاق کیا تھا۔ عوام کے اصل مسائل پر توجہ دی جائے ۔ سینیٹر گلشن سعید نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے مسودے پر دستخط کرنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں نے صوبہ سرحد کے عوام کے جذبات کو مدنظر کیوں نہیں رکھا ۔ ہزارہ میں بہنے والے خون کے ذمہ د ار وہ لوگ ہیں جنہوں نے 18 ویں ترمیم پر دستخط کیے ہیں۔ سینیٹر ہارون اختر خان نے کہا کہ حکومت وعدہ کرکے کہ ہزارہ کے لوگوں کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرے گی ہم نے دنیا پر ثابت کردیا کہ ہم جمہوری قوت ہیں ۔ میر محبت خان مری نے کہا کہ میں خیبر پختونخوا کے حق میں ہوں ۔ سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ اے این پی اسی بربادی کا مظاہرہ کرے جو 1973 ءمیں خان عبدالولی خان نے کیا تھا۔ سینیٹر طارق عظیم نے کہا کہ جس طرح حکومت نے یہ وعدہ پورا کیا وہ روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ بھی پورا کریں۔ ہزارہ کے عوام کی رائے اگر پہلے لے لی جاتی تو حالات خراب نہ ہوتے ۔ سینیٹر جاوید اشرف قاضی نے کہا کہ اے این پی ہزارہ کے ساتھ کسی بات اور نام پر اتفاق رائے کرنا چاہیئے اور 19 ویں ترمیم لا کر صوبے کے تمام عوام کو مطمئن کرنا چاہیے سینیٹر میاں رضار بانی نے ترامیم کی مخالفت کی اور کہا کہ افراسیاب خٹک بیان دے چکے ہیں کہ صوبائی حکومت غیر مشروط طور پر ہزارہ کے عوام کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے خیبر پختونخوا کی حکومت مفاہمت کی پالیسی برقرار کھے گی ۔ ایوان نے کثرت رائے سے ترامیم کو مسترد کردیا۔ سینیٹر سلیم سیف اللہ اپنی ترمیم سے دستبردار ہو گئے۔ سینیٹر محمد علی درانی کی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے خیبر پختونخوا کے بارے میں شق پر رائے شماری کی ۔ 80 ارکان نے شق کی حمایت کی ۔ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا ۔ مسلم لیگ کے ارکان گلشن سعید ، میر محبت خان مری ،عمار خان، ایس ایم ظفر ، ریحانہ یحیی بلوچ ، جان محمد جمالی نے بھی شق کی حمایت کی ۔ جے یو آئی(ف) کے سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی ایوان سے غیر حاضر تھے۔۔18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد گزشتہ جمعرات کو سینٹ کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا اجلاس ملتوی کرنے کے بارے میں چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک ایوان میں صدارتی فرمان پڑھا جس پر سینٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہو گیا ہے۔اے پی ا یس