کیا اٹھارویں ترمیم بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ؟۔اے پی ایس


صدر مملکت آصف علی زرداری نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مسودے پر دستخط کردیئے ہیںترمیمی دستاویز آئین کا حصہ بن گئی ہے ۔ دستاویز پردستخط کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی،تقریب کا آغاز قومی ترانے اور تلاوت کلام پاک سے ہوا۔تقریب میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور پارلیمینٹیرینز نے شرکت کی۔میاں نواز شریف کو صدر زرداری نے تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت دی تھی۔صدر آصف علی زرداری نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ اس آئینی ترمیم سے فوجی آمروں کا راستہ روکا جاسکے گا۔ اب وہ دن بھی چلے گئے جب ریاست کے ادارے آمروں کی جانب سے آئین معطل کرنے کے اقدامات کو جائز قرار دیتے تھے۔ اس موقع پر صدر نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مصالحت کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور توانائی کی قلت کے خاتمے سمیت عوام کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کریں۔ تقریب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ،اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،، چیئر مین سینیٹ فاروق ایچ نائیک ، صدر اوروزیر اعظم آزاد کشمیر، چاروںصوبائی وزرائے اعلیٰ اور گورنرز ، وفاقی کابینہ کے ارکان ، آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے چیئر مین رضا ربانی اور کمیٹی کے ارکان، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف ، اسفندیار ولی خان ، آفتاب شیرپاو ¿،سینیٹر لطیف کھوسہ ، جہانگیر بدر،چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) حامد علی مرزا، حاجی غلام محمد بلور،سلمان فاروقی ، ودیگر اہم شخصیات موجود تھیں، تاہم چیف جسٹس ، جسٹس افتخار محمد چوہدری ، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت اور جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے شرکت نہیںکی ۔ (ق) لیگ کی جانب سے سینیٹر وسیم سجاد موجود تھے۔دستخط سے قبل وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک تاریخی لمحہ ہے۔18ویں ترمیم سے پاکستان مضبوط ہوگا،آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی،یہ پارلیمنٹ کی تاریخی فتح ہے، جس پر سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی اور عوام مبارک باد کے مستحق ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم کے بل سے ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہا آج شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ارواحوں کو تسکین ملے گی۔قبل ازیں آئینی کمیٹی کے چیئر مین میاں رضا ربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ارکان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی معاونت سے اس آئینی ترمیم کوپایہ انجام تک پہنچانا ممکن ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ منتخب صدر نے رضا کارانہ طور پر تمام اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے سپرد کئے،آئین سے جنرل ضیاءالحق کا نام نکال دیا گیا اور آئین کو جنرل مشرف کے ایل ایف او اور آمروں سے پاک کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ 1973ءکا آئین اصل شکل میں بحال کردیاگیا ہے۔ ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بھی حل کردیاگیا۔ آئین میں اسلامی نکات کو قائم رکھا گیا ہے۔18ویں ترمیم پر دستخط کے موقع پر ایوان جئے بھٹو اور زندہ ہے بی بی زندہے کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر نے تمام سیاسی رہنماو ¿ں کو گلے لگا کر مبارکباد دی۔ اٹھارہویں ترمیم 8اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور کی گئی تھی اس کے حق میں 292ووٹ پڑے تھے جبکہ اسے90ووٹوں کے ساتھ 15اپریل کو سینٹ سے منظور کیاگیا تھا31مارچ کو آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی کے 26اراکین نے 18ویں ترمیم پر دستخط کئے تھے۔آئینی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ایوان صدر میں اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کے حوالے سے انتہائی مطمئن اور پرسکون تھے صدر آصف علی زرداری نے ترمیم پر دستخط کئے تو وہ فوری طو رپر میاں محمد نوازشریف کے پاس گئے اور ان سے مصافحہ کیا۔اسی طرح وزیراعظم بھی نواز شریف کے پاس آئے اور ان سے گلے ملے اور اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے مبارک باد دی ۔ صدر آصف علی زرداری وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی خصوصی طورپر پارلیمانی آئینی کمیٹی کے اراکین کے پاس گئے ان سے مصافحہ کیا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔صدر آصف علی زرداری نے یہ بھی کہاہے کہ جمہوریت ہی میری طاقت ہے عوام میرے ساتھ ہیں اختیار کے باوجود اسمبلی کو توڑنے کے بارے میں سوچا نہ کبھی سوچوں گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کے بعد میڈیا سے مختصر غیر رسمی بات چیت میں کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ اختیارات کے باوجود میں نے کبھی اسمبلی توڑنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا جمہوریت ہی میری طاقت ہے جمہوریت پسندہوں جمہوری سوچ رکھتا ہوں اور عوام میرے ساتھ ہیں ۔ جب صدر مملکت سے پوچھا گیاکیا واقعی آمریت کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو گئے ہیں تو صدر آصف علی زرداری نے کہاکہ ہمیں پوری امید ہے کہ اب کوئی آمر نہیں آ سکے گا آمریت کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو چکے ہیں تاہم حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔آصف علی زرداری اٹھارویں پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان کے دوسرے صدر مملکت بن گئے ہیں جنہوں نے صدارتی اختیارات ختم کرنے کے بل پر دستخط کیے ہیں۔اس سے پہلے سردار فاروق احمد خان لغاری بھی انیس سو ستانوے میں ایسا کرچکے ہیں اور انہوں بھی اس طرح کے ایک بل پر دستخط کیے تھے جس کے بعد صدر مملکت کا طاقتور عہدہ ایک نمائشی منصب میں تبدیل ہوگیا تھا۔چودہ اگست انیس چوتہتر کو جب موجودہ آئین کو ملک میں نافذ کیا گیا تو آئین میں صدر مملکت کا عہدہ ایک نمائشی منصب تھا اور اصل اختیارات وزیر اعظم کے پاس تھے لیکن جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے بعد جب آئین بحال ہوا تو جنرل ضیاء نے آئین میں ترمیم کر کے صدر مملکت کو ایسے اختیارات دے دیئے جس کے بعد یہ نمائشی عہدہ ایک طاقتور منصب میں تبدیل ہوگا۔جنرل ضیاء الحق نے ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کو جو اختیارات دیئے ان میں اسمبلی کو تحلیل کرنا، بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کی تقرری، صوبے کے گورنروں کو متعین کرنا اور نگران حکومت کی نامزدگی شامل تھے۔ان اختیارات کو نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے انیس سو ستانوے میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے ختم کردیا تاہم جنرل پرویز مشرف نے ان اختیارات کو سنہ دوہزار دو میں دوبارہ بحال کرکے آئین میں شامل کردیا تھا۔اسمبلی تحلیل کرنے صدارتی اختیار کو سب سے زیادہ غلام اسحاق خان نے استعمال کیا اور پہلے بیظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی حکومت کو تحلیل کیا جبکہ بینظیر بھٹو واحد وزیر اعظم ہیں جن کی حکومت کو دو مرتبہ صدارتی اختیار کے ذریعے ختم کیا گیا۔اب یہ تمام اختیارات موجودہ پارلیمان نے اٹھارہ ویں ترمیم کے ذریعے ختم کرکے وزیراعظم دے دیئے ہیں۔تہتر کے بعد پاکستان میں چودھری فضل الہیٰ اور رفیق تارڑ ایسے صدر رہے ہیں جن کے پاس اختیارات نہیں تھے اور ایک نمائشی عہدے پر وفاق کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ سردار فاروق لغاری اور آصف علی زرداری ان صدرو میں شامل ہیں جو با اختیار صدر سے نمائشی صدر بننے۔سردار فاروق احمد خان لغاری سے جب ان کے صدارتی اختیارات واپس لیے گئے وہ اس سے پہلے اپنی جماعت پیپلزپارٹی یا بنیظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرچکے تھے۔جنرل پرویز واحد صدر رہے ہیں جن کے پاس اسمبلی توڑنے کا اخیتارات تو تھا لیکن انہوں نے اس اختیارات کو استعمال نہیں کیا اور اس طرح تہتر کے بعد یہ دوسری اسمبلی تھی جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی تاہم اس اسمبلی نے تین وزرائ اعظم منتخب کیے جن میر ظفر اللہ خان جمالی ، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز شامل ہیں۔جنرل ضیائ پہلے فوجی صدر تھے جہنوں نے نہ صرف اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار کو متعارف کروایا بلکہ اس کو پہلی مرتبہ انیس سو اٹھاسی میں استعمال کرکے محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا۔نواز شریف واحد وزیراعظم ہیں جن کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کردیا۔اسمبلی تحلیل کرنے صدارتی اختیار کو سب سے زیادہ غلام اسحاق خان نے استعمال کیا اور پہلے بیظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی حکومت کو تحلیل کیا جبکہ بینظیر بھٹو واحد وزیر اعظم ہیں جن کی حکومت کو دو مرتبہ صدارتی اختیار کے ذریعے ختم کیا گیا۔نواز شریف واحد وزیراعظم ہیں جن کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کردیا۔صدارتی اختیار کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد پہلی نگران کابینہ جنرل ضیاء نے نامزد کی لیکن انہوں نے نگران وزیر اعظم کا تقرر کیا جو اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو نگران وزیر اعظم مقرر کرکے انوکھی روایت قائم کی جس کی پہلے سے کوئی نظیر نہیں ملتی۔غلام اسحاق خان نے بیظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کرکے اس وقت کے قائد حزب مخالف غلام مصطفی جتوئی مرحوم کو نگران وزیر اعظم کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا۔نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے بعد غلام اسحاق خان نے بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا اور اس کابینہ میں صدر آصف علی زرداری نے بھی نگران وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔فاروق لغاری نے بیظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرکے اپنے قریبی ساتھی ملک معراج خالد مرحوم کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا۔تہتر کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف دو ایسے وزراء اعظم تھے جہنوں نے خود آرمی چیف کی تقرری کی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیائ جبکہ نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا اور ان دونوں فوجی افسروں کو دیگر فوجی افسروں پر فوقیت دیکر آرمی چیف مقرر کیا اور دونوں جرنیلوں نے جمہوری حکومتوں کو تختہ الٹ دیا۔ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے بعد سید یوسف رضا گیلانی تیسرے وزیر اعظم ہونگے جو خود سے آرمی چیف کا تقرر کریں گے جو اس سال نومبر میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ادھر مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اٹھارہ ویں ترمیم کی وجہ سے اب صدر مملکت کا عہدہ نمائشی ہوگیا ہے تاہم آصف علی زرداری پارٹی کے چیئرمین ہونے کی وجہ سے کمزور صدر نہیں ہونگے۔ جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔درخواست میں اس کمیشن کے قیام کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے گزشتہ پیر کو دائر کردہ اس درخواست میں وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ضلعی بار راولپنڈی کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے لیے بنایا جانے والا کمیشن آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اس کے علاوہ اس کمیشن کی تشکیل آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کرسکتی اور سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ مقننہ اور انتظامیہ میں سے کوئی ادارہ آئین میں دیے جانے والے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو عدالت کو ا ±سے روکنے کا اختیار ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ تمام ادارے آئین میں دیے گئے اختیارات سے تجاوز نہیں کریں گے۔درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اگرچہ عدلیہ کو آئین سازی کا اختیار نہیں ہے لیکن اسے آئین کی تشریح کا اختیار ضرور ہے۔ درخواست میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو جوڈیشل کمیشن میں شامل کرنے کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دیا ہے۔اس سے قبل اکرم شیخ ایڈووکیٹ کی طرف سے ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن میں ارکان پارلیمنٹ کی شمولیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔درخواست میں اس کمیشن کے قیام کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ اٹھارویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کی اس شق کو کالعدم قرار دے۔ایسوسی ایٹڈ پریس سروس،اے پی ایس