اٹھارہویں آئینی ترمیم اورلوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے نو نکاتی ایجنڈا۔اے پی ایس



آئین کی 18 ویں ترمیم میں خامیاں موجود ہیں لیکن اس وقت ملک و قوم کو اس کی ضرورت تھی جس کے باعث اسے قبول کرنا پڑا۔ ہماری سیاسی قیادتوں کی بے تدبیری اور جمہوریت کو پنپنے نہ دینے کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کرسکا۔ آج بھی سیاسی قائدین اگر قوم کی درست رہنمائی کے فرائض سرانجام دینا شروع کردے تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ عوام کی گردن پر 55 ارب ڈالر قرض کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ قرض اور حکمرانوں کی پالیسیاں معیشت کیلئے روگ بن گئی ہیں جنہیں تبدیل کرنا اشد ضروری ہے۔ جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مسودے پر دستخط کردیئے ہیںترمیمی دستاویز آئین کا حصہ بن گئی ہے ۔ دستاویز پردستخط کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی،تقریب کا آغاز قومی ترانے اور تلاوت کلام پاک سے ہوا۔تقریب میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور پارلیمینٹیرینز نے شرکت کی۔میاں نواز شریف کو صدر زرداری نے تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت دی تھی۔صدر آصف علی زرداری نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ اس آئینی ترمیم سے فوجی آمروں کا راستہ روکا جاسکے گا۔ اب وہ دن بھی چلے گئے جب ریاست کے ادارے آمروں کی جانب سے آئین معطل کرنے کے اقدامات کو جائز قرار دیتے تھے۔ اس موقع پر صدر نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مصالحت کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور توانائی کی قلت کے خاتمے سمیت عوام کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کریں۔ تقریب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ،اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،، چیئر مین سینیٹ فاروق ایچ نائیک ، صدر اوروزیر اعظم آزاد کشمیر، چاروںصوبائی وزرائے اعلیٰ اور گورنرز ، وفاقی کابینہ کے ارکان ، آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے چیئر مین رضا ربانی اور کمیٹی کے ارکان، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف ، اسفندیار ولی خان ، آفتاب شیرپاو ¿،سینیٹر لطیف کھوسہ ، جہانگیر بدر،چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) حامد علی مرزا، حاجی غلام محمد بلور،سلمان فاروقی ، ودیگر اہم شخصیات موجود تھیں، تاہم چیف جسٹس ، جسٹس افتخار محمد چوہدری ، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت اور جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے شرکت نہیںکی ۔ (ق) لیگ کی جانب سے سینیٹر وسیم سجاد موجود تھے۔دستخط سے قبل وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک تاریخی لمحہ ہے۔18ویں ترمیم سے پاکستان مضبوط ہوگا،آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی،یہ پارلیمنٹ کی تاریخی فتح ہے، جس پر سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی اور عوام مبارک باد کے مستحق ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم کے بل سے ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہا آج شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ارواحوں کو تسکین ملے گی۔قبل ازیں آئینی کمیٹی کے چیئر مین میاں رضا ربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ارکان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی معاونت سے اس آئینی ترمیم کوپایہ انجام تک پہنچانا ممکن ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ منتخب صدر نے رضا کارانہ طور پر تمام اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے سپرد کئے،آئین سے جنرل ضیاءالحق کا نام نکال دیا گیا اور آئین کو جنرل مشرف کے ایل ایف او اور آمروں سے پاک کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ 1973ءکا آئین اصل شکل میں بحال کردیاگیا ہے۔ ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بھی حل کردیاگیا۔ آئین میں اسلامی نکات کو قائم رکھا گیا ہے۔18ویں ترمیم پر دستخط کے موقع پر ایوان جئے بھٹو اور زندہ ہے بی بی زندہے کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر نے تمام سیاسی رہنماو ¿ں کو گلے لگا کر مبارکباد دی۔ اٹھارہویں ترمیم 8اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور کی گئی تھی اس کے حق میں 292ووٹ پڑے تھے جبکہ اسے90ووٹوں کے ساتھ 15اپریل کو سینٹ سے منظور کیاگیا تھا31مارچ کو آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی کے 26اراکین نے 18ویں ترمیم پر دستخط کئے تھے۔آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ایوان صدر میں اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کے حوالے سے انتہائی مطمئن اور پرسکون تھے صدر آصف علی زرداری نے ترمیم پر دستخط کئے تو وہ فوری طو رپر میاں محمد نوازشریف کے پاس گئے اور ان سے مصافحہ کیا۔اسی طرح وزیراعظم بھی نواز شریف کے پاس آئے اور ان سے گلے ملے اور اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے مبارک باد دی ۔ صدر آصف علی زرداری وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی خصوصی طورپر پارلیمانی آئینی کمیٹی کے اراکین کے پاس گئے ان سے مصافحہ کیا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔صدر آصف علی زرداری نے یہ بھی کہاہے کہ جمہوریت ہی میری طاقت ہے عوام میرے ساتھ ہیں اختیار کے باوجود اسمبلی کو توڑنے کے بارے میں سوچا نہ کبھی سوچوں گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کے بعد میڈیا سے مختصر غیر رسمی بات چیت میں کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ اختیارات کے باوجود میں نے کبھی اسمبلی توڑنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا جمہوریت ہی میری طاقت ہے جمہوریت پسندہوں جمہوری سوچ رکھتا ہوں اور عوام میرے ساتھ ہیں ۔ جب صدر مملکت سے پوچھا گیاکیا واقعی آمریت کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو گئے ہیں تو صدر آصف علی زرداری نے کہاکہ ہمیں پوری امید ہے کہ اب کوئی آمر نہیں آ سکے گا آمریت کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو چکے ہیں تاہم حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے ملک کو درپیش توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ایک نو نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے۔لوڈشیڈنگ پر اسلام آباد میں منعقدہ وزرائے اعلیٰ کانفرنس میں پیش کیا جانے والا وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ فارمولہ صوبوں کے درمیان بجلی کی منصفانہ تقسیم، صنعت اور زراعت کیلئے ترجیحاتی سپلائی، بل بورڈز پر پابندی،بھاشا ڈیم کی تعمیر، کوئلے کے ذریعے توانائی کی پیداوار، توانائی کیلئے گنے کے پھوگ کے استعمال،نجی پیداوار کے منصوبوں کیلئے دفتری طریقہ کار میں نرمی، توانائی کیلئے نہری پانی اور بجلی کی بچت کیلئے قومی سطح کی تحریک پر مبنی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے گذشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے فوری نوعیت کے اقدامات کے ساتھ ساتھ نئے آبی ذخائر کی تعمیر جیسے دیرپا اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں پیسہ اور معصوم انسانوں کا خون یکساں بے دردی کے ساتھ بہایا گیالیکن بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں سے مجرمانہ غفلت برتی گئی۔اگر بھاشا ڈیم بن چکا ہوتا تو قوم کو کرب کی موجودہ صورتحال سے نہ گزرنا پڑتا۔تاہم قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت نے گذشتہ دو سال کے دوران کیا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف بجلی میسر نہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف کے دباو ¿ پر ا ±س کے نرخ بڑھانے کی باتیں ہور ہی ہیںجس کا بوجھ عام صارف کو اٹھانا پڑے گا۔پنجاب کی صورتحال زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ بجلی کے معاملے میں اس سے غیرمنصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔میں صوبائیت کی بات کرنے والا آخری آدمی ہوں گا لیکن پنجاب کے ساتھ لوڈشیڈنگ میں زیادتی ہوگی تو ضرور آواز اٹھاو ¿ں گا۔ ہمیں اپنی خوشی اور د ±کھ دونوں بانٹنے چاہئیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح این ایف سی ایوارڈ کے مسئلے کو چاروں صوبوں نے وفاق کے ساتھ مل کر حل کیا ا ±سی جذبے کے ساتھ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی حل ہونا چاہیے۔این ایف سی کے پس پشت یہ جذبہ کارفرما تھا کہ روٹی بانٹ کر کھانی چاہیے۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعتیں بند نہ ہونے پر مجھے خوشی ہوتی ہے مگر پنجاب میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت فیصل آباد، گوجرانوالہ اور پنجاب کے دوسرے صنعتی شہر شدید ترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں ایکسپورٹ آرڈر منسوخ ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زراعت اور صنعت کو توانائی کی فراہمی کے ضمن میں اولیت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ اگر یہ دونوں شعبے توانا نہیں ہوں گے تو عام آدمی کو ریلیف نہیں مل سکے گا۔اگر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہم اپنی صنعتی اور تجارتی پیداوار برقرار نہ رکھ سکے تو ہماری تجارت اور برآمدات دونوں متاثر ہوں گے اور قومی معیشت آگے نہیں بڑھ سکے گی۔انہوں نے کہا کہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ہفتے میں دو چھٹیاں مناسب نہیں۔ جہاں تک تجارتی مراکز کے اوقات میں کمی کا تعلق ہے ا ±س کیلئے تاجروں کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔مزید براں اس مقصد کیلئے ہمیں تجارتی مراکز میں اوقات کار کے دوران بجلی کی بلاتعطل سپلائی کی ضمانت دینا ہوگی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ بجلی کی بچت کیلئے بل بورڈز پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اسلام آباد میں تمام وزرائے اعلیٰ کا یہ مشترکہ اجلاس بجلی کے بحران سے پیداہونے والی صورتحال کی سنگینی کی عکاسی کرتا ہے۔ہمارا فرض ہے کہ ہم یہاں سے عوام کو اچھی خبر سنائیں۔ اگر ہم نے ان کے دکھوں کا مداوا نہ کیا تو پھر پاکستان میں انقلاب کو کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔