علامہ اقبال کا فلسفہ اجتہاد۔اے پی ایس



مفکر پاکستان علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ علامہ اقبال اجتہاد کا اختیار پارلیمنٹ کو دیتے ہیں تاہم پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ اجتہاد کے قابل نہیں۔ گزشتہ بدھ کو نظریہ پاکستان کونسل ،اسلام آباد میں یوم اقبال کے موقع پر ” علامہ اقبال کا فلسفہ اجتہاد “کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کے حوالے سے اقبال کا نظریہ دیگر لوگوں سے مختلف ہے کیونکہ وہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس وقت انسانی عقل اس مقام تک پہنچ چکی تھی کہ اب اسے رہنمائی کے لئے کسی نبی کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ اجتہاد کر نے کی صلاحیت رکھتا تھا اس لئے نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اسلام کا اصل پیغام سلطان جمبور تھا۔برصغیر میں مغلوں کے زوال کے بعد جب مسلمان فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے لڑنا شروع ہو گئے یہ مسلمانوں کی پستی کا زمانہ تھا تاہم اس صورت حال کا ادراک کر تے ہوئے شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی بجائے اس راستے کا انتخاب کریں جو انہیں آسان دکھائی دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر سر سید پیدا نہ ہوتے تو آج ہم یہاں اس حالت میں نہ ہوتے۔ سرسید نے جب دیکھا کہ جنگ آزادی کے بعد ہندو انگریزوں کے ساتھ مل گئے ہیں جبکہ مسلمان پسماندہ ہو چکے ہیں تو ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو نکالنے کے لئے انہوں نے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح کرائی اور ان کے ہم اثر مولانا شبلی نعمان نے ہندوستان کو مسلمانوں کے لئے دارالامان قرار دیا جہاں پرمسلمانوں کو آزادی حاصل نہیں تھی اور اس کے فتوی کے تحت آج بھی مسلمان امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مسلمان دارالامان میں رہ رہے ہیں ۔ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ وہاں تحریک کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں اجتہاد کی بجائے قدامت پسندی کا عنصر تھا اس تحریک میں خلافت عثمانیہ کی بحالی کے لئے خلیفہ کولازی قرار دیا گیا اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اگر خلیفہ مقرر نہ کیا گیا تو مسلمانوں کے نکاح منسوخ ہو جائیں گے۔ تاہم اتاترک نے ایسا نہ کیا اور تحریک خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا ۔انہوں نے کہا کہ بر صغیر میں مسلم حکومت کا نظریہ در اصل یورپ کی جانب سے قوم کے لئے کی گئی تعریف کے اجتہاد سے معرض وجود میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قیام بھی اجتہاد کا نتیجہ تھا جس کی قدامت پسندوں نے مخالفت کی تھی اور یہ صورت حال آج تک جاری ہے ۔ کیونکہ اس وقت ملک کے اندر ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال اپنا کام کر چکے ہیں اجتہاد کے حوالے سے پاکستان میں ہو نے والی کوششوں کا ذکر کر تے ہوئے جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آج تک ہم لفظ ”ابا“ کی تعریف نہیں کر سکے۔ 60سال گزر نے کے باوجود ملک کے اندر سودی معاشی نظام چل رہا ہے۔ جب تک اجتہاد کو فروغ نہیں ملتا ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ وکلاءکو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے اور مفتیوں کی بجائے اس پارلیمنٹ کو اجتہاد اختیار کر نا چاہیے۔ تاہم ا س حوالے سے آج تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں کہ آیا موجودہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کر نے کا اختیار ہو نا چاہیے جس کے اراکین جعلی ڈگریوں سے یہاں پر آتے ہیں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں اجتہاد کو بطور مضمون نہیں پڑھایا جا رہا۔ جہاں سے قانون کے طلبہ تعلیم حاصل کر کے پارلیمنٹ میں آئیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں اس حوالے سے ایک کوشش کی گئی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ اس قابل نہیں کہ اجتہاد کر نے کے حوالے سے اس پر اعتماد کیا جا سکے اس لئے پاکستان میں علامہ اقبال کے نظریے جیسی پارلیمنٹ کے لئے شائد دو تین صوبوں کی ضرورت ہے ان کا کہنا تھا کہ اجتہاد کا تعلق اخلاقیات سے ہے اور اخلاقیات بنیادی طور پر قانون ہے جس کی قدریں انسان خود مناتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور اس کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ مفاہمت کی پالیسی کو لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے جاری رکھا جائے گا ۔ وہ بدھ کو اسلام آباد میں مذہبی امور کے وزیر سید حامد سعید کاظمی کی سر براہی میں جنوبی پنجاب کے ایک وفد سے باتیں کر رہے تھے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ جنوبی اداروں کے استحکام سے ملک میں نظم و نسق بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور اس سے ملک کے تمام حصوں میں ترقی کی رفتار تیز ہو گی وفد نے وزیر اعظم کو علاقے کے لوگوں کے مسائل سے آگاہ کیا اور جنوبی پنجاب کی ترقی میں وزیر اعظم کی دلچسپی کو سراہا ۔وزیر اعظم نے وزراء کے ایک گروپ سے باتیں کر تے ہوئے کہا کہ سر کاری شعبے کے اگلے ترقیاتی پروگرام میں شرکت کے لئے ترقیاتی منصوبوں کے سلسلے میں ترجیحات متعین کی جائیں ۔سید یوسف رضا گیلانی نے منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین نے کہا کہ جاری ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دیتے ہوئے ملک کے لئے فنڈز جاری کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام وزارتوں کو چاہیے کہ مالی وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کمیشن کی مشاورت سے منصوبے تیار کریں ۔وزراء نے وزیر اعظم کو اپنی وزارتوں کی جانب سے شروع کئے گئے مختلف منصوبوں کے بارے میں بتایا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بلوچستان کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی ملک کی ترقی اور خوشحالی سے براہ راست منسلک ہے ۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں نے متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو جاری منصوبوں کو جلد مکمل کر نے کے لئے فنڈز کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا بحران توانائی کا درپیش ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کیلئے ہنگامی اور جنگی بنیادوںپر اقدامات کرنے ہوں گے۔ وزیر اعلی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی ڈھائی سال کے دوران توانائی کا کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا۔ انہوں نے عارضی طور پر توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے سرکاری دفاتر میں ہفتہ میں دو روز کی چھٹی کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے بحران سے سب سے زیادہ صوبہ پنجاب متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر اعلی نے سرکاری سطحپر چراغاں کرنے، پٹرول پمپوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر برقی قمقمے چلانے پر پابندی کا بھی اعلان کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز ایوان وزیر اعلی میں پنجاب بھر سے آئے ہوئے تاجروں اور صنعتکاروں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فیصل آباد سٹی کے تاجروں نے ان کا موقف نہ سنے جانے پر کنونشن کا بائیکاٹ کردیا تاہم انتہائی کوششوں کے بعد انتظامیہ اور لاہور کے تاجر انہیں منا کنونشن میں واپس لانے میں کامیاب ہوگئے۔ وزیر اعلی نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت تاریخ کے بد ترین بجلی کے بحران کا سامنا ہے جس نے صنعت کا پہیہ جام کردیا ہے، کارخانے بند ہو رہے ہیںتاجروں کا کاروبار ٹھپ ہے۔ ٹیوب ویل کو بجلی نہ ملنے کی وجہ سے زراعت کا شبہ بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ طلبہ کو پڑھنے کیلئے پنکھا میسر نہیں آتا جس کے باعث بے روزگار ہونے والے محنت کش اور سیکرٹری مالکان و صنعتکار مل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وزیر اعلی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران مظاہرین پر پولیس تشدد پر معذرت اور مظاہرین پر بنائے گئے تمام مقدمات ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعلی امید ظاہر کی کہ کل وزیر اعلی بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے اہم اقدامات کا اعلان کریں گے تاہم بحران سے عارضی طور پر نمٹنے کیلئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ میں سرکاری اداروں میں ہفتہ میں دو روز کی چھٹی کا ہمیشہ مخالف رہا اور ہوں لیکن موجودہ حالات میں چند ماہ کیلئے دو چار ماہ کیلئے سرکاری اداروں کو ہفتہ میں دو روز بند رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم ہفتہ اور اتوار کو صنعتیں اور کاروباری مراکز کھلے رہنے چاہیئے وہ باہمی مشاورت سے کسی اور روز چھٹی کا فیصلہ کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کے اوقات کار میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے ان اداروںم یں کام جلد شروع اور انہیں جلد بند کیا جا ئے۔ ان اقدامات سے بجلی کی 800 میگاواٹ سے زائد بچت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت بجلی کی کل پیداوار 10300 میگاواٹ اور ضرورت 16 سے 17 ہزار میگاواٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ توانائی کا بحران پاکستان کی 63سالہ تاریخ کا شاخسانہ ہے۔ بالخصوص گذشتہ دس سال پرویز مشرف نے جس مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ۔ میرا ایمان ہے کہ اگر بھاشا ڈیم 2002ءمیں بھی شروع کردیا جاتا تو 2009ءتک مکمل ہو چکا ہوتا اور آج ملک میں توانائی کا بحران نہ ہوتا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی گذشتہ ڈھائی سال کے دوران اس سمت میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ کوئلہ سے بجلی بنانے اور بجلی کے بند یونٹوں کو گیس کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کم از کم 12 سے 13 سو میگاواٹ بجلی معمولی توجہ کے بعد پیدا کی جا سکتی تھی۔انہوں نے کہا کہ پنجاب، سندھ اور سرحد میں 73ء کے قریب شوگر ملیںہیں جہاں تیل کی بجائے گنے کے پھوک سے دو ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ انہوں ن کہا کہ عارضی حل کے علاوہ ہمیں مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں کا بھی فوری آغاز کرنا ہوگا۔ورلڈ بینک اور ایشیئن بنک نے اجلاس میں یہ برملا کہا ہے کہ 63ء سال کے دوران پاکستان نے و سب سے بڑا بلنڈر کیا وہ گیس کا زیاں ہے۔ بجلی بنانے کیلئے بیرون ملک سے تیل منگوانے پر اربوں روپے کا زرمبادلہ ضائع کیا گیا لیکن گیس جو یہاں موجود ہے کا استعمال نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اسلام آباد میں 48 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے انرجی اجلاس جس میں چاروں صوبوں کے وزرائ علی نے بھی شرکت کی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کل وزیر اعظم انرجی پالیسی کا اعلان کریں گے۔ بعدازاں جب وزیر اعلی صنعتکاروں اور تاجروں سے تجاویز لے رہے تھے تو فیصل آباد سٹی کے انجمن تاجران کے صدر شاہد رزاق کو بولنے سے روک دیا گیا جس پر فیصل آباد کے تاجر سراپا احتجاج بن گئے اور کنونشن سے واک آوٹ کر کے باہر آگئے۔ اس موقع پر تاجروں نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف شددی نعرہ بازی کی۔ اس دوران صوبائی وزیر قانون رانا ثنائ اللہ، رکن قومی اسمبلی پرویز ملک اور انجمن تاجران مال روڈ کے صدر نعیم میر روٹھے تاجروں کو منانے کی کوشش کرتے رہے اور بالاآخر وہ ناراض تاجروں کو واپس کنونشن میں لیجانے میں کامیاب ہو گئے جہاں وزیر اعلی نے سب سے پہلے شاہد رزاق کا موقف اور تجاویز سنیں، صنعت اور تاجر برادری کے نمائندوں نے کہا کہ بجلی کی طویل لوڈ شڈینگ کے باعث ان کا کاروبار ٹھپ اور صنعت کا پہیہ جام ہو گیا ہے۔ ہزاروں محنت کش بے روزگار ہو رہے ہیں۔ فوری طور پر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ کیا گیا تو وہ بھوکے مرنے اور حکومت بڑے حجم میں ٹیکس سے محروم ہو جائے گی جو ملک کی معاشی ساکھ کیلئے تباہی کا باعث بنے گا۔اے پی ایس