بے نظیر بھٹو تحقیقاتی رپورٹ۔اے پی ایس


سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اگر بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کی ہوتی تو ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔باون صفحات پر مشتمل رپورٹ میں صدر مشرف کی اس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہی تھی۔کمیشن کے مطابق یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ کیوں ان تمام افراد، گروہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے حصوں کی تفتیش نہیں کی گئی جن سے بینظیر بھٹو کی جان کو خطرات لاحق تھے اور جن کے بارے میں انہوں نے جنرل مشرف کو اپنے خط میں آگاہ کیا تھا۔اقوم متحدہ کے بینظیر بھٹو کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے گزشتہ جمعرات کی شام اقوام متحدہ کی عمارت میں رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو پاکستان میں کئی عناصر سے سنگین خطرات لاحق تھے جن میں القاعدہ، طالبان اور مقامی جہادی گروپ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تفتیش کی توجہ صرف نچلی سطح کے کارکنوں تک ہی محدود رہی ہے۔ کمیشن اس بات پر پریشان ہے کہ بیت اللہ محسود، القاعدہ یا کسی تنظیم یا فرد کے بارے میں بھی کوئی خاص تفتیش نہیں کی گئی جو ممکنہ طور پر اس قتل یا اس کی منصوبہ بندی میں براہ راست یا بلواسطہ ملوث رہا ہو۔تفتیش کاروں نے اس امر کو بھی سرے سے مسترد کردیا کہ اس قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہوسکتے ہیں، بشمول ان تین افراد کے جن کے نام بینظیر بھٹو نے مشرف کو لکھے گئے خط میں خود لیے تھے۔ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ مشرف دور کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، انٹیلیجنس ایجنسیاں بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہیں اور اس طرح کے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے گئے جس طرح کے انتظامات کی ضرورت تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بم دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کیے گئے اور اسے دھو دیا گیا حالانکہ وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنا اعلیٰ سطحی احکامات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ کمیشن کو یقین ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب درست اقدامات کرنے میں’ناکامی’ زیادہ تر جان بوجھ کرتھی۔ بعض صورتوں میں اس ناکامی کی وجہ وہ غیر یقینیی کی صورتحال تھی جو اس تفتیش میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے بہت زیادہ ملوث ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ان افسران کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اقدامات کریں۔ ہیرالڈو منوز میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کہا جائے کہ صدر آصف زرداری یا ان کے خاندان کا کوئی فرد اس واقعے میں ملوث ہو سکتا ہے۔اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں صحافی اس وقت حیران رہ گئے جب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے حسین ہارون نے رپورٹ کے متعلق کچھ بھی کہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ رپورٹ پاکستان حکومت کو بھیج رہے ہیں اور حکومت ہی اس پر ردِ عمل دے گی۔یہ رپورٹ یکم اپریل کو پیش کی جانی تھی لیکن صدر آصف علی زرداری کی درخواست اسے پندرہ دن کے لیے مو ¿خر کر دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیشن نے اقوام متحدہ میں چلی کے سفیر ہیرالڈو منوز کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا۔اس کمیشن نے رواں سال فروری کے آخری ہفتے میں پاکستان کا تین روزہ آخری دورہ مکمل کیا تھا۔ اس دورے میں کمیشن کے سربراہ اور اراکین نے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیئر حکومتی اہلکاروں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقاتیں کیں۔اس کے علاوہ اس کمیشن کے سربراہ نے پاکستان کے تین دورے کیے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کا عملہ تحقیقاتی عمل شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی پاکستان میں موجود تھا۔خیال رہے کہ بینظیر بھٹو کو دسمبر دو ہزار سات میں راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وزیرِ اعظم سید یوسف گیلانی نے قومی اسمبلی کے اراکین سے کہا تھا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو قتل کی تحقیقات سے متعلق اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کا تحمل سے انتظار کریں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزبِ اختلاف کے رکن رضا حیات ہیراج کے نکتہ اعتراض پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا متعلقہ شخص یعنی کہ وزیرِ داخلہ کو آنے دیں جو ترکی کے صدر عبداللہ گل کے ساتھ مصروف ہیں اور وہ ایوان کو جواب دیں گے۔ ±ان کا کہنا تھا کہ اس ایوان اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر اقوامِ متحدہ سے بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا تھا لہذا وہ کس طرح اس میں تاخیر چاہیں گے۔’بےبنظیر بھٹو ہماری رہنما ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی جمہوریت، عوام اور پاکستان کے لیے قربان کی۔‘وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ جب متعلقہ شخص ایوان میں موجود نہ ہو تو اس مسئلے پر بات نہیں کی جانی چاہیے۔اس ایوان اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر اقوامِ متحدہ سے بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا تھا لہذا وہ کس طرح اس میں تاخیر چاہیں گے۔رضا حیات ہیراج نے کہا ’اقوامِ متحدہ کی رپورٹ اکتیس مارچ کو سیکریٹری جنرل کو پیش کی جانی تھی لیکن ان تحقیقات کو جن پر بڑی رقم خرچ کی گئی ہے اب حکومتِ پاکستان کے کہنے پر ملتوی کر دی گیا ہے۔‘ا ±ن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کو بھی بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے کیونکہ انہیں ’قاتل مسلم لیگ‘ کے نام بھی دیے گئے تھے۔وزیرِ تجارت مخدوم امین فہیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اگر ’مسلم لیگ قاف قتل کے الزام سے بری ہوگئی‘ تو پھر ان سے ان لوگوں کو معافی مانگنی ہوگی جنہوں نے ان پر الزامات عائد کیے تھے۔وفاقی وزیرِ پٹرولیم و قدرتی وسائل سید نوید قمر نے کہا کہ بے نظیر قتل کی تحقیقاتی رپورٹ اپریل میں پوری دنیا کے سامنے آ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کی تاخیر کی درخواست اس لیے کی گئی ہے تاکہ اس میں جن عناصر کی نشاندہی کی جانی ہے وہ قبل از وقت اس کا توڑ نہ کر سکیں۔ ا ±ن کا موقف تھا کہ اس رپورٹ پر پاکستان کے مستقبل کے لائحہِ عمل کا دارومدار ہے۔ جبکہ ایوان صدر نے اقوام متحدہ کمیشن کی طرف سے بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق جاری کی گئی تحقیقاتی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مندرجات اور کمیشن کے حکام کی نیوز کانفرنس سے پیپلز پارٹی کے خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں کہ بے نظیر کے قتل میں پرویز مشرف کی حکومت ذمہ دار ہے۔رپورٹ کے اجرا کے بعدصدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یو این کمیشن کی رپورٹ کے تفصیلی جائزے کے بعد اس پر جامع رد عمل جاری کیا جائے گا۔صدارتی ترجمان نے کہا کہ کہ رپورٹ میں واضح طور سابق حکومت کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے ذمہ داری،سیکیورٹی اور تحقیقات کے حوالے سے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے رپورٹ میں سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ سابق حکومت کی طرف سے محترمہ کو صرف درپیش خطرات سے آگاہ کیا جا تا رہا لیکن بے نظیر کے تحفظ کے لیے کوئی سیکیورٹی پلان نہیں بنایا۔ یواین کمیشن کی رپورٹ میں آصف زرداری اور ان کے اہلخانہ کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی طور بھی اس میں ملوث نہیں ہیں۔ایک سوال پر صدارتی ترجمان نے کہا کہ حکومت بے نظیر کے قتل کی تحقیقات سے کسی طور غافل نہیں ہے اور رپورٹ سے سمت کا تعین ہو گیا ہے۔اے پی ایس