امریکہ اپنے مفادات کیلئے خطے میں موجود رہے گا۔اے پی ایس


وائٹ ہاوس نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا یا زندہ پکڑنا بدستور امریکا کی ترجیح ہے۔وائٹ ہاوس کے ترجمان کی جانب سے اسامہ بن لادن کے بارے میں یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب عراق میں القاعدہ کے دو رہنماوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے مطابق :عراقی اینٹلے جنس نے القاعدہ کے رہنما ابو ایوب ال مصری اور ابو عمر ال بغدادی کو ہلاک کردیا ہے۔امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے ان دونوں کی ہلاکت کو القاعدہ کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ جبکہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے ، رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ پاکستان میں امریکی فوج کی موجودگی نہیں ہے، اور یہ کہ امریکہ کا مقصد پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔ گذشتہ پیر کے روز مارک گروس مین سے تفصیلی انٹرویو میں ہالبروک نے کہا ہے کہ، ‘پاکستان میں ہماری موجودگی نہیں ہے۔ لیکن ہم وہاں اقتصادی، سیاسی اور نفسیاتی سطح پر امداد فراہم کرتے ہوئے پاکستان کو مضبوط بنا رہے ہیں۔’انٹرویو کا اہتمام بیورو آف پبلک افیئرز نے کیا جب کہ پروگرام میں میزبانی کے فرائض معاون وزیرِ خارجہ فلپ جے کراولی نے کی۔ہالبروک نے کہا کہ، ‘پاکستان کو داخلی سطح پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ یہ کوئی آسان پالیسی نہیں ہے، لیکن چونکہ ہوم لینڈ سکیورٹی اور قومی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ وہاں پر (خطے میں) اپنی اِس موجودگی کو برقرار رکھا جائے۔’ان سے سوال کیا گیا کہ، افغانستان میں نسلی گروہوں، قبیلوں اور مختلف ذاتوں پر مبنی روایتی ڈھانچے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی، اعلیٰ حکام اور مرکزی حکومت اِس حد تک سکیورٹی فراہم کر سکے گی جو وہاں ملکی ترقی کے لیے درکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو القاعدہ یا طالبان یا ان کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہوں۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں حال ہی میں رائے عامہ کے کئی جائزوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بی بی سی، اے بی سی اور جرمن نیٹ ورک آے آر ڈی کے اِن جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو القاعدہ اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شرح سات یا آٹھ فی صد سے زیادہ نہیں ، اور وہ طالبان کی واپسی کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔‘اور یہ تعداد بھی مخصوص مقامات پر موجود ہے۔ دوسری بات اِس سلسلے میں یہ کہ افغانستان میں ایک مرکزی حکومت کا تصور کبھی بھی نہیں رہا، لیکن بہت سے ملک یونٹوں پر مبنی ایک حکومت ، ایک وفاقی ڈھانچے کے تحت تسلیم کرتے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے سیاسی ڈھانچے کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے انھوں نے بے پناہ پیش رفت بھی کی ہے۔’اِس سوال پر کہ افغانستان میں امریکی موجودگی کی وجہ کیا ہے، ہالبروک نے کہا کہ طالبان 9/11میں براہِ راست شریک نہیں تھے لیکن انھوں نے القاعدہ کو پناہ دی اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ‘اِسی وجہ سے سابق صدر بش نے انھیں گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں میں اعانت کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس کے بعد پاکستان جا کر دونوں طالبان اور القاعدہ نے خود کو اکٹھا کیا اور امریکی فوجوں پر حملے شروع کردیے۔’سوات میں پاکستانی فوج کے کارروائی کے بارے میں سوال پر ا ±نھوں نے کہا کہ سوات کے بیشتر علاقوں کو طالبان سے پاک کرلیا گیا ہے اور جنوبی وزیرستان میں کارروائی کا آغاز کیا گیا، اور بی الاآخر امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے طالبان کے اہم لیڈروں کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔سفیر ہالبروک نے کہا کہ پاکستان فوج کافی عرصے سے وہاں کوشش کر رہی تھی، لیکن جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں گذشتہ برس بھرپور کارروائی کی گئی جس سے بہتری کی صورت پیدا ہوئی ہے، اور پاکستان میں فوج کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔انٹرویو میں گروس مین نے پاکستان کی وادیِ سوات کے اپنے حالیہ دورے کا حوالہ دیا۔ ہالبروک نے کہا کہ گذشتہ برس جب طالبان اور القاعدہ سوات کی وادی میں آگئے تھے اور اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے، اس وقت بھی پاکستان میں رائے عامہ ا ±ن کی حمایت میں نہیں تھی، اور ان کی موجودگی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔پاکستان اور امریکہ کے حالیہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں انتہائی بہتری کی بات کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان حال ہی میں ہونے والے اسٹریٹجک ڈائیلاگ ایک بڑی پیش رفت ہے۔رچرڈ ہالبروک نے پاکستان کو درپیش بجلی، پانی اور جوہری حریف کے ساتھ مختلف امور پر اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ پاکستان کو امریکہ کی امداد کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس سنیٹر جان کیری اورسنیٹر لوگر نے پاکستان کی امداد کے لیے قانون سازی کی تھی جس کے تحت پاکستان کو آئندہ پانچ برسوں کے دوران 7.5ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔انھوں نے وائٹ ہاو ¿س میں پاکستان کو دی جانے والی امداد کے بارے میں ہونے والے اجلاس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس بات کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ایسے طریقوں سے پاکستان کی مدد کی جائے کہ وہ خود کو مضبوط بنائے، جمہوریت کو فروغ دے اور مغرب میں درپیش بغاوت کی مقابلہ کرسکے۔ جبکہ امریکا اور روس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک بھی ان کی طرح جوہری ہتھیاروں میں کمی لائیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیااپنے وسائل ہتھیاروں کی بجائے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرے۔امریکا اور روس کے سفیروں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بحث کے دوران عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں میں کمی کے لیے حکمت عملی بنائیں ۔امریکی سفیر سوسن رائیس کا کہنا تھا کہ دنیا میں 90 فی صد جوہری ہتھیار امریکااور روس کے پاس ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تخفیف اسلحہ کامعاہدہ ایک اہم سنگ میل ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکا کی نئی جوہری پالیسی کے تحت غیرجوہری ریاستوں اور این پی ٹی رکن ممالک کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیے جاسکیں گے۔روسی سفارت کار وٹالی چرکن نے کہا کہ تمام ممالک روس اور امریکا کی کوششوں میں ساتھ دیں اور ہتھیاروں میں کمی کے لیے سرگرمی کا مظاہرہ کریں۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ دنیااپنے وسائل ہتھیاروں کی بجائے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرے۔ امریکی صدر براک اوباما کی طرف سے بلائی جانے جوہری کانفرنس میں شرکاءکو جوہری مواد غلط ہاتھوں میں جانے کے خطرات سے آگاہ کیا گیاہے۔ جبکہ امریکی صدر براک اوباما اور چین کے صدر ہو جنتاوکے درمیان ملاقات میں ایران پر مزید دباو بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔کانفرنس میں کہاگیا کہ جوہری مواد کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے اقدامات کیے جانا بہت ضروری ہے۔امریکی صدر کی جانب سے بلائی جانی والی اس کانفرنس میں پچاس ممالک کے رہنماء شریک ہوئے۔جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک میں صرف اسرائیل کے وزیر اعظم کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ ان اطلاعات کے بعد کیا ہے کہ کچھ اسلامی ممالک کانفرنس کے دوران کوشش کریں گے کہ وہ جوہری پروگرام سے پردہ اٹھائے اور بتائے کہ اس کے پاس کتنا جوہری اسلحہ موجود ہے۔اسرائیل کے بارے میں عام خیال ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن اسرائیل نے نہ تو کبھی اس کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید۔فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے کہا ہے کہ ان کا ملک کبھی جوہری ہتھیار ختم نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جوہری ختم کر کے وہ اپنے ملک کی سکیورٹی کو خطرات لاحق نہیں کریں گے۔امریکہ نے سابق سوویت ملک یوکرائن کی جانب سے یورینیم مواد کو دوہزار بارہ تک تلف کرنے کےاعلان کا خیر مقدم کیا ۔ اس دو روزہ کانفرنس میں ایران اور کوریا کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کا پھیلاو ¿ ناقابل برداشت ہے اور ایرانی رہنماو ¿ں کے لیے واضح پیغام ہے کہ اس کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گا۔اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ یاکیا المونو نے اس موقع پر کہا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کو جوہری مواد کے پھیلاو ¿ کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ہر دوسرے روز انہیں جوہری مواد کی چوری یا سمگلنگ کا خبر ملتی ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ پاکستان جیسے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کو زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ اس کانفرنس کا پیغام تھا کہ جوہری معاملات میں ہر ملک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر برتاو ¿ ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ دوسری ممالک کی سکیورٹی کو خطرات لاحق نہ کرے۔امریکہ کے دہشتگردی کےایک ماہر جان بریمن نے کانفرنس کو بتایا کہ القاعدہ جیسی تنظیمیں پچھلے پندرہ سالوں میں کئی بار جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر چکی ہیں۔ امریکہ اور چین نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں کے سفارت کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی ایران پر پابندیوں کے بارے میں غور کرے گا۔ایران پر اپنے جوہری پروگرام میں توسیع کو روک دینے کے لیے بین الاقوامی دباو کے باوجود، ہوسکتا ہے کہ ایران یورینیم افزودہ کرنے کے کسی نئے کارخانے کی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ہو۔ایرانی خبر رساں ایجنسی اِرنا کا کہنا ہے کہ صدر محمود احمدی نژاد نے اس کارخانے کے لیے مقام کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن اس نے اس مقام کا نام نہیں بتایا۔ ایجنسی نے چوٹی کے صدارتی مشیر مرتضیٰ ثمرہ ہاشمی کے حوالے سے کہا ہے کہ اس مقام پر تعمیر کا کام صدر کے حکم پر شروع کیا جائے گا۔وائٹ ہاوس کے ترجمان رابرٹ گِبز نے اس رپورٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا ہے کہ اپنے جوہری پروگرام کے بارے ایران کے بلند بانگ دعوے ہمیشہ ایرانیوں کی اپنی صلاحیتوں کی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کی بِنا پر اس ملک کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پابندیوں چوتھی قسط کی منظوری کے لیےکوششوں کی قیادت کررہا ہے۔عالمی طاقتوں کا خیال ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری اسلحہ تیار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔لیکن ایران کا اصرار ہے کہ ا ±س کا پروگرام، غیر فوجی مقاصد کے لیے ایک پ ±ر امن پروگرام ہے۔اے پی ایس