امریکی صارفین کے ساتھ ڈاکو نما رویہ۔اے پی ایس


امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے نیٹو ممالک کے وزرا ءکے ایک کلیدی اجلاس میں جوہری دفاع اورافغانستان سے متعلق امریکی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ کلنٹن نے یہ بات استونیا کے دارالحکومت، تالِن میں اپنے خطاب میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ استونیا اور دیگر اتحادیوں کے دفاع کے عزم سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔کلنٹن اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ برِ اعظم میں جوہری ہتھیاروں کے مستقبل کے علاوہ افغانستان کی ناتجربہ کار فوج کی تربیت کے لیے مزید فوجی ماہرین کی ضرورت کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے اگرچہ دنیا کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا ہے، جو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہوگی۔ لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ یورپ کے پانچ ممالک میں موجود اندازاً 200سے زائد جوہری بموں کو ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔کچھ یورپی ممالک نے، جن میں جرمنی شامل ہے، امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اِن ہتھیاروں کو ہٹا دے۔افغانستان کے بارے میں نیٹو کے سربراہ اینڈرز فوگ رسموسن نے کہا کہ اتحاد کے رکن ممالک کو چاہیئے کہ افغان فوج کو تربیت دینے کے لیے مزید افواج کی تعیناتی کی حامی بھریں، اِس امید کے ساتھ کہ آخرِ کار سکیورٹی کے حوالے سے افغانستان نمایاں کردار سنبھالے گا۔ جبکہ ایران کے اعلیٰ تربیت یافتہ پاسدارانِ انقلاب نے خلیج فارس اور اس نازک اہمیت کے تنگ آبی راستے میں جنگی مشقیں شروع کردی ہیں، جہاں سے دنیا بھر کے لیے خام تیل جاتا ہے۔پاسداروں کے بحری دستوں نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے ایک ایسی کشتی کا مظاہرہ کیا ہے ، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ریڈار پر دکھائی نہیں دیتی۔ ایران کا کہنا ہے کہ راکٹوں اور میزائیلوں سے مسلح 300 سے زیادہ تیز رفتار کشتیاں شروع ہونے والی ان جنگی مشقوں میں حصّہ لے رہی ہیں۔ دنیا بھر کو فراہم کیا جانے والا 40 فیصد خام تیل ، خلیج فارس کے شمال میں واقع آبنائے ہرمز سے گزرتاہے۔ایران کا کہنا ہے کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ اس تنگ آبی راستے کو بند کردے گا۔یہ جنگی مشقیں ایسے وقت میں ہورہی ہیں، جب ایران اور مغرب کے درمیان کشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔مغرب کو شبہ ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری اسلحہ تیار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ واشنگٹن، ا یران کو اس کے جوہری عزائم سے باز رکھنے کے لیے ڈپلومیسی کے علاوہ اس کے خلاف نئی پابندیوں کی کوشش کررہا ہے ، لیکن ایران کے خلاف فوجی کارروائی ، ایک متبادل کے طور پر بدستور ممکن ہے۔ایران میں خلیج فارس میں تین جزیروں کی ملکیت کے بارے میں متحدہ عراب امارات کے ساتھ ایک تنازعے کو ‘دوستوں ’ کے درمیان ایک ‘غلط فہمی’ قرار دیا ہے۔تہران میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان رامین مہمان پرست نے کہا ہے کہ ابو موسیٰ، ت ±نبِ بزرگ اور ت ±نبِ کوچک نامی جزیروں کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔اس سے ایک دن پہلے متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ نے جزیروں پر ایران کے کنٹرول کا موازنہ، عرب علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے کیا تھا۔شیخ عبداللہ بن زید النہیان نے کہا تھا کہ جزیروں پر ایران کی عمل داری ایک ‘شرمناک قبضہ’ ہے۔ان جزیروں کی ملکیت کا مسئلہ دنوں ملکوں کے درمیان عشروں سے کشیدگی کا ایک سبب بنا ہوا ہے۔ جبکہ امریکی صدر براک اوباما نے بینکاری نظام کے اصلاحات پر تنقید کرنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر یہ اصلاحات نہ کیے گئے تو معاشی بحران کا دوبارہ خطرہ ہے۔صدر اوباما نے یہ بات نیو یارک کے کوپر یونین کالج میں بینک اہلکاروں اور وال سٹریٹ کے تاجروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نظام کے قواعد و ضوابط کو مضبوط کرنا اس شعبے کے مفاد میں ہے اور بینکوں اور تاجروں کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جن اداروں کا صارفین کے ساتھ ڈاکو نما رویہ رہا ہے ان پر پابندی لگنی چاہیے تاکہ وہ کبھی آئندہ یہ نہ کر سکیں۔صدر نے اس اجلاس میں موجود مالیاتی شعبے میں کام کرنے والے افراد کو یقین دہانی کرائی کہ وہ فری مارکٹ کے خلاف نہیں ہیں لیکن فری مارکیٹ کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لالچ میں اور بغیر کسی روک ٹوک کے پیسے بناتے جائیں، دولت چھینتے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ’وال سٹریٹ پر لوگ یہ بھول چکے تھے کہ ان کے ہر فیصلے سے کوئی عام خاندان متاثر ہو رہا تھا ، جو گھر خریدنے کی کوشش کر رہا تھا، تعلیم کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا یا پھر ریٹائرمنٹ کے واسطے رقم جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غلط کام کرنے والے اداروں اور کمپنیوں کو سزا دی جانے کی گنجائیش ضروری ہے۔ انہوں نے اجلاس میں شریک وال سٹریٹ میں کام کرنے والے ان افراد سے اپیل کی کہ وہ حکومت کی مخالفت نہ کریں بلکہ اصلاحات کے لیے اس جد و جہد میں ان کا ساتھ دیں۔مالیاتی شعبے کے لیے قواعد و ضابط سخت کرنے سے متعلق ایک بل پر کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اس ہفتے غور کیا جائے گا ۔ ایوان نمائندگان نے یہ بل دسمبر میں منظور کیا تھا۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹ جماعت کو 51 - 49 سے برتری ہے لیکن بل منظور ہونے کے لیے انہیں مزید ایک ووٹ کی ضرورت ہے۔صدر اوباما نے کہا کہ بل کی مخالفت کرنےوالے بڑے اداروں نے اس کو رکوانے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور اپنے مفافادات کے تحفظ کرنے کے لیے ’لابیئسٹ‘ واشنگٹن بھیجے ہیں۔اوباما حکومت کے اس بل کے تحت بینکوں کو غیر محفوظ سرمایہ کاری کے لیے صارفین کے پیسوں کے بجائے اپنی رقم استعمال کرنی پڑے گی، اور اس کی کارروائیوں میں سٹے بازی کا عنصر کافی حد تک ختم کر دیا جائے گا۔امریکی صدر براک اوباما نے مالیاتی اداروں اور بینکوں کے قواعد اور ضوابط کو مزید سخت کرنے کے حوالے سے کئی اہم تجاویز پیش کی ہیں۔ اس اعلان کے بعد امریکہ کے معاشی مرکز وال سٹریٹ میں جے پی مورگن اور بینک آف امریکہ جیسے بینکوں کے حصص میں کمی دیکھنے میں آئی۔امریکی صدر نے مجوزہ اصلاحات کا اعلان وائٹ ہاو ¿س میں ایک اخباری بریفنگ میں کیا۔ اس موقع پر نائب صدر جو بائڈن کے علاوہ امریکہ کے مرکزی بینک کے سابق صدر پال وولکر اور سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن کے سابق سربراہ ولیم ڈونلڈسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔صدر اوباما نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے اور وہ بینکوں سے ’لڑائی کرنے کے لیے بھی تیار‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے بینکوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والے لابی گروپ کئی دنوں سے اراکین پارلیمان پر دباو ¿ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وال سٹریٹ سے ایسے لابی گروپوں کی ایک فوج واشنگٹن پہنچی ہوئی ہے جو ان مخصوص اقدامات کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے جو عام شہری کے تحفظ کے لیے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ مالیاتی نظام پچھلے سال سے بہتر حالت میں ہے لیکن اگر اس سے متعلق قواعد و ضوابط سخت نہ کیے گئے تو بینک دوبارہ ایسے قرضے اور کارروائیاں شروع کر سکیں گے جن سے پھر بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ گذشتہ جمعرات کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے بھی ایسا فیصلہ دیا ہے جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا خصوصا" مالیاتی اصلاحات کے معاملے میں۔ سپریم کورٹ نے بیس سال سے قائم اس پابندی کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت کمپنیاں یا بزنس ادارے کسی سیاسی مہم پر ایک حد سے زیادہ رقم خرچ نہیں کر سکتے تھے۔ فیصلے کے تحت اب اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے صدر اوباما کی تجاویز میں بینکوں پر بینک کے اپنے پیسے کو سرمایہ کاری میں لگانے پر پابندی شامل ہے۔ اس تجویز کے تحت ایسے انویسٹمنٹ کے لیے بینک کھاتے داروں کے پیسے تک محدود ہونگے۔ اس پابندی کا مطلب ہے کہ جے پی مورگن اور بینک آف امریکہ جیسے بڑے بینک کو توڑا جانا پڑے گا۔بی بی سی کے تجارتی امور کے ایڈیٹر رابرٹ مورگن کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی اہم اور انقلابی اصلاحات ہیں۔لیکن صنعتی لابی ان اصلاحات کی ڈٹ کر مخالفت کر رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ رائے عامہ اور اراکین کانگریں پر اثر انداز ہو سکے۔ امریکی سپریم کورٹ نے بیس سال سے قائم اس پابندی کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت کمپنیاں یا بزنس ادارے کسی سیاسی مہم پر ایک حد سے زیادہ رقم خرچ نہیں کر سکتے تھے۔ فیصلے کے تحت اب اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مالیاتی نظام کے اصلاحات کے راستے میں کئی رکاوٹیں دیکھنے میں آسکتی ہیں۔