بد ترین طرز حکمرانی میں دوچھٹیاں گوارا نہیں۔اے پی ایس


پاکستان مسلم لیگ ہائوس میں علامہ اقبال کے یوم وفات کے حوالے سے ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوااس موقع پر صدر پاکستان مسلم لیگ سینیٹر سلیم سیف اللہ خان نے کہا کہ ج ہم جس ملک میں زادی سے سانس لے کر زندگی بسر کر رہے ہیںیہ سب بانیان پاکستان مسلم لیگ اور مفکر ملت مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال کی بدولت ہے اور ہم اپنے عظیم رہنماءکو بھر پور الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے عظیم تر مفاد ات میں اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کو دفن کر کے نظریہ پاکستان اور علامہ محمد اقبال کے فلسفہءحیات پر کاربند ہوں یہی ایک واحد راستہ ہے جسکی بدولت پاکستان پھولے اور پھلے گااور پاکستان کو ترقی کے لئے دن رات محنت کریں اور وقت کی قدر کرتے ہوئے محسنان پاکستان کی قربانیوں کا ضیائع نہ کریں۔ ج انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بانی پاکستان نے ہمارے لئے کس منزل کا تعین کیا تھا اور ہم اپنی تباہی کے کس ڈگر پر نکل پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ج کچھ سیاسی پارٹیاں بانی پاکستان کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور انہوں نے کہا کہ جو قومیں اپنے قائدین کو برا بھلا کہتے ہیں وہ قومیں اپنی پہچان کھو دیتی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی ایوان بالا میں 19 ترمیمی بل کے نام سے ایک بل پیش کر رہی ہے کہ جو لوگ قائد اعظم کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کے خلا ف پانچ سال کی سخت سزا دی جائے ۔انہوں نے حال ہی میں حکومت کی جانب سے ہفتے میں دو روزہ چھٹی کے تجویزپر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے پاکستان کی معیشت تباہی کے کنارے پر کھڑی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دو روزہ چھٹیاں ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور وہ گڈ گورننس کے اصولوں پر پابند ہیں جب کہ ہمارے ملک میں گڈ گورننس کافقدان ہے اور ہمارا ملک ہفتے میں دو روز کی چھٹیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ، انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک کوئی شاہی سلطنت نہیں کہ جس میں عوام پر شاہی فیصلے مسلط کئے جائیں انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے اور اگر ہفتہ میں دو روزہ چھٹی پر عمل درمد کیا گیا تو متوسط طبقہ اپنی روزی روٹی بہت مشکل سے کما سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پوری قوم کو انتھک محنت اور کام کام اور صرف کام کا پیغام دیا تھا جب کہ ہمارے حکمران ہمارے قائد کے فرمان کے برعکس فیصلے کر رہے ہیں آئین میں کی جانے والی اٹھارویں ترمیم کو ملک میں جمہوری عمل مضبوط بنانے کے سلسلے میں جہاں ایک طرف اہم قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے وہیں بعض حلقے اس کی کچھ شقوں کو جمہوری اصولوں کے منافی بھی قرار دے رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم پر پاکستان میں بحث کا سلسلہ تو جاری ہے ماہرین آئین میں ہونے والی اس ترمیم اور اسکے جمہوریت پر ممکنہ اثرات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے اس تاریخی بل پر دستخط کیے ہیں۔فوجی آمر ضیاءالحق نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے 1980 ءمیں یہ اختیارات حاصل کیے تھے ، جن میں منتخب اسمبلی کو توڑنا، ججوں کی تعیناتی اور ملک کی مسلح افواج کے سربراہ کا انتخاب شامل ہیں۔ یہ اختیارات اب منتخب اسمبلی اور وزیرِ اعظم کو منتقل ہو گئے ہیں۔موجودہ دہائی میں ایک اور فوجی حکمران پرویز مشرف نے یہ اختیارات اپنے مفاد کے لیے استعمال کیے۔اس ضمن میں تجزیہ کارکہتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ کرنا ہی تھا۔ انہوں نے پہلے ہی خود سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ ملک میں اس سوچ پر اتفاق تھا کہ 1973 ءکے آئین کی طرف واپس آنے کا مطلب جمہوریت کی طرف واپس آنا ہو گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دونوں حکمران ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو، ملٹری حکوت کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاقِ رائے سے ملک کو آئین دیا اور بے نظیر بھٹو نے مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے، جس کے باعث ان ترامیم پر اتفاق ہو سکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ ان اصلاحات پر دستخط صدر آصف علی زرداری نے کیے، جو اب سے پہلے اپنی مرحوم بیوی بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں کرپشن کرنے کے الزامات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ جبکہ بعض تجزیہ کارکہتے ہیں کہ ترمیم صدر زرداری کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے چیف رہیں اور اس وجہ سے پاکستانی سیاست میں صدر زرداری کا اثر قائم رہے گا۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے لیے مکمل مدت صدارت یقینی کر لی ہے۔ اور اگر وہاں ایک مڈ ٹرم الیکشن ہوتا ہے تو بھی وہ صدر ہوں گے۔ تو ان کی سیاسی جماعت کا مستقبل جو بھی ہو صدارت انہی کے پاس رہے گی۔ جسے وہ کسی قسم کے سیاسی لین دین کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ تجزیہ کار وں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ترمیم کی تیاری میں مختلف سیاسی جماعتوں میں جو اتفاق دیکھنے میں آیا وہ بہت مثبت اشارہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بقا مستحکم جمہوریت میں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اتفاقِ رائے سے یہ قدم اٹھایا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ زمین پر یہ ان چیزوں کو کیسے منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ اہم ہے۔ اوریہ سیاستدانوں کا امتحان ہو کہ وہ کتنے پختہ اور سمجھدار ہیں۔سیاسی استحکام تو آ رہا ہے مگر پاکستانی عوام پر غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور بجلی کی بندش کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی اصلاحات پاکستان کی کمزور جمہوریت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ مگر اس کا فائدہ عوام تک پہچانے کے لیے سیاست دانوں کو اب ان مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا جن کا پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں سامنا ہے۔اے پی ایس